غلام محمد قاصر

(۴ستمبر۱۹۴۱۔۲۰فروری۱۹۹۹)
ــ "ادب پڑھنے والوں کو نئے غزل گوؤ ں سے شکایت ہے کہ قریب قریب سبھی شعراء ایک سی غزل کہتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ اس صد فی صد غلط نتیجے پر کیسے پہنچے ۔ ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے ان غزلوں کو رُک رُک کر اور ڈوب ڈوب کر نہ پڑھا ہو۔ بصورت دیگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جہاں ایک نوجوان غزل گو کے ہاں تنوع کے چمن کھِل رہے ہوں وہاں سبھی شعراء کے مو ضوع و اسالیب کی یکسانیت کا شکوہ کیا جائے ـ"

درج بالا الفاظ احمد ندیم قاسمی کے ہیں جو انہوں نے ۲۰ نومبر ۱۹۷۷؁ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے ابھرنے والے خوبصورت لہجے کے شاعر غلام محمد قاصر کے لئے لکھے ۔غلام محمد قاصر ۴ ستمبر ۱۹۴۱؁ کو پہاڑ پور (ڈیرہ اسماعیل خان) میں پیداہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول پہاڑ پور سے میٹرک کرنے کے بعد اسی سکول میں بطور ٹیچر خدمات سر انجام دینے لگے۔ڈیرہ اسماعیل خان اور نواحی علاقوں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا ۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۷۵؁ میں بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج مردان میں تعینات ہوئے ۔ بعد ازاں پشاور ، درہ آدم خیل اور پبی کے کالجوں میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ ۲۰ فروری ۱۹۹۹؁ کو طویل علالت کے بعد پشاور میں وفات پائی۔

غلام محمد قاصر کا پہلا شعری مجموعہ " تسلسل " ۱۹۷۷؁ میں شائع ہوا تو اہل فن نے اس کی خوب پذیرائی کی ۔ ستّر(۷۰) کی دہائی میں جدید غزل ایک تجربے سے گزر رہی تھی اور غلام محمد قاصر نے نئی غزل کی شکل و صورت سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
٭٭٭
خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
٭٭٭
پرندے کیوں پسِ دیوار آ کر چہچہاتے ہیں
اسے معلوم ہو گا پیڑ جو آنگن میں رکھتا ہے

غلام محمد قاصر کا دوسر ا مجموعہ " آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے " ۱۹۸۸؁ میں شائع ہوا ۔اسّی(۸۰) کی دہائی میں علامتی غزل اپنے عروج پر تھی کیونکہ پاکستان میں مارشل لا کی نا روا پابندیوں کی وجہ سے شعراء واشگاف الفاظ میں اپنا مافی الضمیربیان کرنے سے قاصر تھے۔علامتوں کے استعمال نے اردو غزل میں انوکھا پن پیدا کیا تاہم اس دور میں ایک ہی علامت کے مختلف شاعروں کے ہاں مختلف مفاہیم ہیں ۔ قاصر کی غزل میں بھی ہمیں یہ علامتی رنگ جا بجا نظر آتا ہے ۔

بنا رہا ہوں تری آنکھ کے اشارے پر
اسی کنارے کی تصویر اس کنارے پر
٭٭٭
ملبوس کی اک سلوٹ نہ گئی زلفوں کے نہ پیچ و خم نکلے
زندوں کی طرح جینے کے لئے چالیس برس بھی کم نکلے
٭٭٭
کچھ بنتے مٹتے دائرے سے، اک شکل ہزاروں تصویریں
سب نقش و نگار عروج پہ تھے آنکھیں تھیں زوال پذیر تو کیا
٭٭٭
من میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے
زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتہ ہے
٭٭٭
تمام وسعتیں گہرائیوں میں ڈوب گئیں
سمندروں پہ کناروں کی مہربانی تھی

غلام محمد قاصر کا تیسرا مجموعہ " دریائے گمان " ۱۹۹۷؁ میں منظر عام پر آیا ۔ پہلے دو مجموعوں کی طرح قاصر کا یہ شعری مجموعہ بھی اہل علم و فن کی کسوٹی پر پورا اترا۔ قاصر نے ایک طرف روایت کی پاسداری کی تو دوسری طرف جدید یت کے دامن کو بھی تھامے رکھا۔ بلاشبہ قاصر نئی غزل کا ایک اہم نام تھا اور اس نے غزل کو انفعالیت کے گرداب سے نکال کر کامرانی کے ساحل تک پہنچایا ۔ قاصر نے غزل کے اندازِ بیان کو سادگی و پُر کاری عطا کی اور جدید زمانے کی ضرورتوں اور تقاضوں کو نہایت ہنر مندی سے غزل کے قالب میں ڈھالا۔ قاصر نے تہہ در تہہ معانی ، پیچ در پیچ تشبیہات اور استعارات کا سہارا نہیں لیا اور معروف ادبی مراکز سے دور رہ کر اپنی غزل کو سنوارنے اور نکھارنے میں مصروف رہے۔
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے
٭٭٭
تو نے دیکھا ہی نہیں ورنہ وفا کا مجرم
اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا تھا
٭٭٭
حنا کے واسطے سکھیاں ہتھیلی اس کی کھولیں گی
تو پہلی بار وہ سچی لکیریں جھوٹ بولیں گی
٭٭٭
برف میں لپٹی ہوئی شام کی آہٹ سن کر
گھر میں کچھ ہو کہ نہ ہو آگ تو جل جاتی ہے

غلام محمد قاصر کے صاحبزادگان عماد قاصر اور عدنان قاصر نے ۲۰۰۹؁ میں قاصر کے تمام کلام کو اکھٹا کر کے ان کی کلیات مر تب کی ہے۔ یوں قاصر کا تمام شعری اثاثہ ریکارڈ پر آ گیا ہے ۔ اس کلیات میں " دریائے گماں" کے بعد کا کلام بھی شاملِ اشاعت ہے ۔ غلام محمد قاصر کی غزل گوئی پر ظفر اقبال کے اس تبصرے کے بعد کچھ کہنا بے معنی لگتا ہے کہ " غلام محمد قا صر کی غزل وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں میری غزل ختم ہو تی ہے" ۔
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 50324 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More