جدید ذرائع ابلاغ پر اردو کی منتقلی کی ضرورت!

ہرسال 30 ستمبر کو ترجمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا آغاز 1953 میں انٹر نیشنل فیڈریشن آف ٹرانسلیٹرز نے کیا تھا جسے 1991 میں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا۔ یہ دن منانے کا مقصد مترجمین کی عالمی برادری کے ساتھ یک جہتی کا اظہارکرنا اور ترجمے کے ذریعے دنیا کی مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان اتحاد اور افہام و تفہیم پیدا کرنے میں ترجمہ کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کرناہے۔ترجمہ لوگوں کو درمیان ہم آہنگی اور باہمی ربط کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔جس کے ذریعے لوگ دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے نہ صرف رجحانات کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے علم وآگاہی بھی لے سکتے ہیں۔

ترجمے کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ہر زمانے میں لوگوں نے گزری ہوئی قوموں کے علمی ورثے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ترجمے کا سہارالیا۔یونانی علوم ہوں یا سنسکرت کا قدیم فلسفہ ہو،عبرانی میں تورات،انجیل یا زبورہوں یا پھر کائنات کی عظیم کتاب قرآن کریم ہو سب کے تراجم کیے گئے۔جدید ذرائع ابلاغ کے پھیلاؤ نے ترجمے کو عالمگیر وسعت دی ہے۔اب چند سیکنڈوں میں دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھے گئے مواد کا بآسانیترجمہ کیاجاسکتاہے۔انٹرنیٹ کی کئی ویب سائٹس تراجم مہیا کرنے میں تیزی سے کام کررہی ہیں۔انٹرنیٹ کا مشہور سرچ انجن گوگل اس کام میں سب سے آگے ہے جو "گوگل ٹرانسلیٹ"نامی پروگرام کے ذریعے چند سیکنڈز میں کسی بھی زبان کا ترجمہ فراہم کردیتاہے۔لیکن یہ صرف ایک مشینی آلہ ہے جو عام طور پر ترجمے کرنے میں غلطی کرسکتاہے۔دنیا کی جس زبان پر زیادہ تحقیقی کام ہوا اس کا ترجمہ کرنے میں یہ آلہ عموما کم غلطیاں کرتا ہے۔مثلا آپ انگلش کی کسی مواد کااگر عربی میں ترجمہ کرنا چاھیں یا عربی سے انگلش میں ترجمہ کریں تو اردو کی بنسبت گوگل ٹرانسلیٹ بہتر ترجمہ مہیا کرے گا،کیوں کہ عربی اور انگلش زبان پر اردو کی بنسبت بہت زیادہ کام ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ اگر انٹرنیٹ پرگوگل یا کسی اور سرچ انجن کی مدد سے کوئی مواد عربی یا انگلش میں تلاش کریں تو عموما باآسانی آپ مطلوبہ مواد ان دوزبانوں میں حاصل کر سکتے ہیں جب کہ اردو میں اگر کوئی مواد سرچ کریں اول تو وہ آپ کو ملے گا نہیں اگر مل بھی جائے تو غیر معیاری اور غیر مستند ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اردو بولنے والوں نے جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اردو کے علمی ورثے کو پھیلانے میں بھرپور توجہ نہیں دی۔

اردو دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اردو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔پھر پاکستان کی یہ قومی زبان بھی ہے۔اس قدر اہمیت کی حامل زبان کی ناقدری زوال کی علامت ہے۔ دنیا میں جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں وہ اپنی زبان کو اہمیت اور ترویج دے کر ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں۔آپ صرف چائنا کی مثال لے لیں۔چائنااس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔دنیا کے کونے کونے تک چائنیز پروڈکٹس پھیلی ہوئی ہیں۔نہ صرف سائنسی،معاشی بلکہ ہر میدان میں چائنا آگے ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ چائنا کا اپنی قومی زبان میں تعلیم وتدریس کو فوقیت دیناہے۔جب کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم آزادی کے ستر سال بعد بھی اپنی قومی زبان کو قومیا نہیں سکے۔اردو کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ہماری سرکاری اور تعلیمی اداروں میں اردو کو رواج نہیں دیاجاسکا۔مرعوبیت کی انتہا دیکھئے کہ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں عرب ممالک کے نمائندےہوں یا چائنا،کوریا فلپائن کے نمائندے سبھی اپنی اپنی قومی زبانوں میں تقاریر کرتے ہیں لیکن پاکستان کے وزیراعظم اپنی زبان چھوڑ کر انگلش میں تقریر کرتے ہیں۔دنیا کی دیگر اقوام سائنسی علوم ترجمہ کرکے اپنی قومی زبانوں میں پڑھارہے ہیں جب کہ ہم آج تک انگلش پر انحصار کرکے بیٹھے ہیں۔قومی زبان سے نہ صرف سرکاری،عوامی بلکہ مذہبی سطح پر بھی ایک گونہ لاپرواہی برتی جارہی ہے جس پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس وقت جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اسلام کے خلاف بھرپور طریقے سے مہم جوئی کی جارہی ہے۔الحاد،سیکولرازم،لبرلزم،قادیانیت سمیت دیگر باطل نظریات کے حامل لوگ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اردو میں بڑی تیزی سے کام کررہے ہیں۔ان کے جواب میں اسلام کے داعیوں کی طرف سے کام تقریبا نہ ہونے کے برابرہے۔اگرچہ بعض فکرمند لوگ سوشل میڈیا سمیت انٹرنیٹ پر کافی سرگرم ہیں،لیکن تعداد اور کام کے حوالے سے وہ باطل سے بہت کم ہیں۔اسی طرح اسلام کی تعلیمات اردو زبان میں لائبریریوں،مدارس اور علماء کے ہاں تو بہت عام ہے۔لیکن جدید ذرائع ابلاغ اردو زبان میں اسلام کی تعلیمات سے تقریباخالی نظر آتے ہیں۔آپ اگر انٹرنیٹ پر اردو میں نماز کے متعلق کوئی مسئلہ سرچ کرنا چاہیں،یا کسی حدیث کی اردو میں تخریج کرناچاہیں تواولا آپ کو وہ مسئلہ یا حدیث بالکل نہیں ملی گی،اوراگر مل بھی جائے توتحقیق اور استناد سے یکسر خالی ہوگی۔اسی طرح سوشل میڈیا پر ملحدین،لبرلز اور منکرین حدیث ایسے لوگوں کا نیٹ ورک انتہائی سرگرم ہے،جو آئے روز سادہ لوح نوجوانوں کے ذہن میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیداکرکے اسلام سے دور کررہاہے۔لیکن اسلام کے داعی ان کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس لیے نہ صرف دیگر زبانوں کے قیمتی اہم علوم کواردو زبان میں ترجمہ کرکے منتقل کرنے کی ضرورت ہے،بلکہ جدید ذرائع ابلاغ پر اردومیں اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔جمعہ کا خطبہ ہو یادرس قرآن یا درس حدیث اگر یہ صرف مساجد کے نمازیوں تک محدود رہے تو وہ یقینا اتنا دوررس نہیں ہوسکتا جتنا کہ اس کو جدیدذرائع ابلاغ کے ذریعے عام کرنے سے ہوسکتاہے۔آپ اگر اپنا خطبہ یادرس قرآن یا درس حدیث ریکارڈ کرکے صرف یوٹیوب پر اپلوڈ کردیں تو لاکھوں کروڑوں انسان اس سے سالہا سال تک باآسانی مستفیدہوسکتے ہیں۔اسلام کے نام پر خرافات اور واہیات پھیلانے والے اس وقت ان جدیدذرائع ابلاغ کومختلف زبانوں میں خوب استعمال کررہے ہیں،ہزاروں کی تعداد میں ان کی ویب سائٹس،یوٹیوب چینلز،سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیج چل رہے ہیں،جب کہ اسلام کے حقیقی علمبرداروں کی خاموشی بالکل لائق تحسین نہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے انٹرنیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ کےذریعے نہ صرف اسلام کی تعلیمات اردو میں عام کی جائیں بلکہ حسب طاقت دیگر زبانوں میں بھی اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے بھرپور طریقے سے محنت کی جائے۔آپ صرف انٹرنیٹ کی مشہور ویب سائٹ گوگل کو لے لیں،یہ دنیا کی جدید اور سب سے بڑی لائبریری کا درجہ رکھتی ہے،جس میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مختلف زبانوں میں کتابیں اور تحقیقی مقالےموجود ہیں،جن تک چند سیکنڈوں میں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔آخرکیا وجہ ہے کہ مسلمان اس جدید لائبریری سے بھرپور طریقے سےفائدہ نہیں اٹھارہے۔عرب دنیا یقینا اس میں اردودنیا کی بنسبت بہت آگے ہے۔آپ عربی میں اسلام کے متعلق جو کچھ سرچ کرنا چاہیں آپ کو مایوسی نہیں ہوگی ۔لیکن اردومیں یقینا آپ مایوسی کا شکار ہوں گے۔اس لیے علماء کرام اور اسلام کے داعیوں کو جدید دنیا کی اس جدید لائبریری سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اردو سمیت دیگر زبانوں میں اسلام کی تعلیمات ترجمہ کرکے نہ صرف ویب سائٹس کے ذریعے بلکہ صوتی ریکارڈنگ کے ذریعے بھیاسلام کے دعوت اس جدید لائبریری پر منتقل کرنی چاہیے تاکہ اسلام کا پیغام ہرزبان میں ہرکسی کے پاس باآسانی اور جلد پہنچ سکے۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 31819 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.