خاندانِ شروانی کے ایک فرزند کی زندگی کی ’’دھوپ چھاؤں‘‘

برِّ صغیر ہندو پاک کے ادبی منظرنامے پر گوناگوں علمی سرگرمیوں اور مختلف فیہ دلچسپیوں کے ساتھ جو ایک سرگرم معمّر نسل دکھائی دے رہی ہے، اس میں خانوادۂ صدیقِ مکرم حبیب الرّحمان شروانی کی زندہ یادگار ریاض الرحمان شروانی واقعتا ہمارے لیے باقیات الصالحات کادرجہ رکھتے ہیں۔سو کی عمر میں دس بارہ ہی بچے ہیں لیکن ان کے مضامین ،کتابیں اور علی گڑھ کانفرنس گزٹ کا تواتر سے شائع ہونا اُسی طرح قائم ہے۔ کمال یہ کہ تازہ ترین اہم کتابوں پروہ خود تبصرہ کریں گے اور دوسروں کے مضامین یا خطوط کے سلسلے سے ضروری حواشی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ صحت وتندرستی کے ساتھ علمی و ادبی جاہ ومنصب کے عروج پر متمکن موجودہ افراد بالعموم ان سرگرمیوں کا دسواں حصہ بھی انجام نہیں دے پاتے۔ کمال یہ ہے کہ ریاض الرّحمان شروانی صرف انھی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جن پر اُن کی گہری نظر ہے ۔ وہ عمومی موضوعات کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔
ریاض الرّحمان شروانی یوں تو ماہرِ ابوالکلام آزاد ہیں اور اپنی مشہور کتاب ’’میرِکارواں‘‘ کی وجہ سے امتیاز کا درجہ رکھتے ہیں لیکن پچھلے دنوں ان کی ایک مختصرخودنوشت ــ’’دھوپ چھاؤں‘‘ عنوان سے شائع ہوئی جس میں ان کی زندگی کے محض آٹھ برس (۴۹۔۱۹۴۱ء)کے مختلف واقعات شامل ہیں ۔ مصنّف اگردوسرے لوگوں کی طرح علمی ہوس کاری میں مبتلا ہو تا تو تھوڑے بہت اور حالات شامل کر کے دوسروں کی طرح ایک مکمّل خود نوشت کا دعوا پیش کر دیتا۔ لیکن یہاں اپنی زندگی کے مختصر وقفے کی کچھ باتیں پیش کرکے شاید مصنّف کچھ دوسرا ہی مقصد طے کرنا چاہتا ہے۔ دراصل یہ عہد مصنّف کی یونی ورسٹی تعلیم سے متعلّق ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرناقبل ازوقت ہوگا کہ مصنّف اس کتاب میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیمی زندگی کو ہی محور بنانا چاہتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ریاض الرّحمان شروانی کی اس تعلیمی زندگی میں ۴۸۔۱۹۴۶ ء کا وہ نازک زمانہ بھی شامل ہے جس نے برِّ صغیرکا نئے سرے سے مقصد طے کیا اورقتل وخون کے جانے کتنے خوفناک سلسلے سامنے آئے۔ ریاض الرّحمان شروانی خود بھی اس طوفان کے تھپیڑوں میں زندگی کی ننگی سچائیاں دیکھنے کے لیے بے بس تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اورتقسیمِ ملک کے واقعات کی وجہ سے اس خودنوشت کادائرۂ کاربہت وسیع ہوجا تاہے۔ انھی امور کے پیشِ نظرمصننف نے اپنی زندگی کے یہ نو برس منتخب کیے۔
ریاض الرّحمان خاں شروانی نے اپنے خاندان کے واقعات کو اختصار کے ساتھ بہ طورِ پسِ منظر پیش کیا ہے ۔۳۸صفحات میں کئی سو برسوں کے کرداروں کو سمیٹتے ہوئے نہایت حقیقت پسندانہ انداز روارکھا گیاہے۔ بادشاہوں سے اپنے خاندان کے تعلّق کو بتاتے ہوئے انھوں نے غیر ضروری طورپر اسلاف کے کارناموں کوبڑھاچڑھا کر نہیں پیش کیا ہے۔عام طور پر خودنوشتوں میں جھوٹ سچ کا پلندہ تیارکرکے ہرآدمی اپنے خاندان اوراسلاف کی ٹوپی اونچی رکھنے میں حقیقت سے پرے جانے میں جھجکتا نہیں۔ اسی وجہ سے اکثرخودنوشتیں تنازعات کا شکار ہوتی ہیں اوران میں بیان کردہ صداقت کی تصدیق وتوثیق دوسرے ذرائع سے لازم ہوجاتی ہے۔ ریاض الرّحمان شروانی نے اپنے خاندان کے جن کرداروں کو پیش کیا ہے، ان کے بعض اوقات نہایت دلکش مرقعے تیارہوئے ہیں۔ تفصیل سے گریز کا نہایت حیرت انگیز عمل یہاں دیکھنے کوملتا ہے جس کی وجہ سے چارپانچ سوبرسوں کی تاریخ اور بہت سارے افرادِ خاندان کے واقعات فلم کی ریل کی طرح آنکھوں کے سامنے آتے ہیں اور اپنی جھلک دکھا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
ریاض الرّحمان شروانی نے خاندانی پس منظر اور واقعات کی پیش کش میں اپنے ممدوح ابوالکلام آزادکی اتباع نہیں کی ورنہ’تذکرہ‘کی طرح ایک بھرپور جلدتو اسلاف کی شان میں مکمّل ہوہی جاتی۔ ریاض الرّحمان صاحب کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ بادشاہوں اورامراکی زندگی میں تو یوں بھی سچے جھوٹے واقعات بھرے رہتے ہیں۔ایسے قصوں کے گڑھنے والے ماہرین بھی دربار میں موجود ہوتے ہیں جس کے سبب واقعات کے اصلی اور نقلی پہلوخودروپودے کی طرح بڑھتے جاتے ہیں۔ ریاض الرّحمان شروانی نے اپنے اسلاف کے بارے میں جوبتایا، اس میں اسلاف کی خوبیوں کے ساتھ خامیوں پر بھی نگاہ رکھی۔ خوبیوں کے بیان میں کبھی بھی یہ صورت نہیں پیدا ہونے دی جس سے محسوس ہو کہ وہ اپنے اسلاف کوچاند ستاروں کی جگہ دلانا چاہتے ہیں۔
’رودادِحیات ‘ کے عنوان سے ۱۴۳ صفحات پر مشتمل گفتگوآپ بیتی کااصل حصہ ہے۔ کسی بھی خودنوشت میں مصنّف ہیروہوتاہے۔ اکثر لوگ اپنی شخصیت کے تاروپودکچھ اس طرح سے گڑھتے ہیں جس سے یہ التباس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگروہ پیدا نہیں ہوتے توقومی زندگی کا نظام بدل جاتا۔ ریاض الرّحمان شروانی نے خودنوشت لکھنے کے باوجود خودکو ایسی مرکزیت بخشنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اس خود نوشت کا یہ ایسا جمہوری مزاج ہے جس پر دوسرے معاصرین کی ہزار ڈینگیں قربان ہوجائیں ۔اپنے آباو اجداد اور اہلِ خاندان کے بارے میں ریاض الرحمان شروانی نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے چند اقتباسات بہ طورِ نمونہ درج کیے جاتے ہیں :
(۱)’’دوسرے ایک بیٹے بٹن کی ایک بیٹی بی بی متّو تھیں ۔ان کا تعلق علاقہ غور کے سید شاہ حسین سے ہوگیا اور اس کے نتیجے میں ایک بیٹا پیدا ہوا ۔اس کانام غل زئی رکھا گیا (یعنی چور کی اولاد )۔بعد ازاں بی بی متّوؔ اور شاہ حسین کا نکاح ہوگیا ۔نکاح کے بعد دو بیٹے پیدا ہوئے ،لودی (بہ معنی کلاں ) او ر سروانی ۔کثرت استعمال سے سروانی بدل کر شروانی ہو گیا ‘‘(ص۔۱۱)
(۲) ’’نواب مزمل اﷲ خان شروانی نے ۱۹۲۷ء میں ایم ۔اے ۔او۔کالج کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر اسے ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم چندے میں دی اور خود اپنے خرچ سے مسلم یو نی ورسٹی میں مزمل ہوسٹل تعمیر کرایا جو وقار الملک ہال کا حصہ ہے۔ان کی داد ودہش کی مسلم یونی ور سٹی میں اور بھی کئی یاد گار یں ہیں مثلاً آفتاب ہوسٹل کاڈائنگ ہال اور اولڈ بوائز لاج کامرکزی ہال ۔مسلم یونی ورسٹی کے مختلف امتحانات میں مختلف مضامین میں اول آنے والے طلبا وطالبات کو ان کی طرف سے آج تک سونے کے تمغے ملتے ہیں ۔ان کی داد ودہش مسلم یونی ورسٹی تک محدود نہیں تھی۔انھوں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی کو بھی ایک بڑی رقم چندے میں دی تھی۔ان کا ایک بڑا اعزاز یہ ہے کہ حرمِ مکّہ میں بجلی کا انجن سب سے پہلے انھوں نے لگوایا تھا، اس سے قبل وہاں بجلی نہیں تھی ‘‘(ص۔۱۸)
(۳) ’’مولانا حبیب الرحمان خان شروانی کا ایک بڑا کارنامہ حبیب گنج کا کتب خانہ ہے جس میں بالخصوص فارسی اور عربی کی بیش بہا مخطوطات ہیں ۔اب یہ کتب خانہ مولانا آزاد لائبریری ،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی زینت ہے۔اس کی وصیت خود انھوں نے اپنے وقف نامے میں کی تھی ۔اگر کبھی حبیب گنج میں کتب خانے کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ رہے یا اس کی افادیت علی گڑھ منتقل کیے جانے کی صورت میں بڑھ جانے کی توقع ہوتو اسے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کو دے دیاجائے ۔اس وصیت کی تکمیل ان کے صاحب زادے اور جانشیں مولوی عبید الرحمان خان شروانی نے ۱۹۶۱میں کی ۔قلق اس کاہے کہ جب تک کتب خانہ حبیب گنج میں رہا ،ہر چیز ہر طرح محفوظ رہی لیکن مسلم یونی ور سٹی میں آجانے کے بعد وہاں سے مرزاغالب کی نایاب تصویر چوری ہوگئی۔ بعض اور تصاویر کی بھی چوری ہوئی تھی جن میں جہاں گیر کے مصّور منصور کی بنائی ہوئی گل لالہ کی بیش بہا تصویر بھی شامل تھی لیکن اﷲ مغفرت فرمائے ،اس وقت کے وزیرِ تعلیم ،حکومت ہند ڈاکٹر سید نورالحسن کو جن کی خصوصی توجہ سے یہ چوری پکڑی گئی اور سب تصاویر بر آمد ہوگئیں ۔اورنگ زیب کے ذاتی استعمال کی تلوار ،جو تکیۂ اَورنگ زیب کے نام سے مشہور تھی ،اس کتب خانے کی ایک اور نادر یاد گار ہے ‘‘(ص۔۲۸۔۲۷)
(۴)’’بعض ایسے بٹنی بھی ہیں جو اس کے بر عکس شروانی کہلانا پسند نہیں کرتے ہیں ۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پٹھانوں میں بٹنی سب سے افضل ہیں۔یہ سب جاہلی تصورات ہیں ۔افسوس ہے کہ ان سے ابھی تک ہمیں چھٹکارا نہیں ملاہے ’’(ص۔۴۳)
ان اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاض الرحمان شروانی نے اپنے خاندان اور افرادِخاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے ممکن حد تک معروضی نقطۂ نظر اور ترقی پسند انہ اندازِ فکر کو محور بنایا ہے ۔بادشاہت ،امرا اور روسا کا بھی جہاں ذکر ہے ،وہاں ایک عوامی رنگ آگیا ہے اور بدلتی ہوئی زندگی میں فلاحی اور جمہوری آدابِ سلطنت کی دھمک صاف صاف سنائی دے رہی ہے ۔اس سے مختصراً ہندستان کی قومی بیداری یاقومی تحریک کے عمومی اثرات کا بھی اندازہ کیا جاسکتاہے ۔اس ماحول اور ذہنی فضا میں ریاض الرحمان شروانی کی پرورش ہوئی جس کے نیتجے میں وہ قومی سیاست میں نیشنلسٹ (Nationalist ) اندازِ فکر کا ترجمان بن کر اُبھرے ۔
’روداد ِحیات‘ میں تقریباً سو صفحات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی وابستگی کے اظہار کے لئے وقف ہیں ۔ان میں بالعموم اپنے حلقۂ احباب کے افراد سب سے روشن ہیں ۔چند اساتذہ اور کچھ وائس چانسلر صاحبان کی تصویر یں اجاگر ہورہی ہیں ۔اُس زمانے کی بعض سیاسی اور سماجی شخصیات کی جگہ جگہ جھلکیاں بھی دکھائی دیتی رہتی ہیں ۔افراد کے اوصاف بیان کرنے کے مرحلے میں ریاض الرحمان شروانی اس عہد، سیاست اور سماج کے بدلتے مناظر کے رنگ وبو بھی ساتھ ساتھ سمیٹتے چلتے ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ خود نوشت بھانت بھانت کے لوگوں کا اصطبل بن جاتی ۔لیکن اکثر کردار اپنے زمانے کے چند مخصوص رویوں کے ترجمان بن کر ہمیں جزو میں کُل کا لطف فراہم کرتے ہیں ۔
یہ خود نوشت مصنف کی یونی ورسٹی کی زندگی سے متعلق ہے ،اس لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہے ۔’پس منظر‘ میں بھی اور ’رودادحیات ‘ میں بھی ،یہاں تک کہ تقسیم ملک کے فسادات ، کیمپ میں قیام اور مہلوکین کے ساتھ لاہور کی ہجرت ،پھر لاہور میں نئے سرے سے زندگی کی تعمیر و تشکیل اور وہاں سے ہندستان واپسی ۔۔۔ہر مرحلے میں مصنّف علی گڑھ مسلم یونی ور سیٹی کے افراد اور معاملات کے تذکرے سے غافل نہیں ہوتا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی مرکز یت اور اشخاص و اعمال کے اعتبار سے اس زمانے میں قومی سطح پر اسلامیانِ ہند کی دانشورانہ قیادت کا بڑا حصہ علی گڑ ھ مسلم یونی ورسٹی کے فرزند ان سے مکمل ہوگا۔ ان آٹھ نو برسوں میں یونی ورسٹی کی زندگی میں کیسی کیسی تبدیلیاں رونماہوئیں اور کن افراد سے وہاں فائدہ یانقصان ہوا ،ان سب کاگوشوارہ سلسلے وا ر طریقے سے اس کتاب کی مدد سے تیار کیا جاسکتا ہے ۔یہ سب باتیں افراد کی خصوصیات بیان کرنے کے دوران اپنے آپ چلی آئی ہیں ۔مصنف نے ایک جملہ بھی الگ سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تاریخ پیش کرنے میں خرچ نہیں کیا۔
ریاض الرحمان شروانی نے اس عہد کے ان اساتذہ کا خاص طور سے ذکر کیا ہے جنھوں نے گھر یا مسلم یونیورسٹی میں انھیں پڑھایا تھا ۔سات دہائیوں کے بعد اب کے اساتذہ سے ان کاموازانہ کرتے ہوئے حوصلہ افزاصورت حال نہیں پیدا ہوتی ۔اس زمانے میں بھی کچھ بُرے اور فرض ناشناس اساتذہ سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی خالی نہیں تھی ۔چند جملوں میں شروانی صاحب نے اپنے بعض اساتذہ کے ایسے مرقعے پیش کر دیے ہیں جن سے ایک ساتھ تاریخ ،ادب ،تعلیم و تدریس اور دیگر امور اپنے آپ ظاہر ہوجاتے ہیں۔عربی کے اپنے دور کے اساتذہ میمن صاحب اور مفتی عبد اللطیف صاحب کے بارے میں مشاہدات ملاحظہ کیجیے:
’’انھیں پڑھانے کے لیے کوئی میمن صاحب جیسا فاضل ہی ہونا چاہیے تھا ،وہ کتاب کے معنی و مفہوم توبتاتے ہی تھے ،اپنے شاگردوں میں ادب عربی کے ذوق کی بھی نشو ونما فرماتے تھے ۔نہایت سادہ مزاج بزرگ تھے ۔حافظہ بلاکا ملا تھا ۔ایک شعر آیا اور میمن صاحب نے اس کے ہم معنی دس شعر سنادیے اور ہر شعر کی باریکیاں بتادیں یا جس قصیدے کا شعرہے، وہ پورا قصیدہ پڑھ کر سنا دیا ۔ان کا ایک پسندیدہ لفظ ’ہول ناک‘ تھا،فلاں ادیب ہول ناک قابلیت کا مالک ہے اور فلاں کتاب ہول ناک عظمت کی حامل ہے ‘‘(ص۔۱۳۱)
’’یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ان (مولانا مفتی عبداللطیف ) جیسا فاضل ،روشن خیال اور شفیق استاد پڑھانے کوملا۔ میں نے حبیب گنج سے قاہرہ تک اپنی ۲۴ سالہ رسمی تعلیم کے دوران کتاب میں ڈوب کر پڑھانے والا استادصرف دوہی دیکھے : مفتی صاحب مرحوم اور انگریزی کے استاد سید مختار حامد علی صاحب ۔۔۔مفتی عبداللطیف صاحب سے دینی علوم کا حصول میری زندگی کا ایک بہت اہم اور خوش گوار موڑ ہے ۔میں نے مفتی صاحب سے بعض ناگزیر ناغوں کے ساتھ دوقسطوں میں نوبرس تحصیل علم کی ،۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک اور پھر ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۳ء۔ میں نے ۱۹۵۳ء میں مسلم یونی ورسٹی ،علی گڑھ کے شعبۂ عربی میں لکچر ر ہوجانے کے بعد ہی مفتی صاحب سے پڑھنا چھوڑا‘‘(ص۔۸۱۔۸۰)
ریاض الرحمان شروانی بجا طور پر نازاں ہیں کہ انھیں لائق اساتذہ ملے جنھوں نے ان کی علمی زندگی کی ایسی ٹھوس بنیاد رکھی جس کے سہارے وہ آگے تک بڑھتے چلے گئے ۔اپنی خود نوشت میں ریاض الرحمان شروانی نے مزید دو اساتذہ کا ذکر کیا ہے ۔پہلے انگریزی کے نجی استاد سید مظہر علیم اور دوسرے گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر برکت علی قریشی ۔مظہرعلیم نے انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی ،اردو ،مذہبی ادب ،تاریخ کی تدریس کے ساتھ ساتھ انھیں تصنیف و تالیف کی طرف راغب کیا۔برکت علی قریشی نے شروانی صاحب کو تقسیم ملک کے بعدلاہور میں ایم ۔اے فائنل میں عربی پڑھائی ۔دونوں اساتذہ کے طریقۂ تدریس پر ریاض الرحمان شروانی نے اپنے جو مشاہدات درج کیے ہیں، وہ نہایت قیمتی ہیں اور ہمارے لیے موجودہ عہد کی بے ہنری میں آہ ِسر د کھینچنے کی مجبوری ہے ۔دونوں اساتذہ کا تذکرہ ریاض الرحمان شروانی کی زبانی سُنیے:
(۱)’’مجھے پڑھنے کی لَت اسی وقت سے تھی جب مجھے پڑھنا آیا لیکن ابھی یہ امتیاز پیدا نہیں ہوا تھا کہ کیا پڑھناچاہیے اور کیا نہیں ۔اس معاملے میں میری رہ نمائی میرے انگریزی کے نجی استاد سید مظہر علیم صاحب فرید آبادی نے کی ۔کہنے کو وہ انگریزی کے استاد تھے لیکن انھوں نے ریاضی کے علاوہ سب مضامین پڑھائے ۔یہاں تک کہ میری عربی ادب سے بھی ان ہی کے ذریعے شناسائی ہوئی تھی ۔اب تک میں نے عربی کے نام پر صرف صَرف و نحو ،فقہ ،اصولِ فقہ اور منطق پڑھی تھی ۔انھوں نے مجھے القرأ ۃ الرشیدہ کا سِٹ منگوا کر دیا اور اس کا پہلا حصّہ خود پڑھایا (وہ عربی سے بھی واقف تھے )۔اس زمانے میں میں نے ان کے مشورے سے جو کتابیں پڑھی تھیں ،یاد آتاہے، ان میں میں حالی کی ’حیاتِ سعدی‘ ،اپنے دادا صاحب (مولانا حبیب الرحمان خان شروانی ) کی تصانیف ’سیرۃ الصدیق‘ اور ’علمائے سلف‘ ،سید احمد مرتضٰی کی ’صولتِ شیر شاہی‘ اور سید الطاف علی بریلوی کی ’حیات حافظ رحمت خاں‘ سے بہت متاثر ہواتھا ۔میرے اندر مضمون نویسی کا شوق بھی انھوں نے ہی پیدا کیا تھا ۔میرا پہلا مضمون ۱۹۳۸ء ہفت روزہ ’معین‘ ،اجمیر میں شیر شاہ سوری پر شائع ہو اتھا ۔لیکن اسکول میں آکر میرا غیر تدریسی مطالعہ تقریباً ختم ہوگیا ،ساری توجہ درسیات کی طرف تھی ‘‘۔(ص۔۷۶)
(۲)ـ"ــپرو فیسر برکت علی قریشی بہت سنجیدہ اور باوقار شخص تھے ،نک سک سے درست رہتے تھے ۔ان کا طرزِ تعلیم یہ تھا کہ باری باری مختلف طلبہ سے کتاب کی قرأت کراتے اور وہی طالب علم کتاب کا ترجمہ کرتا اور مطلب بتاتا ۔اگر وہ کہیں رُکتا یا غلطی کر تا تو قریشی صاحب دوسرے طلبہ سے رجوع فرماتے ۔ایسا شاذ ہوتا کہ مسئلہ حل نہ ہو جاتا اور قریشی صاحب کو خود اصلاح کی ضرورت پیش آتی ۔اس طرزِ تدریس کا فائدہ یہ تھا کہ سب طالب علم تیاری کر کے آتے اور مستعد رہتے ،ان میں کوئی رقابت پیدا نہ ہوتی اور نہ کسی طالب علم کو اِدعا ئے بر تری ہوتا ۔ہمارے سب ساتھی بہت اچھے تھے ،مل جل کر رہتے تھے ،ایک دوسرے کی مدد کر تے تھے‘‘۔ (ص۔ ۱۶۹)
اس خودنوشت کے ۴۰صفحات تقسیمِ ملک کے نتا ئج پر حاوی ہیں۔ مصنف کی ہم شیرہ علاج کے تعلّق سے ہماچل کے کسولی میں اپنے خاندان کے بعض افراد کے ساتھ ایک خاص مدت تک مقیم تھیں۔ ایم۔اے۔ سال اوّل کا امتحان دے کرریاض الرّ حمان شروانی مئی۱۹۴۷ء میں تیمارداری کی غرص سے کسولی پہنچے۔ وہاں رفتہ رفتہ سیاسی صورتِ حال بدلتی گئی۔ فسادات اور جینے مرنے کے حالات وہاں بھی پیدا ہوتے گئے۔ ۱۲ستمبر۱۹۴۷ء کومریض اورتیماردارسب ملٹری ٹرک میں بٹھا کر کالکا کے لیے روانہ کردیے گئے جہاں رفیوجی کیمپ کھولا گیا تھا۔نو دس د ن مع خاندان کیمپ میں رہ کر پھر کالکا سے بہ ذریعۂ ریل انھیں لاہور بھیجا گیا۔ یہ قافلہ ۲۴ستمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور پہنچا۔ وہاں پھرسے ادھوری تعلیم کی تکمیل کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی میں سال دوم میں داخلہ لیا۔ پھر مارچ۱۹۴۹ء میں واپس علی گڑھ پہنچے۔ اس دور کے عمومی واقعات تو انھوں نے نہیں بتائے لیکن اپنی زندگی سے جڑے ہوئے معاملات کی پیش کش کے دوران واقعات ومشاہدات کی ایک ایسی کہکشاں سج جاتی ہے جہاں ہندوپاک کی تاریخ کے سب سے مشکل دور کی کچھ آہیں اور کچھ شکستِ خواب اور لرزیدہ تمنّائیں زندگی کا حصّہ ہو گئیں۔ یہاں ریاض الرّحما نی شروانی قومی تاریخ کے ایک نازک دور کا عمومی کرداربن جاتے ہیں جس کے سہارے اس قیامت صغرا کی آپ بیتی لہو رلاتے ہوئے ہمارے سامنے ہوتی ہے۔
خود نوشت کے آخری حصّے میں واقعات کی پیش کش میں اختصار کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس طرح واقعات کے بیان میں حیرت انگیز طور پر معروضیت کا طور پیدا ہو گیا ہے۔ یہ خودنوشت ظاہری طورپر الفاظ وصفحات کی قبا کے سبب مختصرورنہ جہانِ معنی کی سیر کومقصد تصوّر کریں تو یہ کتنی طول طویل معلوماتی اورتجزیاتی کتابوں پر بھاری ہے۔ زندگی اور کائنات کے بہت سارے اچھوتے رنگ اس خودنوشت میں اس طرح ابھرتے، ڈوبتے دکھائی دیتے ہیں جیسے یہ معلوم ہو کہ مصنّف قطرے میں دجلہ دکھانے کا ماہر ہے ۔ پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں جلوے ہیں لیکن حقیقت کاسونا سب پر چڑھاہوا ہے۔ اسی لیے کہیں بھی تعصّب، کینہ، ابتذال ، مکر اور جھوٹ کا پلندہ نہیں تیّار ہواحالانکہ بعض خودنوشتیں حقیقت کو مسمار کرنے کے لیے یااپنے بُرے کاموں کی صفائی پیش کرنے کے مقاصد تک محدودہوتی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام سے لے کر تقسیم ملک تک ہندستانی سیاست کے ایسے کئی باب ہیں جن کے بعض امور پر مصنف کے یہاں موجود ہیں۔ریاض الرحمان شروانی نے تحریکِ آزادی اور تقسیمِ ملک کے معاملات میں کوئی لمبا چوڑا جائزہ تو نہیں لیا لیکن جگہ جگہ چند ایسے واقعات ضرور شامل کر دیے ہیں جن سے یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ مسلم یونی ورسٹی کی فضا اس زمانے میں دور اندیشانہ سیاست سے دور ہوگئی تھی جس کے سبب بعض ایسے مسائل پیدا ہوئے جو ہنوز حل نہیں کیے جاسکے ۔ذیل میں چند ایسے واقعات اور مشاہدات بہ طورِ اقتباس یہاں درج کیے جاتے ہیں :
’دھوپ چھا ؤں‘کے مطا لعے کی ایک بنیادی جہت لازماََہندستانی سیاست کی نازک کیفیت کا بیان ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت مسلم لیگ اورکانگریس کی آپسی چیقلّش اس طورپربڑھی ہوئی تھی جیسے اصل مسئلہ ملک کی آزادی نہیں بلکہ دونوں سیاسی پارٹیوں کی حصّے داری ہے۔ ریاض الرّحمان شروانی نے سیاست کے اس کھیل تماشے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے حلقے میں پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ شروانی صاحب کا ماننا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی مسلم لیگ کے استحکام کا ایک ٹھوس ذریعہ بن گئی تھی۔ ریاض الرّحمان شروانی کے مشاہدات اس اعتبار سے قیمتی ہیں کیونکہ انھوں نے حالات اور واقعات کے سلسلے کوبدلتی ہوئی صورتِ حال میں پیوست کرکے ہندستانی سیاست اورہماری درسگاہوں کے ناگفتہ بہ گٹھ جوڑثابت کو کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ چند مختصر اقتباسات ملاحظہ ہوں جو اس سلسلے سے ہماری آنکھیں کھول دیں گے:
٭علی گڑھ میں مسٹر محمدعلی جناح کی سالانہ وِزٹ ہوئی تھی۔ یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۴ء تک جاری رہا۔ وہ بہ ظاہر یوں تو یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی دعوت پر تشریف لاتے تھے لیکن دو،تین دن پوری یو نی ورسٹی ان کے اعزازواکرام میں لگی رہتی تھی۔ وہ مسلم یونی ورسٹی کوThe arsenal of muslim youth in india (ہندستانی مسلمانوں کا اسلحہ خانہ ) کہتے تھے۔‘‘(ص۔ـ۱۱۹)
٭’’مسلم لیگ کی گرفت مسلم یونی ورسٹی پر اتنی مضبوط تھی کہ کوئی غیر مسلم لیگی الیکشن میں حصّہ لینا تو علاحدہ رہا، یونین میں تقریر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کمیونسٹ اور کانگریسی دو بڑی گالیاں تھیں۔‘‘(ص۔۲۱۔۱۲۰)
٭’’اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی کے وائس چانسلر کا انتخاب جناح صاحب فرماتے تھے۔ ۱۹۳۸ء میں شاہ محمّد سلیمان اور ۱۹۴۱ء اور ۱۹۴۴ء میں ڈاکٹرسر ضیاء الدّین احمد ان کا ہی انتخاب تھے۔‘‘(ص۔ـــ۱۴۷)
٭ ’’ علی گڑھ میگزین (اردو) کے ایڈیٹر ایک صاحب عبدالقدیر رضوی تھے۔ ایل۔ایل۔بی۔ کر لیا تھا، اب اردو میں ایم ۔اے۔ کر رہے تھے، میکڈانل ہوسٹل میں رہتے تھے ۔انھوں نے میگزین میں بہار کے فساد سے متعلق ایک بہت سخت اور اشتعال انگیز اداریہ لکھا۔اس میں ایسی زبان استعمال کی گئی تھی جیسے کرپلانی کے سور،گاندھی کے کتّے ۔(اچاریہ کرپلانی اس زمانے میں کانگریس کے صدر تھے)۔ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹر یشن نے اس کا سخت نوٹس لیا ۔اب یو۔پی۔ میں کانگریس کی حکومت تھی۔وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سے کہا گیا کہ میگزین کے جو شمارے ابھی تقسیم نہیں ہوئے ہیں، انھیں یونی ورسٹی خلافِ قانون قرار دے دے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک رات یونی ورسٹی کے دو اساتذہ کو رضوی صاحب کے کمرے پر بھیج کر وہ شمارے اُٹھوالیے‘‘۔ (ص۔۱۳۵)
٭ ’’ڈاکٹر سر ضیا الدین احمد کی طلبہ نے سخت بے حرمتی کی اور ان سے بالجبر استعفٰی لے لیا ،استعفٰی غیور صاحب کے پاس آگیا ۔استعفے کا وہ کاغذ بے معنی تھا،اس میں کسی کو مخاطب نہیں کیا گیا تھا،بس ڈاکٹر صاحب نے اتنا لکھ دیا تھا کہ میں مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلری سے مستعفی ہوجا تا ہوں ۔یہ وہ ڈاکٹر صاحب تھے جن کی سب سے بڑی کم زوری طالب علم تھے اور جن کی خاطر انھوں نے طرح طرح کے الزامات بر داشت کیے تھے ۔آج کے طالب علم نہیں تھے ،موجودہ طالب علموں کے دادا،نانا بلکہ بعض صورتوں میں پردادا ،پر نانا کی نسل کے طالب علم تھے ۔کہا جاتا ہے کہ آج کے طالب علم بہت نالائق ،غیر مہذب اور نافرمان ہیں ۔ کیا میری نسل کے طالب علم ان سے کسی معنی میں بھی بہتر تھے؟ مولانا ابو الکلام آزاد سے ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد تک انھوں نے کس کس کے ساتھ کیا کیا گستاخی نہیں کی تھی۔اس واقعے کا ڈاکٹر صاحب کے بعض مخالفوں نے بھی بہت اثر لیا ۔خان بہادر مولوی حبیب اﷲ خاں یونی ورسٹی کے معاملات میں ڈاکٹر ضیاء الدین کے سخت مخالف تھے۔اب روتے تھے اور کہتے تھے کہ سر سید کے جانشیں کی تو توہین ناقابلِ برداشت ہے ۔اس سے قبل اور اس کے بعد کی نسل کے بزرگ وائس چانسلر کو سر سید کا جانشیں ہی قرار دیتے تھے ‘‘۔(ص۔۳۶۔۱۳۵)
٭ ’’اس دوران یونی ورسٹی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے تھے جنھوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی تھی اور ہم بہت اُداس اور دل برداشتہ تھے ۔نومبر ۱۹۴۶ء میں علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر طالب علموں کی ایک جماعت نے مولانا آزاد کے ساتھ جو بے ہودہ اور ناروا بر تاو کیا تھا اور جو گستاخی اور ان کی جو توہین کی تھی اس کی وجہ سے ہمارے سر پہلے ہی شرم سے جھکے ہوئے تھے……مولانا آزاد کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر جو واقعہ پیش آیا تھا، اس کے چشم دید گواہ آج بھی ڈاکٹر رویندر خواجہ موجود ہیں ۔وہ دہلی سے اپنے والد عبد المجید خواجہ صاحب کے ساتھ آئے تھے جب لڑکوں کی نظر خواجہ صاحب پر پڑی تو انھوں نے کہا کہ پہلے چھوٹے شکار سے نمٹ لیں ،پھر بڑے شکار کی طرف جائیں گے اور اس کی خبر لیں گے ……مولٰنا آزاد کے چہرے پر ملال تھا لیکن غصہ نہیں تھا ۔اس واقعے کے بعد مولانا آزاد کوجس نے بھی اظہار ملال کا خط لکھا ،انھوں نے ایک ہی جواب دیا ۔آپ ان لڑکوں کو معاف کر دیجیے ۔یہ نادان ہیں ،انھیں بہکایا گیا ہے ۔خطا ان کی نہیں ہے ،ان کو بہکانے والوں کی ہے‘‘۔ (ص۔۴۴۔۱۴۳)
ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ سے اپنی غیروابستگی کی وجہ سے ریاض الرّحمان شروانی نے ایسے واقعات جمع کردیے ہیں۔ وہ اس دور کی ہندستانی سیاست سے کیساپُردردرشتہ رکھتے ہیں، اسے جاننے کے لیے مصنّف کی زندگی ایک کھُلی کتاب کی طرح ہے۔ وہ ایک بہترین مشاہد اورباخبر شہری کے طورپران امور کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی لیے کمال حد تک معروضیت کا ساتھ ہوتا ہے۔ چند مختصرتصویریں ملاحظہ کیجیے جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت کس طرح ہندستانی سیاست کانٹوں کی سیج بن گئی اورہزاروں لاکھوں لوگوں کے خواب کیسے چکناچور ہو نے لگے۔ ہندستانی سیاست دیکھتے دیکھتے کیسے فرقہ پرستانہ چنگل میں پہنچ گئی :
٭ اپریل ۱۹۴۶ء کی بات ہے۔ میرے قریبی بڑے بھائی عبدا لصبور خان شروانی کے بیٹے ظل ا لصبور خاں (سلیم میاں) کے عقیقے کی دعوت تھی۔ بڑامجمع تھا۔ پورے مجمعے میں شاید مولوی عبدالشاہد خاں شروانی اور میں دو ہی غیر مسلم لیگی تھے۔ بس ایسا محسوس ہو تا تھا کہ شہد کی مکھّیاں ہم دوونوں پر چاروں طرف سے ڈنک ماررہی ہیں۔ مسلمانوں کے ہر خاندان اور ہر گھر میں اس نوعیت کے سیاسی اختلاف تھے اور مسلم لیگیوں کی طرف سے ان کا نہایت جارحانہ اظہار ہوتا تھا۔‘‘(ص۔۱۰۷)
٭ ’’میری یہ قطعی رائے ہے کہ ملک کی تقسیم کی اصلی ذمے داری مسٹرمحمّد علی جناح کے حُبّ جاہ(ambition) اورنا عاقبت اندیشی اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی جذباتیت پر عائد ہو تی ہے۔برادرانِ وطن کے ایک طبقے کی تنگ نظری بلکہ مسلم دشمنی اور کانگریسی لیڈرشپ کی آزادی کے لیے جلدبازی، ان سب امور نے تقسیم کو ممکن بنایا لیکن اس کے لیے تحریک مسلم لیگ نے چلائی تھی اور اس نے اس تحریک میں اتنی شدّت پیدا کردی تھی کہ جو اس کا حامی نہیں تھا ،اگر غیر مسلم تھا تو دشمن تھا اور اگر مسلم تھاتو غدّارتھا۔ بس ایک طبقہ آنکھ اٹھا کر اور سینہ تان کر کہہ سکتاہے کہ وہ اس خودغرضی اور کوتاہ اندیشی سے قطعاََمبرّاہے اور اس کا دامن تقسیمِ ملک سے پاک ہے۔ وہ ہیں ہم نیشنلسٹ مسلمان۔‘‘(ص۔۱۱۵)
٭ ’’مولانا حفظ الرّحمان کا یہ جملہ دل پر نقش ہو گیا ہے:’’ملک کی تقسیم ہمارے آج تک کے کام پر پانی پھیردے گی۔‘‘اور اس نے پانی پھیر دیا۔‘‘(ص۔۱۴۹)
٭ ’’(تقسیمِ ملک پر)میرا پہلا ردّعمل اپنے لیڈروں کے خلاف غصے کا تھا کہ انھوں نے پاکستان کیوں قبول کیا؟مسلم لیگ تو پاکستان چاہتی تھی اور وہ اسے مل گیا تھا۔اس سے کیا شکایت ہوسکتی تھی ،شکایت تو ان لوگوں سے تھی جو کہتے تھے پاکستان میری لاش پر بنے گا (گاندھی جی) یا پاکستان قطعاً ایک غیر منطقی اور غیر عملی تصوّر ہے (پنڈت نہرو) ۔سوائے نیشنلسٹ مسلمانوں کے، کون کہہ سکتاہے کہ تقسیم ہند کی حصہ داری سے یک سر سبک دوش ہے ‘‘۔ (ص۔۴۹۔۱۴۸)
٭ ’’جب ماؤنٹ بٹن نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اس کے سوائے مسائل کا کوئی حل نہیں تھا ۔کیبنٹ مشن پلان بہتر ین حل تھا لیکن چوں کہ اس پر عمل نہیں ہوسکا ،اب مجبوراً اس پلان کو منظور کرنا پڑرہاہے ۔اس کے بعد سردار پٹیل کی تقریر ہوئی ،انھوں نے مولانا آزاد کی تردید کی اور کہا کہ کیبنٹ مشن پلان کی صورت میں ہمارے سر پر تلوار لٹکی رہتی ،اب ہمارے ہاتھ کھل گئے ہیں ،ہم ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں گے ،’’اپنی مرضی‘‘ کا جو مطلب تھا، وہ واضح ہے اور ملک اسی نہج پر چل رہاہے ،پھر رونا کس بات کا؟ جو مسلم فرقہ پر ست چاہتے تھے وہ ہوا ،جو ہندو فرقہ پرست چاہتے تھے، وہ ہوا بھی اور ہوبھی رہا ہے۔ ‘‘(ص۔۱۴۹)
ریاض الرّحمان شروانی نے فرقہ واریت اور اس کے جنون کی آنکھوں دیکھی تصویریں بھی پیش کردی ہیں ۔ ان کی زندگی نے بھی ایسی کروٹ لی کہ آزادی سے پہلے ہی فرقہ وارانہ ماحول نے ان کو اس طرح شکنجے میں لے لیا کہ کہاں مسلم لیگ اور تقسیمِ ملک کا مخالف اور کہاں بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان کی طرف رفیوجی بن کر پہنچ جانا۔ اس خودنوشت میں ریاض الرّحمان شروانی نے اپنی زند گی کا یہ حصّہ بلا شبہ جسم وجگر سے لہونکال کر لکھا ہے۔ اشارے اور واقعات مختصر ہیں لیکن ان کے اثرات دیرپااورچشم کشاہیں۔ ملاحظہ ہو :
٭ ’’ اگرنوا کھالی میں جان ومال اور عزّت وآبروکا زیادہ نقصان ہندؤں کا ہو ا تھا توگڑھ مکتیشر اور بہار میں مسلمانوں کا اتلاف اضعافاََمضاعفہ ہوا۔‘‘(ص۔۱۳۳)
٭ ’’ عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد مسلم لیگ نے یومِ راست عمل منایا ۔ بنگال کے وزیرِ اعلاحسین سہر وردی نے تعطیل عام کا اعلان کردیا۔ کلکتہ میں فرقہ وارانہ فسا دات پھوٹ پڑے ۔ یہ ایسے فسادات تھے جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے اور ان فسادات نے ملک میں ایسی روایت قائم کی کہ ان کے بعد جہاں جو فساد ہوا ،پہلے سے زیادہ سنگین ہوا۔ روزنامہ اسٹیٹس مین، نئی دہلی ، جس کانظم اس وقت انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، نے اسے( Great Calcutta Killingٰؒ )(کلکتہ کا عظیم قتل وغارت)لکھاتھا۔ یہ فساد کلکتہ سے نو رکھالی، وہاں سے بہار، بہار سے یوپی میں گڑھ مکتیشرضلع میرٹھ پہنچا اور پھر کچھ وقفے کے بعد اس نے پنجاب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ابھی یہ فساد کلکتہ سے نکل کر نواکھالی ہی پہنچا تھا کہ اس کی دھمک پنجاب میں پہنچ گئی۔ کسولی سینی ٹوریم میں ایک بنگالی ڈاکٹر متّل تھے، ان کے ہم سے بہت اچھے تعلّقات تھے۔ ان کا رویّہ ایک دم بدل گیا۔ بعد میں معلوم ہواکہ فسادکے دوران ان کے بعض اعزہ کو نواکھالی چھوڑنی پڑی تھی اور انھوں نے کسی دوسرے شہر میں پناہ لی تھی۔ یہ اس خطرے کی پہلی گھنٹی تھی جس نے ۱۹۴۷ء میں پورے پنجاب کو تہ وبالا کردیا اور ہمیں بھی ایسے طوفان سے گزرنا پڑا جس نے ہماری ، اورخاص طور سے میری زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا۔‘‘(ص۔۱۳۰)
٭ ’’یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہندستان کو آزاد ی جمعۃالوداع کو ملی تھی اور اس کے دو، تین دن بعد ہی عید تھی۔ ہمیں آنے والی تباہی کی چتاؤنی رمضان آتے ہی مل گئی تھی۔ کچھ عجیب اتفاق تھا جس وقت ہم ایلزیم ہال میں نمازتراویح پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس کی چھت پر اینٹوں کی بارش ہو نے لگتی۔ پہاڑوں پر چھتیں ٹین کی ہوتی ہیں، بہت شور ہوتا، نماز پڑھنا دشوار ہو جا تا۔ اس صورتِ حال سے محب الرّحمان بہت پریشان تھے، وہ زیادہ تر مسلمانوں کی مانند مسلم لیگی ہی تھے اور قیامِ پاکستان کے اعلان سے بہت خوش تھے لیکن اس نئی افتاد سے پریشان بھی و ہی سب سے زیادہ تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا :کیاہم سب یہیں مرجائیں گے؟ میں نے جواب دیا : جو اﷲکا حکم ہوگا ،وہ ہو کر رہے گا ۔ انھوں نے کہا :نہیں، ایسے تو نہیں مرنا چاہیے۔ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔‘‘(ص۔۱۵۰)
٭ ’’جب ہم عید کی نماز پڑھنے کے لیے گئے تو سارا ماحول اپنادشمن نظر آتا تھا، سکھوں کی تیوریاں خاص طور سے چڑھی ہوئی تھیں۔ پھر تو حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ جس کوٹھی میں ہم رہ رہے تھے ،وہ ایک سکھ ہی کی کوٹھی تھی۔ اس کے مالک کا جوان بیٹا،جو تقریباََ میرا ہم عمر تھا، ہر مہینے کی شروعات میں کرایہ لینے کے لیے آتا تھا۔ ستمبر کے شروع میں آیا تو اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ کہنے لگا :نئی سرحد کے اُس پارد اڑھی والے (سکھ)کتّے بلّیوں کی طرح مارے جا رہے ہیں اور تم یہاں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہو۔ بالآخر ہم بھی بیٹھے نہیں رہ سکے اور جلدی ہی ہمیں بھی آگ کا دریا پار کرنا پڑا۔‘‘(ص۔۱۵۲)
٭ ’’اس وقت پنجاب میں اصلی مقابلہ سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تھا، ہندو پیچھے تھے۔ ان میں سے بعض یقیناََ اس صورتِ حال سے محظوظ ہورہے تھے اور سکھوں کو شہ دے رہے تھے لیکن خود میدان میں بہت کم تھے۔ سینی ٹوریم کا کیشیر، جس سے ہمارا رات دن کا واسطہ تھا، کیسے پُر تمسخر انداز میں کہتا تھا کہ بے چارے بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ یہاں رہیں تو موت، یہاں سے جائیں تو موت، کیا کریں۔‘‘(ص۔۱۵۵)
مسلم لیگ ،علی گڑھ مسلم یونی و رسٹی، تقسیمِ ملک کی سیاست اورفرقہ وارانہ فسادات کے آگ اور خون کو سمجھنے کے پس منظر کے طور پر مہاجر کیمپ اورکالکا سے لاہور تک ٹرین کے سفر کے تھوڑے واقعات اس کتاب سے براہِ راست پڑھ لیے جائیں توموضوعاتی دائرۂ کار مکمّل ہوجائے گا۔ کیونکہ اس دوران انسانیت اورانسانی مقدّر کے بیچ ایک چومکھ ٹکراؤکی کیفیت ہے۔ کبھی انسانیت ہارتی ہے تو کبھی حیوانیت کی بھیڑسے کوئی فرشتہ نکل آتا ہے اور زندگی دھوپ اور چھاؤں کانا قابلِ بیان تماشا بنی رہتی ہے۔ ملاحظہ ہو :
’’کالکا کا ر فیوجی کیمپ کینٹ میں کھولا گیا تھا ۔ٹرک کھڑے کرنے کا طویل شیڈ خالی کر دیا گیا تھا۔وہ دونوں طرف سے کھلا ہو ا تھا ،بس سرپرٹین کی چھت تھی۔ کہا گیا کہ عور تیں ،بچے ،مریض اور بوڑھے اس میں رہیں گے اور جوان اور توانا مرد کھلے میدان میں ۔ہم سر شام وہاں پہنچے تھے اور کھلے میدان میں بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔بیر سٹر صاحب نے فر مایا : کل اس وقت لاہو ر میں نان اور سیخ کے کباب کھارہے ہوں گے ۔ایک اور صاحب اپنی بیوی سے کہہ رہے تھے : پاکستان جاکر سونے چاندی کے لڈو پیڑ ے کھانے کو ملیں گے ۔اتنے میں گھٹا اُٹھی اور زور دار بارش ہونے لگی تو نہ کسی کو نان کباب یادرہے اور نہ سونے چاندی کے لڈو پیڑے ۔کہاں جائیں اور کہاں سمائیں ،سب اُٹھ کر ادھر اُدھر بھاگے ۔لوگوں کو زیادہ تر پیڑوں کے سائے کی تلاش تھی لیکن اس میدان میں پیڑ بہت کم تھے ۔ہمیں کہیں سے ایک چٹائی ہاتھ آگئی ۔محب الرحمن اورمیں اپنے سروں پر اسے تان کر کھڑے ہوگئے ۔ایسی راتیں متواتر آئیں۔ ایک رات میں زیادہ ضبط نہیں کر سکا تو شیڈ میں جاکر والدہ کو اُٹھایا کہ اب آپ جاگیں ،میں سوؤں گا۔ کیمپ میں راشن کا انتظام تھا ،جن کے پاس پیسے تھے انھیں قیمتاً ملتا تھا ،باقی پناہ گزینوں کو مفت ۔اب محب الرحمن خاں چیت گئے تھے اور یہ سب انتظام وہی کرتے تھے ۔راشن مل گیا ،میدان میں اینٹوں کا چولھا جلایا گیا ،ہانڈی چڑھادی گئی کہ ایک دم آسمان سے نزول ِ رحمت ہونے لگا ،چولھا سرد اور ہم کھانے کے منتظر ۔خوانچے والے آنے لگے ،شروع میں لوگوں کو تامل تھا کہ ان سے خرید کر کیسے کھائیں ،زہر نہ ملادیا ہولیکن بھوک بری بلا ہے ،خرید کر کھانے لگے مگر کوئی مرا نہیں ۔بھلا مسلمان اور گوشت نہیں کھائے، گوشت کی خواہش کا جگہ جگہ سے اظہار ہونے لگا ۔ہماری نگرانی پر بلوچی فوج متعین تھی،وہ گوشت کی سب سے زیادہ شوقین ۔پناہ گزینوں میں مقامی قصائی بھی تھے۔انھوں نے کہا ہم اپنے جانور اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے سپرد کر آئے ہیں ۔اگر ہمارے ساتھ فوج کا سپاہی جائے تو ہم گوشت بناکر لائیں ۔سپاہی گیا ،گوشت آیا اور کھایا گیا ۔بواجی کو پیچش ہوگئی۔فوجی ڈاکٹر سکھ تھا ،اس کی دی ہوئی دوا کیسے کھاتیں ،نہ معلوم دوا دے گا یا زہر ۔خیر خدانے فضل کیا اور بغیر علاج ہی کے شفا ہوگئی ‘‘۔(۵۶۔۱۵۵)
اس خودنوشت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ حالات اور واقعات کی پیش کش میں مصنّف نے نہایت غوروفکر سے کام لیاہے۔ جس کی وجہ سے اس کتاب میں مصنّف کی ایک علاحدہ دانش ورانہ حیثیت اجاگرہوتی ہے۔ ا شخاص کا جائزہ لیتے ہوئے وہ کسی جذباتی لہر میں نہیں بہتے۔ ان کی کوشش ہو تی ہے کہ اس شخصیت کے مجموعی کارناموں کے تناظر میں اپنی رائے قائم کریں۔ اس معاملے میں وہ علمی اورقومی طورپر افادہ بخش ہونے کو معیار بناتے ہیں ۔ اشخاص کے بارے میں ان کے تبصرے بے لاگ اوروسیع تناظر میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
٭ ’’نواب بہادر یارجنگ میں جملہ بعض دیگر خصوصیات اور اوصاف مثلاََجوشِ ایمانی اورجرأت ومردانگی کے ،بے مثل خطیب تھے۔ میں نے اردو میں ان سے بہتر تقریر آج تک کسی سے نہیں سنی ہے۔.... کشمیر گئے تھے۔ وہاں مہاراجا ہری سنگھ کی حکومت نے گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔ جب رہا ہوئے تو حیدرآباد جاتے ہوئے علی گڑھ تشریف لائے۔ اسٹوڈنٹس یونین ہال میں تقریر ہوئی۔ تقریر کشمیر ہی کی صورتِحال پر تھی۔تقریر کیا کرتے تھے، کہیں پھول برساتے تھے اورکہیں شعلے بھڑکاتے تھے۔دورانِ تقریر اٹھ کرجانا ممکن نہیں ہو تاتھا۔ ہر شخص مبہوت بنا ان کی تقریر سنتا رہتاتھا۔‘‘(ص۔۸۸)
٭ ’’ذاکر صاحب نے فرمایا: آپ (ضیاء الحسن فاروقی،سعیداختر اورریاض الرّحمان شروانی)ایم۔اے کرکے جامعہ ملیہ آجائیے۔ زیادہ تو نہیں، جامعہ آپ کو ایک سو روپے ماہوار دے گی۔ وہاں رہ کر تحقیق کیجیے اور اپنی تحقیق کے نتائج سے طلبہ کوواقف کرائیے۔ یہ آخری بات کوئی ماہرِتعلیم ہی کہہ سکتا تھا۔ یہ غورطلب ہے کہ کیا آج بھی ہماری تحقیق اور تدریس کے درمیان واقعی کوئی رشتہ ہے۔ خیر ہم تو جامعہ کیا جاتے، حالات نے ایسی خوش گوار کروٹ لی کہ ذاکر صاحب خود ہی علی گڑھ تشریف لے آئے لیکن یہ بعد کی داستان ہے۔ یہاں صرف اتنا لکھ دیناکا فی ہوگا کہ ہم(یاکم سے کم میں) اپنے پورے زمانۂ طالبِ علمی میں جب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لیے کسی مثالی وائس چانسلرکا تصوّر کرتے تھے تو ہمارے پردۂ ذہن پر ہمیشہ ڈاکٹرذاکر حسین کی تصویرابھرتی تھی۔(ص۔۱۴۵۔۱۴۴)
٭ ’’اور آج کی کانگریس اور آج کی مرکزی حکومت تو وہ ہے ہی نہیں جس کا خواب انھوں نے (جو اہرلال نہرو) اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا تھا اور خواب ہی نہیں دیکھا تھا ،اپنے رہتے اس کی تعبیر بھی تلاش کی تھی۔ان کے اصولوں سے سب سے پہلے ان کی بیٹی نے انحراف کیا۔پنڈت جی جو تشیوں کا مذا ق اُڑاتے تھے ،وہ ہَون کراتی تھیں ،ساعتِ سعید معلوم کرکے قدم اُٹھاتی تھیں ۔پنڈت جی سب سے بڑھ کر امن دوست اور جمہوریت پسند تھے ،اندراجی عملی سیاست (Pragmatism ) میں عقیدہ رکھتی تھیں او راصولوں کی پاس داری کی قائل نہیں تھیں ۔جمہوریت پسند نہرو کی بیٹی نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دینے میں کسر نہیں اُٹھارکھی ۔ہندستان کی حالیہ سیاست کا سب سے منحوس سال ۱۹۹۱ء ہے جب نرسمہا راو جی وزیر اعظم اور منموہن سنگھ جی وزیر خزانہ ہوئے۔ سو شلزم زیر زمین دفن ہوگیا ،سرمایہ داری کی بہار آئی ‘‘۔ (ص۔ ۱۳۴)
ایسی خودنوشتیں جن کے مصنّفین کی زندگی زمانے کے سردوگرم سے اچھی خاصی تپی تپائی ہوئی ہو،ان میں زندگی اور کائنات کے بارے میں چند ایسے مشاہدات ضروردرج ہوں گے جن سے ہماری قو می زندگی کے کچھ نادیدہ پہلواپنے آپ سامنے آجائیں گے۔ ریاض الرّحمان شروانی نے یہ خودنوشت اپنی عمرکی آٹھویں دہائی کے بعدمکمّل کی ہے جس کی وجہ سے زندگی کی کئی ایسی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں جونہ صرف ان کی ذات سے تعلّق رکھتی ہیں بلکہ وہ ہماری قومی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ تاریخ اور تہذیب کے ایسے گم شدہ رازکسی واقعے کے بطن سے اس طرح ہمارے سامنے آتے ہیں جیسے ہم نے ان باتوں پرغورہی نہیں کیا۔ چندملے جلے موضوعات پرشروانی صاحب کے مشاہدات پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش ہیں:
٭ ’’اس زما نے میں ہمارے یہاں یونانی علاج ہوتا تھا۔ یونانی اطبّاکے پاس امراض کی دوا ئیں بہت کم تھیں جس کابدل ان کے نزدیک شدید پرہیز تھا اور وہ مریض کواورزیادہ کمزور کر دیتا تھا اوروہ مختلف عوارض کاشکار بن جاتا تھا۔‘‘ (ص۔۸۴)
٭ ’’۱۹۴۵ء آتے آتے ذاکرہ خاتون کی بیماری نے خطرناک صورت اختیار کر لی۔انھیں ٹی ۔بی۔ تجویزکردی گئی تھی جو اس زمانے میں مہلک مرض مانا جاتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جوانوں کے لیے ٹی۔بی اور بوڑھوں کے لیے فالج سب سے زیادہ مہلک مرض ہیں۔ ہارٹ اٹیک شاذ ہوتا تھا اور ہوتا تھا توعام لوگ اس پر یقین نہیں کر تے تھے۔ کہتے تھے کہ کسی نے جادوکردیا یا زہردے دیا۔ کینسر(سرطان) کانام اور بھی کم سننے میں آتاتھا لیکن تھااس وقت بھی موذی اور مہلک مرض۔ بعض خاص موسموں میں بعض وبائی امراض ملیریا ،چیچک، ہیضہ اور بعض علاقوں میں طاعون اکثرپھوٹ پڑتے تھے اور بہت جانوں کا اطلاف ہوتا تھا۔ بچوں کی پیدائش میں بھی بہت اموات ہوتی تھیں اور بچے چھوٹی عمر میں مرتے بھی بہت تھے۔اسّی برس کی عمر کے لوگ اتفاق ہی سے دیکھنے میں آتے تھے۔ میرے بچپن میں جس شخص کی عمر اسّی برس کی ہو تی تھی ،وہ کہتا تھا : میں نیــ’’غدر‘‘ دیکھا ہے اور اس کے قصّے سناتاتھا۔ میں نے اپنے بچپن میں ایسے دو، تین اشخاص سے زیادہ نہیں دیکھے۔‘‘(ص۔۵۔۱۰۴)
٭ ’’اس زمانے میں انھوں نے حبیب الرحمان خاں شروانی نے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ کُل جائداد علی الاولاد فی سبیل اﷲکردی۔ اپنے بعد متولّی اپنے بڑے بیٹے کو بنا یا اورپھر ہر بڑے بیٹے کے بڑے بیٹے میں منتقل ہو نا تجویز فرما یا۔ وقف نامہ خان بہادرشیخ عبداﷲنے ترتیب دیاہے۔ اس کے آخر میں درج ہے کہ نسل کا سلسلہ منقطع ہو جانے پر کل جا ئدادمسلم یونی ورسٹی کو مل جائے گی۔ اس زمانے میں بعض اور مسلمانوں نے بھی اپنے وقف ناموں میں یہی لکھا تھا۔ یہ ان کی مسلم یونی ورسٹی سے محبّت کا بین ثبوت ہے۔‘‘ (ص۔۱۰۶)
٭ ’’علی گڑھ جاتے آتے ہوئے دہلی میں ان کا قیام مولانا آزاد کے ساتھ رہتا تھا ۔کہتے تھے کہ آج کل رات کو مولانا سو نہیں سکتے ہیں ،ہندستانی مسلمانوں کے مستقبل کی فکر انھیں سونے نہیں دیتی ہے ۔‘‘(ص۔ ۱۷۱)
٭ایک دن بی ۔اے۔ خاں صاحب انگریزی کا کلاس لے رہے تھے ۔پڑھاتے ہوئے کتاب میں لفظ Utopia آیا ۔بی ۔اے۔ خاں صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا : جیسے آپ کا تصور پاکستان ۔بس پھر کیا تھا ۔گویا بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ دے دیا یاشہد کی مکھیوں کو چھیڑ دیا ۔طالب علموں کی اکثریت اُٹھ کر کھڑی ہوگئی اور بی ۔اے۔ خاں صاحب سے تو تو،میں میں کرنے لگی لیکن انھوں نے پرواہ نہیں کی،آگے بڑھ گئے ۔‘‘ (ص۔۱۲۷)
٭ ’’ایلز یم ہال میں صبح آزادی کا استقبال فائقہ خاتون (مصنّف کی ہم شیرہ) نے اور میں نے مل کر اس طرح کیا تھا کہ جب سحری کے لیے اُٹھے تو اس کوٹھی کے دروازے پر قومی جھنڈا لہرا یا ۔سب کچھ بھول کر یہ احساس کیسا روح پرور اور جاں فزاتھا کہ جب ہم رات کو سونے کے لیے لیٹے تھے تو غلام تھے اور اب آزاد ہیں ۔بہ قول جو ش : بہار پھر بہار ہے۔ بہار پھر بہار ہے،اُجالا کیسا ہی داغ دار ہو اور سحر کیسی ہی شب گزیدہ ہو،ہے تو بہر حال اُجالا اور ہے تو بہر کیف سحر ۔غلامی کی شب تار کا آزادی کی صبح روشن سے کیا مقابلہ؟ ‘‘ (ص۔۱۵۱)
ریاض الرّحمان شروانی اردو،فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں سے مکمل آشنا صاحبِ تصنیف ادیب ہیں۔ ابوالکلام آزاد سے بے پناہ متاثر ہونے کے باوجود زبان کی آرائش کو انھوں نے اپنے لیے ر اہنما نہیں بنایا۔سادہ زبان میں صاف صاف کہنے کا ہنر اتنا دل نشین اور دل پذیر ہے، جس سادگی پر واقعی رنگینی قربان ہو سکتی ہے۔ یوں بھی خودنوشت میں حقائق پرارتکازاتنازورآورہوتاہے کہ زبان کی بندش اورسجانے سنوارنے کے اضافی کاموں سے مصنّف اپنے آپ دور ہوجاتا ہے۔ حقیقت کے بیان میں سادگی وپُرکاری ،بے خودی وہشیاری کی جلوہ سامانیاں دھوپ چھاؤں کی طرح ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ رفیوجی کیمپ سے نکل کرپاکستان روانہ ہونے اور پھر لاہورپہنچنے کے لمحات کیسے پُر اثر انداز میں احاطۂ تحریر میں آئے ہیں، ملاحظہ ہو:
٭ ’’جب ٹرین پلیٹ فارم سے رینگی توآسمان پر سویرا جھلک رہاتھا اورہم حسرت ویاس سے اپنے وطن ہی کو نہیں، اپنے سامان کو بھی الوداع کہہ رہے تھے۔‘‘ (ص۔۱۵۸)
٭ ’’۲۴؍ستمبر کو ابھی ستارے جھلملا رہے تھے کہ کسی نے کہا : ٹرین پاکستان کی سر حدمیں داخل ہوگئی۔ مسافروں میں خوشی کی لہردوڑگئی۔ میں نے کھڑکی سے باہرجھانکا اورکہا : تب ہی ستاروں میں وہ چمک نہیں رہی۔ میں نے غلط نہیں کہا تھا: سپیدۂ سحرنمودار ہورہاتھا، ستاروں میں چمک کہاں ہوتی ۔ ‘‘ (ص۔ ۱۵۹)
ریاض الرّحمان شروانی کی یہ خودنوشت بلاشبہ ایسی کتابوں میں شمار ہوگی جنھیں لفظ بہ لفظ پڑھنا چاہیے ۔ فرانسس بیکن نے کتابوں کے سلسلے سے یہ لکھا ہے کہ بعض کتابیں چبا چبا کر پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ قدما کی تحریروں کے سلسلے سے یہ پتاچلتا ہے کہ کسی نے’ آبِ حیات‘ پچیس اورپچاس بار پڑھی،’نیرنگِ خیال‘،’باغ وبہار‘اور’غبارِخاطر‘ کے بارے میں بھی ان کتابوں کے عاشق باربارپڑھنے کی بات کہتے ہیں ِ۔’یادگارِغالب‘ اور’حیاتِ جاوید‘ بھی لوگوں نے نہ جانے کتنی بار پڑھیں۔ کلیم الدّین احمد نے افسانہ نویسوں اورناول نگاروں کو یہ مشورہ دیا کہ ان کی راتیں اور دن خطوطِ غالب کے ساتھ بسر ہونی چا ہئیں۔ریاض الرّحمان شروانی نے متعدّد علمی کام کیے۔ ’میرِکارواں‘ جیسی پُرمغزکتاب تحریر کی لیکن اپنی زندگی کے آٹھ برسوں کو خونِ جگر کے ساتھ پاکیزگی اور ایمان کی بھٹّی میں تپاکر جوخودنوشت لکھّی، وہ روز روز لکھی جانے والی کتابوں جیسی نہیں۔ مختصر سادائرۂ کار ہے، واقعات کی پیش کش میں کوئی طول بیانی بھی نہیں ۔رنگ آمیزی سے تو انھیں دور کا سروکارنہیں ۔کسی پر اتّہام ، بہتان اورالزام تراشی کا بھی شوقِ بے جا انھوں نے نہیں پالالیکن قومی زندگی اوراپنے خوابوں کے زوال کے کچھ مناظر اس طرح سے یہاں جمع ہو گئے ہیں جیسے لگتا ہو کہ یہ خودنوشت نہیں، ہماری قومی زندگی کی شکستِ خواب کاکوئی نوحہ ہے۔ کتاب ختم کرتے کرتے پڑھنے والا’متاعِ بے بہا ہے دردوسوزِآرزومندی‘ کی صبرآزما منزل تک پہنچ جاتاہے۔ خداریاض الرحمان شروانی کی عمر بڑھائے اوراس خود نوشت کے دوسرے اجزابھی انھیں قلم بند کرنے کا موقع عنایت کرے۔آمین۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 138020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.