نواز شریف ، بھارت کوجواب دے پائیں گے ؟

 بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے زیرِ قیادت ایک اعلی سطحی اجلاس میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کردینے کی حکمت عملی پر اتفاق ہوا اور دوسری جانب بھارتی ٹڈی دل فوج نے بھی گیڈر بھبکی مارتے ہوئے پاکستان کو للکارا کہ ’ اب ہم طے کریں گے کہ بدلہ کب ، کہاں اور کیسے لیا جائے گا‘ ۔بھارتی نے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ضلع بارہ مولا کے علاقے اُڑی سیکٹر میں بھارتی قابض فوجی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کو ایک بار پھر بغیر کسی انکوئری ، اور شواہد کے بغیر پاکستان پر الزام دھر دیا ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مصداق بھارت نے اپنی اندرونی ناقص سیکورٹی پوزیشن کے دفاع کے بدلے روایتی طور پر کہ ، قابض بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ آوروں کی شناخت بھی نہیں ہوئی تھی اور ہیڈ کوارٹر حملہ آورں کی زد میں تھا کہ پاکستان پر الزام تراشیاں شروع کردیں گئیں ، جبکہ خودبھارتی وزریر اعظم نے حملے کے8گھنٹے بعد ٹویٹ کیا ، بھارت میڈیا ،’پاکستان فوبیا‘ میں ایک دوسری سے سبقت لے جانے کیلئے جھوٹ کی سیڑھی بنا کر آسمان کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق حکومت میں موجود اعلی سطحی میٹنگ میں نریندر مودی نے حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت طلب کئے تو بھارتی حکام اپنی بغلیں جھانکنے لگے ، اس اجلاس میں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ، مرکزی وزیر دفاع منوہر پاریکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال ، مرکزی وزرات داخلہ کے سیکرٹری اور فوجی سربراہ کے علاوہ دیگر افسران موجود تھے۔پاکستان کے حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بے بنیاد دعوی پر میڈیا میں راج ناتھ سنگھ نے مضحکہ خیز ثبوت کے بارے بتایا کہ سامانوں پر پاکستان کی مہر لگی ہوئی تھی ۔ بھارت اس وقت دوبارہ خود ساختہ جنگی جنون میں مبتلا ہے ، کشمیر میں ہونے والی مسلمانوں پر زیادتیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی میڈیا ، بھارتی ریاست کے ساتھ ہم رکاب ہوگیا ہے ۔ ایک طرف بھارتی کے سابق فوجی افسران مودی سرکار کو پاکستان پر محدود حملوں کیلئے اکسا رہی ہے تو دوسری جانب بھارتی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی مودی کو چیلنج دیا ہے کہ اب وہ خود پاکستان کے خلاف کاروائی کریں۔کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ ’ اُڑی پر حملہ ناکام پالسیوں کا نتیجہ ہے۔‘بھارت سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کو پہلے بھی عالمی برادری میں تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے ، لیکن اسے ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بھارتی انٹیلی جنس و دیگر اداروں کے پاس اُڑی میں فوجی ہیڈ کوارٹرز پر پاکستان کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں ہیں ، لیکن اس کی جارحانہ روش اور جھوٹے بے سروپا بیانات کے ذریعے مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کو ٹاسک دیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے اور دیگر ممالک سے تجارتی رشتے ختم کرانے کیلئے کوشش شروع کردیں۔ہندوستانی ٹڈل دی فوج بھی جارحیت پر پُر تولے بیٹھی ہے کہ ریاست انھیں حکم کریں تاکہ وہ پاکستان پر حملے کی ناپاک جسارت کی ناکام کوشش ایک مرتبہ پھر کرسکیں ۔ابتدائی طور پر یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ نریندرمودی نے رواں سال نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب نیو یارک میں پاکستانی سیکرٹری خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے پریس کانفرنسیں کیں ہیں کہ’ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا ردعمل سامنے آتا رہے گا ، جبکہ بھارت کو کشمیری عوام کی آواز سننے کی ضرورت ہے ، لہذا بھارت ، پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے مسئلہ کشمیر پر توجہ دے‘۔ پاکستان ہر فورم پر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوام عالم کو مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم ، بھارت کی پاکستان میں مداخلت سے آگاہ کریں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف عالمی رہنماؤں کے اس پلیٹ فارم کے علاوہ ، انفرادی ملاقاتوں میں پاکستان کا مقدمہ کس انداز میں پیش کریں گے۔جبکہ بھارت کی وہی پرانی راگنی ہوگی ، جس سے ہم سب آگاہ ہیں ۔ بد قسمتی سے اقوام متحدہ کشمیری عوام کے خلاف ظلم و ستم کے ہولناک واقعات کے بعد بھی اپنا کوئی موثر کردار ادا نہیں کر رہا ۔ وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں شرکت کیلئے اس وقت امریکہ میں موجود ہیں ، جہاں ان کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ، ابتدائی ملاقات میں وزیر اعظم نواز شریف امریکی وزیر خاجہ جان کیری سے بھی ملاقات کرچکے ہیں۔یہ پاکستان کی سیاسی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ بھارت کے خلاف ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود موثر انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں کمزور رہ جاتا ہے ، شاید اس کی وجہ وزیر اعظم نواز شریف کے بھارت کے ساتھ ذاتی تجارتی تعلقات ہیں ، جس کے نقصان ہونے کے ڈر کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف نرم خوئی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، ورنہ بھارتی ایجنٹ کل بھوشن کی گرفتاری اور متعدد را ایجنٹس کی پاکستان میں گرفتاریاں ، پاک ، چائنا اقتصادی راہدری کے خلاف بھارتی سازشی عناصر ، سہولت کاروں کے اعترافی بیانات ، طور خم بارڈر پر بھارتی را ایجنٹوں کی خاد ایجنٹوں کے ساتھ اشتعال انگیز فائرنگ، بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسند گروپوں کی سرپرستی ، کراچی کے غدار الطاف جیسے کئی پاکستان دشمن رہنماؤں کے اقرار نامے بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دلانے کے کافی ہیں ۔حال ہی میں افغانستان میں موجود اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے مصروف افغان طالبان تک نے پہلی مرتبہ سخت ردعمل دیا کہ افغانستان میں بدامنی کا ذمے دار بھارت ہے ،جو کابل انتظامیہ کی مدد کررہا ہے۔ بھارت کی جانب سے مسلم ممالک میں مداخلت اور سازشیں پردہ راز نہیں رہی ہیں ۔اگر پاکستان بلوچستان اور کراچی کے را ایجنٹوں کی سازشوں اور ان کی منصوبہ بندیوں پر بھارت کے خلاف سفارتی طور پر خارجہ پالیسی کو مربوط کرلیتا تو آج بھارت کو پاکستان کے جانب انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہوتی ۔ لیکن پاکستان کی عسکری قیادت نے جس بھرپور انداز میں بھارت کو جواب دیا ہے اور اگلے مورچوں پر پوزیشنیں سنبھال کرکے ہندو انتہاپسندوں کو کرارا جواب دینے کیلئے صف بندی کرنے سے ،بھارت کے سیاسی و عسکری بلند بانگ دعوؤں سے ہوا خارج ہوچکی ہے ، اب سیاسی قیادت جو اپنے ساتھ ایک بہت بڑے خوشامد پسند گروپ کو لیکر گئے ہیں ، ان پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی شوگر ملوں کے نفع نقصان سے بالاتر ہوکر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام عالم کے سامنے پیش کریں اور کروڑوں پاکستانیوں کی ایک ہی آرزو کو سامنے رکھیں کہ ’کشمیر بن کر رہے پاکستان‘۔ اقوام متحدہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں ، ان کو اپنے وعدے اور اپنی قرار داد پر عمل کرنے کیلئے ٹھوس اور سخت جواب دیں کہ اگر خطے میں ایٹمی جنگ کے خدشے کو دور کرنا ہے تو کشمیرکا مسئلہ حل کریں ، پاکستان میں بھارتی مداخلت پر اس کے خلاف کاروائی کریں ۔خطے کو ایٹمی جنگ کی جانب لے جانے والے بھارتی انتہا پسندوں کو کرارا جواب ضروری ہوگیا ہے۔بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزیاں ، در اندازیاں ،اشتعال انگیز کاروائیاں اور بڑ بولوں کو لگام دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھارتی سازشوں کا پاکستانی عوام کی دلی آرزوں کے مطابق کس قدر کرارا جواب دے پائیں گے؟؟۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.