تولی پیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خفیہ خزانے کی تلاش

 اعتبار مت کیجیے گا چلچلاتی دھوپ آپ کو اچھی لگے گی مگر موسم کسی بھی لمحے آپ کو دھوکہ دے سکتاہے بادل اس دھوپ کو چھپا لیں گے۔لمحوں میں بادل پہاڑوں کو ڈھک لیں گے اور پھر بارش سے ہونے والی سردی آپ کو پریشان کرے گی۔ اگر آپ بارش کے پانی سے گھبراتے ہیں تو اپنے ساتھ ایک برساتی سفر تولی پیر کے لیے ساتھ ضرورکھ لیں آپ کے پاس برساتی نہیں ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ایک سو پچاس روپے فی گھنٹہ کرائے پر آپ کو ایک برساتی مل جائے گی ۔ برساتی آپ کے پاس ہو یا نہ ہو یہ تو طے ہے کہ تولی پیر کے بل کھاتی پاڑی چوٹیاںاور ان کا سبزہ آپ کو اپنے سحر میں ضرور جھکڑ لے گا ایک کے بعد دوسری چوٹی آپ کو کھنچتی ہوی اپنے پاس بلائے گی ۔سب سے اونچی چوٹی پر پہنچنے ہی آپ کے سامنے مقبوضہ پونچھ شہر ہوگا۔ جب آپ کھائیوں کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو پہاڑوں کی ڈھلانوں پر روائتی کشمیری گھر ایستادہ نظر آئیں گے ۔ تولی پیر راولاکوٹ سے 30 کلومیٹر دور تین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے ۔ یہاں سے عباس پور، لس ڈنہ اور مقبوضہ پونچھ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ دن کے اجالے میں یہ طے کرنا مشکل لگتا ہے کہ مقبوضہ پونچھ اور تولی پیر پہاڑی سلسلوں کے درمیان وہ کون سی لکیر ہے جو دونوں خطوں کو جدا کرتی ہے۔ ہاں اگر آپ شام کو اس مقام پر موجود ہوں تو لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی جانب سے بنائی گئی باڑھ بجلی کے قمقموں سے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور یہ معلوم پڑ جاتا ہے کہ اس بارڑ سے آگے مقبوضہ پونچھ شروع ہوتا ہے۔تولی پیر کے سب سے اونچی چوٹی پر ایک پیر صاحب کا جھونپڑا نمامزار ہے۔ معلوم نہیں پیر صاحب تولی پیرکیا کرنے آئے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک پیر بادشاہ گیلانی کے نام کی تختہ بھی یہاں آویزاں تھی۔ پیر بادشاہ گیلانی کون تھے ؟کیا وہ تولی پیر میں مدفن ہیں؟ یا تولی پیر پر انہوں نے دعوت و تبلیغ کاکوئی کام کیا تھا یا پھر انہوں نے ڈوگرہ فوج سے کوئی لڑائی لڑی تھی ایسی کوئی چیز پرانے بزرگوں کی گفتگو اور تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتی لیکن پیر کے نام پر اس صحت افزا مقام کے ایک حصہ پر قبضہ ضرور برقرار ہے۔ 1947 میں ریاست جموں وکشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ کہتے ہیں مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج نے بغاوت کے موقع پر پونچھ کے آزاد خطے سے بھاری خزانہ اکٹھا کر لیا تھا جو مقبوضہ پونچھ شہر لے جایا جانا تھا ڈوگرہ فوج نے تولی پیر سے پسپا ہوتے ہوے سونے اور چاندی سے بھرے باکس ادھر ہی کہیں زمین میں دبا دیے تھے۔ کچھ سال پہلے سندر سنگھ کا خزانہ دھمنی کے مقام سے برامد ہوا تھا مریدوں کو زمین پر قبضے کے لیے جعلی مزار قائم کرنے کے بجائے مہاراجہ ہری سنگھ کا خفیہ خزانہ تلاش کرنا چاہیے۔ اب یہ بھی دعوی کیا جارہا ہے کہ تولی پیر کے اس مقام پر شاہ ہمدان کا گزر ہوا تھا۔ زمینوں پر قبضے کے لیے مساجد بنانے اور مزار بنانے کا یہ عمل مناسب نہیں ہے ۔۔یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیپٹن حسین خان شہید ہی وہ شخص تھا جس نے جنگ آزادی 1947 میں تولی پیر کے گردونواح میں ڈوگرہ فوج کو شکست فاش دے کر بھاگنے پر مجبور کیاتھا۔ تولی پیر سے ڈوگرہ فوج کو بھگانے کے بعد کیپٹن حسین خان شہید گلہ کے مقام پر 11 نومبر 1947کو شہید ہو گئے تھے جبکہ ڈوگرہ فوج نے پونچھ شہر جا کر دم لیاتھا۔ میری رائے میں تولی پیر کے سب سے اونچے مقام پر کیپٹن حسین خان شہید کی ایک یادگار ہونی چاہیے۔پاکستان اور آزاد کشمیر کے دوردارز علاقوں سے ہر روز سکولوں،کالجوں کے بچے تولی پیر کی سیر کے لیے آتے ہیں انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ کیپٹن حسین خان شہید ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس صحت افزاء مقام کو حاصل کیا تھا وگرنہ آج تولی پیر جیسا اہم سیاحتی مقام مقبوضہ پونچھ شہر کا حصہ ہوتا اور ہم کھائی گلہ سے تولی پیر کی طرف صرف حسرت بھر نگاہوں سے ہی دیکھتے ۔عید قربان کے بعد بیف پارٹی کے بعد اس دفعہ تولی پیر کی سیاحت کا پروگرام بنا مگر مشکل یہ تھی کہ راولا کوٹ سے کھائی گلہ تک اچھی سڑک پر سفر کا مزہ اس وقت کرکرہ ہوجاتا ہے جب کھائی گلہ سے تولی پیر کی طرف اونچائی میں سفر شروع ہوتا ہے۔کھائی گلہ سے تولی پیر بیس کیمپ ( تولی پیر پارکنگ ایریا) تک راستے کو سڑک نہیں کہا جا سکتا۔ دس منٹ کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے چنانچہ ہم بھی ہچکولے کھاتی گاڑی پر دو گھنٹے میں یہ سفر طے کر کے تولی پیر بیس کیمپ تک پہنچے۔ آزاد کشمیر محکمہ سیاحت اور محکمہ جنگلات نے آپ کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کر رکھا آپ بس چالیس روپے دے کر گاڑی پارک کرسکتے ہیں ۔ کم و بیش پانچ سے سات ہزار افراد ہر روز تولی پیر کا رخ کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے محکمہ سیاحت سیاحوں کے لیے ایک بھی پبلک ٹوائلٹ بنانے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ تولی پیر کے لیے ہمارا سفر ،عبدالسمیع،،وہاب ، نوری ، کائنات اور دوسروں کے ساتھ گوئی نالہ روڈ پر واقع گاوں میدان سے شروع ہوا۔ راولاکوٹ فوجی فاوندیشن سکول سے مریم ، اریب اور عادل کو اور چہڑھ سے وانیہ کوبھی ساتھ لے لیا تاہم اسفند کی نیند نے اسے سفر تولی پیر سے محفوط رکھا۔ اس قدرتی صحت افزاء مقام کو صاف ستھرا رکھنے کی ہماری بھی ذمہ داری ہے مگر یہ کام بھی ہم نے قدرت پر چھوڑ رکھاہے۔سیاح اپنے ساتھ پانی کی بوتلیں،بسکٹ اور کئی طرح کی چیزیں لاتے ہیں جو تولی پیر میں ہی بکھیر دیتے ہیں۔اس کوڑا کرکٹ کو قدرت کی طرف سے ہونے والی بارش کا پانی ہی دھو سکتا ہے۔اگر آپ تولی پیر جارہے ہوں تو میرا مشورہ مانیں اپنے ساتھ ایک خالی تھیلا بھی لے جائیں جس میں ریپر،پھلوں کے چھلکے ،خالی بوتلیں ڈالیں اور واپس لا کر بیس کیمپ میں ٹھکانے لگادیں ۔میری تحریک پروہاب ، نوری نے بھی ایسا ہی کیا۔ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے سیاحوں کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں سیاحوں کو بتایا جائے کہ اس مقام کو کیسے آلودہ ہونے سے بچایا جائے آسان حل یہ ہے کہ استعمال شدہ چیزیں تھیلے میں ڈال کر واپس بیس کیمپ لائی جائیں۔تولی پیر کے حسین نظارے پرکشش ضرور ہیں مگر کبھی کبھی استعمال شدہ بکھری چیزیں ناگوار گزرتی ہیں اس لیے ہماری طرح آپ بھی پہلی کیجیے۔تولی پیر کی سیر کے دوران ہم نے جی بھر کر والی بال کھیلا،کرکٹ سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ آپ کو تولی پیر کے پہاڑوں پر ایسے نوجوانوں کے گروپس ملیں گے جو گانے بجانے کے شوقین ہوتے اورانہوں نے اس کا اہتمام کیا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تولی پیر کے مقام پر خواتین ،بچے اورعورتیں بلا خوف وخطر گھوم پھر سکتی ہیں۔ وہاں کا موسم اور سیاحت سے لطف اندوز ہو سکتیں ہیں۔ان کے ساتھ ناشائستہ سلوک کی کوئی روایت ہے نہ شکایت۔سرسبز نظاروں کے دوران اگر جوتے اتار دئے جائیں تو نیچے بچھا سبز قالین بہت نرمی سے پیش آئے گا اور نرم و تروتازہ گھاس کی تراوٹ آنکھوں میں سرائیت کرجائے گی۔ تیار رہیے تولی پیر کا سبز لبادہ اب سفید چادر میں بدلنے والا ہے۔ستمبر کے بعد تولی پیر کے موسم میں بھی تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اکتوبر کے بعد برفباری شروع ہو جائیگی اگرچہ برفباری کا موسم بھی تولی پیر کے حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ خراب راستے کی وجہ سے آپ کو تولی پیر پہنچنے کے لیے مشکلات درپیش آئیں گی۔پونچھ شہر کے نظارے کے بعد میں نے بچوں کے ساتھ دوڑ کے مقابلے کا اہتمام کیااور اس کے بعد پونچھ شہر کے سامنے ایک پہاڑ پر تکے بنانے شروع کیے وجہ یہ تھی کہ عبدالسمیع جب ساتھ ہو تو اس کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تولی پیر کی چراگاہ میں لوگوں کی اٹھکھیلیوں سے بے پرواہ گاہے بگاہے پالتو جانور بھی ملیں گے۔ کم و بیش دو گھنٹے بعد ہماری اگلی منزل تولی پیر کا بیس کیمپ تھا جہاں چھپر ہوٹل کی چائے آپ کی تھکاوٹ دور کرنے کاباعث بنی۔ چھپر ہوٹل کی بوسیدہ دیواریں دیکھ کر گھبرائیں مت پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر یہ چھپر ہوٹل بھی غنیمت ہے جہاں چائے اور،کھانا مل سکتا ہے ۔ بیس روپے کے عوض واش روم بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تولی پیر کی سیر کے بعدبنجواستہ جیل کا نیلگوں پانی ہماری آنکھوں کو خیرہ کررہا تھاشام کے سائے اور پھر رات کا گہرا ہوتا اندھیراہمارے قافلے کا رخ راولاکوٹ شہر کی طرف موڑنے کا باعث بنا۔سفرتولی پیر کے اختتام پر ایک نئی روایت کا سامنا کرنا پڑا۔ راولاکوٹ کے نواحی گاوں میدان میں عزیزم نجیب قدیر کی شادی میں پہنچا تو حیرت زدہ ہوا ،کشمیر کی آزادی کے نام پر تقریر ہوئیں ، مشاعرہ اور پھر بزم قوالی بھی ہوئی۔ بیلجیم میں مقیم قوم پرست رہنماء خلیل احمد حبیب، روف کشمیری ، صابر کشمیر ی اور دوسرے احباب موجود تھے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50308 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More