لاہور کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے

جناب نعیم مرتضی کی تازہ ترین کتاب "واقعات لاہور"پر ایک نظر
کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتاہے کہ کتاب کا مصنف کو ن ہے ٗ تحریر و تحقیق میں وہ کتنا تجربہ رکھتا ہے ٗ کتاب میں شامل کہانیاں اور تحریری مواد کس نوعیت کا ہے ٗ کتاب کا کاغذ اور پرنٹنگ کا معیار کیسا ہے ۔اگر اس کسوٹی پر کوئی مصنف اور کتاب پورا اترتی ہے تو پھر اسے نہ صرف ادبی اور صحافتی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوتی ہے پھر کتاب کانام ادب میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے اورکتاب اپنے مصنف کو بھی زندہ رکھتی ہے ۔ اس لمحے میرے پیش نظر ایک کتاب "واقعات لاہور"ہے ۔اس کے باوجود کہ میں نے ابھی یہ کتاب دیکھی نہیں تھی لیکن جونہی ادبی حلقوں میں اس کتاب کا تذکرہ سننے میں آیا تو اس کتاب کے مصنف کی کھوج لگانی پڑی ۔ جب میرے مشاہدہ میں اس کتاب کے مصنف کی حیثیت سے جناب نعیم مرتضی کا نام آیا تو بن دیکھے کتاب کے بارے میں ٗمیں نے کہہ دیا کہ یہ کتاب حقیقت میں تاریخ کا اہم حوالہ اور قیمتی دستاویز ثابت ہوگی ۔ میں نے یہ رائے اس لیے قائم کی کہ میں جناب نعیم مرتضی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ہفت روزہ فیملی میں فیچر رائٹر کی حیثیت سے ملازم تھے ۔ اس وقت جناب نعیم مرتضی کے تحقیقی مضامین اور پر تاثیر کہانیاں "فیملی" میں شائع ہوا کرتی تھیں ۔جو تحقیق ٗ واقعاتی حسن اور طرز تحریر کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوتیں ۔ پھر اسی مصنف کی ایک اور کتاب "نیا پاکستان" نے ادبی اور صحافتی حلقوں میں دھوم مچائی ۔وہ کتاب مدت دراز تک میرے مطالعے میں رہی اور میں بطور مثال اس کتاب کا ذکر اپنے حلقہ احباب سے کیا کرتا تھا ۔ان کی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ بات وثوق سے کہنا چاہتا ہوں کہ جناب نعیم مرتضی ایک معیاری ٗمعتبر اور صاحب علم مصنف ہی نہیں ٗ بہت اچھے اور ملنسار انسان بھی ہیں ۔زندگی میں ان سے بالمشافہ ملاقاتیں تو چند ہی ہوئی ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ صدیوں سے میرے بااعتماد دوست ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی ہر کتاب پہلی کتاب سے زیادہ پر مغز ٗ علمیت سے بھرپورہوتی ہے ۔

اس لمحے میں صرف "واقعات لاہور" کتاب پر ہی گفتگو کروں گا کیونکہ یہ جناب نعیم مرتضی کی تازہ ترین تصنیف ہے اور اس وقت ادبی اور صحافتی حلقوں میں دور دور تک اس کی بازگشت سنی جا رہی ہے ۔لاہور کا شمار دنیا کے قدیمی اور تاریخی شہروں میں ہوتا ہے جس پر ماضی میں بھی بے شمار کتابیں لکھی گئیں ۔اس وقت بھی کئی مصنفین اس شہر کی تاریخ کی کھوج میں لگے ہوئے اور یقین ہے کہ مستقبل کامورخ بھی لاہور کی تاریخ پر قلم اٹھائے بغیر نہیں رہ سکے گا کیونکہ یہ شہر ہی سرچشمہ محبت۔ جناب نعیم مرتضی کے بقول لاہور ایک ایسا مقناطیسی شہر ہے جس کی یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنا شاید ممکن نہیں ۔ وہ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور دنیا کے ان گنے چنے خوش نصیب شہروں میں سے ایک ہے جو اپنی تاسیس کے بعد مسلسل آباد چلے آرہے ہیں۔ اگر چہ قدیم ہندوستان میں آگرہ ٗ لکھنو ٗدہلی ٗ مدارس ٗ کلکتہ ٗ بمبئی بڑے اور اہم شہر تصور کیے جاتے تھے مگر اپنی ثقافت ٗ تاریخ اور رنگ ڈھنگ میں جو اختصاص لاہور کو حاصل ہے وہ کسی اور شہر کے حصے میں نہیں آیا۔ مشہور زمانہ انگریز شاعر جان ملٹن اپنی شہرہ آفاق نظم "پیراڈائزلاسٹ" میں آگرہ اور لاہور کا شمار ان شہروں میں کرتا ہے جن کانظارہ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے کیا تھا ۔ گویا لاہور کو جنت میں بیٹھ کر بھی دیکھا جاسکتاہے۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ اور ممتاز شاعر فیض احمد فیض سیالکوٹ میں پیداہوئے لیکن لاہور پہنچ کر انہوں نے واپس اپنی جنم بھومی جانا پسند نہ کیااور لاہور میں ہی آسودہ خاک ہوئے ۔شہنشاہ ہند قطب الدین ایبک ہو یا مغل بادشاہ کی ملکہ نور جہاں سب نے لاہور کو ہی اپنی آخری آرام گاہ بنایا۔لاہور کو جنت ارضی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے بے شمار لوگ یہاں آئے اور اس جنت کی رعنائیوں میں کچھ اسطرح کھوگئے کہ واپسی کا راستہ ہی بھول گئے ۔لاہور فن و ثقافت اور علم وصحافت کاگہوارا رہاہے ۔اردو کے مراکز اگرچہ دہلی اور لکھنؤ تھے مگر کو اردو کو پنپنے کے لیے لاہور کی مٹی ہی راس آئی ۔معروف افسانہ نگار کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی جب بھی کسی کی زبان سے لاہور کا ذکر سنتے تو اس کی یادوں میں کھو کرآنسو بہانے لگتے۔ممتاز ادیب اے حمید امرتسر میں پیدا ہوئے لیکن دفن لاہور میں ہوئے ۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ لاہور کا نام آتے ہی طلسم و اسرار کی الف لیلہ کا باب کھل جاتاہے ۔ لاہور کے نام میں ایک طلسم ہے ایک پراسراریت ہے اور اس کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ انہوں نے کہالاہور ایک شہر ہی نہیں ۔ایک کیفیت کا نام ہے ۔ یہ کیفیت اس شہر کی روشن گلیوں اور اس کے پرانے تاریخی باغات میں چلنے پھرنے کے بعد دل کی گہرائیوں میں جذب ہوجاتی ہے ۔لاہور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ کی نگری بھی کہلاتا ہے جس کی فضا میں صوفیانہ پن اور مہک انسانی ذہن کو ہر لمحے معطر رکھتی ہے ۔ممتاز مزاح نگار اور سفارت کار سید احمد شاہ پطرس کے بقول لاہور اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ سکون نہیں لینے دیتا ۔ ممتاز لکھاری جمنا داس اختر ٗ گوپال متل ٗ پران نوائل اور معروف فلمی اداکار پران ٗ اوم پرکاش ٗ دیو آنند ٗ یش چوپڑا لاہور سے چلنے جانے کے باوجود زندگی کے آخری سانس تک اسی شہر کے اسیر رہے اور اس شہر کو دیکھنے کے لیے التجائیں اور دعائیں کرتے رہے ۔

یوں تو لاہور کی تاریخ اور واقعات کے حوالے سے کئی کتابیں منظر عام پر پہلے سے موجود ہیں لیکن اس عالمی شہرت یافتہ شہر کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق کی جائے اور کتابیں لکھی جائیں ٗپھر بھی کم ہیں ۔ جناب نعیم مرتضی نے ایک تحقیق کی گہرائیوں میں اتر کر تاریخ کی پستیوں میں چھپے ہوئے ایسے یادگار ٗ حیرت انگیز اور ہمیشہ ذہنوں میں زندہ رہنے والے واقعات کو لفظوں کا روپ دے کچھ اس ترتیب سے مستند ریفرنس کے ساتھ کتاب میں شامل کیا ہے کہ قاری اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ چند ایک واقعات کا بطور خاص یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین اس کتاب کی اہمیت اور جامعیت کے بارے میں وثوق سے اپنی رائے قائم کرسکیں ۔

شاید ہماری نسل کے افراد کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ لاہور کے کنارے بہنے والے دریائے راوی میں بحری جہازوں کی آمدو رفت اور تیاری بھی ہواکرتی تھی ۔یہ 1596 ء کی بات ہے کہ شہنشاہ جلال الدین اکبر نے ٹھٹھہ پر یلغارکے لیے سامان جنگ دریائے راوی میں چلنے والی کشتیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے پہنچایا تھا ۔ یہ 4 جولائی 1799ء کی بات ہے جب 19 سالہ سکھ رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ سے آکر لاہور پر قبضہ کرلیا اور پھر لاہور میں بیٹھ کر پشاور تک سکھ ریاست کی بنیاد رکھی ۔ یہ رنجیت سنگھ کا دور ہی تھا جب ایک جوگی نے دعوی کیا کہ وہ چالیس دن تک قبر میں زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس دعوی کی سچائی جاننے کے لیے رنجیت سنگھ نے جوگی کو ایک تابوت میں بند کرکے تابوت قلعہ کے تہہ خانے میں رکھوا دیا۔چالیس دن بعد جب تابوت کھولا تو جوگی دو زانو بیٹھا ہوا تھا ۔59 سالہ مہاراجا رنجیت سنگھ اپنے چالیس سالہ دور کے بعد 27 جون 1839ء کو انتقال کرگیا جس کے ساتھ ان کے چار بیویاں ٗ سات کنزیں ستی ہوئیں ۔ میت کو آگ لگانے سے پہلے رنجیت سنگھ کا سر مہارانی مہتاب کور کے دوزانوں پر رکھاگیا اور دیگر رانیاں میت کے سر کی جانب اور کنزیں پاؤں کی طرف بیٹھ گئیں اس کے بعد چاروں طرف لکڑیاں اور سوکھی گھاس رکھ کر دیسی گھی اور تیل کے ساتھ آگ لگا دی گئی ۔ (نقوش لاہور نمبر )لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت 1861 کو مکمل ہوئی جس کا نقشہ برطانوی ماہر تعمیر ولیم برنٹن نے بنایا تھا۔اس عمارت کا ڈیزائن ایک بات کو پیش نظر رکھ کر بنایاگیا تھاکہ ضرورت پڑنے پر یہ عمارت ایک دفاعی قلعے کے طور پر بھی استعمال کی جاسکے۔لاہور کے رہنے والوں نے مارچ 1862ء میں دریائے راوی کے راستے لاہور آنے والے ریلوے انجن کو دیکھا تو سب حیران رہ گئے ۔اس ریلوے انجن کو دریائے راوی سے دو سو بیلوں اور دو ہاتھیوں کی مدد سے کھینچ کر ریلوے اسٹیشن تک لایا گیا ۔27 فروری 1921ء کو رائے بہادر سرگنگا رام کی زیر صدارت میں منعقدہ اجلاس میں لاہور کے مضافات میں ایک جدید بستی "ماڈل ٹاؤن "بنانے کا فیصلہ کیاگیا ۔1923ء میں فیروز پور روڈ پر "رکھ کوٹ لکھ پت " میں د و ہزار ایکڑ (چار مربع کلومیٹر ) زمین حکومت سے خریدی گئی اور اس پر دو ٗ چار اور چھ کنال کے پلاٹ بنائے گئے ۔ یاد رہے کہ ماڈل ٹاؤن کی عملی شکل دھارنے سے پہلے یہ علاقہ گھنا جنگل تھاجس میں جنگلی درندوں کی بہتات تھی۔ اس جنگل کو صاف کرکے وہاں کوٹھیوں کی تعمیر شروع ہوئی۔چوک شاہ عالم میں ایک شخص چنے بیچا کرتاتھا اس نے اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی رفتہ رفتہ نمازی بڑھتے گئے تو مسجد کی تعمیر کا فیصلہ ہوا لیکن ہندو وں کی شدید مخالفت اور حکومت کے انکار کے باوجود ایک شام لاکھوں کی تعداد میں مسلمان جمع ہوئے اور شام ڈھلے مسجد کی تعمیرشروع کردی جو نماز فجر کے وقت مکمل ہوگئی ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوکر باغبانپورہ سے شاہ عالم تک ہاتھوں ہاتھ اینٹوں کی ترسیل ممکن بنائی ۔ (ہے نا یہ حیرت والی بات )۔وحدت عالم اسلام کے داعی اور انیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی نمایاں شخصیت سید محمد جمال الدین افغانی 1897ء میں سرطان کے مرض میں مبتلا ہوکر استنبول میں انتقال فرما گئے۔فیصلہ یہ ہوا کہ جسد خاکی استنبول سے بذریعہ بحری جہاز بمبئی لایاجائے گاپھر وہاں سے ٹرین کے ذریعے دہلی ٗلاہور اور پشاور کے راستے کابل بھجوا یاجائے ۔پروگرام کے مطابق دسمبر 1944ء کے آخری ایام میں یہ تابوت لاہور پہنچا ۔ ہزاروں مسلمانوں نے جلوس کی شکل میں سید محمد جمال الدین افغانی کے تابوت کو علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کے مرقد تک پہنچایا ۔ کچھ دیر وہاں قیام کے بعد یہ تابوت افغانستان روانہ کردیاگیا۔(نہ جانے دونوں مفکرین اسلام کے مابین کیا باتیں ہوئیں تاریخ کے صفحات خاموش ہیں )۔لاہور کے وسط سے گزرنے والی نہر کی کھدائی کا آغاز 18 مئی 1948ء کو ہوا۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق27 میل لمبی نہر کی کھدائی میں 20 ہزار مزدور وں نے دو ماہ تک کام کیا جس سے 8 ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہے ۔(نوائے وقت)2 اگست 1949ء کو سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے گورنر مقرر ہوئے گویا 200 سال بعد پنجاب کو مسلمان گورنر میسر آیا۔26 جنوری 1950ء لاہور کے چیئرنگ کراس چوک میں لکڑی کے ٹریفک سگنل نصب کردیئے گئے ۔سگنل پر stop اور Go کے الفاظ لکھے ہوئے تھے جنہیں پولیس کا سپاہی حالات کے مطابق تبدیل کرتا تھا ۔ (نوائے وقت)۔2 ستمبر 1951ء کو لاہور میں پہلی بار ڈبل ڈیکر اومنی بسیں چلنے لگیں ۔لاہور کے میو ہسپتال میں ڈاکٹر صدیقی نے یکم اپریل 1952ء کو پھیپھڑوں کا کامیاب آپریشن کرکے اہم کارنامہ انجام دیا۔ لاہور میں5 اپریل 1953کو سبزی منڈی کو فلیمنگ روڈ سے دو موریہ پل کے قریب منتقل کردیاگیا ۔ 27 مارچ 1955ء کو ون یونٹ کا دارالحکومت لاہور کوقر ار دیاگیا۔ مغربی پاکستان میں تمام صوبے ٗ قبائلی علاقے اور تمام ریاستیں بھی شامل تھیں۔30 دسمبر 1957ء کو صدر سکندر مرزا نے ساڑھے سترہ سو ایکڑ پر مشتمل پنجاب یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا۔ نیو کیمپس پرانے کیمپس سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔

11 جنوری 1960ء کو حکومت مغربی پاکستان نے مزار حضرت داتا گنج بخش کا انتظام سنبھال کر دربار کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کو سرکاری تحویل میں لے لیا ۔ ایک جائزے کے مطابق مزار حضرت علی ہجویری ؒ کی وقف جائیداد میں 376 کنال ٗ 15 مرلے ٗ 80 مکان 64 دکانیں شامل تھیں ۔11 اپریل 1960ء حکومت نے مال روڈ پر گورنر ہاؤس سے زمزمہ توپ تک تانگہ چلانے کے اوقات مقرر کردیئے ۔خلاف ورزی پر دو سو روپے جرمانہ مقرر ہوا۔ پی آئی اے نے 9 اپریل 1961ء کو فوکر فرینڈ شپ طیارے کی پہلی تفریحی نچلی پرواز کے ذریعے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کو لاہور کے اہم مقامات جن میں ہرن مینار ٗ شاہی مسجد ٗ مقبرہ جہانگیر اور دیگر تفریحی مقامات کی سیر کروائی ۔پاکستان یہ طیارہ حاصل کرنے والا پہلا ایشائی ملک تھا۔چھ کروڑ چوالیس لاکھ روپے سے کوٹ لکھ پت کے مضافات میں نئی آبادی "ٹاؤن شپ "کے نام سے تعمیر کرنے کی منظوری گورنر امیر محمد خان نے دی ۔یہ نئی کالونی تین ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے ۔ جس میں سے سات سو ایکڑ اراضی صنعتوں اور اٹھارہ سو ایکڑ اراضی رہائشی مقاصد کے لیے مختص کی گئی ۔ 1963ء میں لاہور میں غلاف کعبہ قصور پورہ ٗ راوی روڈ کی ایک سلک فیکٹری میں تیار کیاگیا ۔غلاف کعبہ کی تیاری کا کام یعقوب انصاری بنارسی کی نگرانی میں پندرہ باوضو کاریگروں نے مکمل کیا ۔ زریں پٹی سعودی عرب میں تیار ہوئی جبکہ ساڑھے بارہ سو پونڈ ریشمی دھاگہ جاپان سے منگوایاگیا ۔کام کے دوران استعمال ہونے والا پانی لوگ بطور تبرک لے جاتے رہے ۔سعودی حکومت کی اجازت سے شاہ عالمی مارکیٹ کی "پاکستان عطر فیکٹری" نے عطروں سے غلاف کو معطر کیا ۔ تیار ہونے کے بعد غلاف کعبہ کو بادشاہی مسجد میں رکھاگیا جہاں ایک ہفتے کے دوران سات لاکھ افراد نے زیارت کی ۔ پھر خصوصی ٹرین کے ذریعے غلاف کعبہ کو کراچی روانہ کیاگیا ۔یہ ٹرین 59 اسٹیشنوں پر رکی ۔25 مارچ کو مولانا مودودی نے غلاف کعبہ سعودی سفیر شیخ محمد احمد الشبیلی کے سپرد کیا جسے جلوس کی شکل میں کراچی ائیر پورٹ پر پہنچایاگیا جہاں سے بذریعہ جہاز غلاف کعبہ سعودی عرب روانہ کردیاگیا ۔ صدر ایوب خان نے 26 نومبر 1964ء کو لاہور میں پاکستان کے سب سے پہلے ٹیلی ویژن اسٹیشن کاافتتاح کیا ۔ٹی وی سکرین پر سب سے پہلا چہرہ ظفر درانی کانمودار ہوا ۔قاری علی حسین صدیقی نے تلاوت قرآن پاک کی۔طارق عزیز نے پہلی اناؤنسمنٹ کی ۔ ریکارڈنگ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نشریات براہ راست پیش کی گئیں۔ٹی وی پر پروگرام ساڑھے چھ بجے شام سے ساڑھے نو بجے تک پیش کیے گئے ۔پیر کو ہفتہ وار چھٹی کااعلان ہوا۔18 ستمبر 1967ء چیئرنگ کراس چوک پر واپڈا ہاؤس کی عمارت کی تکمیل مکمل ہوئی ۔اس عمارت کا ڈیزائن امریکہ کے ممتاز آرکیٹکٹ ایڈورڈ ڈیورل اسٹون نے تیار کیا۔اس سے پہلے یہاں میلا رام بلڈنگ ہواکرتی تھی ۔ لاہور گلبرگ میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر 30 نومبر 1967ء کو پیپلز پارٹی کا پہلا دو روزہ کنونشن منعقد ہوا جس میں چھ سو افراد نے شرکت کی اور ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیرمین منتخب کیاگیا۔ لاہور اسٹیڈیم میں یکم فروری 1970کو اپالو یازدہم (Apollo 11)کے ذریعے لائے گئے چاند ایک ٹکڑے کی نمائش کی گئی ۔ عوام کی بڑی تعداد نے چاند کے اس ٹکڑے کو نہایت شوق و ذوق سے دیکھا۔ اپالو 11 کے ذریعے 16 جولائی 1969ء کو تین افراد چاند تک پہنچے تھے ۔نیل آرمسٹرانگ نے اڑھائی گھنٹے چاند پر چہل قدمی کی اور چاند سے مٹی اور کنکر اکٹھے کیے تھے ۔(نوائے وقت)محصور 842 پاکستانی جنگی قیدیوں کا پہلا دستہ 28 ستمبر 1973ء بروز جمعہ واہگہ بارڈر کے راستے لاہور پہنچا۔یاد رہے کہ دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے پاکستان کے 93 ہزار فوجی اور عام شہری قیدی بنا لیے تھے ۔قیدیوں کی واپسی کا سلسلہ دونوں ملکوں میں ایک معاہدے کے تحت 15 ستمبر 1973ء کو 183 بیمار قیدیوں کی واپسی سے شروع ہوا ۔( روزنامہ مشرق)۔پاکستانی تاریخ میں پہلی بار فیروز پور روڈ کیمپ جیل کے باہر تین افراد کو احمد داؤد کے اکلوتے بیٹے اعجاز احمدعرف پپو کو اغوا کرکے قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی ۔21 نومبر 1979ء کو خانہ کعبہ پر قبضہ اور بے حرمتی کے خلاف مشتعل طلبہ نے لاہور میں امریکن سنٹر کو آگ لگا دی ۔ لاہور کے رہنے والوں نے وہ منظر بھی شاید یاد ہوگا جب ملتان ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی محمد سرور المعروف پیر سپاہی لوگوں کا علاج کرنے لگا ۔ بیمار لوگ ہاتھوں میں پانی اور تیل کی بوتلیں لے کر دیوانہ وار ائیرپورٹ پر پہنچ جاتے جہاں پیر سپاہی لاؤڈ اسپیکر پر دم کرکے پھونک مارتا ۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا ۔ صدر جنرل محمد ضیا ء الحق19 اپریل 1982ء کو لاہور میں گلشن اقبال پارک کا افتتاح کیا ۔66 ایکڑ پر محیط اس پارک کو ایل ڈیاے نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بنایا ۔6 جولائی 1984ء کو لاہور میں تارا مسیح کاانتقال ہوگیا جس نے پانچ سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر عالمی شہرت حاصل کی تھی ۔28 جنوری 1988ء کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جنرل محمد ضیاء الحق نے وزیر اعلی پنجاب میاں نواز شریف کے لیے نیک تمنا کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ " میری عمر بھی انہیں لگ جائے ۔ وہ نیک والد کے پسر ہیں ۔5 اکتوبر1987ء کو پہلی بار عالمی ہیوی ویٹ چیمپیئن باکسر محمد علی لاہور آئے جن کا استقبال میئر لاہور میاں شجاع الرحمن نے کیا ۔7 مئی 1988 کو طلبا کے ایک گروہ نے انجینئر نگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرام اﷲ کو اغوا کرکے ڈیڑھ گھنٹہ تک پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں یرغمال بنائے رکھا اور انہیں اس شرط پر رہا کیا کہ وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے ۔17 دسمبر 1998ء کو لاہور کینٹ بھٹہ چوک کے قریب گہری دھند کے باعث ایک ہیلی کاپٹر مکانوں سے جاٹکرایا اور جامعہ مسجد حنیفہ کے صحن میں جاگرا۔ حکومت پنجاب کے اس ہیلی کاپٹر میں سوار افرادچار اعلی افسران کے علاوہ ایک نمازی بھی ہلاک ہوا ۔(نوائے وقت )

اس کتاب میں شامل تمام واقعات اپنی نوعیت کے بہترین ٗ موقر اور مصدقہ ہیں جو شہر لاہور کی تاریخی اہمیت ٗ خوبصورتی اور جادوئی کیفیت کااظہار بنتے ہیں لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے مذکورہ بالا چند واقعات کا تذکرہ کیاگیا ہے جو اس بات کے شاہد ہیں کہ جناب نعیم مرتضی کے ہاتھ سے لکھتی ہوئی یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہوگی ۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف جناب نعیم مرتضی نے واقعات کو جوں کا توں نقل نہیں کیا بلکہ ہر واقعے کو اپنی مساعی جمیلہ سے خوبصورت لفظوں کا روپ دے کر نہایت سلیقے سے کچھ اس طرح پرویا ہے کہ یہ کتاب واقعات کی ایک خوبصورت تسبیح نظر آتی ہے اس تسبیح کا ہر دانہ اور ہر منکا قاری کو اپنی خوبصورتی کا احساس کرواتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں تاریخی حوالے یہ کتاب تمام پبلک لائبریریوں ٗ کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ ہر گھر میں ہونی چاہیئے تاکہ ہماری نوجوان اورموجودہ نسل اپنے خوبصورت شہر کی جلوہ فرمائیوں کے بارے میں جان کر اس شہر سے والہانہ محبت کا اظہار کرے اور خود کو ان خوش نصیب لوگوں میں شمار کرے جو لاہور میں رہنے پر زندگی بھر فخر کرتے رہے اور جدائی کے بعد اس شہر کی محبت میں آنسو بہاتے رہے ۔ یہ کتاب کی 280 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت صرف 400 روپے ہے جو کتاب کے تحریری مواد ٗ طباعتی خوبصورتی اور بہترین کاغذ کو دیکھتے ہوئے نہایت معمولی دکھائی دیتی ہے ۔ شالیمار پبلی کیشنز کی شائع کردہ یہ کتاب پاکستان بکڈپو18 اردو بازار لاہور اور دیگر تمام بڑے بک سٹالز سے مل سکتی ہے ۔ اس کتاب کی جامعیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے جناب نعیم مرتضی کو اگر اس دور کا اعلی پائے کا مورخ قرار دیاجائے تو غلط نہ ہوگا ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.