امام اہلسنت علامہ علی شیر حیدری ؒ حیات و خدمات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دنیا ہر انسان کا عارضی ٹھکانہ اور امتحان گاہ ہے ،دوام وبقاصرف اللہ تعالیٰ کو ہے ،مخلوق کی موت وحیات میں نظام کائنات کی تحریک مضمرہے،دنیا میں ہر ایک کے آنے کی ترتیب تو متعین ہے لیکن موت کی گھڑی کا کسی کو کچھ علم نہیں ہے ،بوڑھے ابھی بیٹھے ہیں کہ جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہوتے ہیں ،داد اابھی زندہ ہے کہ پوتا قبر کی پاتال میں اتر چکا ہو تا ہے ، اس تھوڑے سی حیات مستعارمیں بعض لوگ قابل رشک اور باعث تقلید بن جاتے ہیں ،انسانیت ان کی زندگی سے روشنی پا کراپنی راہیں متعین کرتی ہے، ان عظیم انسانوں کی زندگی ایک عظیم مقصد ،کاز اور مشن کے حصول کے لیے وقف ہوتی ہے،وہ اپنی ذات میں ایک انجمن،جماعت اور تحریک ہو تے ہیں ،وہ مر کر موت پر احسان کرتے ہیں، ایسے ہی عظیم شخصیات میں ایک امام اہلسنت ،عالم باعمل ،داعی قرآن ،استاذ المناظرین والمتکلمین حضرت علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ ہیں ۔

حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ ضلع میرپور میرس کی گوٹھ موسیٰ خان جاوریاں 1963ء میں پیدا ہوئے، آپ ؒ کے والد رئیس محمد وارث شہید نہایت نیک اور دیندار انسان تھے ،چانڈیوقبیلہ کے سرکردہ لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا ،حضرت علامہ ؒ اپنے چھ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑے تھے، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤںگوٹھ کےاسکول سےحاصل کی ،مڈل تک عصری تعلیم حاصل کر نے کے بعد جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ سے دینی تعلیمی سفر کا آغاز فرمایا ،آپؒ نے جامعہ شمس الھدٰی نوشیرو فیروز ،مدرسہ تعلیم القرآن عیسیٰ خان ،جامعہ اشاعت القرآن لاڑکانہ اور مدرسہ دار الھدٰی ٹھیڑی شریف سے اکتساب فیض فرمایا۔

آپ ؒ کے اساتذہ میں حا فظ خدا بخش ،فقیہ العصر مفتی محمد حسین ؒ ،مولانا محمد علی حقانیؒ ،مولانا فضل محمد ؒ،مولانا عبد الحق اور مولانا غلام قادر ؒ صاحب شامل ہیں ،جب عزائم بلند ہوں تو انسان اپنی مشکلات کو اپنے لیے ترقی کا زینہ سمجھتاہے ،اقبال کا شاہین ہمیشہ باد مخالف کو اپنی پرواز کی بلندی کا سبب سمجھتا ہے ،حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ نے جب تحصیل علم سے فراغت حاصل کی تو آپ ؒ نے اپنے علامہ میرپور میرس کو اپنی دینی سر گرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا،جب کہ یہ علاقہ جہالت، فرسودہ روایات اور شرکیہ رسومات کا مرکز تھا ،غربت کی وجہ سے لوگ بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلانے سے قاصر تھے ،1987ءمیں ریلوے اسٹیشن میرپور میرس میں ایک مذہبی تعلیمی ادارے” جامعہ حیدریہ “کی سنگ بنیاد رکھ کر مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے وسیع پروگرام شروع کیا ،کچھ عرصہ بعد ایک پرائمری سکول قائم فرماکر تعلیم کی شمع کو روشن کیا۔

حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ کی شبانہ روز محنت ،تڑپ ،جدوجہداور علمی تبحر کی وجہ سے جامعہ حیدریہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا ،پورے ملک سے تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آپ ؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے ،تفسیر اور احادیث سے وافر حصہ قدرت نے آپ ؒ کو ودیعت کیا تھا ۔مدارس دینیہ کی سالانہ چھٹیوں میں دورة الدعوة و التحقیق کے عنوان سے پورے ملک سے آئے ہوئے سینکڑوں طلبہ کو کورس کروایا کرتے تھے جو اب تک جاری و ساری ہے ،تخصص فی الدعوة و التحقیق بھی جامعہ حیدریہ کا ایک مستقل شعبہ ہے جو حضرت علامہ علی شیرحیدری ؒ کی حیات مبارکہ میں شروع ہو ا تھا ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ خوبیوں ،کمالات ،ظاہری حسن و جمال ،ہیبت و جلال سےنوازا ہوا تھا ،بارعب ،پرکشش ،وجیہ اور باوقار شخصیت جو دیکھنے والے کو مرغوب کر دیتی تھی ،ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ آپؒ کی شخصیت و کردار میں عالمانہ شان ،متانت ،وقار ،حسن اور جاذبیت تھی ،آپ علم کے شناور تھے ،تحقیق و تدقیق آپ کا طرہ امتیاز تھا ،فن خطابت پر مکمل دسترس حاصل تھی ،آپ کی خطابت میں روایتی جوش و جذبات کے بجائے علمی رسوخ کی جھلک ،تحقیق قرآن وحدیث سے مرصع و مزین ہوتی تھی ،اصحاب ؓ رسول اللہ ﷺ کی مدحت و منقبت آپ کا موضوع تھا ،جب تک صحابہ کرام ؓ کا تذکرہ نہ فرماتے آپ کا موضوع ادھورا رہتا تھا ،علمی میدان میں بڑے بڑے مناظرین کو اصحاب رسول کی عظمت کا قائل کیا مگر ہدایت صرف اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ آپ کو مناظرہ کے میدان میں اتھا رٹی سمجھا جاتا تھا ،بڑے بڑے علمی نقاط چند گھڑیوں میں حل فرمادیتے تھے ،اصحاب ؓ ر سول سے انتہائی محبت تھی ،فرمایا کرتے تھے کہ ”صحابہ کا جو غلام ہے ہمارا وہ امام ہے “میرپور میرس کی مخصوص مذہبی کشیدگی کی وجہ سے آپ نے سنی قوم کی قیادت سنبھالنے کافیصلہ فرمایا ،چنانچہ 1989ءمیں آپ فاروق اعظم آگنائزنگ کمیٹی کے ضلعی صدر منتخب ہوئے اس دوران آپ کی ملاقات امیر عزیمت مولانا حق نواز شہید ؒسے ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کر لی یوں قربانیوں ،صعوبتوں اور مشقتوں کا سفر شروع ہو ا ،گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ آپ کی شہرت پورے عالم میں پھیل گئی، 18،جنوری 1997ءکو مورخ اسلام حضرت مولانا ضیاءالرحمن فاروقی شہید ؒ کی شہادت کے بعد سپاہ صحابہ کی قیادت آپ نے سنبھالی، بیس سالہ تنظیمی سفر کے دوران حضرت حیدری شہید ؒ نے ملکی و اسلامی تاریخ میں قیام امن ،فروغ تعلیم و تربیت ،مدح صحابہ اور توہین رسالت ،صحابہ کرام و اہلبیت کے سدباب اور قانون سازی کے لیے مؤثر جدوجہد کی ، ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں ،آپ دلیل اور مکالمہ کی طاقت پر یقین رکھتے تھے،ہر مسئلے کا حل مذاکرات کی میزپر بیٹھ کر نکالنا چاہتے تھے ، آپ نے 1997میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر)سید سجادعلی شاہ کی عدالت میں پیش ہو کر سنی موقف پیش کیا ،جس سے شیعہ سنی شدت میں کمی متوقع تھی ،مگر یہ کیس کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ متعدد بار چھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے جیل بھیجا گیا ، آپ نے اسیری کے دوران دو ماہ اور سترہ دن میں قرآن پاک حفظ کر کے ایک نئی تاریخ رقم فرمائی تھی ۔

علامہ علی شیر حیدری نے اپنی کی 46 بہاریں بھر پور انداز میں گزاریں ، اسلامی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کے لیے جامعہ حیدریہ خیرپور کی بنیاد رکھی ، ملک و ملت کی خدمت اور تبلیغ کے لیےملک کے طول و عرض کے متعدد بار اسفار کئے،یورپ،افریقہ اور ایشیاء کے اکثر ممالک کے تبلیغی دورے کئے، ،لاکھوں نوجوانوں نے آپ کے وعظ و بیان سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کے رخ کو درست کیا ، سینکڑوں علماء کرام نے آپ سے کسب فیض کیا،تحقیق و دعوت کے میدان میں جید علماء و مفتیان کرام کی ایک بڑی جماعت تیار کی،17اگست 2009ءبمطابق 25شعبان 1430ھ تہجد کے وقت ایک جلسہ عام سے واپسی پر خیر پور کے قریب گوٹھ دوست محمد ابڑو میں بے رحم گولیوں کا نسانہ بنے اور لہو سے وضو کر کے عشق و وفا کی راہوں پر عازم سفر ہو گئے ۔قائد اہلسنت والجماعت مولانااحمد لدھیانوی نے اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی ۔ شہادت کے بعد آپ کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اور دفن کے بعد قبر مبارک سے خشبو کا پھیلنا جہان ان کی سعادت اور مقبول شہادت کی خبر دے رہا تھا وہیں ملک و دین دشمن عناصر کی ناکامی کو بھی واضح کررہا تھا۔


 
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249717 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More