اب تیرا کیا بنے گا کالیا!

پاکستان مسلم لیگ نواز فارغ ہو گئی،مسلم لیگ کا جنازہ نکل گیا،سردار غلام عباس نے اپنی سیاست پر خود کش حملہ کر دیا،سردار صاحب نے لوٹا بازی کی روایت ایک بار پھر زندہ کر دی،سردار عباس آئندہ ایک لاکھ توکیا چند ہزار ووٹ بھی نہیں لے سکیں گے،سردار صاحب کبھی بھی ن لیگ میں ایڈجسٹ نہیں ہو پائیں گے،ن لیگی پارلیمنٹیرینز سردار غلام عباس کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے،یہ ہیں وہ بھانت بھانت کی بولیا ں اور اندازے جو گذشتہ چند دنوں سے ن لیگی پارلیمنٹیرینز کی طرف سے مختص کیے گئے چند مخصوس لوگ زبردستی لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلنے کی کوشش کر رہے ہیں ،کوئی ن لیگی پردھان خود سامنے آنے کو تیا ر نہیں کیونکہ ہر کسی کو پتہ ہے کہ اس شمولیت کا فیصلہ کیسے اور کہاں ہو ا اور کس کی مرضی و منشا کے تحت سردار صاحب نے ن لیگ جائن کی ،اور وہ صاحب جنھوں نے بلدیاتی الیکشنز کے بعد غالباً پاکستان کے واحد آزاد امیدوار سردار غلام عباس کو جیتنے کی مبارکباد ی اور اپنی پارٹی میں شمولیت میں کی خواہش کا اظہار کیا،او ر ان کا نام میاں محمد نواز شریف ہے جن کے اشار ہ ابرو کے بغیر ن لیگ میں پتہ بھی نہیں کھڑک سکتا،یہ جو پراپیگنڈا ماسٹر متعین کیے گئے ہیں معذرت کے ساتھ ان کی اپروچ اسی نائی یا دھوبی کی دکان تک ہے جس کے پاس بیٹھ کے گندے سے کپ میں چائے نام کی کوئی چیز بطور ٹوکن پی کے دوگھنٹے تبصرہ کر کے اگلی دکان کو سدھار جاتے ہیں ،جہاں تک بات ہے میاں برادران کے سامنے بات کرنے یا احتجاج کرنے کی تو تب ممکن ہے جب ظل رائے ونڈ کی بارگا ہ تک کسی کو اذن باریابی ملے یہاں تو چنگے بھلے قسم کے ایم این اے اور ایم پی اے ہفتوں رائے ونڈ اور پنجاب ہاؤس کے مہمان خانوں میں بیٹھے ملاقات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر ایک جھلک تک نہیں دیکھ پاتے اور اپنے ہاں جو مال بطور ایم این اے و ایم پی ایز کی مد میں موجود ہے وہ اتنے جوگا ہر گز نہیں کہ میاں صاحب کے سامنے جا احتجاج کرے،لہٰذا ایسا خطرہ تو کہیں دور دور تک نظر نہیں آ تا کہ قیادت کسی دباؤ میں آکر کوئی ریورس سٹیپ لے گی، میں یہ سب سن پڑھ اور دیکھ کہ حیران ہوں کہ ہم کیسے بھولے بادشاہ ہیں کہ سب کچھ دیکھتے سنتے ہیں پھر بھی ہمیں آج تک پاکستانی سیاست کی الف ب سمجھ نہیں آئی،یہ جو کہا جا تا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ کہیں اور فٹ آئے نہ آئے اپنے ہاں ضرور فٹ بیٹھتا ہے،اور ایک سردار عباس پہ کیا موقوف جب باٹم سے لیکر ٹاپ تک ایک ہی جیسا حمام اور اس میں موجود ایک جیسی شکلوں کے کھلاڑی ایک ہی ڈریس میں ملبوس ہوں تو پھر کیسا ضمیر اور کیسی خلش،کون ہے جو دودھ سے نہایا ہوا ہے سوائے کسی ایک آدھ کے سوا،یہاں پہ سیا ست میں ہر طرف ایک بات یکساں اور مشترک ہے اور وہ ہر ایک کا اپنا مفاد ہے جیسے مولویوں کے متعدد فرقے اور نظریے ہیں مگر قربانی کی کھال کو ٹک نہ لگنے اور درس میں دینے پہ سار ے کے سارے متفق ہیں،جہاں تک بات ہے سردار عباس کے ن لیگ میں شامل ہونے کے غلط یا صحیح ہونے کی اس پہ بحث کی جا سکتی ہے مگر سردار عباس کی عوامی مقبولیت ذاتی ووٹ بنک اور ان کے ووٹر کی ان کے ساتھ کمٹمنٹ پر رائے زنی ممکن ہی نہیں ،ووٹر کی ہمیشہ سے یہ ہ خواہش رہی ہے کہ جس کو وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اقتدا رکے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچے اور پاکستان جیسے ملک میں یہ خواہش رکھنا بری بھی نہیں کہ یہاں پہ انہی کی تمنا پوری ہوتی اور مراد بر آتی ہے جس کا لیڈر حکمران بنتا ہے یا حکومت میں حصہ دار ہوتا ہے،اور سردار غلام عباس شاید اس لحاظ سے قسمت کے دھنی ہیں کہ ان کا ووٹر سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ان کے ساتھ نتھی رہتا ہے،حالیہ بلدیاتی الیکشن میں جس طرح لوگوں نے ٹوٹ کر سردار عباس کو ووٹ دیئے جبکہ پتہ بھی تھا کہ کچھ بھی نہی ملنا سردار کو ووٹ دیکر مگر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سردار عباس کے ووٹر کو صرف سردار عباس سے غرض ہے اسے حکومت میں ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،2013کے الیکشن میں بھی لوگوں نے سردار عباس کی جھولی کو ووٹوں سے بھر دیاس وقت سردار عباس کے پیچھے رہ جانے کی واحد وجہ بیک وقت دو حلقوں پر الیکشن لڑنا تھا،اگر ایک محاظ ہوتا اور توجہ بھی ساری اسی پہ مرکوز رہتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی،اور جہاں تک بات ہے سردار غلام عباس کی پارٹیاں تبدیل کرنے اور لوٹا ازم کی تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کون ہے جو اس حمام میں ننگا نہیں ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی سردار عباس پی ٹی آئی میں جائے تو بہت اچھا اور ن لیگ میں جائے تو لو ٹا معاف کیجیے گا یہ منافقت ہے،جس کا دور اب گذر چکا ،غلط سب کے لیے غلط اور صحیح سب کے لیے صحیح ہونا چاہیے سامنے چاہے سردار عباس ہو یا کوئی اور،تاہم میں نے اس وقت بھی سردار عباس منزل ہے کہاں کے نام سے آرٹیکل لکھا تھا اور سردار عباس پر بھرپور تنقید کی تھی،اس کے بعد جب بلدیاتی الیکشن ہوئے توسردار عباس نے حسب توقع ن لیگی شیروں کو چاروں شانے چت کر دیا تو 9نومبر2015کو میں نے :سردار عباس !ایک اور دریا کا سامنا : آرٹیکل لکھا جس میں میں نے سردار عباس کی کامیابی کی وجہ تحریر کی کہ جب ن لیگ کے شہزادے شہزادیا ں چاچے مامے اور نوکر تک لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوں گے تو لوگ ضرور ،ری ایکٹ کریں گے وہیں سردار عباس پر ان کی بعض ناپسندیدہ پالیسیوں یعنی بار بار پارٹیا ں تبدیل کرنے پر کھل کر تنقید بھی کی ،ساتھ ہی انہیں مشورہ دیا کہ آپ کی مٹھی میں ریت ہے اور پیسے میں بڑی طاقت ہے آپ کے مدمقابل کوئی دو چار افراد کا گروہ نہیں حکومت ہے آپ کے لوگ آپ کے ساتھ کمٹٹد ہیں مگر وہ جعلی پرچوں اور تبادلوں کا دباؤ ایک خاص حد تک ہی برداشت کر سکیں گے،اس پہ بہت لوگوں نے رائے دی اور میری بات سے اتفاق کیا میں نے اس کے بعد 18نومبر 2015کو ایک اور کالم اسی اخبار میں لکھا کہ جس کا عنوان تھا :موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں:جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی چکوال آمد اور اس کا پس منظر لکھا اور ساتھ سردار عباس کو مشورہ دیا کہ وقت نکلا جا رہا ہے اور ایسا نہ ہو کہ جب آپ فیصلہ کرنے کا سوچیں تو اس وقت:شوق بے پروا ہ گیا،فکر فلک پیما گیا،نہ تیری محفل میں دیوانے رہے نہ فرزانے: اور اس وقت مشورہ دیا تھا کہ انا کو ایک طرف رکھیں اپنے منتخب تمام لوگوں کو بس میں بھریں اور سیدھے رائے ونڈ جا پہنچیں یا یہ نزدیک ہے چکری اور غیر مشروط طور پہ ن لیگ میں شامل ہو جائیں،سب سے آسان فارمولا ملکی مفاد ہے جس میں ماروی میمن ہو یا امیر مقام،دانیا ل عزیز ہو یا میجر طاہر اقبال سب کچھ یوں سما جاتا ہے جیسے یہ لوگ جنم جنم سے نواز شریف کے ساتھ تھے،اس پہ میرے بہت سے لکھا ری دوستوں نے مجھ پر تنقید کی کہ میں سردار غلام عباس کو سیاسی خود کشی کے مشورے دے رہا ہوں اس کے چند دن بعد منوال کے مقام پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا جس میں پوری ن لیگی ضلعی قیادت کے علاوہ جنرل عبدالمجید ملک نے بطور خاص شرکت کی اس جلسے میں سردار عباس پر کھل کر اور دبے لفظوں میں میڈیا کے ان لوگوں پر بھی بھرپور تنقید کی گئی جو سردار عباس جیسے ن لیگی مخالف کو ن لیگ جائن کرنے کا مشورہ دے رہے تھے،اس جلسہ میں بھر پور بھڑک بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور بازو بازو لہرالہرا کر قیادت کو باور کروایا گیا کہ ہم سردار عباس کو کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے اگر ایسا کیا گیا تو ہم سے کسی رعایت کی توقع نہ کی جائے اور ایک ایم پی اے صاحب جو عموما ً اپنی اکڑ اور سردار عباس کے بارے میں نجی محفلوں میں گھٹیا زبان درازی کی وجہ سے مشہور ہیں نے بھرے جلسے میں اعلان کیا کہ اگر میاں شہباز شریف و نواز شریف نے ایسا کوئی اعلان کیا تو لوگوگواہ رہنا میں ن لیگ اسی دن چھوڑ دوں گا اور حکومت سے استعفیٰ دے دوں گا(واضح رہے سردار عباس کو ن لیگ میں آئے پندرہ دن ہو چکے ہیں)اور کسی بھی طرف سے استعفے کا اعلان ابھی تک تو سامنے نہیں آیا،میں نے منوال جلسہ جو غالباً تین یا چار دسمبر کو ہوا کے فوری بعد 7دسمبر2015کو اسی موضوع پر آخری کالم:یا اﷲ یا رسول،،سردار عباس نہیں قبول لکھا:جس میں میں نے لکھا کہ یہ شیخ رشید والی بڑھکیں ہیں اور سردار عباس کو غدار کہہ کر ن لیگ میں نہ گھسنے دینے کے طعنے دینے والے خود بیساکھیوں کے سہارے پر ن لیگ میں شامل ہوئے،اور سردار عباس پر غداری کا الزام وہ لگا رہے ہیں جو چوری کھاتے رہے اور ذرا سا گرم موسم آیا تو اپنا آشیا نہ بدل لیا پھر میاں صاحب آئے تو واپس آگئے،میں نے لکھا تھا کہ آپ عوامی لوگ ہیں بقول آپ کے آپ نے عوام کی بھرپور خدمت بھی کی تو آپ کے اندر کے ریکٹر اسکیل پر سردار عباس کی وجہ سے 8.5کا زلزلہ کیوں برپا ہے،اور اس وقت بھی لکھا کہ سردار صاحب کو ان کی بالکل بھی فکر نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ ن لیگ میں سب کچھ میاں نواز شریف کی اشارہ ابرو سے بنتا بگڑتا ہے اور سوائے چکری کے اکھڑ مزاج چوہدری کے کسی میں بھی دم نہیں کہ نواز شریف کی بات سے اختلاف کر سکے،آپ تبھی جائن کر سکتے ہیں جب آپ میاں صاحب کی گڈ بک میں شامل ہو گئے تو او ر جب ہوےء تو پھر یہی جو آج آپ کو غدار اور نہ گھسنے دینے کے نعرے لگا رہے ہیں کل کہہ رہے ہوں گے کہ واہ واہ میاں صاحب کیا شاندار فیصلہ ہے یہ تو بہت جلد ہونا چاہیے تھا واہ کیا فہم و فراست عطا کی ہے اﷲ میاں نے آپکو جناب میاں صاحب،اور دیکھ لیں آج صورتحال اس سے یکسر بھی مختلف ہے تو میں قصور وار ہوں،(میرے یہ تمام آرٹیکلزwww.hamariweb.comپر موجود ہیں) اب بھی یہ تمام لوگ اسی تنخواہ پہ کام کریں گے،اور سردار عباس کو ویلکم کریں گے،سردار عباس کو اﷲ نے ایک اور بھرپور موقع عنایت کر دیا ہے وہ اپنا آپ منوا سکتے ہیں،وہ 9پارلمنٹیرینز کی اکثریت سے بہتر ہیں یہ وقت نے ثابت کیا اور میاں برادران نے اس حقیقت کو قبول کیا جو نہایت ہی مستحسن عمل ہے،گیند اب مکمل طور پر سردار عباس کے کورٹ میں ہے،حلقہ این اے اکسٹھ جو کہ سردار عباس کا پسندیدہ حلقہ ہے کے عوام بابا جی اور ٹریول ایجنٹ سے تنگ ہیں ایم این اے اور ایم پی اے جس سیٹ پہ چاہیں الیکشن لڑیں اور میں یہ قبل از وقت قیاس کر رہا ہوں کہ اب صورتحال کم از کم اس حلقے میں یہ ہو چکی ہے کہ اگر سردار عباس نے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو پاکستان کے سب سے بڑے فرق نہیں تو چند نمایاں ترین حلقوں کی طرح یہاں سے کامیاب ہوں گے اور دوسری طرف چکوال میں بھی صورتحال اس سے کہیں ذیادہ مختلف نہیں ہے،مگر سردار عباس کے بارے میں ایک بات اور بھی مشہور ہے کہ جہاں ایک طرف وہ اپنی اننگز نہایت عمدہ طریقے سے کھیلتے ہیں وہیں جیت کر اپنی انا اور ضد کی وجہ سے سارا ثمر کسی اور کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں،بڑی مدت کے بعد انہوں نے صحیح سمت میں صحیح قدم اٹھایا ہے دیکھتے ہیں کہ وہ اس پہ کس حد تک ثابت قدم رہتے ہیں،،،،، جن لوگوں کوسردار عباس کی ن لیگ میں شمولیت پر ان کے مخالفین کی اچھل کود کی سمجھ نہیں آ رہی ان کو فلم مولا جٹ ایک با ر ضرور دیکھنی چاہیے ،،،