ایسے اعمال سے بچیں جو شرمندگی و بدنامی اور قبولیتِ قربانی کے ضیاع کا باعث بنیں

مالیگاؤں میں عید قرباں کی تیاریوں پرایک تجزیاتی رپورٹ

قربانی ایک مالی عبادت ہے جو غنی پر واجب ہے۔خاص جانور کو خاص دن اﷲ کے لیے ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔مسلمان،مقیم،مالک نصاب،آزادپر واجب ہے۔قربانی کاوقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اوردوراتیں۔شہر میں قربانی کی جائے توشرط یہ ہے کہ نمازعیدکے بعد ہواور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں اس لیے صبح صادق سے ہوسکتی ہے۔ایام نحرکی آمد سے پہلے ہی مسلم علاقوں میں قربانی کے متعلق جوش وخروش دیکھنے کو ملتاہے۔ جانوروں کی خریدوفروخت کے لیے جگہ جگہ منڈی نظرآتی ہیں۔موٹر سائیکل پر چارے کی آمدورفت کاسلسلہ دراز ہوتاہے۔پُرکیف سماں ہوتاہے،ہر خاص وعام عید قرباں کی تیاریوں میں مصروف ہوتاہے،جیسے جیسے ایام نحرقریب ہوتے ہیں گہماں گہمی میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔جہاں اہل ثروت حضرات کے گھروں کے سامنے جانور بندھے نظرآتے ہے تودوسری طرف ایسے حضرات جن پر قربانی واجب توہے مگروہ مکمل جانور خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ،ایسے افراد اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر مطمئن نظرآتے ہیں ۔ بالخصوص شہرمالیگاؤں میں سنّت ابراہیمی کی ادائیگی کا اُتساہ قابل دیدولایق تقلید ہوتاہے۔مگر اس سنّت کی ادائیگی سے پہلے، ادائیگی کے وقت اور ادائیگی کے بعد بہت سی ایسی باتیں ہوتی جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ،مسافروں کے لیے ایذارسانی کاباعث اور پڑوسیوں کے لیے درد سر ہوتی ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ذیل میں چند باتیں پیش خدمت ہے تاکہ معاشرہ بدنظمی کا شکار نہ ہو۔

٭صاف صفائی کا خیال:ہمارے یہاں ثواب کی نیت سے چند دن پہلے ہی قربانی کاجانور خریدلیاجاتاہے،اس امر کی فضیلت پر کسی کو اعتراض بھی نہیں۔جانور کی خوب خاطر داری کی جاتی ہے۔کھلانے پلانے کے معاملات میں اعلیٰ طرفی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ دیکھ ریکھ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے مگر صاف صفائی کونظراندازکردیاجاتاہے۔جانور کا فضلہ اور بچاہواچارہ اسی طرح پڑارہ جاتاہے جس سے اٹھنے والی بدبوپڑوسیوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے اور بعض دفعہ جانور کونہلانے کے بعد پانی کو نہ بہانے کی وجہ سے جھگڑاہوجاتاہے یاپڑوسیوں میں اَن بَن ہوجاتی ہے۔کارپوریشن کی جانب سے فراہم کردہ کچرہ دان کو نظر اندازکرکے گھرکے کنارہ ہی پر کچرہ جمع کیاجاتا ہے یابعض مرتبہ فاضل مادہ کونالی وگٹر میں ڈال دیاجاتاہے جس کی وجہ سے پانی کی نکاسی متاثرہوتی ہے اور پھر ہم کارپوریٹر یا کارپوریشن کی لاپرواہی کاروناروتے ہیں،اول تو ہم کچرہ ودیگر فاضل مادے کو خود ہی کچرہ دان میں ڈالیں اور دوم کارپوریشن کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے صفائی پر خود توجہ دیں اس لئے کہ اگر کارپوریشن کی جانب سے صفائی کا عمل معاشرے کے تئیں ذمہ داری کہلائے گاجبکہ ذاتی صاف صفائی پر حدیث مبارک میں نصف ایمان کی تکمیل کی بشارت آئی ہے۔اس تحریر کا لب لباب یہ ہیکہ جہاں جانور کی نگہداشت پر توجہ دی جاتی ہے وہی صاف صفائی پر بھی اپنی توجہ مرکوز کریں۔ہم سے ایسا کوئی عمل سرزد نہ ہو جوپڑوسیوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے۔یادرہے کہ ایام نحر صرف تین دن ہے مگر پڑوسیوں اور اہل محلہ کے حقوق کی ادئیگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ایسا نہ ہوکہ ایک واجب عمل کی ادائیگی میں بہت سے حقوق پامال ہوجائیں۔ہوناتو یہ چاہئے کہ ہم فرض وواجب بھی بخوبی اداکریں اور حقوق العباد پربھی نظر رکھیں۔

٭مسافروں کے لئے تکلیف:جیساکہ اوپر بتایاگیاکہ ہمارے یہاں چند دن پہلے ہی جانورخریدلینے کا رواج ہے جس پر شریعت کی جانب سے کوئی حکم ممانعت بھی نہیں ہے۔مگر چند دن پہلے جانور خریدنے پر اس کی نگہداشت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جانوروں کو اس طرح باندھ دیاجاتاہیکہ مسافروں کے لئے یاتو راستہ ہوتاہی نہیں یا ہوتاہے تو بہت مختصر۔جگہ جگہ جانوروں کی خریدوفروخت کے لئے وقتیہ مارکیٹ کی بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔بلکہ بعض مرتبہ مسافر جانوروں کے حملے کا شکارہوکر زخمی بھی ہوجاتے ہے۔موٹر سائیکل پر جانوروں کے لیے چارہ لانے لے جانے والے بھی اس بات کاخیال نہیں رکھتے کہ موٹر سائیکل پررکھے ہوئے چارے سے راستہ تنگ ہوجاتاہے تو احتیاط سے گاڑی چلائے مگر عجیب سے نشے میں مخمور یہ نوجوان اس طرح موٹر سائیکل چلاتے ہے کہ بچوں اور ضعیفوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور کئی چھوٹے موٹے حادثات رونما ہوجاتے ہے۔ان معاملات پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

٭ایک دوسرے پر برتری کا تصور: نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاناایک مستحسن ومستحب عمل ہے مگر اس دوڑ میں برتری وبڑائی کا تصوراعمال کے ثواب کو ضائع کردیتاہے۔کچھ ایساماحول بقرعید کے ایام میں بھی نظرآتاہے۔جانوروں کی خریدی میں ایک دوسرے پر بڑھ جانے کا خیال عام ہوتاجارہاہے۔اگر یہ عمل محض رضائے الٰہی کے لئے ہوتولائق مبارکباد ہے مگر اس کے برعکس ہو تو ایسے عمل سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہونے والا۔قربانی کا مقصد صرف اﷲ کی رضاکاحصول ہوناچاہئے اگر یہ نیت ہوکہ ایساجانور خریدوں جس کے باعث شہر میں شہرت ہو،نام ہو،واہ واہی ہو یا پھر میرے دوست نے اعلیٰ وفربہ جانور خریداتو میں اس بھی بہتر خریدوں گا،اگریہ عمل حصول رضائے الٰہی کے لئے تو بہتر اور اگر دوست کو نیچے دکھانے کے لیے ہویاکمپٹیشن کے لئے ہوتو بے فائدہ۔

ایام نحر میں بے احتیاطی:قربانی ادا کرنے کے بعد ممکن ہے کہ ہم یہ سمجھے کہ شرعی ذمہ داری سے ہم سبکدوش ہوگئے مگر بہت سی معاشرتی ذمہ داریاں اب بھی باقی ہوتی ہے ۔ جیسے قربانی ادا ہوجانے کے بعد قربانی کے جانور کاخون دھونااور اس کے آنت وفاضل مادوں کوصاف کرنا۔بعض لوگ جانوروں کی آنتوں کو یونہی پڑا رہنادیتے ہے ،جنھیں کتے نوچ کھاتے ہے اور گندگی پھیلاتے ہے،جس سے ماحول پراگندہ اور تعفن کا شکارہوجاتاہے۔ہر مسلمان کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے ایساکوئی عمل سرزد نہ ہوجس کے باعث اسلام بدنام ہو یا غیروں کو اسلامی احکام پر انگلیاں اٹھانے کا موقع ملے یاقوم ِ مسلم کے لئے شرمندگی کاباعث ہو۔اﷲ پاک ہم سب کو صاف صفائی کا خیال رکھنے اور اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے اسلامی احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 669851 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More