جب جام دیا تھا ساقی نے

ممتاز کی یاد میں بنائے گئے شاہجہاں کے تاج محل کی سیر کے بعد ہماری منزل نئی دہلی کاہوٹل تاج محل تھا۔ گزرے دنوں کی بات ہے بقول ساغر صدیقی اِک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گیے ۔۔14 ویں سارک سربراہ کانفرنس کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوے سارک ممالک کے صحافیوں کے اعزاز میں ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن نے ہوٹل تاج محل میں ایک خاص شام کا اہتمام کررکھا تھا۔ یہ 4 اپریل 2007ء کی ایک شام تھی۔ ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے عشائیے میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور کچھ دوسرے ممالک کے اخبار نویس کھانے کی میز پر تبادلہ خیال میں مصروف تھے ۔ عشائیے میں جام چھلک رہے تھے مگر میرے سامنے پڑا گلاس خالی تھا۔ ویٹر بار بار میرے گلاس کی طرف بڑھتا اور جام چڑھانے کی پیشکش کرتا، لیکن میں کبھی زبان سے اور کبھی ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کرتا رہا۔ جام چھلکنے کی اس محفل میں میرا انکار آداب محفل کے خلاف اور غیرمہذبانہ سا تھا اس لئے کہ ایسی محفل میں ایسا تو کرنا ہوتا ہے۔ میری مشکل یہ تھی کہ مجھے بار بار اپنے گلاس کو سنبھالنا پڑ رہا تھا تاکہ کوئی اس میں کچھ ڈال نہ دے ۔ میری پریشانی بڑھ جاتی تھی جب ویٹر ہماری میز کا رخ کرتا۔ جناب پریم شنکر جا میری پریشانی کو بھانپ گئے تھے وہ سمجھ چکے تھے کہ میرا من نہیں ہے یا میں ایسا نہیں چاہتا۔ چنانچہ پریم شنکر نے سر میری طرف جھکایا اور دھیمی آواز میں کہہ دیا گلاس کو الٹا کر دو۔ میں اس منطق اور اس روایت سے آگاہ نہیں تھا۔ پھر بھی گلاس کو الٹا کیا تو میری پریشانی ختم ہو گئی۔ میرے سامنے پڑے گلاس کو الٹا دیکھ کر کسی ویٹر نے میری طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ میرے گلاس سے چھیڑا۔ میری پریشانی دور کرنے والے یہ وہی پریم شنکر جا ہیں جو ہندوستان ٹائمز،، انڈین ایکسپریس، فنانشل ورلڈ اور کئی دوسرے بڑے اخبارات سے وابستہ رہے ہیں ۔ ان کے کالم حقائق، سچائی، حق اور انصاف کے ترجمان تھے۔ کشمیر کی رواں تحریک مزاحمت شروع ہونے کے بعد ان کے مضامین پاکستان میں تر جمہ کر کے اردو اخبارات میں شائع کئے جاتے رہے ہیں اس لئے کہ ان کے مضامین میں کشمیر کی صورتحال پر درست تبصرہ ہوتا تھا۔ وہ کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ کی نظر سے نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطے کے طور پر دیکھتے تھے۔ بھارت میں ان دنوں پاکستان کے خلاف جنگی جنون پیدا کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ریٹنگ بڑھانے اور انتہاپسندوں کی نظر میں دیش بھگت کے اعزاز کے لئے نجی ٹیلی ویژن چینل حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے مگر سارے ہندوستانی صحافی ا یسا نہیں چاہتے ۔ ان میں پریم شنکر جا بھی ہیں جو 9 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والے حریت پسند کمانڈر برھان وانی کو دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ روز ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پریم شنکر جا بھی کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے۔ پریم شنکر جا کی تصویر دیکھتے ہی میرا ہاتھ ریموٹ سے ہٹ گیا اور میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سنی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہونے والی۔ جنگ کا واویلا بھارتی میڈیا کا کھڑا کیا ہوا ہے۔ پریم شنکر جا کے مطابق بھارتی فورسز نے برھان وانی کو قتل کر کے حالات کو خراب کیا۔ برھان وانی کو قتل نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ شنکر جا سمجھتے ہیں کہ برھان وانی دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند کشمیری تھا۔ شمالی کشمیر میں گذشتہ ایک دو سال سے عسکریت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عسکریت پسندی کے پیچھے پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی ناقص پالیسیوں کا ہاتھ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی حالیہ بے چینی کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ نہیں بلکہ وہاں کے مقامی لوگ بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں جو بھارتی قیادت نے ان سے کئے تھے۔ بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ردعمل میں کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پریم شنکر جا سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے حالات کشمیریوں کی بات سننے سے بہتر ہو سکتے ہیں مگر بھارت کے انتہاپسندانہ عناصر ایسا نہیں چاہتے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی آنے والے ریاستی انتخابات میں کامیابی کے لئے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کر کے اپنے حق میں ماحول بنا رہے ہیں مگر میرے خیال میں آنے والے بھارتی انتخابات میں بھارت کے انتہا پسند عناصر کو شکست ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ بی جے پی دوبارہ حکومت نہ بنا سکے۔

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50582 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More