سعودی عرب کی وادی جن کا معمہ

یہاں آنے والی گاڑی خودبخود الٹی سمت چلنے لگتی ہے سائنسدانوں نے ایسے مقامات کو گریویٹی ہل، مگنیٹک ہل اور مسٹری پوائٹس کے نام دیے ہیں۔
تحریر :جاوید اقبال بٹ انتخاب : ایم اے لودھی

یوں تو عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں میں بچھا ہوا سعودی عرب ہر مسلمان کے لیے تاریخی اور مذہبی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر یہاں ہر سال حج اور دیگر ایام میں بھی عمرہ کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ پراسرار ’’وادی جن‘‘ کو دیکھنا اور اس کی حقیقت کو جاننے کی جستجو اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان اپنی عقل اور تجربے کو ہی اپنے اردگرد موجوداشیاء کو پرکھنے کی کسوٹی سمجھنے لگا ہے تو اس کے لیے ’’وادی جن‘‘ کی حقیقت اور اس سے منسلک بے شمار واقعات پر یقین رکھنا کافی دشوار معلوم ہوتا ہے۔

وادی بیضاء المعروف ’’وادی جن‘‘ مدینہ منورہ سے شمال مشرق کی جانب 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ نیم دائرے کی شکل میں ہے اور اس کے اطراف میں سیاہی مائل پہاڑی سلسلہ ہے، جس کے بیچوں بیچ یہ وادی ایک سفید پیالے جیسی معلوم ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ’’وادی بیضاء یعنی سفید وادی‘‘ کہلاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا تصور یہ ہے کہ یہاں آباد جنات لوگوں کو جلد سے جلد باہر دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کی مخصوص حدود میں داخل ہونے والی کسی بھی گاڑی کو اگر بند کر دیا جائے تو وہ گاڑی خودبخود وادی سے باہر کی جانب چلنا شروع کر دیتی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ جس سمت کو گاڑی خودبخود چلنے لگتی ہے وہ راستہ ڈھلوان کی بجائے چڑھائی والا ہوتا ہے۔

اسی طرف مدینہ منورہ شہر بھی ہے۔ مذکورہ وادی میں دن کے وقت تو سناٹا چھایا رہتا ہے لیکن سُننے میں آیا ہے کہ رات کے اوقات میں یہاں رکنے والے افراد کو انتہائی حیرت انگیز تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدینہ اور اطراف کی آباد میں رہائش پذیر مقامی باسیوں کے مطابق زمانہ قدیم سے ہی یہ جگہ جنات کی آماجگاہ رہی ہے اور ابھی تک یہاں جنات کثیر تعداد میں موجود ہیں اور اپنی اس وادی میں کسی انسان کو برداشت نہیں کرتیأ یہی وجہ ہے کہ رات کے وقت یہاں قیام کرنے والے اکثر افراد کو بعض اوقا ت سنگین نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل اس وادی کہ چٹانوں میں ایسے سوراخ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں یہاں کے رہائشی جنات کی رہائش گاہوں سے منسوب کرتے ہیں۔

میرا کئی دوستوں کے ساتھ اس وادی میں جانا ہوا، دراصل مدینہ منورہ سے جاتے ہوئے تقریباً 7/8کلومیٹر پہلے وہ مخصوص حدود شروع ہو جاتی ہے جس کے اندر داخل ہونے والی گاڑی خودبخود چل کر اس حدود سے باہر نکل آتی ہے، گزشتہ دن ایک بار پھر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا جب ہم وہاں پہنچے تو سڑک پر بہت کم گاڑیاں رواں دواں تھیں، جیسے ہی ہماری گاڑی اس مخصوص حدود میں داخل ہوئی گاڑی کا انجن زور لگانے لگا جیسے گاڑی انتہائی بلندی کی طرف جارہی ہو او رجیسے جیسے ہم وادی کے اندر داخل ہوتے گئے گاڑی کے انجن پر پریشر بڑھتا گیا اور آخر کار ہم وادی کے اندر اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سڑک ختم ہو جاتی ہے اور سڑک کے اختتام پر ایک گول چکربنا ہوا ہے۔ ہم نے گاڑی روک دی اور اسے نیوٹرل گیئر میں ڈال دیا، اب ملاحظہ کیجئے کہ گاڑی کس طرح خودبخود چلتی ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی بریک سے اپنا پاؤں ہٹایا گاڑی نے آہستگی سے واپس مدینے کی جانب چلنا شروع کر دیا ہم نے دیکھا کہ آگے چڑھائی تھی یعنی سڑک بتدریج بلندی کی طرف جا رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار بتدریج بڑھتی جا رہی تھی، سڑک پر ہمارے علاوہ اکا دکا گاڑیاں دکھا ئی دے رہی تھیں۔ میں نے مسلسل اس بات پر نظر رکھی کہ گاڑی نیوٹرل گئیر میں ہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سپیڈو میٹر پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ گاڑی کی سپیڈ بڑھتی گئی یہاں تک کہ سپیڈ 110 کلو میٹر فی گھنٹہ تک جا پہنچی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے کہ گاڑی خودبخود اتنی رفتار سے کیسے چل رہی ہے۔۔؟ یہاں تک کہ میں نے ایک ایسی جگہ پر گاڑی رکوائی جہاں سے سامنے تقریباً 6 فٹ چڑھائی تھی جب ہم نے بریک سے پاؤں ہٹایا تو حیرت انگیز طور پر گاڑی نیوٹرل گئیر میں آہستہ آہستہ چڑھائی پر چڑھنے لگی اور یہاں تک کہ گاڑی 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگی اور جیسے ہی ہم نے وہ مخصوص حد عبور کی گاڑی کی رفتار خود بخود ٹوٹ گئی اور کم ہوتے ہوتے بالآخر ایک مقام پر جا کر رک گئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں سے اس وادی کی وہ مخصوص حدود شروع ہوتی ہے وہاں سے جب ہم نے سطح سمندر سے زمین کی بلندی ناپنے والے مخصوص آلہ (G P S ) سے زمین کی ’’ایلویشن‘‘ چیک کی تو یہاں زمین کی سطح سمندر سے بلندی 638 میٹر ریکارڈ ہو ئی جبکہ وادی کے اندر تقریباً 7کلو میٹر کے فاصلے پر(جہاں سڑک ختم ہوتی ہے) جب دوبارہ زمین کی سطح سمندر سے بلندی ’’ایلیویشن‘‘ چیک کی تو یہاں زمین کی سطح سمندر سے بلند 948میٹر تک جاپہنچی، ہمارے مشاہدے میں جو بات آئی اس کے مطابق وادی کیونکہ ایک پہاڑی مقام پر واقع ہے اور بظاہر باہر سے آنے والے راستے سے ڈھلوان نظر آتی ہے لیکن در حقیقت بتائی جانے والی مخصوص حد سے 7کلومیٹر اندر وادی 310 میٹر اونچائی پر واقع ہے لیکن بظاہر دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے گاڑی اونچائی کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت میں گاڑی 310 فیٹ سے نیچے ڈھلوان میں اتر رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ گاڑی اونچائی سے اتر کر ہموار زمین پر آتی ہے تو خود بخود رک جاتی ہے اور میرے مطابق یہ سب نظر کا فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔

بہر حال میں نے اپنے تجسس سے مجبور ہو کر مزید اسے کریدنے کی کوشش کی کہ آخر وجہ کیا ہے کہ وادی جن میں گاڑی خودبخود چلنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔؟ اس سلسلے میں، میں بہت سے لوگوں سے ملا اور جو جوابات ملے وہ بھی کئی طرح کے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ قدرت کا کرشمہ ہے اور وہ اسے مذہبی رنگ دیتے تھے کچھ کا خیال تھا کہ یہ سب جنات کا کام ہے، اس وادی میں جنات کا بسیرا ہے اور اسی وجہ سے اسے وادی جن بھی کہا جاتا ہے۔ جنات کو یہ بات پسند نہیں کہ انسان ان کے علاقے میں آئیں اس لیے وہ یہاں آنے والی گاڑیوں کو واپس دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تیسرے مکتب فکر کے لوگوں کا نقطہ نظریہ تھا کہ وادی کے اطراف میں موجود کسی ایک یا ایک سے زائد پہاڑوں میں خاص طرح کی مقناطیسی کشش پائی جاتی ہے جو گاڑی مخالف سمت میں خودبخود چلنے کی وجہ ہے۔ مختلف لوگوں سے تبادلہ خیال کے بعد میں نے سوچا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ماہرین ارضیات اور سائنس دان کیا کہتے ہیں؟ اس حوالے سے جب مختلف کتب اور ویب سائٹس کو کھنگالا گیا تو پتا چلا کہ اس طرح کے مظاہر دنیا میں دیگر کئی مقامات پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ان کی تعداد کم از کم سینکڑوں میں ہے۔ سائنسدانوں نے ان مقامات کو ’’گریویٹی ہل‘‘، ’’مگنیٹک ہل‘‘ اور ’’مسٹری پوائنٹس‘‘ کے نام دیئے ہیں ان تمام مقامات پر یہ بات قدر مشترک ہے کہ وہاں رکی ہوئی گاڑی کو اگر نیوٹرل گیئر میں ڈال کر بریک فری کر دیا جائے تو یہ گاڑی نہ صرف خودبخود چلنے لگتی ہے بلکہ چڑھائی پر بھی آسانی سے چڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر پانی زمین پر ڈالا جائے تو وہ نشیب میں جانے کی بجائے بلندی کی طرف جانے لگتا ہے یا کسی گیند کو اگر زمین پر گرایا جائے تو وہ بھی بلندی کی طرف لڑھکنے لگتی ہے۔ ایسے بہت سے مقامات تاحال بے نام ہیں اور انہیں صرف ’’گریویٹی ہل‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مقامات کم از کم دنیا کے پانچ براعظموں میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قریب ترین گریویٹی ہل بھارت اور چین میں موجود ہیں۔ بھارت میں یہ مقام لداخ کے شہر لیہ (Leh) سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر کارگل سری نگر نیشنل ہائی وے پر ہے اور اس کی سطح سمندر سے بلندی 1100 فٹ ہے اس مقام کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں گاڑی خودبخود چلنے لگتی ہے اور جہازوں کو بھی مقناطیسی طاقت سے بچانے کے لیے معمول سے زیادہ بلندی پر لے جانا پڑتا ہے۔ ایسے بہت سے مقامات امریکہ میں بھی ہیں ریاست فلوریڈ کے علاقے لیک ویلز میں واقع ایک ایسی ہی ’’گریویٹی ہل‘‘ کو اسپوک ہل (Spook Hill)یعنی جنات یا بدروح والی پہاڑی کہاجاتا ہے یہاں بھی گاڑی خودبخود چلنے لگتی ہے اور پانی نیچے کی بجائے اوپر کی جانب جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ مقام اور لینڈ اور ٹیمپا کے درمیان واقع ہے، اس مقام پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر ایک کہانی نصب ہے جو مقامی لوگوں میں اس حوالے سے بہت مشہور ہے جس کے مطابق گاڑیوں کا از خود چلنے کی وجہ شایہ کوئی انسانی روح ہے جو اس علاقے میں بھٹکتی پھرتی ہے۔

اسی طرح امریکہ میں بہت سے ایسے مقامات ڈھونڈکر سیاحتی مقامات کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے کیلی فورنیا میں سانتا کروز کے مقام پر واقع ’’مسٹری پوائنٹ‘‘ ہے جہاں ایک کاٹیج بنا دیا گیا ہے۔ منتظمین کے مطابق وہاں کشش ثقل کا قانون معمول کے مطابق کام نہیں کرتا اور کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر کوئی سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی لٹک سکتا ہے کیونکہ شمال سے مغرب کی جانب سفر کرنے والی مقناطیسی لہریں ایک طرف جھکا دیتی ہیں۔

بہر حال سائنسدانوں کا کہناہے کہ ’’گریویٹی ہل‘‘ یا ’’مسٹری پوائنٹ‘‘ کا معاملہ جنات یا بھوت پریت سے متعلق نہیں بلکہ یہ محض نظر کا فریب ہے یا التباصِ بصارت ہے۔ یہ مقامات کیونکہ پہاڑی مقامات پر واقع ہیں۔ ایسے علاقے میں ایسی عمارتیں یا دیگر چیزیں نہیں ہوتی جن کی مدد سے ہم چیزوں کی مدد سے پستی یا بلندی کا تعین کر سکیں۔ چنانچہ ہماری بصارت دھوکا کھا جاتی ہے اور جس جگہ کو ہم بلندی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ دراصل کچھ نشیب پر واقع ہوتی ہے، گاڑی، پانی یا گیند فطری قانون کے تحت نیچے کی جانب حرکت کرنے لگتے ہیں اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ بلندی کی طرف سفر کر رہے ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت سنڈے میگزین)
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.