کسان تباہی کے دہانے پر

پچھلے آٹھ دس سال سے تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں مسلسل شہر میں ہی زندگی گزر رہی ہے اور کبھی کبھار تہوار یا شادی غمی یا پھر کسی بھی فرصت کے موقع پر گاؤں کی طرف جانا ہوتا ہے جو سکون وہاں ملتا ہے وہ کسی اے سی لگے محل میں نہیں ملتا ۔گرمیوں کی رات اور چاندنی اور اگر اکیلا پن مل جائے تو قدرت کے نظاروں کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے یا پھر سردیوں کی دھوپ اور نہر کا کنارہ ہو گھنٹوں بیٹھنے کو جی چاہتا ہے۔ گاؤں کے دن رات شام وسحر بڑے سکون والے ہیں اگر کبھی چکر لگے تو دوچار دن ضرور قیام کیا جانا چاہیئے تاکہ قدرت کی رحمتوں کا لطف لیا جاسکے ۔گاؤں میں رہنے والے لوگ آج بھی اپنی ثقافت اور محبتوں کا قائم کیے ہوئے ہیں بالکل سادہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز اور کشادہ دل پائے جاتے ہیں۔ در پر آئے کسی مہمان کو کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیتے کیونکہ انکی اس محبت میں شہروں والی خوشامد کا عنصرنمایاں نہیں ہوتا جو ایک ناقابل ہضم حقیقیت ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ یہ لوگ غریب ہوکر کھلے دل رکھتے ہیں اس سکون والے ماحول میں ان لوگوں کو اب سکون نہیں ہے کیونکہ ان سب بیچاروں کا ذریعہ معاش کاشتکاری ہے اور ہمارے کرتا دھرتاؤں کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں نے اس اکثریتی طبقے کے مسائل کو پس پُشت ڈال دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ گاؤں میں رہنے والا یہ طبقہ زندہ دل تو ہے لیکن فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ انکی زندگیاں بے سکونی وبے اطمینانی میں گزر رہی ہوتی ہیں۔ کسانوں کے چہرے انکی مظلومیت کی داستان بیان کررہے ہوتے ہیں، کسانوں کی عورتیں اور بیٹیاں اپنی محرومیوں کو اپنی شرم وحیاء کے پردے میں اوڑھے ہوتی ہیں لیکن انکی آنکھوں سے ٹمٹتا پانی وہ سب بیان کررہا ہوتا ہے جو زبان سے نہیں کہا جاتا۔

حالیہ سیلابوں نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ جو بیچارے سکون سے جی رہے تھے وہ اب بھیکاری بن کر جی رہے ہیں حکومت مختلف اعلانات کرتی ہے کبھی امداد کے تو کبھی رعائتی پیکجز کے اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن سے ہمارے سیاستدان فائدہ اٹھاتے ہیں بڑے زمیندار حضرات یا خود لینڈ لارڈز سیاستدان اور ان کے حواری جو حکومت کے ذکواتی مال سے بحی خوب مال حاصل کرتے ہیں اور غریب کسان یا چھوٹا کاشتکار بھیکاریوں کی طرح دھکے کھانے پر مجبور رہتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کپاس کی فصل تیار ہونے سے پہلے ہی مختلف بیماریوں کی وجہ سے تباہ ہوگئی ہے۔کپاس تیار ہونے کے قریب تھی لیکن مارکیت مین موجود ناقص اور گیر معیاری زرعی ادویات سفید مکھی جیسی بیماری کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہے جو کسان کی امیدیں لگی تھیں وہ اب آنسوؤں مین بہہ گئی ہینن یہاں پر صرف باتین ہوسکتی ہین لیکن اصل دکح وہی جانتا ہے جو اس مشکل مرحلے سے گزررہا ہوتا ہے۔حالانکہ چند سال پہلے کپاس کی برامدات ہوتی تھی لیکن اب حکومت کی غلط پالیسیوں سے اور زرعی شعبہ کی عدم توجہ سے کپاس باہر سے درآمد کرانی پرتی ہے۔رواں سال کے دوران کپاس کی پیداوار میں 28فیصد کمی ہوئی جس کے نتیجے میں بیرون ملک سے روئی کی خریداری میں ڈیڑھ سو فیصد کا اضافہ ہوا یعنی کہ 70سے80 ارب روپے کی روئی باہر سے منگوائی گئی اس کے نتیجے میں بیس فیصد تک ٹیکسٹائل مصنوعات کی برامدات کم ہوئیں جو ملکی معیشت میں بہت برا نقصان ہے اور اس سارے نقصان کو سارا بوجھ دائریکٹ کسان پر ہی دالا گیا ہے۔2015-16 کے مالی سال کا بجٹ ہی لے لیں جس میں زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف3.9 مقرر کیا گیا لیکن یہ ہدف منفی3.9 تک رہا تھا۔اس سال کا زرعی بجٹ 3.48فیصد مقرر کیا گیا لیکن اب بھی حکومت وعدے پورے کرتے نظر نہیں آرہی۔

پچھلے چند سالوں سے زرعی شعبہ مسلسل خسارے میں جارہا ہے اس سے سارا کا سارا بوجھ کسان اور کاشتکار طبقے پر ہی ڈالا جارہا ہے۔ دنیا کے جتنے بھی زرعی ممالک ہیں وہاں پر کاشتکاروں اور کسانوں کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے جدید مشینیں اور زراعت کی ترقی کے لئے ریاست تعاون کرتی ہے لیکن پاکستان میں یہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس پر کسانوں کو سود خور مافیا کے ذمے لگادیا جاتا ہے غیر معیاری بیجوں سے لے کر غیر معیاری ادویات سود پر دی جاتی ہیں اور فصل تیار ہونے سے پہلے رجسٹرڈ سود خور مافیا جسے عرف عام میں زرعی ڈیلر کہا جاتا ہے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے جس کی رجسٹریشن حکومت نے کود ہی دی ہے اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی علاقے کا دورہ کرکے زرعی ڈیلرز حضرات جو کھاد،بیج اور زرعی ادویات کو فروخت کررہے ہوتے ہیں فقط کاروباری ہونے کے علاوہ ان کا زراعت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا اگر وہا ں پر رجسٹرڈ سرٹیفیکیٹ کو چیک کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی اور نام سے رجسٹرڈ ہوتا ہے پحر ان حضرات کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ کاروباررجسٹرڈ پرسن کا ہے وہ کسی معائنے پر فیلڈ میں گئے ہوٗے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا موجود افراد ہی کسانوں کا پیسہ لوٹنے میں سرگرم ہوتے ہیں۔

کسان اس وقت جس تباہی پر پہنچے ہوئے ہیں وہ حکومت کی عدم توجہ ہی کی بدولت ہے۔ حکومت اگر ڈیمز بناتی تو تو کسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور ہر سال سیلابی ہونے والی سیلابی تباہیوں سے بچا جاسکتا لیکن بڑے ڈیمز بنانے کی بجائے اگر چھوٹے ڈیمز بھی تعمیر کرلیے جائیں تو بھی سیلابوں سے بچا جاسکتا ہے۔حالیہ ہونے والے سیلابوں نے سب سے زیادہ نقصان کسان طبقے کا کیا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک کسان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا نہ ہی کسانوں کو حکومت کی طرف سے کوئی خاطرخواہ امداد دی گئی ہے یا زرعی ترقی کے لئے کسی جدید ٹیکنالوجی یا مشینیں دی گئی ہیں۔ محکمہ زراعت کے نیچے کام کرنے والا ریسرچ ادارہ NARCنیشنل ایگریکلچرریسرچ کونسل زرعی محکمے کو لوٹنے میں مصروف ہے جس کا کوئی آڈٹ نہیں۔اگر پچھلے چند سالوں کا آڈٹ کرلیا جائے تو سب کچا چھٹا سامنے آجائے گا ۔ میں ذمہ داری سے کہتا ہوں اس ادارے کا کوئی فیلڈ ریسرچر کبھی فیلڈ میں نہیں پایا گیا۔ یہ لوگ ائیر کنڈیشند رومز میں بیٹھ کر لاکھوں روپیوں کو چونا لگاتے ہیں محکمہ زراعت یا تو خود ان کی سرپرستی کرتا ہے یا پھر محکمہ کی غفلت کے باعث یہ ادارہ ایسا کررہا ہے۔ اگر یہ ادارہ کوئی کام کرتا تو یقیناً فیلد میں ان کے ملازمین ملتے پورا ریکارڈ چیک کرلیا جائے تو معلوم ہوگا ان لوگوں نے کسانوں کو آج تک کوئی سبزی کا بیج تک فراہم نہیں کیاایک اور ادارہ ایگریکلچر ایکسٹنشن ڈیپارٹمنٹ ان کا م ہوتا ہے کسانوں کی فصلوں کو دیکھنا فصلوں کے حوالے سے مشورے دینا لیکن یہ ادارے صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔تو ایسے ادارے صرف غریب کسان کا خون نچوڑنے میں مصروف ہیں۔ان اداروں کے سربراہان یا افسران کو ایک دوسرے کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے جو کوئی ایکشن نہیں لیتا کسان بیچارہ تعلیم سے محروم ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی شکایات بھی نہیں کرسکتا۔

پاکستان کی 60 فیصد ٓبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جس میں اس آبادی کا تین چوتھائی حصہ بے زمین ہاریوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے اور باقی چھوٹے کسانوں سے لے کر درمیانی زمینداروں پر مشتمل ہے ۔پاکستان کی مجموعی پیداوار میں 22فیصد زراعت ہے۔پاکستان کی کُل آبادی میں سے تقریباً45فیصد لوگوں کا ذریعہ روزگار زراعت ہے۔ پاکستانی برامدات میں حاصل ہونے والے زرمبادلہ 45 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے جو ملکی معیشت میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن اب اس شعبے کو سرمایہ دارانہ نطام نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان میں تمام مسائل پر روزانہ کی بنیاد پر ڈسکشن سیمینار اور ٹی وی ٹاک شوز ہوتے ہیں لیکن زراعت کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔کسان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تیار اجناس کی صحیح قیمت ادا نہیں کی جاتی بلکہ لٹیروں کے ہاتھ کردیا جاتا ہے حکومتی مراکز پرکاشکار صرف دھکے کھاتا نظر آتاہے۔ حکومت کوئی خاطر خواہ توجہ دینے کو تیار نہیں نا ہی تعاون کرنے کو تیار ہے ۔ اسوقت کپاس کی فصل بالکل تباہ ہوچکی ہے جس کے لئے حکومت کسانوں کی امداد کرنے کا ساتھ ساتھ کسانوں کی اگلی فصل کی تیاری کے لئے بہترین بیج زرعی ادویات اور سستی کھادوں کی فراہمی یقینی بنائے ساتھ میں جدید زرعی ٹیکنالوجی سے کسانوں کو سہولت دے تاکہ یہ محروم ومظلوم طبقہ اپنی محرومیوں کی جھریوں کو مٹاسکے اور اپنے سہانے خوابوں کی یقینی تعبیر حاصل کرسکے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.