پانامہ کا ہنگامہ۔۔۔۔۔!!

 جب سے وطن عزیز معرض ِوجود میں آیا ہے اسے نت نئے بحرانوں کا سامنا رہا ہے،کبھی بھارتی جارحیت کا سامنا کرنا پڑاتو کبھی ’’اتحادیوں کی یاری ‘‘ نبھانے کا خمیازہ بھگتنا پڑا،کبھی انتظامی بحران کاتوکبھی معاشی بحران کا ،کبھی دہشتگردی کی لہر کا تو فرقہ واریت کے نا سور کا،کبھی فوجی آمریت کا تو کبھی جمہوری آمریت کا ۔ویسے تو ’’جمہوریت ‘‘سے مراد ’’جمہور یعنی عوام کی حکومت ‘‘کے ہوتے ہیں :
(Government of the People, By the People, For the People)

مگر ہمارے ہاں چونکہ ہر ایک چیزکی اپنی’’ اصطلاح‘‘ہوتی اس لئے یہاں اس کے اصطلاحی معنی کچھ اور ہی لیے جاتے ہیں،تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمیں جمہوریت بھی اصلی نہیں ملی ،دیگر اشیاء کی طرح ہمیں جمہوریت بھی ’’ملاوٹ شدہ ‘‘ملی ،کبھی اس میں اداروں نے ملاوٹ کی تو کبھی بادشاہی و جاگیردرانہ سوچ نے ، کبھی پیسے کی حوص نے ملاوٹ کی تو کبھی اخلاقی اقدار کے فقدان نے ۔پاکستان کا شائد ہی کوئی ادارہ ہو گا جو اس ’’ملاوٹ ‘‘سے محفوظ رہا ہو گا ۔ہم جھوٹ بھی ایسے فخر اور ڈٹائی سے بولتے ہیں کہ وہ بھی سچ لگنے لگتا ہے اورہماری سیدھی سادھی عوام اس جھوٹ کو بھی الیکشن مہم میں کئے گئے وعدے کی طرح سچ سمجھنے لگتی ہے۔ یہی صورتحال آج کل ’’پانامہ لیکس‘‘ کے ایشو پر ہے ، اپوزیشن حکومت کو کرپٹ کہہ رہی ہے اور حکومت اپوزیشن کو ۔ جمہوریت میں ایسا بلکل نہیں ہوتا۔ جمہوری طرز ِ حکومت میں حکمران پارلیمنٹ اور عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں ،یہ نہیں کہا جا سکتا کہ’’ اپوزیشن کون ہوتی ہے وزیر اعظم سے سوال کرنے والی ‘‘،جن ممالک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت ہے وہاں کوئی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی کوئی ’’مقدس گائے ‘‘ہوتی ہے۔ جمہوریت میں قومی ادارے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں ،محتسب ادارے صدرو وزیراعظم سمیت کسی کا بھی احتساب کر سکتے ہیں ،کوئی فرد اور ادارہ قانون سے بالا تر نہیں سمجھا جاتا ، حکومت افراد یا اداروں پر الزام نہیں لگاتی بلکہ کسی ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر، وسیع تر قومی مفاد میں بلاتفریق احتساب کرتی ہے اور ہر ملزم کوکٹہرے میں لاتی ہے ۔ہمارے ہاں طرزِ حکمرانی کچھ ایسا اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر گزری ہوئی حکومت ،آنیوالی حکومت سے بہتر نظر آنے لگتی ہے ۔ مضبوط اپوزیشن ملک میں استحکام ِ جمہوریت کی راہ ہموار کرتی ہے ۔

’’پانامہ لیکس ‘‘کے انکشافات نے جہاں پوری دنیاپر اپنے ’’اثرات‘‘مرتب کئے ہیں وہاں پاکستان بھی اس ایشو سے نہیں بچ سکا بلکہ اگر یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس ایشو نے پاکستان میں توہر طرف ’’ہنگامہ ‘‘برپا کر دیا ہے ،ہر سُو’’ چورچور،کرپٹ کرپٹ‘‘ کی صدائیں لگ رہی ہیں ، عام آدمی ان صداؤں کی بھر مار سے صحیح اور غلط کے فرق سے بھی قاصرہو کر رہ گیا ہے،اس صورتحال سے ایک قصہ یاد آرہا ہے :

’’ایک گاؤں میں ایک فسادی ذہنیت کی عورت رہتی تھی جو بہت لڑاکی تھی،آئے روز کسی نہ کسی سے جھگڑا کرنااس کا معمول تھا ، دوسرے لفظوں میں، وہ لڑائی مول لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی۔ اس کی جب بھی کسی سے لڑائی ہوتی وہ اپنے حریف کی ماں بہن ایک کر دیتی اور طرح طرح کے بہتان لگاتی ،اس کی ایک دو سہیلی بھی تھی جن سے وہ حقیقت بیان کر دیتی تھی ۔ایک بار اس کی محلے کے ایک نہایت ہی نیک گھرانے سے جھگڑا ہو گیا ،اس عورت نے حسب ِ معمول اپنے حریف پر طرح طرح کے بہتان لگائے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا ۔ جب اس کی سہیلیوں نے دریافت کیا کہ تم نے آج لڑائی میں ان کی نیک اور شریف النفس بیٹیوں کے بارے میں جو’’انکشافات‘‘ کیے ہیں ، ان کاتوحقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس عورت نے کہا کہ یہ تو تم جانتی ہو نا۔۔۔! جب بھی کسی سے لڑائی جھگڑاہو جائے تو اپنے حریف کو جیسے بھی ممکن ہوایسا’’سبق ‘‘ سکھاؤکہ آئندہ وہ آپ سے ’’پنگا‘‘ لینے کی جرأت نہ کرے ، لڑائی سننے والوں میں سے کچھ نہ کچھ تو جھوٹ کوحقیقت سمجھ ہی لیں گے ‘‘۔

تقریباً پچھلے پانچ چھ ماہ سے ہمارے ملک میں بھی اس قسم کی ہی صورتحال ہے ،جھوٹ،بہتان،الزامات اور دیگر القابات سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ حکومت کسی صورت بھی اپنے احتساب پر راضی ہوتی نظر نہیں آرہی ،حالانکہ اگر آپ سچے ہیں اور آپ نے کسی قسم کی چوری نہیں کی تو پھر ’’تلاشی‘‘ دینے میں کیا حرج ہے؟ بہرحال یہ بات اب کافی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے ،تبھی تو حکومت احتساب سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے ،تحقیقات کے بعد(اگر ہوئی تو)پتہ چلے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا تھا یا ساری دال ہی کالی تھی ‘‘۔حکومت پر اس سلسلے میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے،حکومت کو چاہیے کہ ’’مٹی پاؤ ‘‘ اور ’’معاملہ لٹکاؤ‘‘ کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھے ،آئے روز کے احتجاج ،دھرنوں ،جلسے ،جلوسوں اور ریلیوں سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد اپنے آپ کو بلا کسی ’’پیشگی شرائط‘‘احتساب کے لئے پیش کریں ،اس کے بعدتمام دیگر سیاسی قیادت بشمول عمران خان ،آصف زرداری و دیگر کو چاہیے کہ اپنے آپ کو کٹہرے میں لاکھڑا کریں اور پھر بلا تفریق احتساب ہو ، کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے ۔
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89563 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.