آزادکشمیر میں بھارت کا جعلی سرجیکل آپریشن

بھارت نے لائن آف کنٹرول پر محدود جنگ شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں آزادکشمیر کے علاقے بھمبر،کیل، تتہ پانی اور لیپا سیکٹر کی سرحدیآبادی متاثر ہوئی ہے ۔ جمعرات29 ستمبر2016کو نئی دہلی میں بھارتی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے دعوی کیا کہ آزاد کشمیر میں سرجیکل آپریشن کنٹرول لائن پر نصف رات شروع ہوا اور صبح تک چلا ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ بھارت نے آزاد کشمیر میں کوئی سرجیکل آپریشن نہیں کیا ہے تاہم بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر کیل، بھمبر اور لیپا سیکٹر پر بلا اشتعال فائرنگ ضرور کی ہے جس سے پاکستان کے دو فوجی شہید ہوئے ہین۔ ائی ایس پی آر کے مطابق سرجیکل حملوں کا تصور بھارت کی جانب سے جان بوجھ کر تشکیل دیا گیا ایک ایسا فریبِ نظر ہے جس کا مقصد غلط تاثر دینا ہے۔ اوڑی حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کے لئے پاکستان کے خلاف کئی محاذوں پر اعلانیہ جنگ شروع کر دی ہے۔ سفارتی محاذ پر سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی ہونا بھارت کی کارستانی ہے جبکہ پاکستان کے اندرونی علاقوں میں مداخلت بھی کی جا رہی ہے۔ اس کا برملا اظہار بھارتی وزیراعظم مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے بلوچستان کے حالات کو زیربحث لا کر کیا ہے۔ اس بات کا ایک فیصد چانس نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آنے والے دنوں میں جنگ شروع ہو سکتی ہے تاہم بھارت پاکستان کو تنازعہ کشمیر کے سلسلے میں دباؤ میں لانے کے لئے کئی طرح کے اقدامات کر سکتا ہے جن میں لائن آف کنٹرول کے علاقوں پر محدود نوعیت کی فوجی کارروائیاں بھی شامل ہیں تاہم اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ ایک تباہ کن جنگ ہو گی، کشمیر ہی اصل میدان جنگ بنے گا۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کشمیری آبادی ہے ، جنگ ہو یا محدود نوعیت کی فوجی کارروائیاں دونوں طرف کشمیری متاثر ہوتے ہیں۔جنگ کی صورت میں کس کا پلڑا بھاری ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گاتاہم دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید جنگی ساز و سامان بھی موجود ہے جو جنگ کی صورت میں پورے خطے کو متاثر کر سکتا ہے ۔ گلوبل فائر پاور نامی ادارے کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بھارت آبادی اور رقبہ کے اعتبار سے پاکستان سے بڑا ملک ہے چنانچہ اس کی فوجی ضروریات بھی اسی طرح زیادہ ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو کمزور سمجھا جائے۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبادی ایک ارب 25 کروڑ جبکہ پاکستان کی 19کروڑ کے قریب ہے۔ پاکستان کی متحرک افرادی قوت 9 کروڑ جبکہ بھارت کی 16 کروڑ ہے۔ بھارت میں ملازمت کے لئے کارآمد شہریوں کی تعداد 48 کروڑ جبکہ پاکستان کی 7 کروڑ ہے۔ بھارت میں اس وقت فوجی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 2 کروڑ 20لاکھ جبکہ پاکستان کی 43 لاکھ ہے۔ بھارت کی فوج 13 لاکھ اور پاکستان کی 6 لاکھ ہے۔ بھارت کے ریزرو فوجیوں کی تعداد 21 لاکھ اور پاکستان کے ریزرو فوجیوں کی تعداد 5 لاکھ ہے۔ بھارت کے پاس 2086 جہاز جبکہ پاکستان کے پاس 923 جہاز ہیں۔ بھارت کے پاس 646 ہیلی کاپٹر جبکہ پاکستان کے پاس 306 ہیلی کاپٹر ہیں۔ بھارت کے پاس حملہ کرنے کی صلاحیت والے 19 ہیلی کاپٹر جبکہ پاکستان کے پاس 52 ہیلی کاپٹر ہیں۔ بھارت کے پاس حملہ آور جہازوں کی تعداد 809 جبکہ پاکستان کے پاس 394 ہے۔ بھارت کے فائٹر جہازوں کی تعداد 679، پاکستان کے پاس 304 ہیں۔ بھارت کے پاس 318 تربیتی جہاز جبکہ پاکستان کے پاس 170 ہیں اسی طرح بھارت کے پاس ٹرانسپورٹ جہازوں کی تعداد 857 اور پاکستان کے پاس 261 ہیں۔ بھارت کے پاس سروس ایبل ایئرپورٹس کی تعداد 346 جبکہ پاکستان کے پاس 151ہیں۔ بھارت کے پاس 6464 ٹینکس جبکہ پاکستان کے پاس 2924 ٹینک ہیں۔ اے ایف وی کی تعداد بھارت 6704 اور پاکستان 2828 ہے۔ آرٹلری Towed Artillery کی تعداد بھارت کے پاس 7414 اور پاکستان کے پاس 3278 ہیں۔ ایم ایل آر ایس پاکستان 292 اور بھارت 134 جبکہ مرچنٹ میرین کی تعداد پاکستان کے پاس 11 ، بھارت 340، بھارت کے پاس 7 بندرگاہیں ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 2 بندرگاہیں ہیں۔ فلیٹ fleet بھارت کے پاس 295 اور پاکستان کے پاس 197 ہیں۔ ایئرکرافٹ کیریئر میں بھارت 2 جبکہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں۔ بھارت کے پاس 14 سب میرین ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 5 ہیں۔ بھارت 14 فریگیٹ اور پاکستان کے پاس 10 فریگیٹ ہیں۔ بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 40 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ پاکستان کا 17 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان کے ریزرو 17 ارب ڈالر کے قریب ہیں جبکہ بھارت کے 3 کھرب 70 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) SIPRI)کے مطابق بھارت کے پاس260 جبکہ پاکستان کے پاس 120 جوہرہ وار ہیدز ہین ۔ جریدے کے مطابق بھارت کے پاس 13 لاکھ متحرک فوج 12 لاکھ ریزرو اور14 لاکھ پیرا ملٹری فورسز کی صلاحیت موجود ہے دوسری طرف پاکستان کے پاس 6 لاکھ متحرک فوج کے علاوہ تین لاکھ ریزرو فوج کی صلاحیت ہے ۔ بھارتی فوج کی عددی برتری کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان بھارت کے سامنے ایک کمزور ملک ہے ۔ اکانومسٹ میں بھارتی فوج کے بارے میں رپورٹ بھارتی مسلح افواج گن اور گھی بھارتی فوجی صلاحیت کا پردہ فاش کررہی ہے ۔ رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ ایک بڑی فوج کا حامل ہونے کے باوجود انڈیا دفاعی اعتبار سے اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مندرجات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عددی برتری ہی جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوتی ۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے بین الاقوامی عزائم اس کی معیشت میں بہتری کے ساتھ وسیع ہوتے جا رہے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ انڈیا اپنی دفاعی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔بھارتی دفاعی قوت میں نقائص ہیں۔ اس کا بیشتر اسلحہ یا تو بہت پرانا ہے یا اسے مناسب دیکھ بھال میسر نہیں ہے۔بھارت کے دفاعی امور کے ماہر اجے شکلا کے مطابق بھارتی فضائی دفاع کا نظام نہایت بری حالت میں ہے۔ زیادہ تر اسلحہ 70 کی دہائی سے زیرِ استعمال ہے اور فضائی دفاع کا نیا نظام نصب کرنے میں شاید دس سال لگ جائیں۔اعدادو شمار کے حوالے سے تو انڈین فضائیہ 2000 لڑاکا طیاروں کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی ایئر فورس ہے۔ لیکن سنہ 2014 میں دفاعی جریدے آئی ایچ ایس جینز کے ہاتھ لگنے والی انڈین ایئرفورس کی ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق صرف 60 فیصد طیارے اڑنے کے قابل ہیں۔بری ، بحری اور فضائی فوج میں تعاون کا فقدان ہے ، ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی جاتی اور وزارتِ دفاع میں موجود سویلین فوجی حکام سے بات نہیں کرتے۔اس سال کے اوائل میں ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انڈین بحریہ کے زیرِ استعمال 45 مگ طیارے جن پر انڈیا کو بہت فخر ہے ان طیاروں میں سے صرف 16 سے 38 فیصد طیارے اڑنے کے قابل ہیں۔انڈیا ان طیاروں کو ملک میں زیر تعمیر ایئر کرافٹ کیریئر سے اڑانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس ایئرکرافٹ کیریئر پر 15 سال قبل کام شروع ہوا تھا اور اسے سنہ 2010 میں مکمل ہونا تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ 2023 سے قبل اس کا مکمل ہونا ممکن نہیں ہے۔انڈین فوج میں اور بھی بہت سے چیزیں التوا کا شکار ہیں مثال کے طور پر انڈیا سنہ 1982 سے فوجی جوانوں کے زیرِ استعمال بندوق کو اپ گریڈ کرنے کا سوچ رہا ہے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوسکا۔گذشتہ 16 برس سے انڈیا اپنی فضائیہ کو جدید طیاروں سے لیس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ضرورت سے زیادہ جدید سسٹمز کا مطالبہ اور مناسب قیمت کی ادائیگی میں لیت و لعل کے سبب غیر ملکی دفاعی کمپنیاں انڈیا کے مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔بین الاقوامی جریدے اکانومسٹ کے مطابق انڈین فوج میں بدعنوانی بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور ماہرین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی کے باوجود جنگجو بار بار انڈین فوج کے اڈوں میں گھسنے میں کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں ترقی کے معاملات پر انڈین جرنیلوں کے مابین قانونی جنگیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں اور اس سال اگست میں آسٹریلیا کے ایک جریدے نے انڈیا کی ایک آبدوز سے متعلق خفیہ دستاویزات بھی شائع کی تھیں۔اجے شکلا کے مطابق انڈین افواج کے ساتھ انتظامی مسئلہ بھی ہے اور بری، بحری اور فضائی فوج میں تعاون کا فقدان ہے۔ ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی جاتی اور وزارتِ دفاع میں موجود سویلین فوجی حکام سے بات نہیں کرتے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ حیران کن طور پر وزارتِ دفاع میں کوئی فوجی تعینات نہیں ہے اور ملک کی دیگر وزارتوں کی طرح دفاع کی وزارت بھی سویلین افسران چلاتے ہیں جن کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جو بیلسٹک سے زیادہ بیلٹنگ پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں۔سو انڈین افواج کا اگرچہ حجم تو بڑھ رہا ہے لیکن ان کی ذہنی صلاحیت کم ہے۔ بین الاقوامی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ جنگ سے خوف زدہ پاکستانیوں کی تسلی کے لیے کافی ہے ۔

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50668 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More