آخری عہدِ مغلیہ میں اردو شاعری

 نو آبادیاتی نظام کی آگ میں جلنے والے آفت زدہ علاقوں کی راکھ کو جب بھی کریدا جائے ایام گزشتہ کی اذیت و عقوبت کے دہکتے شرارے اپنی حدت اور شدت کا احساس دلاتے ہیں ۔بر عظیم کی تاریخ کا یہ الم ناک دور جو نوے سال پر محیط ہے کشتِ دہقاں اور تخت و تاج لُوٹنے کی ظلم و جور کی ایسی الم ناک داستان ہے جس کا دفاع ممکن ہی نہیں۔ بر صغیر کو برطانوی نو آبادی کی شکل دینا فسطائی جبر کی ایسی سازش تھی جس کے نتیجے میں تاجروں کے روپ میں آنے والے بر طانوی تاجروں نے اپنے مکر کی چالوں اور عیاری کے حربوں سے تاجوروں کا روپ دھار لیا اور پُوری مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ۔ان مفاد پر ست استحصالی عناصر نے عنان ِ اقتدار سنبھال کر اس خطے کے مظلوم و مجبور عوام پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔برطانوی ہوسِ ملک گیری کا یہ احوال تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ظلم و استبداد ،استعمار ،استحصال اور نو آبادیاتی نظام کی داغ بیل اس عہد میں پڑی جب اس خطے میں مغل شہنشاہ جہانگیر (عہد حکومت :پندرہ اکتوبر 1605تا سات نومبر 1627) کا سکہ چلتا تھا۔یہ مطلق العنان بادشاہ اس وقت علی قلی خان(شیر افگن) کی بیوی نور جہاں کو بیوگی کی چادر اوڑھانے کے بعد ملکۂ ہند بنا کر اس کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بن چکا تھا۔برطانوی بحری جہاز ہیکڑکا کما نڈر ہا کنز HAWKINS)) وسط اپریل 1609 میں آگرہ میں مغل شہنشاہ نو ر الدین جہا نگیر کے دربار میں حاضر ہوا(1)۔مستقبل کے حالات سے بے خبر مغل شہنشاہ جہا نگیر (مرزا نور الدین بیگ محمد خان سلیم )نے اس طالع آزما اور مہم جُو انگریز تاجرکا پر تپاک استقبال کیا۔وادیٔ خیال میں مستانہ وار گُھومنے کا عادی مغل شہنشاہ جہانگیر (پیدائش:20.9.1569وفات:8.11.1627)جس کے ساتھ انار کلی اور نو ر جہاں جیسی حسن و رومان کی متعدد داستانیں منسوب ہیں،حالات کی سنگینی سے بے خبر تھا ۔جہانگیر نے تو فی الفور ہاکنز کو کچھ تجارتی مراعات دے دیں لیکن شاہی دربار میں موجود با اثر پر تگیزوں نے شہنشاہ کے اس اقدام پر زبر دست احتجاج کیا جس کے نتیجے میں یہ مرا عات واپس لے لی گئیں۔برطانوی تاجروں کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رہااور مغلیہ دربار میں موجود ضمیر فروش عناصر نے بعض پست نوعیت کے ذاتی مفادات کی ہوس میں قومی حمیت اور ملکی مفاد کو داؤ پر لگانے میں تامل نہ کیا ۔اس کے نتیجے میں مئی 1609 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجا رتی مراعات کے نئے احکا مات مل گئے ۔ اس تجارتی دوڑ دھوپ کا سبب یہ تھا کہ ستمبر 1599 میں بر طانیہ کے مقتدر حلقوں نے یہ طے کر لیا کہ ہندوستان کے ساتھ براہِ راست تجارت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دُور کر کے ہر حال میں برطانوی حکومت کے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔اس مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لندن میں برطانوی لارڈ مئیر کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس میں یہ قرارداد منظور ہوئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہندوستان سے براہِ راست تجارت کے فروغ کی خاطر ایک با اختیار، مؤثر اور فعال ایسوسی ایشن کا قیام وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اکتیس دسمبر سال 1600کو بر طانیہ کی ملکہ الزبتھ اول(عہد حکومت :سترہ نومبر 1558تاچوبیس مارچ1603)نے ایسٹ انڈیز میں گورنر اور لندن کے سوداگروں کو چارٹر دیا۔بر عظیم پاک و ہند میں یورپی اقوام کے سبز قدم تاجروں کی روپ میں پڑے۔اس گلشن میں یہ بُوم ،شِپر ،کرگس اور زاغ و زغن کیا آئے کہ ہر شاخ پر چغد نے مستقل طور پر بسیرا کر لیا ۔تاجروں کے روپ میں آنے والوں کے گھناؤنے جرائم،مکر کی چالوں ،فسطائی جبر ،موقع پر ستی،مہم جُوئی اور ہوسِ ملک گیری نے انھیں اخلاقی پستی کی جانب دھکیل دیا اور انھوں نے مقامی سیاست میں ٹانگ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

بادی النظر میں تو یورپی ممالک سے جو تاجر بر صغیر میں تجارت کی غرض سے پہنچے مگر حقیقت میں اُن کے عزائم کچھ اور تھے۔واسکوڈے گاما (B:1460,D:1524)نے جب بیس مئی 1498کو کالی کٹ میں اپنا سبز قدم رکھا تو اسی روز سے اس سر سبز و شاداب خطے کی تمام رُتیں بے ثمر ہونے کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن دور کا آغاز ہو گیا۔گلشنِ ہند جہاں گلاب ،یاسمین، چنبیلی ،موتیا، اثمار و اشجار اور بُور لدے چھتنار کثرت سے پائے جاتے تھے وہاں حنظل، کریروں،پوہلی،دھتورا،پُٹھ کنڈا، اکڑا،لیدھا،جوانہہ،لیہہ، کانگیہاری،پاپڑا،گنار،الونک ،اکروڑی، باتھو،تاندلہ ،لانی، اور زقوم کی فراوانی ہو گئی ۔تاجروں کے رُوپ میں آنے والے ان مہم جُو ،طالع آزمااور موقع پرست عناصر نے بے شرمی ،ڈھٹائی اور بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے مقامی باشندوں کی توہین،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کو وتیرہ بنا لیا ۔مقامی سیاست میں ان کے دخیل ہونے سے سلطانیٔ جمہور کو بے دخل کرنے کے قبیح کام کا آغاز ہو گیا۔انسانیت اور اخلا ق سے عاری ان تاجروں نے اپنے رسوائے زمانہ فریب ’’لڑاؤ اور حکومت کر و ‘‘ کے وار سے بر صغیر کی وحدت اور ملی تشخص کے شجرِ سایہ دار پر آری چلادی اور یہاں کی جائز حکومت کو ناجائز حربوں سے غیر مستحکم کیا۔بر صغیر میں پر تگیزوں کا قیام برطانوی طالع آزماؤں کے دِل میں کا نٹے کی طرح کھٹکتا تھا وہ انھیں نکال کر خود بلا شرکتِ غیرے یہاں کے تمام وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔بر صغیر میں پر تگیزوں سے ہر شعبے میں سبقت لے جانے اور ان سے بہتر مراعات کے حصول اور زیادہ مفادات کی جستجو کی خاطر بر طانوی شہنشاہ جیمز اول (عہد حکومت :چوبیس جولائی،1567تاستائیس مارچ،1625)نے ستمبر 1615کے وسط میں سر تھامس رو(Sir Thomas Roe,B:1581,D:1644)کا تقرر بہ حیثیت سفیر کیا اور اسے ہندوستان روانہ کیا تاکہ تجارتی مراعات حاصل کی جا سکیں۔ اس سے قبل تھامس رو 1583سے 1619تک کے عرصے میں بر صغیر کے کئی سفر کر چکا تھا اور مقامی حالات سے اچھی طرح با خبر تھا۔اپنے عہد کا ہو شیار سفارت کارتھامس رو سال1615میں اجمیر میں مغل شہنشاہ جہانگیر دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔بر صغیر میں تین سال قیام کے دوران تھامس رو نے شاہی خاندان کے متعدد اہم افراد کو اپنا ہم نوا بنا لیا جن میں خرم،خسرو اور آصف خان شامل تھے۔اس عرصے میں سر تھامس رو نے شاہی دربار میں موجود کئی آستین کے سانپ اور سانپ تلے کے بچھو تلاش کر لیے جن کی مد دسے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا۔ 1719کے ماہ فروری میں جب وہ واپس انگلستان روانہ ہوا تو بے حد مطمئن و مسرور تھا۔ اس نے سورت،آگرہ،احمد آباد اور بروچ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک مضبوط و مستحکم تجارتی کمپنی کی حیثیت سے اس قدر فعال بنا دیا کہ مستقبل قریب میں اس تجارتی کمپنی کے سیاسی اور معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ قوموں کی تقدیر کی خرید و فروخت کے سودے اور اس قدر ارزاں کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔تاریخ کے طالب علم وقت کے اس سانحہ کو کسی نام سے تعبیر کرنے سے قاصر ہیں ۔برطانیہ کے شہنشاہ چارلس دوم کی شادی جب کیتھرین سے ہوئی تو شادی کے مو قع پر چارلس دوم نے پر تگیزوں سے جزیرہ ممبئی اپنی ملکہ کے جہیز میں وصول کر لیا ۔(2)۔یہ شادی تئیس جون سال 1661کو انجام پائی۔ممبئی بر عظیم پاک و ہند کا وہ پہلا شہر ہے جو براہِ راست شہنشاہ انگلستان کی ملکیت میں آیا۔بر طانیہ کے شاہی خاندان نے تئیس ستمبر سال 1668 کوممبئی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو پٹے پر دے دیا ۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 1730تک بر طانیہ کا شاہی خاندان کرائے کی رقم با قاعدگی کے ساتھ وصول کرتا رہا ۔مدراس کی بندرگاہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سال1639میں پونا ملے کی ہندو راجہ وینکٹ دری نائک سے پٹے پر حاصل کی۔(3)نو آبادیاتی نظام اپنے ساتھ مقامی تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ کی بربادی کا پیغام لایا۔حالات کے جبر کے شکار بر عظیم کے مقامی با شندوں نے زندگی کی اقدارِ عالیہ پر جس وقت جبر کے تیشے چلتے دیکھے تو انھوں نے نا چار صبر کے بیشے زادِ راہ بنائے۔بر طانوی تاجروں نے پر تگیزوں کے ساتھ گوا کنونشن کے تحت سال 1635سے تعلقات کار قائم کر رکھے تھے۔ جنوبی ہندوستان میں مالا بار کے ساحلی علاقوں میں انگریزوں نے اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کر دیااور مالا بار کے ساحل پر انگریزوں کے تجارتی بحری جہاز کثرت سے آنے لگے۔نو آبادیاتی نظام کے تحت برطانوی سامراج نے بر عظیم کے وسائل کی لُوٹ کھسوٹ کی انتہا کر دی۔جب بر طانوی تاجروں نے یہ محسوس کیا کہ سورت کا علاقہ طاقت ور مر ہٹہ سردار سیوا جی کے پے در پے حملوں کے باعث غیر محفوظ بن چکا ہے تو انھوں نے ممبئی کا رخ کیا ۔یہاں پہنچ کر انھوں نے سُکھ کاسانس لیا کیونکہ یہاں وہ اپنے تمام سیاسی مخالفین( جن میں مغل حاکم بھی شامل تھے )کی سرکوبی سے محفوظ ہو گئے تھے۔اب سورت کے بجائے ممبئی ہی برطانوی تاجروں کی سر گرمیوں کا مرکز بن گیا اور اس کے ساتھ ہی پریذیڈنسی بھی سورت سے ممبئی منتقل کر دی گئی۔بیرونی ممالک کی آزادی اور خود مختاری سلب کر کے انھیں اپنے تابع اور باج گزار بنانابرطانوی سامراج کا وتیرہ بن گیا تھا۔

دکن میں حصول اقتدار،جلبِ منفعت،ہوس جا ہ و منصب اور زر و زمین کے حصول کی جو شر م ناک و شاطرانہ کشمکش انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان شروع ہوئی اس کے با عث یہ علا قہ رفتہ رفتہ امن و سکون سے محروم ہو گیا ۔مقامی لوگ استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں اور لُوٹ کھسوٹ کے باعث مفلوک الحال ہو گئے۔ بے بس و لاچار مظلوم وبے نوا مجبور انسا نوں پر استحصال پسند سا مراجی طاقتوں نے انتہا ئی فلا کت کی لعنت مسلط کردی ۔ ظلم و بیداد گری کا ایک ایسا لرزہ خیز دور شروع ہوا جس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جنوبی ہندوستان میں کر نا ٹک کی پہلی لڑائی(1746-1748) انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان ہندوستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں بلا شرکت غیر ے عمل دخل کے سلسلہ میں لڑی گئی ۔ مفادات کا یہ قبیح تصادم مقامی حکمرانوں کی داخلی خودمختاری،آزادی،وقار اورقومی وحدت و ملی تشخص پر کاری ضرب کے مترادف تھا۔فی الحقیقت اس جنگ نے مقامی حکمرانوں کی سیاسی قوت،عسکری صلاحیت اور ان کے اقتدار کا راز طشت از بام کر دیا۔ اقتضائے وقت کے مطابق بر صغیر کے مقتدر حلقوں کوبحری طاقت کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا۔ ہندوستانی افواج کے فرسودہ آلاتِ جنگ اور غیر موثر حربی قوت سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یورپی جنگی طریقے اور ساز وسامان بالخصوص بحری قوت ہندستانی ریاستوں کے عسکری نظام پر فوقیت رکھتی ہے۔

تاریخ کی خاصیت ہے کہ یہ سدا کٹھن، پر پیچ اور ناہموار راہوں پر رواں دواں رہتی ہے۔تاریخ کایہ عمل مستقل نوعیت کا ہوتاہے جو زندگی کو ہر دم جواں اور پیہم رواں رکھنے کی صلاحیت سے متمتع ہے۔یہ کبھی آہستہ خرام اور کبھی تیز گام ، کبھی یہ اپنے آپ کو اس انداز میں دہراتی ہے کہ گمان گزرتا ہے یہ پیچھے کی طرف جارہی ہے لیکن اس عمل کے پس ِپردہ بھی آگے بڑھنے کا راز مضمر ہوتا ہے۔ اس کی پیش قدمی کو پسپائی پر محمول کرنا ایک مہلک غلطی کے مترادف ہے اوراسی قسم کی غلطیاں قوموں کی تاریخ کے دھارے بدل دیا کرتی ہیں۔ برصغیر کی صورت میں انگریزوں کوایسا علاقہ ہاتھ آیا جس میں انھیں لوٹ مار کے وسیع مواقع میسر تھے ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے بر صغیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کرنے کی غرض سے طویل المدت منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کی نظریں محض تجارت تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ تجارت کی آڑ میں پورے ملک پراپنا غاصبانہ تسلط اور آمرانہ اقتدار قائم کرنے کے منصوبے بنا چکے تھے ۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 1616- 29 کے عرصہ میں ستائیس جہاز سورت سے لندن کے لیے500 ٹن سامان لے کر روانہ ہوئے اس کے بعد 1630 -44 کے دوران یہ تعداد اکیس رہ گئی ۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تجارت کے لیے جو نصب العین اپنایاوہ یہ تھا کہ تجارت صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب ہاتھ میں تلوار بھی ہو ۔ (4) کرناٹک کی دوسری لڑائی 1748-1754) ( اور تیسری لڑائی1756-1762) ( کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ظالمانہ استحصالی مفادات اور جابرانہ لُوٹ کھسوٹ کے حربوں میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ فرانسیسیی جوسال 1664سے تجارت کی غرض سے بر عظیم میں قدم جمانے کی شاطرانہ چالیں چل رہے تھے ،اب ان کے قدم اُکھڑنے لگے اور ان کا چل چلاؤ صاف نظر آتا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ دکن کے بحری راستوں پر انگریزوں کا قبضہ تھا ۔بحری راستوں پر انگریزوں کے غاصبانہ تسلط نے بساط سیاست ہی پلٹ دی ۔فرانسیسیوں کو سامان ِتجار ت اور جنگی سازو سامان کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ۔ایسا محسوس ہو تا تھا کہ اب ایک میان میں دو تلواریں کسی صورت میں نہیں سما سکتیں۔دو سامراجی طاقتوں میں سے ایک کی ہزیمت اور پسپائی نوشتۂ دیوار بن چُکی تھی۔اس کے بعد وہی ہوا جو اہلِ نظر سے مخفی نہ تھا ،انگریز اپنی روایتی کینہ پروری،عیاری،مکاری ،شاطرانہ چالوں،جنگی منصوبہ بندی،حربی بالا دستی،افرادی قوت اور وسائل کے باعث فرانسیسیوں کو نیچا دکھانے میں کا میاب ہو گئے اور بلا شرکتِ غیرے ہندوستان کے تمام قدرتی وسائل،زرعی مصنوعات اور زرو مال کو ہڑپ کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔یورپ کی استعماری طاقتوں نے جب بر عظیم کے وسائل کو دیکھا تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے میدان میں کُود پڑیں۔سال1598میں ہالینڈ کے رہنے والے ولندیزی تاجروں نے مہم جوئی کی خاطر ہندوستان کا رخ کیا۔انھیں بھی انگریزوں کے ہاتھوں ایسی منھ کی کھانا پڑی کہ وہ کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ یہ بات کالنقش فی الحجر ہے کہ بر عظیم میں جب پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تو اسی وقت یہاں دو قومی نظریے کے پنپنے کا آغاز ہو گیا۔سلطان محمود غزنوی(پیدائش: دو ۔ اکتو بر 971، وفات : تیس اپریل ،1030)نے بر عظیم کے طول و عرض میں صدیوں کے فرسودہ رسوم ورواج ،توہم پرستی ،بتوں سے اُمیدیں وابستہ کرنے ، دیوتاؤں اور مافوق الفطر ت عناصر کی سرابوں جیسی ہستی کے تصور کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے میں اہم کردار ادا کیا ۔بر عظیم میں جن مسلمان خاندانوں نے اپنے عہد حکومت میں اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ کی مساعی کو آگے بڑھایا ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

خاندان غلاماں:1206 تا1290،خاندان خلجی:1290تا1320،خاندان تغلق:1320تا1412،سید خاندان:1414تا1451،لودھی خاندان:1451تا1526

جولائی 1206کو قطب الدین ایبک نے جب دہلی میں ایک خود مختار مسلمان حکومت کی بنیار رکھی تو تاریخ کے اوراق میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ہی بر عظیم میں مسلمانوں کی حکومت مغلوں کے زوال تک جاری ر ہی ۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر کے روپ میں آنے والے دہشت گرد حملہ آوروں کی بر صغیر میں دیدہ دلیری روز بہ روز بڑھنے لگی۔ان کی شقاوت آمیز نا انصافیاں،بے رحمانہ مشقِ ستم اورظالمانہ استحصالی حربوں سے عوامی زندگی اجیرن ہو چکی تھی۔مقامی حکمرانوں کو یہ خاطر میں نہ لاتے تھے یہاں تک کہ 1688 میں انھوں نے بنگال کے گورنر شائستہ خان سے جھگڑا مول لے لیا ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ انگریز نوآبادیات کے گورنر نے جیمز دوم کو بھڑ کاکر مغل حکومت کے خلاف فوج کشی کا فیصلہ کرلیا۔ برصغیر کے حاجیوں کو راجہ داہر کے نقش قدم پر چلنے والوں نے بڑی بے دردی سے لوٹ لیا ۔ اس قسم کے انتہائی تشویش ناک حالات دیکھ کر مطلق العنان مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے غیظ و غضب کے عالم میں مجرموں کی سر کوبی کا فیصلہ کیا۔ سامراجی دہشت گردوں اور ان کے گماشتوں کو عبرت ناک سبق سکھانے کے لیے اس نے اپنی افواج کو انگریزوں کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا۔ سورت کی برطانوی فیکڑی مغل افواج نے چھین لی اور مغل دربار کی جانب سے تمام انگریز تاجروں کے انخلا کا حکم صادر ہوا۔انگریزوں نے اپنی روایتی مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذلیل ہوکر اورنگ زیب سے معافی مانگ لی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتا اہل کار وں کے حریصانہ منصوبوں اور ہوس ملک گیری میں روز بہ روزاضافہ ہورہاتھا ۔بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران نے فیصلہ کیا کہ دہلی میں مرکزی مغلیہ سلطنت کے حکمران سے ایک شاہی فرمان حاصل کیاجائے ۔مدراس کے گورنرپٹ(Pitt ) نے 1708 میں یہ نظریہ پیش کیا کہ مغلیہ دربار سے جو شاہی فرمان حاصل کیا جائے گا اس کی ذریعے مقامی اہل کاروں کی مداخلت کو روکنا آسان ہو جائے گا۔اس کا ارادہ تھا کہ شاہ عالم اول کے زمانے میں یہ تجویز دربار میں پیش کی جائے مگر شہنشاہ کی وفات اور اس کے بعد تخت نشینی کے قضیے کے باعث اس میں تاخیر ہوگئی ۔ فرخ سیئر جب سادات بارہہ کے تعاون اور سرپرستی سے تا ج و تخت پر قابض ہوگیا تو کمپنی کے نما ئندہ جان سرمن (Jhon Surmen ) کو 1714 میں دہلی روانہ کیا گیا۔یہ مذکرات وسط جوالائی 1717 تک جاری رہے ۔ ان کوششوں کو ولیم ہملٹن (William Hamiltan ) کی وجہ سے بہت تقویت حاصل ہوئی جوکہ مشن کے ساتھ ڈاکٹر کی حیثیت سے منسلک تھا ۔اس زمانے میں مغل شہنشاہ فرخ سیئر کوایک خطرناک بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ڈاکٹر ہملٹن نے مرض کی صحیح تشخیص کی اور اس کا بر وقت اور مؤثر علاج کر کے فرخ سیر کی جان بچائی۔فرخ سیر جب صحت یاب ہو گیا تو اس نے ممنونیت کے جذبات سے سر شار ہو کر اپنے معالج کی ہر بات تسلیم کیاور اسے منھ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا ۔اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈاکٹر ہملٹن نے فرخ سیر سے یہ استدعا کی کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو شاہی مراعات سے نوازے ۔

فرخ سیر نے اپنے معالج کی بات مانتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بے پناہ مراعات سے نوازا ۔فرخ سیر نے حیدر آباد،گجرات،بنگال،(جس میں بہار اور اڑیسہ بھی شامل تھے)کے تمام متعلقہ اہل کاروں کو حکم دیا کہ ان علاقوں میں انگریز تاجروں کو آزادانہ تجارت کے تمام حقوق حاصل ہوں گیاور ان کے کام میں کسی قسم کی مداخلت ہر گز نہ کی جائے۔بنگال کے ساتھ تجارت ہر قسم کے محصولات سے مستثنیٰ ہوگی اور اس پر کوئی واجبات وصول نہیں کیے جائیں گے تاہم شاہی خزانے کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے تین ہزار روپے سالانہ ادا کیے جائیں گے ۔ بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر تاجروں کو کلکتہ کے اِرد گِرد مزید علاقہ پٹے پر مِل گیا۔حید ر آباد کے سلسلے میں کافی عرصہ پہلے انگریزوں کو کسی قسم کے واجبات کے بغیر جو سہولیات حاصل تھیں وہ برقرار رکھی گئیں۔ گجرات جیسے خوش حال صوبے کے ساتھ تجارت سے برطانوی تاجر لاکھوں روپے سالانہ منافع کماتے تھے مگر فرخ سیر نے اندھے کی ریوڑیوں کی طرح مراعات صرف بر طانوی تاجروں میں بانٹنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دس ہزار روپے سالانہ ٹیکس کے عوض گجرات کے ساتھ تجارت کی کُھلی چھٹی دے دی۔جان سرمن کے وفد کی یہ سب کامیابیاں ڈاکٹرولیم ہملٹن کے فرخ سیر کے ساتھ ذاتی رابطوں کی مرہونِ منت ہیں۔فرخ سیر کی کور مغزی ،بے بصری اور جہالت مآبی کے باعث ایسٹ انڈیا کمپنی کو کُھل کھیلنے کا موقع مِل گیا۔فرخ سیر جیسے ظلِ تباہی بر عظیم کے مظلوم عوام کی شامت اعمال کی صورت میں قصر شاہی اور ایوانِ اقتدار میں گُھس چکے تھے۔ صرف قصرِ شاہی پر ہی موقوف نہیں انگریزوں کوبر صغیر میں کچھ ایسے ابن الوقت ،جو فروش گندم نما ،مارِ آستین اور نمک حرام غدار مِل گئے تھے جنھوں نے مسلمان حکمرانوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ کر انتہائی گھٹیا مقاصد کے حصول کی خاطرمِلّی وقار،قومی مفاد اور مادرِوطن کی عزت و ناموس کو داؤ پر لگا دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے ننگِ انسانیت ،بے شرم، بے ضمیر اور بے غیرت مسخروں کی پست ذہنیت اور انتہائی تباہ کُن خود غرضیوں اور ہوسِ جاہ و منصب کے شعلوں نے ایک عظیم الشان سلطنت کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔(5) ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی عزائم کُھل کر سامنے آ گئے اور اس کے با اختیار طبقے نے اپنی اس نو آبادی پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا آدم خور دیوِ استبداد تاجر کے رُوپ میں دندناتا رہا اور مقامی سیاست کی زبوں حالی پر بھی ہنہناتا رہا ۔جب مغلیہ سلطنت اپنے کور مغز حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشی کے باعث زوال کا شکار ہونے لگی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس موقع سے بھر پُور فائد اُٹھایااور ہندوستانی سیاست میں گہری دلچسپی لینا شروع کر دی۔(6) یہ پیر ِ تسمہ پابر عظیم کے عوام کی گردنوں سے ایسے چمٹے کہ مسلسل نوے برس تک عوام کا خون چوستے رہے۔

کلائیو کی شا طرانہ چالوں سے نہ صرف تختِ دہلی کے شاہِ شطرنج بل کہ راجوں، مہاراجوں ، گورنروں،صوبے داروں اور منصب داروں سب کو عملاً غیر مؤثر کر دیا تھا۔ کلائیو نے اپنی فوجی استعداد میں اضافہ کرکے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا یا ۔ ایک عام تجارتی کمپنی جس کا مقصد محض تجارت ہو، اسے جنگ و جدال میں اس طرح اُلجھا دیا گیا کہ بر طانوی استبداد کا حقیقی روپ سا منے آگیا۔ کر نا ٹک کی جنگوں میں انگریزوں اپنے یو رپی حریفوں کو سخت نقصان پہنچانے کے بعدان کے عزائم خاک میں ملا چکے تھے ۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمائے،عسکری طاقت ،قوت و ہیبت کی دھاک بیٹھ چُکی تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوس ملک گیری کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو کمپنی نے طاقت کے بل بوتے پر نہایت بے دردی اور سفاکی سے تہس نہس کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بظاہر توایک چارٹر ڈ تجارتی کمپنی کی حیثیت حاصل تھی مگر باطنِ ایام پر نظر رکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہ تھی کہ اس کے عزائم کچھ اور تھے۔اس کمپنی کی مثال ہاتھی کے دانتوں کی سی تھی جو کھانے کے اور ہوتے ہیں مگر دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔جب برطانوی تاجروں کا بر صغیر میں کِشتِ دہقاں ،صنعت و حرفت،قدرتی وسائل اور زرو مال کی لُوٹ کھسوٹ سے جی بھر گیا تو اُنھوں نے اس خطے کے تاج و تخت اور قصر و ایوان پر قابض ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔

دکن میں1724 سے حالات ابتر تھے ۔ دکن کا صوبے دار نظام الملک خود مختاری کا اعلان کرچکا تھا ۔ کرناٹک کا گورنر بھی خودمختار ہونے کا دعوے دار تھا ۔ پوری مملکت میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا ۔ حالت یہ تھی کہ چھوٹے چھوٹے حکمران اور قلعے دار اسی شجر سایہ دار کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف تھے جو ان کے سر پر سایہ فگن تھا،یہ اسی شاخ کو کاٹنے کی کوششوں میں لگے تھے جس پر ان کا آشیانہ تھا۔ مسلمان امرا کے ان ہلاکت آفریں جھگڑوں اور مکروہ سازشوں نے ان کی اجتماعی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ غیر ملکی تاجروں نے جب مقامی حالات کی یہ بگڑتی ہوئی صورت حال دیکھی تو اپنی تجارتی کوٹھیوں کو مضبوط او نا قابلِ تسخیر فوجی قلعوں میں تبدیل کرلیا ۔ بر صغیر کے مقامی لوگ جو حکمرانوں کی بد انتظامی اور نااہلی کے باعث اس دور میں غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے تھے برطانوی فوج میں ملازم ہوگئے ۔ المیہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جنھیں ناموس وطن کے لیے کٹ مرنا چاہیے تھا ان کی فکری پستی، ذہنی افلاس اور کور مغزی نے انھیں اس پست سطح تک پہنچا دیاکہ وہ استعماری و استبدادی قو توں کے آلۂ کا ر بن گئے اور نو آبادیاتی نظام کا شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ۔بنگال ،کرناٹک اور حیدر آباد دکن کے علاقوں میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی غاصبانہ پالیسی،ہوس ملک گیری،ظالمانہ استبدادی حربوں اور استعماری مہم جوئی سے ان علاقوں میں نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کیا۔سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی اقوام نے اپنے استحصالی ہتھکنڈوں سے مُردوں کے ساتھ شرط باندھ کر خواب خرگوش کے مزے لینے والے بر عظیم کے مقامی حکمرانوں اور مظلوم عوام کو معتوب و مغلوب کر کے بر صغیر میں اپنی مستحکم حکومت کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔ گلشنِ ہند میں عہدِ خزاں کے اس مسموم ماحول کے متعلق ہر شخص فرطِ غم سے نڈھال تھا مگر مسلسل شکستِ دِل کے باعث ہر طرف بے حسی کا عالم تھا۔ مورخ ای ۔پی ۔مون کا خیال ہے کہ یہیں سے بر صغیر کی بد قسمتی کا آغاز ہو تا ہے۔(7)تاریخ کے اس دور میں حساس انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا اس کے باعث عوام کا سینہ و دِل حسرت و یاس سے چھا گیا اور خوف و ہراس سے سب کی جان پہ بن آئی۔ہوائے جو رو ستم کے مسموم بگولوں ہر دِل کی کلی کو جس طرح جُھلسا دیا اس کا احوال تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔

1707میں جب اورنگ زیب نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا تو اس کی عمر نوے برس تھی۔ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں پُورابر عظیم مغلیہ سلطنت میں شامل تھا ۔اورنگ زیب کے طویل دور میں مستقبل کے حکمرانوں کی تربیت اور اس کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ اسی روز ہو گیا تھا جس دن اورنگ زیب نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھا۔(8)اس کے بعدجب اس کا بیٹا محمد معظم شاہ عالم اپنے دونوں بھائیوں کی زندگی کی شمع بجھانے کے بعد قصر ِ شاہی میں اپنے اقتدار کا چراغا ں کرنے گھس بیٹھا۔ تخت نشینی کے وقت وہ بھی ضعفِ پیری سے نڈھال تھا۔ اورنگ زیب کے اس کور مغز جانشین نے وسیع مغلیہ سلطنت کے استحکام کی طرف کوئی توجہ نہ دی اوررفتہ رفتہ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ متعدد صوبوں نے مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کر دیا اور اپنی الگ حکومت قائم کر لی۔محمد معظم شاہ عالم کے بعد ایک ذہنی قلاش جہاں دارشاہ اپنے حقیقی بھائیوں عظیم الشان،رفیع الشان اور خجستہ اخترجہاں شاہ کی زندگی کی شمع بجھانے کے بعد قصر ِ شاہی میں اقتدار کا جشن منانے جا پہنچا۔عملی زندگی میں بے عملی کو وتیرہ بنانے اور قوت ِ فیصلہ سے محروم دوپہر تک خواب استراحت کے مزے لینے والے اس شاہِ بے خبر کے عہدِ حکومت میں طوائفیں،کلاونت ڈُوم ،ڈھاری،بھانڈ ،بھڑوے،مسخرے، اجلاف و ارذال ،سفہا،مشکوک نسب کے درندے ،لُچے،شہدے،بھگتے،اُچکے ،تلنگے ،اُٹھائی گیرے اور چور قصر شاہی میں دخیل تھے۔ شاہ ِ شطرنج جہاں دار شاہ ایک رذیل جسم فروش طوائف لال کنور کا دیوانہ تھا ۔ اس نے لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر ملکۂ ہند بنایا اور بیش بہا زیورات ،ہیرے جواہرات اور سیم و زر کے علاوہ دو کروڑ روپے سالانہ لال کنور کے اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ۔لال کنور کے بے غیرت ،بے ضمیر اور سفلہ بھائی اور تمام قریبی رشتہ دار اعلیٰ عہدوں پر قابض ہو گئے۔لال کنور کے چچا زاد بھائی نعمت خان کلا ونت کو ملتان کا صوبے دار مقرر کیا گیا ۔اورنگ زیب کا پوتا جب لال کنور کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف رہتااورطوائفوں کے رشتے دار اعلی عہدوں پر فائز ہوگئے تو زاغوں کی تصرف میں عقابوں کے نشیمن وا لی بات حرف بہ حرف درست نظرآتی ہے۔جس قوم کی آغوشِ محبت میں شمشیر زن،شہسوار،نیزہ باز اور حق پرست پیدا ہوتے تھے اب اس کے اُجڑے گلستان میں زن مرید ،بد اطوار ،کبوتر باز اور زر پرست عام تھے۔ جن خیابانوں میں کاروانِ بہار خیمہ زن رہتا تھا وہاں خزاں نے مستقل طور پر ڈیرے ڈال لیے اور سمے کے سم کے ثمر نے ساری فضا مسموم کر دی۔ جہاں دار شاہ نے بادشاہت اور امارت کا وقار مٹی میں ملادیااور اخلاقیات کی دھجیاں اڑادیں ۔ لال کنور کے بھائی ہفت ہزاری اور پنج ہزاری کے مناصب پر غاصبانہ قابض ہو گئے، اس کی سہیلی زہرہ کنجڑن شاہی محل میں جا پہنچی اور سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی ۔شاہی محل میں سیاسی اور عسکری مسائل پر غور کرنے کے بجائے رقص اور مو سیقی کی محفلوں کا انعقاد روز کا معمول بن گیا ۔جہاں دار شاہ ، اس کے ساتا روہن ،رذیل طوائفیں اور رقاصائیں شراب کے نشے میں بد مست ہو کرفحش رقص پیش کرتیں توسب مے خوار بندِ قبا سے بے نیاز ہو کرشرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیتے اور ہوش و حواس کھو بیٹھتے۔اس عالم مد ہوشی میں جہاں دارشا ہ فرش ِ زمین پر اوندھے منھ پڑا ہوتا اورمحفل میں شریک سب رقاصائیں ،طوائفیں، عیاش ،بد معاش اور منشیات کے عادی اُسے ٹُھڈے مارتے اور قہقہے لگاتے اور جب شہنشاہِ ہند کے منصب پر غاصبانہ طور قابض اس مسخرے کی اس طرح دُرگت بنتی تو نام نہاد بادشاہ کی ہئیتِ کذائی دیکھ کر محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ جہاں دار شاہ کو لا ل کنور اور زہرہ کنجڑن چُلّو میں اُلو بنا دیتیں اور نام نہاد مطلق العنان بادشاہ اپنی اس قدر توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے باوجود ان رذیل جسم فروش طوائفوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ان کے سامنے ہنہناتا رہتا ۔بابر ،ہمایوں ،اکبر اور شاہ جہاں کے جاہ و جلال کی امین عظیم مغلیہ سلطنت کو بے شرمی،بے غیرتی، بے حسی،بے ضمیری،عیاشی،فحاشی اور جنسی جنون کے عفونت اور سڑاند سے لبریز گندے پانی کے جوہڑمیں غرق کرنے کے منحوس کام کا آغاز اسی ننگِ اسلاف بادشاہ کے دور میں ہوا۔انتظام سلطنت کو مکمل انہدام کے قریب پہنچانے کے بعدنا اہل حکمرانوں نے قومی کردار کو تہس نہس کر دیا ۔ذاتی وقار اور کردار سے عاری مقتدر طبقہ دربار میں موجود خانِ جاناں اور راسپوٹین قماش کے ہوس پرست بھڑووں کی ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے توفیقی ،بے برکتی اور خست و خجالت کے باعث زندگی کی اقدارِ عالیہ اور مسلمہ معائر اخلاق تحت الثریٰ میں جا پہنچے۔ جہاں دار شاہ کے عہد حکومت میں مظلوم رعایا پر جو کوہِ ستم ٹوٹاوہ تاریخ کا ایک لرزہ خیز باب ہے۔ایک مرتبہ لال کنور نے فرمائش کی کہ اس نے مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی بڑی کشتی دریا میں ڈوبتے کبھی نہیں دیکھی ۔ایک انتہائی بے حس ڈائن خون آشام چڑیل،ظالم اور رذیل طوائف کی احمقانہ خواہش کی تکمیل کی خاطر جہاں دار شاہ نے مسافروں سے بھری ایک بڑی کشتی کو دریا کی طوفانی لہروں کی منجدھار میں غرق کرنے کا حکم دیا ۔اس طرح کشتی میں سوار قسمت سے محروم بے گناہ مسافر وں کو موت کے منھ میں دھکیل دیا گیا ۔( 9) سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا لال کنور،زہرہ کنجڑن اور ان کے شریکِ جرم ساتھیوں نے یہ سانحہ دیکھ کر لذتِ ایذا حاصل کی ۔اس موقع پر لال کنور اور اس کی ہم جولیوں ،خانگیوں اور زناخیوں نے بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص کیا،بادشاہ اور اس کے بھڑوے مصاحب بھی ان سے پیچھے نہ رہے۔ جلد ہی دربار کے امرا اوربالخصوص بادشاہ گرسادات بارہہ نے فرخ سیر کو اپنے چچا کے مقابل لا کھڑا کیا جس نے فروری 1713میں جہاں دار شاہ کے دس ما ہ پر محیط قابلِ نفرت عہدِ حکومت کا خاتمہ کر کے بادشاہت پر قبضہ کر لیا۔ جہاں دار شاہ کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد فرخ سیر جب فتح کے شادیانے بجاتا ہوا دہلی میں وارد ہوا توسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے باعث عجیب ہولناک منظر تھا ۔ایک ہاتھی پر جہاں دار شاہ کا بریدہ سر جلاد نے نیزے کی نوک پر اُٹھا رکھا تھا اور دوسرے ہاتھی کی دُم کے ساتھ جہاں دار شاہ کا زخموں سے چُور جسم جس سے مسلسل خون رِس رہا تھا تار تار لباس میں لِپٹا تپتی ہوئی سنگلاخ زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا تھا ۔ ردائے خان پہنے ہوئیذوالفقار خان کی تیروں سے چھلنی اور مسخ شدہ لاش تیسرے ہاتھی کی دُم سے بندھی ہوئی تھی جو زمین پر مسلسل گھسٹنے کے باعث اپنی شناخت کھو نے لگی تھی۔ دہلی کے باشندے قسمت اور تقدیر کے یہ عبرت ناک انقلاب دیکھ کر محوِ حیرت تھے ۔(10)ابتدا میں تو فرخ سیر سید برادران کے سامنے کٹھ پتلی بن گیا لیکن جب اسے موہوم شاہی کی یاد آئی تو وہ مطلق العنان بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ اس نے بھی اپنے پیش رو کی طرح ظلم و ستم کو وتیرہ بنا لیا ۔اس گرگ نے تین مغل شہزادوں کو بینائی سے محروم کر دیا اور ایک شاعر (سید محمد جعفر زٹلی ) نے جب اس شاہ ِ حماقت پناہ اور ظلِ تباہی فرخ سیر کے بارے میں درجِ ذیل طنزیہ شعر کہاتو شاعر کے خلاف انتہائی سخت اقدام کا فیصلہ کر بیٹھا۔
سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہے تسمہ کش فرخ سئیر

حریتِ فکر کے مجاہد سید محمد جعفر زٹلی کا یہ شعر سن کرفرخ سئیر آگ بگولاہو گیا اور اس نے ایک زیرک اور جری شاعر کو تختۂ دار پر کھنچوا دیا ۔سید محمد جعفر زٹلی نے اپنی شاعری میں اپنے عہد کے حالات و واقعات کو نہایت بے باکی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے:
گیا اخلاص عالم سے عجب کچھ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجھ کچھ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری ،نہ بھائیوں میں وفاداری
محبت اُٹھ گئی ساری عجب کچھ دور آیا ہے
نہ بولے راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اُتاری شرم کی لوئی ،عجب کچھ دور آیا ہے

دہلی کے باشندے فرخ سیر جیسے بھڑوے ،خبیث خر اور عیاش کی موت کی دعا کرتے تھے ۔بادشاہ اس حقیقت کو فراموش کر چکا تھا کہ کبھی کبھی اونٹ بھی پہاڑ کے نیچے آ سکتا ہے اور بکرے کی ماں دیر تک اپنے بچے کی خیر نہیں منا سکتی آخر کار اس کی گردن تیز چُھری کے نیچے آجاتی ہے ۔ اس عہد کے اُردو شعرا نے اپنی شاعری میں حقائق کی ترجمانی کرتے ہوئے جبر کے خلاف ایک واضح لائحۂ عمل اختیار کیا اور آمریت کے خلاف اپنی نفرت کا بر ملا اظہار کیا ۔ سیاسی اور معاشرتی زبوں حالی کے باعث تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اردو شعرا نے ایک شان استغنا کے ساتھ حریتِ فکر کا علم بلند رکھا:
ولی دکنی (1667-1707)
حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو
اپنی خوبی کے اگر طالب ہو
اپنے طالب کوں جلایا نہ کرو
آزاد کو ں جہاں میں تعلق ہے جال محض
دل باندھنا کسی سوں دِل پر وبال محض
غنچے کے سر کوں دیکھ گریباں میں عندلیب
بولی ظہورِ خلق یو ہے انفعال محض
شیخ ظہور الدین حاتم(1783 - 1699)

شیخ ظہورالدین حاتمؔ نے پہلے ایہام گوئی کی تحریک کا ساتھ دیا لیکن جلد ہی انھوں نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو موضوع سخن بنالیا ۔ ان کی شاعری میں ذاتی تجربہ اور مشاہدہ اشعار کی تاثیر میں اضافہ کر تا ہے۔شا ہ حاتم ؔنے قحط الرجال کے اُس دور میں شہر آشوب لکھ کر زندگی کے تلخ حقائق سے پر دہ ہٹایا ہے۔ شاہ حاتم ؔکی شعری تخلیقات بالخصوص شہر آشوب کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ان کی حق گوئی کا معترف ہو نا پڑتا ہے۔
اس زما نے میں ہما را دل نہ ہوں کیوں کر اُداس
دیکھ کر احوالِ عالم اُڑتے جا تے ہیں حواس
کس کنے لے جا ئیں تیرے ظلم کی فر یاد ہم
تجھ سے ہی تیرے ستم کی چا ہتے ہیں داد ہم
شہوں کی بیچ عدالت کے کچھ نشا نی نہیں
امیروں بیچ سپاہی کی قدر دانی نہیں
بزرگو ں بیچ کہیں بوئے مہربانی نہیں
تواضع کھانے کی چاہو کہیں تو پانی نہیں
گویا جہاں سے جاتا رہا سخاوت و پیار
امیر زادے ہیں حیران اپنے حال کے بیچ
تھے آفتاب پر اب آگئے زوال کے بیچ
پھر یں ہیں چرخے سے ہر دن تلاشِ مال کے بیچ
وہی گھمنڈ امارت ہے پھر خیال کے بیچ
خدا جو چاہے تو پھر ہو پر اب تو ہے دشوار
کرے ہے چرخ اگر تجھ اوپر جفا حاتمؔ
تو سفلے پا س نہ کر جاکے التجا حاتمؔ
تیر ے ہے رزق کا ضامن سد ا خداحاتمؔ
تو انقلابِ زمانہ سے غم نہ کھا حاتمؔ
کہ تجھ کو رزق بہت اور روز گار ہزار

میر تقی میر ؔنے مغلوں کی زوال پذیر حکومت میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اوردرخشاں روایات کی زبوں حالی کی لرزہ خیز کیفیات اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں ۔تاریخ کے اس اعصاب شکن دور میں انسانیت پر جو کوہِ غم ٹوٹے اُنھیں دیکھ کر میر تقی میرؔتڑپ اُٹھے اوران کی شاعری دلی رنج ،کرب ،آہ اور زاری سے لبریز دکھائی دیتی ہے ۔رعایا فاقہ کشی کا شکار تھی ،شاہی خزانہ خالی تھا مگر بادشاہوں کی عیاشی میں کوئی فرق نہ آیا۔اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باعث مغلیہ سلطنت اور جاہ و جلال سب کچھ مکمل انہدام کے قریب پہنچ گیا۔آلام ِ روزگار سے نڈھال فاقہ کش رعایاخاک بہ سر اور در بہ در ٹھوکریں کھا رہی تھی مگر ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ حکومت اوراقتدار کا نشہ ہو ش و خرد پر بے حسی کا دبیز پردہ ڈال دیتا ہے ۔مطلق العنان بادشاہوں کے دور میں جب بے بس و لاچار ،مفلس و قلاش،بیمار و ناتواں اور زندہ در گور دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی دردِ دِل رکھنے والا درد آشنا مسیحا سامنے نہ آئے توتو پُورا سماجی اورمعاشرتی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے ۔کینہ پر ور ،حاسد،عادی دروغ گو،جو فروش گندم نما ،بگلا بھگت اور منافق لوگ اپنے منھ میاں مٹھو بن کر دوسروں کی عیب گیری اور تنقیص ِ بے جا کو اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں۔قریہ و بازار میں کالی بھیڑوں ،سفید کووں ،گندی مچھلیوں اور گندے انڈوں کی بھر مار ہو جاتی ہے ۔آخری عہدِ مغلیہ میں بڑے بڑے وضع داروں اور متوکلوں کو بھی جان کے لالے پڑ گئے اور اُن کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چُھوٹتا محسوس ہوا ۔میر تقی میر ؔکی شاعری میں اُس عہد کے کرب ناک حالات اور اذیت ناک ماحول کی جس حقیقت پسندانہ انداز میں لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اسے پڑھ کر قاری کے لیے گریہ ضبط کرنا محال ہو جاتاہے ۔تاریخ کی چشم کشا صداقتوں کا یہ احوال فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا ہے ۔ گو ان خضاب آلود بُڈھے کھوسٹ منافقوں کے ہاتھ میں جنبش نہیں ہوتی مگران کی حریص و غلیظ آنکھوں میں اس قدر دم ہوتا ہے کہ مہ جبیں حسیناؤ ں کو دیکھ کر رال ٹپکانے لگتے ہیں ۔ میر تقی میرؔ نے جامۂ ابو جہل میں ملبوس منافقوں کے مکر ،جنسی جنون اور ہوس کا پردہ فاش کیا اور ان کے قبیح کردار اور کریہہ حرکات کے خلاف حرفِ صداقت لکھنا اپنا شیوہ بنایا :
شیخ کو اِس بھی سن میں ہے گی ہوس
تنگ پوشی سے چولی جاوے چس
ہوئے گاسِن شریف ساٹھ برس
دانت ٹُوٹے گیا ہے کلا دھس
دیکھ رنڈی کوبہہ چلی ہے رال
دینے کو ہو کہیں ٹھکانا بھی
جود کو چاہیے زمانا بھی
یاں نہیں شہ کے گھر میں دانا بھی
کبھو ہوتا ہے پینا کھانا بھی
ورنہ بُھوکے رہے ہیں بیٹھے نڈھال

مرزا محمد رفیع سوداؔ(1713-1781) کی شاعری میں عصبیت ،تنگ نظری،منافقت اور انتہا پسندی پر گرفت کی گئی ہے ۔دہلی کے زوال پذیر معاشرے میں اخوت ،یگانگت ،خلوص ،دردمندی اور انسانی ہمدردی کی اسا س پر استوار مذہب کی ابد آشنا آفاقی تعلیمات کے بارے میں ابہام پیدا کر نے کی مذموم کوششی کی جانے لگیں۔اخلاقی زوال اور ذہنی پستی کا یہ حال تھا کہ مسلمہ صداقتوں اور حقائق کو خرافات کے سرابوں میں گُم کر دیا گیا ۔سوداؔ نے مذہبی، تہذیبی اورثقافتی تحفظ کو یقینی بنانے کی غرض سے بے سروپا مباحث کے تباہ کُن اثرات کے بارے میں متنبہ کیا۔
لشکر کے بیچ آج یہی قیل و قال ہے
کھانے کی چیز کھا نے کا سب کو خیال ہے
یوں دخل امرو نہی میں کر نا محال ہے
جو فقہ داں ہیں سب کا یہ اُن سے سوال ہے
اک مسخرہ یہ کہتا ہے کو ا حلال ہے
بگڑا ہے آج مجتہدوں بیچ کیا یہ نیل
ملا لطیف بولے کھانا روا ہے چیل
کہتا ہے چاندخاں کیاکن نے حرام فیل
حلت پہ مینڈکی میاں جی کی سو دلیل
اک مسخرہ یہ کہتا ہے کو ا حلال ہے

سوداؔکی شاعری میں آخری عہدِ مغلیہ کے الم ناک حالات کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ قاری کو اس دور کے بارے میں مثبت شعور و آگہی فراہم کرتی ہے۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے سودا ؔنے اپنے عہد کے حالات سے گہرے اثرات قبول کیے۔اگرچہ ان کے خیالات میں رنج و غم اور کرب موجود ہے مگر وہ مایوسی کی کوئی بات نہیں کرتے۔ان کی ہجویات میں طنز کا عنصر غالب ہے جسے فسطائی جبر ،ظالمانہ استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف بھر پور احتجاج اور للکار کی حیثیت حاصل ہے ۔اس عہد کے حالات و واقعات اور ان سے وابستہ عوامل کے بارے میں سوداؔ کا اسلوب ان کی جرأت اظہار کا عمدہ نمونہ ہے ۔ جبر سے مصلحت پر مبنی مصالحت یا الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرناسوداؔ کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔زبان و بیان پر ان کی قدرت ،اظہار و ابلاغ پر ان کی خلاقانہ دسترس اور جوشِ بیان سے ایسا سماں بندھ جاتا ہے کہ قاری ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے کی ان کی مساعی پر داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس دھوپ بھری دنیا میں تصنع ،مکر و فریب ،منافقت ،جعل سازی اور ہوس زر کی اسا س پر استوار سب خود ساختہ معائر سودا ؔ کی گل افشانی گفتار کے سیل رواں میں و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں۔
اب جہاں دیکھو واں جھمکا ہے
چور ہے، ٹھگ ہے، اُچکا ہے
کس طرح شہر کا نہ ہو یہ حال
شیدی فولاد اب جو ہے کتوال
شہر کے بیچ کیا کہوں میں اب
روزِ محشر کی دُھوم ہے ہر شب
خلق جب دیکھ کر کے یہ بیداد
کرتے ہیں کو توال سے فریاد
بولے ہے وہ کہ میں بھی ہوں ناچار
گرم ہے چوٹٹوں کااب بازار
یارو کچھ چل سکے ہے میرا زور
دیکھو توٹُک کہاں کہاں ہے چور
کس کو ماروں میں کس کو دوں گالی
چوری کرنے سے کون ہے خالی
مچ رہا ہے اب اس طرح کا سانگ
ہے خدا کے بھی گھرمیں چور کی تھانگ
بچ سکے کیونکہ اب کسی کی شے
ملا مسجد کا صبح خیز یا ہے
کریں انصاف اب جوان و پیر
کیا ہے اس میں بھلا مر ی تقصیر
رتبہ دُزدی کا اس قد ر ہے بلند
چرخ کے گھر پہ کہکشاں کی کمند

ولی محمد نظر اکبر آبادی(1725-1825) نے آخری عہدِ مغلیہ کی بد انتظامی اور طوائف الملوکی کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی قباحتوں کے خلاف بھر پور آواز بلند کی۔نظیر اکبر آبادی نے عوامی زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیااور وہ خود بھی اس تجربے کا حصہ بن گئے تھے۔مظلوم اور پس ماندہ طبقات کے جذبات و احساسات کو انھوں نے نہایت خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔فطرت کے اصولوں اور تقدیر کے سر بستہ رازوں کے بارے نظیر اکبر آبادی کے خیالات زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔رخشِ حیات مسلسل رو میں اس کی پُر اسرار انداز میں روانی عجیب کیفیات کی امین ہے ۔دامانِ نسیم سحر اور پرواز ِ شمیم سبزہ و گل کی رعنائیوں کو فنا کے رازوں سے آگا ہ کرتی رہتی ہیں۔حالات کی اس ستم ظریفی کو کیا کہیے کہ جس گلشن میں فصلِ گُل میں گُل فروشوں کی حسین اور دل کش آوازیں سنائی دیتی تھیں اب وہاں ضمیر فروشوں کا جمگھٹا تھا۔غریب لوگ بھیانک اور خُونیں ماحول میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِ ن پُورے کر رہے تھے۔ نظیر اکبر آبادی نے جبر کا ہر انداز مستر دکرتے ہوئے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر قرار دیا۔ نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں انسانی فطرت کے بارے میں نا میاتی تصور کو پیشِ نظر ر کھا ہے ۔ داخلی کیفیات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ،بیرونی اور خارجی عوامل کے ساتھ وابستگی اور ہم آہنگی کی ارفع کیفیات سے لبریز ان کی شاعری قاری کے فکر و خیال کی دنیا میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ :
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لُوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا
ہشیار یا ر جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں پائی جانے والی اشاریت کی کیفیت سے قاری کے ذہن میں ایساردعمل پیدا ہوتا ہے جو زندگی کی حرکت و حرارت کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتا ہے۔آخری عہدِ مغلیہ میں دہلی کے زوال پذیر معاشرے میں منافقت ،ریاکاری،دروغ گوئی،جعل سازی،پیمان شکنی اور ہوس نے اخلاقی اعتبار سے معاشرے کو مفلس و قلاش کر دیا تھا۔کٹار بند دہشت گردوں نے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کر دی تھی اور کوئی قوت ایسی نہ تھی جو ان پیشہ ور قاتلوں کو لگام ڈال سکتی۔ان الم ناک حالات میں تہذیب ِ نفس اوراخلاقی ضوابط کو پسِ پشت ڈال کر آدم خور درندے ،اُجرتی بد معاش ،سفہا ،اجلا ف و ارذال اورمشکوک نسب کے لُٹیرے ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔ اپنی شاعری میں نظیر اکبر آبادی نے فطری جذبات کی نمو ،جبلی کیفیات کی تحریک اور اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات کی جستجو پر توجہ مرکوز رکھی۔ مغلوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ہی معاشرتی زندگی میں اخلاقی زوال کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی نظام کے عدم توازن کے باعث پیدا ہونے والی اس ہولناک صورت ِحال کے بارے میں نظیر اکبر آبادی کی شاعری فکر و خیال پر دُوررس اثرات مرتب کرتی ہے:
کیوں کر بھلا نہ مانگیے اس وقت سے پناہ
محتاج ہو جو پھرنے لگے در بہ در سپاہ
تاں تک امیر زادے سپاہی ہوئے تباہ
جن کے جلو میں چلتے تھے ہاتھی و گھوڑے آہ
وہ دوڑتے ہیں اور کے پکڑے شکار بند
جتنے سپاہی یاں تھے نہ جانے کدھر گئے
دکھن تئیں نکل گئے یا پیش تر گئے
ہتھیار بیچ ،ہو کے گدا گھر بہ گھر گئے
جب گھوڑے بھالے والے بھی یوں در بہ در گئے
پھر کون پُوچھے اُن کو جو اب ہیں کٹا ر بند

نظیر اکبر آبادی نے مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سعیٔ پیہم کی مشعل فروزاں رکھنے کی راہ دکھائی۔ہوش و خرد،علم عمل اور اخلاقی اقدار کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔تہذیبی و تمدنی سطح پر نظیر اکبر آبادی کی یہ مساعی دلوں کو ایک نیا ولولہ عطا کرنے کا وسیلہ بن گئیں۔ظالم و سفاک بادشاہوں، طالع آزما اور مہم جُو استعماری طاقتوں ،ابن الوقت غداروں اور بیرونی حملہ آوروں نے جبین وطن پر جو کالک لگا دی تھی ،نظیر اکبر آبادی نے اسے الفاظ کے موتیوں سے صاف کرنے کی کوشش کی اور رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کر کے ظالموں کے خلا ف جد و جہد پر مائل کیااور واضح کر دیا کہ ظلم کی معیاد اور مظلوموں کی فریاد کے دِن تھوڑے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے مظلوموں کو یقین دلایا کہ فطرت کی سخت تعزیروں اور مکافاتِ عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔:
جو اور کا اُونچا بول کرے تو اس کا بول بھی بالا ہے
اور دے پٹکے تو اُس کو بھی کوئی اور پٹکنے والا ہے
بے ظلم وخطاجس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
اُس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندی نالا ہے
کچھ دیر نہیں،اندھیر نہیں،انصاف اور عدل پرستی ہے
اِس ہاتھ کرو،اُس ہاتھ مِلے،یاں سودا دست بہ دستی ہے
مفلسی
جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی
تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی
مجلس کی جُوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی
روٹیوں کی تعریف میں
پو چھا کسی نے یہ کسی کا مل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سُن کے بولا بابا خد ا تُجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے
کوئی کسی کا اور کسی کانہ کوئی ہے
سب کوئی اسی کا ہے جس ہا تھ ڈوئی ہے
نوکر، نفر ،غلام بناتی ہیں روٹیاں
انشا اﷲ خان انشا(1756-1817)

انشا اﷲ خان انشاؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے جمود کا خاتمہ کر کے ذہنی بیداری کا اہتمام کیا۔ آخری عہدِ مغلیہ میں شقی دِل اور گُرگ خُو استحصالی طبقے نے محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔مقتدر حلقوں نے ظالمانہ بے حسی اور مجرمانہ طرزِ تغافل کو اپنا شعار بنا لیا تھا اور مظلوموں کی داد رسی پر کبھی توجہ نہ دی۔قسمت سے محروم ان بے بس و لاچار انسانوں کے دِل کے مقتل میں ہزاروں حسرتوں، آرزوؤں اور امنگوں کا خون ہو تا مگربے حس معاشرے میں کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ تھا۔جب کوہِ غم گراں سے گراں تر ہوتا چلا جا رہا تھا اس وقت حریتِ فکر کے علم بردار اُردو شاعروں نے الم نصیب انسانوں کو سعی و عمل کے تیشے چمکانے پر آمادہ کیا تا کہ مصائب و آلام کی رات بیت جائے اور طلوع صبح بہاراں کا امکان پیدا ہو۔انشا اﷲ خان انشاؔ کی شاعری میں ہر قسم کی عصبیت اور تنگ نظر ی کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے ۔
کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
کہ چلے کعبے کے تم دیکھنے روڑے پتھر
اے بسا کہنہ عمارات مقابر جن کے
لوگوں نے چوب و چگل کے لیے توڑے پتھر
جاؤ اے شیخ و برہمن حرم و دیر کو تم
بھائی بیزار ہیں ہم،ہم نے یہ چھوڑے پتھر

آخری عہدِ مغلیہ میں فرخ سیرنے بادشاہ گر سید برادران کے چُنگل سے بچ نکلنے کی کوشش کی تو وہ ان مکار اور طاقت ور امرا کے غیظ و غضب اور عتاب کا نشانہ بن گیا ۔اپریل 1719میں جب سید برادران نے فرخ سیر کو تاج و تخت سے محروم کیا تو شہنشاہ ہند کو ایک بے وقعت ملزم کی حیثیت سے پا بہ جولاں لا ل قلعہ سے نکالا گیا۔اس موقع پر فرخ سیر کی معمر ماں ،بہنیں اور مغل شہزادیاں گریہ و زاری کر کے دست بستہ رحم کی التجا کر رہی تھیں ۔ طالع آزما اور مہم جُوسید برادران کے پروردہ شقی القلب دہشت گرد،نمک حرام لُٹیرے، اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور قاتل معزول بادشاہ فرخ سیر کو مغل شہزادیوں کے گھیرے میں سے گھسیٹ کر باہر نکال لائے اور اور اسے ایک تنگ و تاریک کال کوٹھڑی میں محبوس کر دیا جہاں اسے اندھا کرنے کے بعد اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد عالم گیر ثانی اور شاہ عالم ثانی کا دور مغلیہ سلطنت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔رفتہ رفتہ مغلیہ حکومت کا رہا سہا وقار اور بچا کھچا رعب و جلال خاک میں مِل گیا اور ان جعل ساز کٹھ پُتلی حکمرانوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے قومی وقار کی دھجیاں اُڑا دیں۔سید برادران کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ یہ بادشاہ گر جس شہزادے کو جوتا مارتے وہ قصر شاہی میں مسند اقتدار پر فائز ہو جاتا۔حیف صد حیف کہ جن بد اندیش اور بد اعمال عناصر کا مقام تختہ تھا وہ لال قلعہ میں تخت طاؤس پر برا جمان ہو گئے۔سید برادران کی رعونت اب حد سے بڑھنے لگی تھی ،ایک دن حسین علی نے سر عام یہ بات کہی ’’میں وہ ہوں کہ جس شہزادے کو جُوتی ماردوں وہ بادشاہ بن جائے‘ ‘(11) ۔ان بادشاہ گر سادات کی ریشہ دوانیوں کا انداز ہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹھارہ فروری 1719سے چودہ اگست 1719تک کے مختصر عرصے میں تین کٹھ پُتلی بادشاہوں کو تختِ طاؤس پر بٹھایا گیا اور پھر ان نام نہاد بادشاہوں کو بے نیلِ مرام لا ل قلعہ سے نکال کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اب فطرت کی انتہائی سخت تعزیریں سید برادران کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جب ان فراعنہ نے روشن اختر (محمد شاہ رنگیلا)کو بادشاہ بنایا تو حالات کا رخ بدل گیا اور ان مغرور بادشاہ گر سادات کے ستارے گردش میں آ گئے۔محمد شاہ سدا رنگیلا نے اٹھائیس برس تک(1719-1748) بر عظیم کے مجبور عوام کے چام کے دام چلائے ۔محمد شاہ رنگیلا جب تختِ طاؤس پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں کام یاب ہو گیا ،تو دربار میں نظام الملک آصف جاہ جیسے زیرک ،فعال اور مستعد مشیر موجود تھے مگر المیہ یہ ہوا کہ ملک بھر کے سفہا،اجلاف و ارذال ،مشکوک نسب کے بھڑوے ،مسخرے،لُچے ،شہدے اور تلنگے بھی دربار میں گُھس بیٹھے تھے ۔یہ ننگ ِ انسانیت ،مفاد پرست ،ابن الوقت ،تھالی کے بینگن ،چکنے گھڑے ،بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے رسیا فصلی بٹیرے،لوٹے اور لُٹیرے امورِ سلطنت کی بہ طریقِ احسن انجام دہی میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو گئے۔اس قماش کے نا ہنجار ،عیار اور غدار درندوں نے قومی وقار ،مِلی حمیت اورانسانی عظمت کے معائر کی دھجیاں اُڑا دیں اوراپنا اُلو سیدھا کرنے کی غرض سے تما م اخلاقی حدوں کو پار کر گئے۔ اس کٹھ پُتلی بادشاہ کے ساتھ قسمت نے یاوری کی اور اس نے 1720میں سادات بارہہ سے نجات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔حسین علی کو 1720میں فتح پور سیکری کے قریب قتل کر دیا گیا اور حسن علی کو 1722میں زہر دے دیا گیا ۔یہ سب کچھ سمے کے سم کا ثمر تھا جوحالات کی ز دمیں آنے والے بادشاہ گر سادات بارہہ کا مقدر بن گیا تھا۔سادات بارہہ جب فطرت کی تعزیروں کی زد میں آگئے تو محمد شاہ رنگیلا ایک رذیل رقاصہ اور بدنام جسم فروش طوائف کوکی جیو اور خواجہ سرا خدمت گار خان کے چُنگل میں پھنس گیااور ان کے اشاروں پر ناچنے لگا۔اسی عہد میں نظام الملک نے 1725میں دکن میں اپنی الگ حکومت قائم کر لی۔مرہٹوں کے ساتھ طویل جنگوں نے مرکزی حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔مر ہٹوں کی سر کشی مغل حکومت کے لیے دردِ سر بن گئی تھی ۔باجی راؤ نے علم بغاوت بلند کیا اور 1738میں دہلی پر دھاوا بول دیا اور محمد شاہ رنگیلا سے اپنی من مانی شرائط پر صلح کی اور واپس روانہ ہوا۔اسی دوران نادر شاہ نے 1739میں دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔13فروری1739صبح نو بجے سے لے کر سہ پہر دو بجے تک نادر شاہ کے حکم پر دہلی میں نہتے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی جس میں تیس ہزار انسان موت کے گھاٹ اُتار دئیے گئے۔نادر شاہ نے لوٹ مار کی انتہا کر دی اور تخت طاؤس،کوہ نور ہیرا،ستر کروڑ روپیہ نقد اورپندرہ کروڑ روپیہ تاوان جنگ لیا۔شاہی خزانہ خالی ہو گیا اور بادشاہوں نے اپنی عیاشی کے لیے زرومال بٹورنے کے ہر حربہ استعمال کیا۔ اس سانحے پر تاباں نے کہاتھا :
داغ ہے حملہ ٔ نادر سے مرا دِل تاباں
نہیں مقدور کہ جا چھین لوں تختِ طاؤس

جہاں دار شاہ کے بیٹے عزیز الدین عالم گیر ثانی(عہد حکومت :دو جون 1754تا انتیس نومبر 1759) نے جب اقتدار سنبھالا تو اس کی عمر پچپن سال تھی۔دس مئی 1758کو اس بادشاہ کے لیے سواری دستیاب نہ تھی اور ظلِ تباہی کو قصر ِ شاہی سے مسجد تک پیدل سفر کر نا پڑا۔شہزادہ علی گوہر(شاہ عالم ثانی) کا دیوان شاکرخان روایت کرتا ہے کہ ایک دِن خیرات خانے میں غربا،مساکین،بیواؤں اور فاقہ کش معذوروں کے لیے تیار کیا گیا شوربا جب شاہی معائنے کی غرض سے شہزادے کے حضور پیش کیا گیا تو اس نے آہ بھر کر کہا:
’’یہ محل کی بیگمات کو دے دو،کیونکہ حرم کے مطبخ میں تین دِن سے چُو لھا نہیں جلا۔‘‘( 12)

بنگال کے صوبے دار علی وری خان نے 1740میں خودمختاری کا اعلان کردیا۔ علی وردی خان کے اعلان آزادی کے ساتھ ہی مرہٹوں نے علی وردی خان کو ہراساں کرناشروع کردیا۔ علی وردی خان نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اپنے مخالفین کا منھ بند کرنے کے لیے بات چیت کا فیصلہ کیا اور مفسدوں کو اڑیسہ کا صوبہ دے کر ان کو خاموش کردیا۔اس کے علاوہ بارہ لاکھ روپے بطور چوتھ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ۔ بنگال پر انگریزوں کی حریصانہ نظر کو محسوس کرتے ہوئے علی وردی خان نے انگریزوں کو اپنے مقبوضات کو مضبوط کرنے سے باز رکھا تاہم علی وردی خان نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے انگریزوں سے تعلقات خراب ہونے کی نوبت نہ آنے دی۔ علی وردی خان نے 9 اپریل 1756 کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ بنگال اور بہار میں علی وردی خان کے عہد حکومت میں مغل حکمرانوں کا اثررسوخ نہ ہونے کے برابرتھا۔تاریخ ایک حیران کُن مسلسل عمل سے عبار ت ہے جس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ کٹھن،پُر پیچ اور ناہموار راہوں پر بھی ہزارہا دشواریوں،سخت ترین مقامات ،جانکاہ صدمات،ہولناک رکاوٹوں اور صبر آزما تکالیف کے باوجود ماضی او ر حال کے واقعات کی گرد سے دامن بچاتے ہوئے مستقبل کی جانب سفر جاری رکھنے پر مائل کرتی ہے۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ کا یہ عمل مستقل نو عیت کا ہوتا ہے جو نہایت خاموشی کے ساتھ جاری رہتا ہے ۔بعض لوگوں کو تاریخ کا یہ عمل تیز گام محسوس ہوتا ہے تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کے آہستہ خرام ہونے کے شاکی دکھائی دیتے ہیں۔تاریخ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اس کا مشاہدہ کرنے والوں پر یہ گمان گزرتا ہے کہ گردشِ ایام کا پیچھے کی جانب پلٹنادراصل پیچھے کی طرف سرکنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک اٹل اور مسلمہ صداقت ہے کہ تاریخ کسی صور ت میں لو ٹ کر نہیں آ سکتی۔حال کے واقعات ماضی کاحصہ بن کر تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔رخشِ حیات پیہم رواں دواں رہتا ہے ،تاریخ کے مسلسل اور مستقل عمل کی راہ میں دیوار بننے والوں کا نام لوحِ جہاں سے حرفِ مکرر کے مانند مٹا دیا جاتا ہے۔تاریخ کا سفر در اصل روشنی کے سفر کے مانند ہے جو جمود ،قیام ،سکوت اوریکسانیت سے قطعی نا آ شنا ہے ۔قلزمِ ِہستی کا قافلہ اس قدر تیز گام ہے کہ اقوام و ملل کے جاہ و جلال اور کبر و نخوت کے سفینے اس کی تند و تیز موجوں کے گرداب میں ایسے اُلٹے کہ پھر ان کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔تاریخ کی برق رفتاریوں اور اس کی محیر العقول پیش قدمی کا عدم اعتراف کرنے اور تاریخ کے مسلسل عمل کوپس پائی پرمحمول کرنے والوں کی کور مغزی،بے بصری اور ذہنی افلاس کا جس قدر بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ تاریخ کا توبس ایک ہی سبق ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے سبق سیکھا ہی نہیں۔جو اقوام اپنی تاریخ کو فراموش کرنے کے ناقابل معافی جُرم کی مرتکب ہوتی ہیں تاریخ انھیں عبرت کا سبق بنا دیتی ہے اور ان کا جغرافیہ یکسر بدل جاتا ہے ۔

بر عظیم کی تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے جو بادشاہوں کی غفلت کو سامنے لاتے ہیں۔ چودہ مارچ 1758کو واٹسن نے اپنے ایک دھمکی آمیز مکتوب میں سراج الدولہ کو حالات کی سنگینی سے متنبہ کرتے ہوئے لکھا:
,,I shall kindle such a flame in your country as all the water in the ganges shall not be able to extinguish " (13)

طالع آزما اور مہم جُو انگریزوں نے موقع پرست ،ابن الوقت عیاروں اور غداروں سے جوڑ توڑ کر لیا اور سراج الدولہ کی افواج کے سالار اور مارِ آستین میر جعفر کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔کلائیو نے بائیس جون 1757کو سراج الدولہ کے علاقے پر دھاوا بو ل دیا۔ اس کے مسلح دستوں میں دو ہزار دو سو مقامی سپاہی اور آٹھ سو یورپی انفنٹری اور آرٹلری سپاہی شامل تھے۔ پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ نے اپنی پچاس ہزار فوج کے ساتھ بر طانوی استعمار کی بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنے کی سعی کی مگر تئیس جون1757کو سراج الدولہ کی مسلح افواج کے سالارِ اعلیٰ میر جعفر کی غداری ،بے غیرتی اور بے ضمیری کے باعث سراج الدولہ کو شکست ہوئی ۔میر جعفر کے بیٹے میرن کے حکم پر ایک اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور قاتل نے دو جولائی 1757کو میر جعفر کی مُرشد آباد کی اقامت گاہ کے بابِ غداراں کی نمک حرام ڈیوڑھی کے نزدیک حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والے مردِ حق پرست سراج الدولہ کی زندگی کی شمع گُل کر دی۔ بابِ غداراں کے محسن کش اور پیشہ ور قاتل میر میرن کے بارے میں کلائیو نے وارن ہیسٹنگز کو اپنے ایک ذاتی مکتوب میں تحریر کیا :
’’مجھے اکثر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل یہ نوجوان کُتا اپنے باپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے گا۔میں کئی بار اس بُوڑھے احمق (میر جعفر)کو سمجھا چکا ہوں کہ اپنے رشتہ داروں کے ہاتھ میں زیادہ اختیارات و طاقت نہ دے۔‘‘(14)

سراج الدولہ کی المناک شہادت کے بعد کلا ئیو نے اور م (ORME ) کو جو خط لکھا اس میں کبر و نخوت کا جو تا ثر مو جود ہے وہ قا بل غور ہے۔
"I am possessed of volumes of materials for the continuation of your history , in which will appear fighting , tricks , chicanery , intrigues , politics and the lord knows what ." (15)

پلا سی کی جنگ کے بعد انگریزوں کی دہشت گردی کی انتہا ہو گئی اور بر صغیر میں مسلما نوں کی حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے۔اگر میر جعفر پلاسی کے میدان میں چند سکوں کے عوض اپنے ضمیر اورقومی حمیت کا سودا نہ کرتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔کلائیو کو مسلمانوں کے جذبۂ شوق شہادت سے بہت ڈر لگتا تھا لیکن میر جعفر کی ضمیر فروشی اور غداری کے باعث حالا ت بدل گئے ۔اگر نمک حرام میر جعفر پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کی پیٹھ میں چُھرا نہ گھونپتا تو پلاسی کی جنگ میں بر طانوی استعمار کو منھ کی کھانا پڑتی۔پلاسی کی جنگ میں ظالم و سفاک بر طانوی استبداد کے نمائندے کلائیوکو ایسی ذلت ناک شکست ہوتی جو بنگال میں برطانیہ کی مکمل تباہی اور انہدام پر منتج ہوتی۔(16)حالات کا رُخ جس تیزی سے بدل رہا تھا مگر بر صغیر کے مقامی حکمرانوں کو اس کا کوئی اندازہ نہ تھا۔شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو نے برطانوی استعمار اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف بھر پور جد و جہد کی اور فسطائی جبر کے خلاف سینہ سپر ہو کر عظمتِ کردار کا ثبوت دیا۔ٹیپو سلطان کی شجاعت سے انگریز بہت خوف زدہ تھے ۔انھوں نے مقامی حکمرانوں سے ساز باز کر لی اور نظام دکن اور مر ہٹوں سے فوجی دستے طلب کیے۔انگریزوں کے پاس چار ہزار سپاہی تھے جب کہ انھوں نے بائیس ہزار مقامی سپاہی بھی بھرتی کیے۔نظام نے سولہ ہزار سپاہی بھیجے اور مر ہٹوں نے بھی اپنے دستے روانہ کیے ۔مجموعی طور پر انگریزوں کے پاس پچاس ہزار سپاہیوں کا لشکر تھا۔سلطان فتح علی ٹیپو کی فوج تیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی ۔ انگریزوں نے سرنگا پٹم کے قلعے کی دیوار میں شگاف ڈال دیا اور جارحانہ انداز میں سلطان فتح علی ٹیپو کی قلعے میں محصور فوج کو پچھاڑ دیا۔ چار مئی 1799کو ٹیپو سلطان نے برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے بر ملا یہ کہنا شروع کر دیا کہ فتح علی ٹیپو کی بعد وہ ہندوستان کے بلا شرکت غیرے حکمران بن گئے ہیں۔اس زمانے میں یہ بات زبان زد عام تھی:
’’خلق خدا کی،ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘‘(17)

برطانوی استعمار نے پورے بر صغیر کو اپنے چُنگل میں جکڑ لیا ۔ بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے عادی دروغ گو ،عیار اور جو فروش گندم نما تاجروں نے جب بد عہدی،کینہ پروری،سازش،فریب اور فسطائی جبر سے بر صغیرپر غاصبانہ قبضہ کر لیاتو عوامی سطح پر اس کُھلی جارحیت کو سخت نا پسند کیا گیا۔بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے چرب زبان تاجر یہ تاثر دیتے تھے کہ مقامی باشندے ان کے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور تاج بر طانیہ کے وفادار ہیں۔اس موضوع پر پنڈرل مون نے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’واقعی یہ دور بر طانوی راج کا سنہری زمانہ ہے ۔ملکہ وکٹوریہ کی بے حد عزت کی جاتی تھی۔ہر کوئی اس کا احترام کرتا تھا۔اگر آج بھی تمھیں امرتسر جانے کا اتفاق ہو تو وہاں ملکہ کا بُت نصب مِلے گا جِس کی ناک توڑ دی گئی ہے ۔‘‘(18)

آخری عہدِ مغلیہ میں امور ِمملکت چلانے کی استعداد سے محروم کٹھ پُتلی بادشاہوں نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی۔آخری عہدِ مغلیہ میں حکمرانوں کی نااہلی ،تن آسانی اور بُزدلی نے اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا۔ جہاں دار شاہ نے جب ایک مر تبہ بر ہنہ تلوار دیکھی تو مارے خوف کے وہ دم دبا کر بھا گ نکلا۔ (19) جس وقت یورپ میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے عظیم الشان جامعات کے قیام پر توجہ دی جا رہی تھی ،اس وقت بر صغیر میں پُر شکوہ مقبروں کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا ۔ مغلوں کے اقتدار کے تین سو سال میں کوئی ایسا عظیم علمی ادارہ وجود میں نہیں آیا جو قوم میں صحیح نظر و بصیرت کی تخلیق میں مد ومعا ون ثا بت ہو تا ۔(20) یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہاں بھیڑ چال عام ہو گئی۔رعایا کے خوش حال طبقے نے بھی موت کے بعد اپنے لیے مقبروں کی تعمیر میں گہری دلچسپی لی۔آخری عہدِ مغلیہ میں حکمران رعایا کا خون نچوڑ کر جو زرومال جمع کرتے تھے وہ شاہی خاندان کی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا تھا۔مغل شہزادے جنھیں سلاطین کہا جاتا تھا ان کی کاہلی ،تن آسانی ،بے عملی ،بزدلی اور عیاشی کے ہر طر ف چرچے تھے ۔کام کاج سے بیزار اور پتنگ بازی،بٹیر بازی،چوسر،گنجفہ،کبوتر بازی،شطرنج اور مرغوں کی لڑائی میں گہری دلچسپی رکھنے والے سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا یہ سلاطین اپنی بد اعمالیوں کے باعث شیاطین کے روپ میں مظلوم رعایا کے لیے ایک عذاب بن چکے تھے ۔سال 1848میں رقص و سرود کی محفلوں میں دادِعیش دینے والے اس قماش کے ناکارہ سلاطین کی تعداد 2104تک جا پہنچی ۔مقامی حکومت کی کشتی ڈوبنے کے قریب تھی جب کہ یورپ کا شاطر سرمایہ دار اور نو آبادیاتی نظام کا پروردہ آبادکار کیا سے کیاہو گیا ۔ بر طانوی استعمار کے مکر کی چالوں اور یہاں کے حکمرانوں کے ذہنی افلاس اور بے بصری کے باعث یہاں کا بُدھو وہی کا وہی بُدھو ہی رہا ۔سلطنت مغلیہ کے خلاف اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرہٹہ جنگ جُو نے اپنے غیظ و غضب اور جارحیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ـ’’شاخوں کو کا ٹنے چھاٹنے سے کیا فا ئدہ ہے۔تنے پر کلہاڑا ما رو، جب وہ کٹ جا ئے گا تو شا خیں خود بہ خود ہی گر جا ئیں گی ‘‘(21 ) بدنام طوائف لال کنور اوراس کی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راززہرہ کنجڑن جب قصر شاہی میں گھس بیٹھیں تو ایوانِ اقتدار کا وقار خاک میں مِل گیا۔اکبر جو شاہ عالم کا بیٹا تھا وہ بھی اس جنسی جنون میں اپنے باپ سے کم نہ تھا ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اٹھارہ بیو یوں کا شوہر تھا۔(22) جنسی جنون اور اخلاقی بے راہ روی کی اس انتہائی الم ناک صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلشنِ ہند کی ہر شاخ پر بُوم و شِپر نے بسیرا کر لیااور فضا میں زاغ و زغن کی پرواز آفاتِ ناگہانی کا اشارہ تھیں۔

شاہ عالم کے عہدمیں مسلم سلطنت اور ہندوستانی معا شرہ بیک وقت انحطاط کے تباہ کُن دورسے گزر رہے تھے۔ خود شاہ عالم جن اعصاب شکن حالات میں حکمرانی کے فرائض نبھارہا تھا انھیں دیکھتے ہوئے اس کی اذیت ناک بے بسی،پریشاں حالی اور درماندگی پر تر س آتا ہے۔اس نام نہاد مطلق العنان بادشاہ کے پاس حقیقی اقتدار نام کی کو ئی چیز نہ تھی ۔ مہا راجہ سند ھیا کی فوجی امداد اور تعاون کے بغیر شاہ عالم کی کو ئی حیثیت نہ تھی ۔ شاہ عالم نے غلام قادر روہیلہ کے والد ضابطہ خاں کو معزول کردیا تھا۔یکم جولا ئی 1788 کو غلام قا در روہیلہ نے دہلی پر دھا وا بول دیا ۔ افلاس زدہ شاہ عا لم نے منتقم مزاج غنیم کی فوج سے مقا بلہ کیا مگر اس کے معتمد سرداروں نے غلام قادر روہیلہ سے ساز باز کر لی چار ہفتے تک غلام قادر کی افواج نے دہلی میں لو ٹ مار کا با زارگرم رکھا ۔30 جولا ئی 1788کوغلام قادر شا ہی محل کے دروازے پر خدمت شاہی میں بار یا بی کی در خواست لے کر پہنچا ۔ اس نے قرآن پاک پر حلف اٹھا کر شاہ عالم کو یقین دلایا کہ اس کا مقصد محض اظہار اطا عت و وفا داری ہے ۔ اس نے جنگ کے دوران کی جانے والی قتل و غارت اور لُوٹ مار سے لا تعلقی کا اظہار کیا ۔شاہ عالم اس کے فریب میں آ گیا اور انتہائے سادگی کے باعث مات کھا گیا ۔ شاہ عالم کے حکم سے اس مہمان کے استقبال کے لیے قصرِ شاہی کے دروازے کھول دئیے گئے ۔ جوں ہی شاہی محل کے دروازے کُھلے غلام قادر روہیلہ کے سا تھ دو ہزار مسلح سپا ہی بزور شمشیر شا ہی محل میں گھس گئے ۔ غلام قادر روہیلہ نے دولت کی تلاش میں محل کا کو نا کونا چھان مارا ، ملا زمین کو ایذائیں دیں،بیگمات کی تلا شی لی مگر چند زیورات کے علا وہ اسے کچھ نہ ملا تو وہ پیچ و تاب کھا نے لگا اور شاہ عالم سے خزانے کے بارے میں پوچھا اور خنجر نکال لیا ۔ انگریز مصنف ما ئیکل ایڈورڈز نے اس واقعے کی روداد یوں بیان کی ہے:
’’10 اگست 1788 کے دن جب غلام قادر روہیلہ مغل حکمران شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہیں ہو ا تو اس نے اپنے سپا ہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھا کر دو ۔ چنا نچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مار کر تخت سے گرایا گیا اوراس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں،شہنشاہ درد وکرب سے چیختا رہا ۔ آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہو گئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پو چھا :
’’کہو اب تمھیں کچھ دکھا ئی دیتا ہے؟‘‘
شہنشاہ نے جواب دیا :’’ہاں مجھے تمھارے اور اپنے درمیان قرآن دکھا ئی دیتا ہے۔‘‘(23)

نشے میں چُور بے رحم خُونی غلام قادر روہیلہ نے اگلے روز خنجر کے ذریعے شاہ عالم کی دونوں آنکھیں نکال دیں۔شاہ عالم کے تین خادم اور دو ماشکی آگے بڑھے اور خون میں لت پت بادشاہ کی جان بخشی کی التجا کی تو غلام قادر روہیلہ نے ان کے سر تن سے جُدا کر دئیے۔غلام قادر روہیلہ نے مغل شہنشاہ کو دس ہفتے پا بہ جولاں رکھا اور مفلس و نابینا، نحیف و نزار اوربے بس و لاچار بادشاہ پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔اس سانحہ کے بارے میں ما ئیکل ایڈورڈز لکھتا ہے:
’’ایک دن (غلام قادر نے)دو شہزادیوں کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دیاجن کے حسن و جمال کے بارے میں اس نے بہت تعریف سنی تھی ۔ شہزادیاں مناسب لباس میں بانقاب حاضر ہوئیں ۔ مگر اس نے شہزادیوں کو برہنہ کیااور ان کی چھاتیوں اور رانوں پر دست رازی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس سے پہلے کہ معاملہ آگے بڑھتا ، مغل شہزادیوں کو ایک سکھ سردار نے اس ظالم سے بچایا۔‘‘(24)

یہاں تک کہ مہاراجہ سندھیا نے فوجی کارروائی کر کے ظالم و سفاک مہم جُو غلام قادر روہیلہ کو کیفر کردار تک پہنچایا اورمالی اور ذہنی اعتبار سے قلاش اور بصارت اور بصیرت سے عاری شاہ عالم کو رہا کر ا کے اسے بادشاہ کے منصب پر بحال کر دیا۔حکومت کی کم زوری کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ طالع آزمامہم جو جب چاہتے دہلی پر ہلہ بول دیتے ۔ قتل و غارت کا بازارگرم ہوتا، لوٹ کھسوٹ روز مرہ کا معمول بن گیاتھا۔ سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ بر صغیر میں اخلاقی زوال کے لرزہ خیز دور کا بھی آغاز ہو چُکا تھا۔ تاریخی حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دورِ انحطاط میں اخلاقی پستی بھی اپنی انتہاکو پہنچ چکی تھی ۔اپنی قوت ،ہیبت اور تمام تر سفاکی،بے حسی اور دہشت گردی کے باوجود نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی خاندان مغلیہ کی خواتین کی بے حرمتی کے مرتکب نہ ہوئے لیکن غلام قادر روہیلہ نے جس اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیاوہ انتہائی شرم ناک ہے۔علامہ اقبال نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی ہے جس میں غلام قادر روہیلہ کی سفاکی کو قابل نفرت قرار دیا ہے:
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جُو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے
بنایاآہ سامانِ طرب بے درد نے اُن کو
نہاں تھا جِسم جِن کا چشمِ مِہر و ماہ واختر سے
لرزتے تھے دِلِ نازک،قدم مجبورِ جنبش تھے
رواں دریائے خوں شہزادیوں کے دیدۂ تر سے

مغلیہ سلطنت مسلسل رو بہ زوال تھی دہلی کی جنگ جو سال 1803میں ہوئی اس میں میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ شہنشاہِ ہند کے فرمان کے تحت برطانوی افواج کے فاتح سالارِ اعلیٰ جنرل لیک (General Lake) کا دہلی میں پُر جوش استقبال کیا گیا۔مفلس و نابینا شاہ عالم آلامِ ضعیفی سے مضمحل ایک ٹوٹے ہوئے بوسیدہ شامیانے کے نیچے اپنی حسرتوں اور تمناؤں کے مرقد پر سر بہ زانو بیٹھا حسرت و یاس کی تصویر پیش کررہا تھا ۔ شاہ عالم کی سلطنت کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی حدود دِلی سے پالم تک(سترہ کلو میٹر) ہیں۔ جب یہ بادشاہ فوت ہوا تو اس کے بعد اکبر ثانی (1837 -1806) اور بہادر شاہ ثانی (1857 - 1837)خاندان تیموریہ کی عظمت رفتہ کی نوحہ خوانی کے لیے باقی رہ گئے ۔

بر عظیم میں مطلق العنان بادشاہوں کے دور میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاہی خزانہ اپنی تہی دامنی اور کم مائیگی پر شرم سار تھا،غربت ،افلاس اورفاقہ کشی نے رعایا کی زندگی اجیرن کر دی تھی ۔دربار سے وابستہ ہر ملازم خوار و زبوں تھااور حاکم جلتے روم کو دیکھ کر نیرو کے مانند سردِ عیش کی بانسری بجانے میں انہماک کا مظاہر کر ہے تھے۔ شاہی خزانہ قصر شاہی کے ملازمین، طعام خانے کے انتظامات ،درباری امرا اور فوج کے ملازمین کے مشاہرے ادا کرنے سے قاصر تھا۔نوبت یہاں تک پہنچی چکی تھی کہ کئی کئی مہینے بل کہ سال گزر جاتے مگر سپاہیوں کو تنخواہ کی ادائیگی کا مژدہ سننے کو نہ ملتا۔ اکبر شاہ کے عہد میں اس مسئلے کا حل یہ سوچاگیاکہ شاہی محلات کے بیش قیمت سازوسامان کی فہرستیں مرتب کرکے دکانداروں کے حوالے کی گئیں تا کہ سامان فروخت کرکے سپاہیوں کو تنخواہ اداکرنے کا عارضی بندوبست ہوسکے ۔ اس صورت حال سے دل برداشتہ ہوکر وردیوں تک سے محروم سپاہیوں نے بھوک و پیاس سے جاں بہ لب اپنے جنگی گھوڑے جن میں برق رفتار اسپانِ ترکی و تازی شامل تھے ان کو اونے پونے داموں فروخت کرنے میں عافیت سمجھی ۔ ان حالات میں زندگی کی درخشاں روایات سے انحراف معمول بن گیا اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہونے لگیں۔ ماحول اور معاشرہ جن اجتماعی مصائب کے اعصاب شکن نرغے میں تھا اس کا اثر فکر و نظر پر مسموم اثرات مرتب ہوئے ۔ زندگی کی تلخیاں روز افزوں تھیں اور راحت کا تصور خیال خام بنتا جا رہا تھا ۔ بقول مرزا محمدرفیع سوداؔ :
سودا ؔ جو بے خبر ہے کوئی وہ کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ا ن کو ، جو رکھتے ہیں آگہی!

احمد شاہ ابدالی کی یلغار بھی مغلیہ سلطنت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ اٹھارہویں صدی کی انتہائی ہو لناک جنگ پانی پت کی تیسری لڑائی جو چودہ جنوری 1761کو دہلی سے ساٹھ میل شمال میں واقع پانی پت کے میدان میں مر ہٹوں اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہوئی اس میں مر ہٹوں کو شکست ہوئی۔ اس ایک روزہ جنگ میں چالیس ہزار افغان اور اسی قدر مرہٹے لقمۂ اجل بن گئے ۔جنگ کے بعد افغان سپاہیوں نے جوش انتقام میں مزید چالیس ہزار مرہٹوں کو بار ہستی سے سبک دوش کر دیا۔دوآبہ کے روہیلہ افغان قبائل اور شجاع الدولہ(نواب اودھ) نے مر ہٹوں کی مخالفت کی اور احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیا۔ اُنتیس جنوری 1761کو احمد شاہ ابدالی کے مسلح سپاہیوں اور روہیلہ جنگ جُو قبائل نے دہلی میں اپنے سبز قدم رکھے اور بیس مارچ 1761کو جب یہ کرگس واپس روانہ ہوئے توملی وقار اور قومی حمیت کو نوچ چُکے تھے۔جب طالع آزما ،مہم جُو اور مالِ غنیمت کی ہوس کے اسیر حملہ آوروں نے دہلی پر دھاوا بولا تو اہلِ شہر پر قیامت ٹُوٹ پڑی۔حملہ آور نہتے عوام کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔ان سفاک درندوں نے گھروں میں بند نہتے عوام کے گھروں کے دروازے توڑ ڈالے ،چھتیں گرا دیں،دیواریں ڈھا دیں،سامان لُوٹ لیا ،غذائی اجناس لُو ٹ لیں، گھروں میں کھانے پینے کا سامان تک اُٹھا لیا۔کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا جن لوگوں نے حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی ان کا سر قلم کر کے ان کے جسدِخاکی کو سپردِآتش کر دیا۔ شہر کے عابد ،زاہد ،اہلِ حرفہ اور شرفا کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔زندگی کی تمام رُتیں اس قدر بے ثمر کر دی گئیں کہ جن شرفا کی دریا دلی اور وسعت ِ نظر کے چرچے تھے وہ پارۂ نان اور ایک گھونٹ آب شیریں کے محتاج ہو کر رہ گئے۔حساس ادیب کو قوم کی دیدۂ بینا کا مقام حاصل ہے ۔میر تقی میرؔ نے تاریخ کے اس سانحہ کے بارے میں لکھا ہے :
’’چونکہ ان جفاکاروں کی بن آئی تھی ، لوٹتے کھسوٹتے ایذائیں دیتے ستم ڈھاتے عورتوں کی بے حرمتی کرتے۔۔۔۔ ہر گلی کوچے میں، ہر بازار میں یہ غارت گر تھے اور ان کی دارو گیر ہر طرف خونریزی، ہر سمت ظلم و ستم ، ایذائیں بھی دیتے اور طما نچے ما رتے ۔۔۔۔۔گھر جل گئے ۔ محلے ویران ہوگئے۔ سیکڑوں لوگ ان سختیوں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔۔۔۔۔پرانے شہر کا علاقہ جسے رونق اور شادابی کے باعث ’’جہان تازہ‘‘ کہتے تھے ، منقش دیوار کے مانندتھا جہاں تک نظر جاتی تھی ، مقتولو ں کے سر ، ہاتھ ، پاؤں اور سینے ہی نظر آتے تھے ۔ ان مظلوموں کے گھر ایسے جل رہے تھے کہ آتش کدہ کی یاد تازہ ہورہی تھی۔ جہاں تک آنکھ دیکھ سکتی تھی خاک ِسیاہ کے سوا کچھ نہ دکھائی دیتا تھا۔ جو مظلوم مرگیا(وہ گویا) آرام پاگیا (اور)جو ان کی زد میں آگیابچ کرنہ جاسکا۔‘‘ (25)

احمد شاہ ابدالی کے سپاہی اس ہو لناک جنگ کے تباہ کُن اثرات سے دل برداشتہ ہو گئے اور واپسی کے لیے بے چین رہنے لگے۔انھیں اندیشہ تھا کہ مر ہٹے انتقامی کارروائیوں کے لیے مزیدایک لاکھ تازہ دم فوج لے کر میدان میں کُود پڑیں گے۔ پنجاب کے سکھ بھی احمد شاہ ابدالی کی فوج کے خلاف منظم منصوبہ بندی میں مصرف تھے ۔ احمد شاہ ابدالی نے سلطنت دہلی پر ایک مغل بادشاہ کو فائز رہنے دیا اور جلد واپس جانے کا فیصلہ کیا تا کہ اپنی باقی ماندہ فوج کی سلامتی کو یقینی بنا یا جا سکے۔احمد شاہ ابدالی اور اس کے حلیفوں کی روانگی کے کچھ عرصہ بعد بعد مر ہٹوں نے دہلی میں اپنی انتقامی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔اُردو کے ممتاز شاعرقائم ؔچاند پوری(پیدائشـ: 1722،وفات:1793) جو میر تقی میرؔ ،خواجہ میر دردؔ،مرزا محمد رفیع سوداؔ،قلندر بخش جرأتؔ اور مصحفی ؔکے معاصر تھے۔اس عہد کے حالات کے بارے میں انھوں نے کُھل کر لکھا ہے ۔قائم چاند پوری نے اس عہد نا پُرساں کے الم ناک واقعات کو اپنے اشعار کے قالب میں یوں ڈھالا ہے:
لشکر میں مر ہٹے کے جو کوئی ہوئے ہیں بند
دیکھے ہیں ان کے ظلم کے سب پست اور بلند
اب نام فوج سُن کے اُڑ جائیں جو ں پرند
سچ ہے جس کو سانپ سے پہنچے کبھو گزند
رسی کو جانتا ہے کہ مارِ سیاہ ہے
سمجھا تو اس قدر بھی اے بھڑوے،خبیث ،خر
کِس پر ہوا یہ مظلمہ،ٹُوٹا کنہوں پہ زر
ہر نیک و بد پہ آدمی کرتا ہے یاں نظر
تُو تو خدا کے فضل سے اُس باپ کا پِسر
جِس کا خطاب شاہ حماقت پناہ ہے

میر تقی میرؔ(پیدائش:آگرہ 1722،وفات:لکھنؤ 1810) نے قومی ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں جب ہر طرف غم و آلام کی گھٹا چھا گئی تھی اور اُمید کی کوئی کِرن دکھائی نہیں دیتی تھی، دلِ بینا کو سنبھالے رکھا اور ہجومِ غم اور مصائب کے ازدحام میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔میر تقی میرؔ کی شاعری میں حقائق کی نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔مرہٹوں کی غارت گری اور عمادالملک کی بیدادگری نے ہر شخص کو مایوسی اور بے بسی کی تصویر بنا دیا تھا۔میر تقی میرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے قومی بیداری،جہد و عمل اور ذہنی شعور کی حیاتِ جاوداں پر توجہ مرکوز رکھی۔میر تقی میرؔ کے اشعار پڑھ کر آج کے دور کا قاری بھی چشم تصور سے اس عہد کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ لیتا ہے۔میر تقی میرؔ کی شاعری میں ایک حساس تخلیق کار کی تخلیقی فعالیت اور پر خلوص شخصیت کا کرشمہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے :
جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا
چور ،اُچکے،سِکھ ،مرہٹے ،شاہ و گداسب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اِک دولت ہے
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُن ہی کی آنکھ میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

آخری عہدِ مغلیہ میں عیاش بادشاہوں کی کور مغزی ،کوتاہ اندیشی ،بے بصری اور نااہلی کے باعث عسکری قوت کا جنازہ نکل چکا تھا۔مسلح افواج کا کوئی مؤثر ڈھانچہ موجود ہی نہ تھاجس کے باعث مملکت کا دفاع ممکن ہی نہ تھا۔ میر تقی میرؔ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مغلیہ سلطنت کا زوال دہلی کی صدیوں کی تہذیب کو بھی لے ڈوبے گا۔میر تقی میرؔ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تخلیقی عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور سیاسی اور معاشرتی زوال کے مسموم اثرات اس کی ہمہ گیر وسعت پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔میر تقی میرؔ کی سوانح عمری ’’ذکر ِمیر‘‘ اختصار اور جامعیت کا اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے ۔اپنی اس خود نوشت میں میں میر تقی میرؔ نے اپنے عہد کے سیاسی اور معاشرتی ارتعاشات کو نہایت جرأت اور دیانت کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے ۔میر تقی میرؔ کی شاعری میں شدتِ احساس کی تمازت،خلوص اور دردمندی سے لبریز گریہ و زاری اور گردش ِ ایام کے عبر تناک واقعات کا جو پُر تاثیر حوالہ ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔آخری عہدِ مغلیہ کے انحطاط پذیر معاشرے میں زندگی کی اقدار ِ عالیہ اور درخشاں روایات سے انحراف بہت بڑا المیہ بن گیا تھا ۔آخری عہدِ مغلیہ کی تشکیک اور مستقبل کی غیر یقینی صورت ِحال سے ہر شخص مضطرب تھا۔میر تقی میرؔ کے کلام میں اس عہد کے سیاسی ،معاشرتی اور سماجی حالات سے اس قدر بیزاری دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنے عہد کی زندگی کو جبر مسلسل سمجھ کر اس سے بغاوت پر اُتر آتے ہیں لیکن ان کی شاعری میں مایوسی اور بیزاری کے بجائے صبر و تحمل کا عنصر حاوی ہے ۔ایک حساس اور خود دار تخلیق کار کی حیثیت سے میر تقی میرؔ نے اپنی شاعری میں بھی اپنے عہد کے حالات اور حکمرانوں کی عیاشیوں پرنہایت حقیقت پسندانہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے :
در حالِ لشکر
مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش
آئے لشکر میں ہم برائے تلاش
آن کے دیکھی یاں کی طرفہ معاش
ہے لبِ ناں پہ سو جگہ پرخاش
نے دم آب ہے نہ چمچۂ آش
زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال
کنجڑے جھینکیں ہیں روتے ہیں بقال
پوچھ مت کچھ سپاہیوں کا حال
ایک تلوار بیچے ہے، اِک ڈھال
بادشاہ و وزیر سب قلاش
شور مطلق نہیں کسو سر میں
زور باقی نئیں اسپ و اُشتر میں
بھوکھ کا ذکر اقل و اکثر میں
خانہ جنگی سے امن لشکر میں
نہ کوئی رِند ہے نہ کوئی اوباش
لعل خیمہ جو ہے سپہر اساس
پالیں ہیں رنڈیوں کی اس کے پاس
ہے زنا و شراب بے وسواس
رعب کر لیجیے یہیں سے قیاس
قصہ کوتہ رئیس ہے عیاش
چار لُچے ہیں مستعد کار
دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
ہیں وضیع و شریف سارے خوار
لُوٹ سے کچھ ہے گرمیٔ بازار
سو بھی قندِ سیاہ ہے یا ماش

بر صغیر کے طول و عرض میں اندرونی اور بیرونی لوٹ مار روزمرہ کا معمول تھا ۔ معاشی ابتری ،خانہ جنگی ،بد امنی اور دہشت گردی کے باعث پورا ملک عبرت کا نمونہ پیش کررہا تھا۔ویرانی ،بربادی اورغربت و افلاس کی نحوست کا چاروں طرف غلبہ تھا ۔ شکستہ عمارتیں، سنسان حویلیاں، چلتے پھرتے ہوئے مُردے ،بے گور و کفن لاشیں اورزندہ در گور انسان بے مہری ٔعالم کا نوحہـ بن کر فکر و خیال کے لیے عبرت کا تازیانہ تھے۔ہوسِ زر کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان اخلاقی اقدار کے درپے تھا ۔ معاشرہ ایک ایسی بے حسی کا شکار ہوگیا جس میں ظلم کے خلاف مزاحمت مفقود تھی۔ اِس صورتِ حال نے ذہنی افسردگی اور مایوسی کو تحریک دی اور معاشرتی زندگی میں افراد خود اعتمادی،عزت نفس ،انا ،خود داری اور خود انحصاری کے جذبات سے محروم ہوتے چلے گئے۔ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے اور بنیادی انسانی حقوق اور ان کے حصول لیے جد وجہدکا تصور ذہنوں سے رفتہ رفتہ محو ہونے لگا۔مایوسی ،اضمحلال اور ژولیدہ خیالی کی ان کیفیات نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سرگرمِ سفر رہنے کے ولولے اور حوصلے ختم کر دئیے اور بالآخراُمید کی تگ و تاز بھی ماند پڑ گئی۔ ایسے کٹھن حالات میں جب درد ِلادوا کا مرہم تک میسر نہ ہوتو بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے ۔مسلسل شکستِ دِل ،نامُرادانہ زیست،تباہیوں اور بر بادیوں کا جان لیوا ملال نفسیاتی اعتبار سے افراد کو شدید نوعیت کے احساس ِ محرومی اور احساسِ کم تری سے دو چار کر دیتا ہے۔اس عہد کے لوگوں کے مزاج اور شخصیت میں اس کے مسموم اثرات سرایت کرتے چلے گئے اور بے حسی نے ایک مستقل روگ کی صورت اختیار کر لی۔حریت ِ ضمیر سے جینے کے بجائے مصلحت اندیشی کی روش عام ہو گئی۔ وہ قوم جو زیرِ تیغ کلمۂ حق کہنے والے،حق و صداقت کا علم بلندکرنے والے اورحریت فکر و عمل کے مجاہد پیدا کرتی تھی اب اس میں بانکے ،کلاونت اور مسخرے عام تھے۔قحط الرجال کے باعث ابن الوقت ،کاہل ،بے حِس اور منافق لوگوں کی فراونی تھی۔ان کی کور مغزی اور بے بصری کا یہ حال تھاکہ شقاوت آمیز نا انصافیاں،جان لیوا مظالم اور جبر و استحصال کو بے بسی کے عالم میں نوشتۂ تقدیر سمجھ کر برداشت کرتے اور اپنی بے حسی اور بے بسی کو صبر کا نام دیتے تھے۔اپنی توہین،تذلیل ،تضحیک ،بے توقیری اور حق تلفی پر اس توقع پر آہیں بھرتے اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے کے ان کے درد انگیز نالوں میں ہلاکو اور چنگیز کا تمام کروفر خس و خاشاک کے مانند بہہ جائے گا۔اُن پر کوہِ ستم توڑنے والے درندے جلد فطرت کی تعزیروں کی زد میں آئیں گے،مکافاتِ عمل کا شدت سے انتظار کرنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہتے اور ظلم کی شب کے ڈھلنے کا شدت سے انتظار کرتے ۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے باوجود سرابوں کی جستجو کے رسیا ان کاہل اوربے عمل لوگوں کو طلوعِ صبحِ بہاراں کا یقینِ کامل تھا ۔وہ اپنی بے عملی پر نازاں رہتے اور دل کو یہ کہہ کر جُھوٹی تسلی دیتے کہ اُن کی گوشہ نشینی اور ترکِ دنیا کو دیکھ کر فطرت اُن کی اشک شوئی کی کوئی سبیل پیدا کرے گی۔اپنی کِشت ِ ویراں میں اُمیدوں کی فصل کو غارت ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی یہ دِل بُرا نہ کرتے اور اپنے تمام رنج و الم فطرت کی سخت تعزیروں اور قدرت کی بے آواز لاٹھی کے سپر د کر کے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے۔مفلس و قلاش بے بس و لاچار شاہ عالم پر ناحق مطلق العنان بادشا ہونے کی تہمت لگا دی گئی تھی ۔ نراجیت کے ماحول میں جب کوئی اُمید بر نہ آتی اور سیاسی و معاشرتی سطح پر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آتی۔ حقیقت میں شاہ عالم بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے طاقت ور نمائندوں کے ہاتھ میں کٹھ پُتلی بن چکا تھا۔ اس نام نہاد بادشاہ کے عہد میں دہلی پر جو نحوست برس رہی تھی اور آٹھ سو برس قدیم تاریخی اقدار کو جس بے دردی سے پامال کیا جارہا تھا اس کا نقشہ میر تقی میر نے اِن الفاط میں کھینچا ہے:
’’حاصلِ کلام شرارت پیشہ مغل، فساد انگیز مرہٹے جانے والے ہیں اور حضرت ظلِ سبحانی قدسی صفات دو تین منشیوں کے ساتھ کسی آنے جانے والے کی تشویش کے بغیر قلعہ معلی میں اطمینان سے رہیں گے ۔ اگر قلعہ حصارکے ہر ہر کنگرے کی دن میں سو بار سیر کو نکلیں تو کس کا حجاب مانع ہوگااوراگر بازار میں پیدل نکلیں حاجب کہاں کہ ہٹو بچو کہے، یہ رنگ نظر آتا ہے کہ اہلِ حرفہ جنگل کو نکل جائیں اور سپاہی بھیک مانگیں ، ہر شخص اپنا رستہ لے، خوب شہر کی رونق ہوگی؟‘‘(26)

اس عہد کے ادیبوں نے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ فکر و خیال کی بالیدگی اور ذہنی شعور کی تابندگی پر کوئی آنچ نہیں آئی۔مستقبل کی پیش بندی اور آئینۂ ایام میں اپنی ادا دیکھنا ذہنی شعور اور بصیرت کا مرہون منت ہے ۔یہ وہ اوصاف ہیں جنھیں کسی بھی قوم کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ان پُر آشوب حالات میں ادیبوں نے اپنی تخلیقی تحریروں سے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔اس کی چند مثالیں درج ِ ذیل ہیں:
میر تقی میر
خاک سے میرؔ کیوں نہ یکساں ہوں
مجھ پہ تو آسمان ٹُوٹا ہے
دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں مدام
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں
یاں کبھو سرو گل کے سایے تھے
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کو میرے بھی رلایا ہے بہت
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
مجھ کو دماغ وصف گل ویاسمن نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں
کل جا کے ہم نے میرؔ کے در پر سنا جواب
مدت ہوئی کہ یاں وہ غریب الو طن نہیں
تھا میرؔ عجب فقیر صابرشاکر
ہم نے اس کبھوشکایت نہ سنی
نہ بھا ئی ہماری تو قدرت نہیں
کھچیں میر ؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں

جس وقت مغلیہ سلطنت کے اقتدار کا سورج عدم کی بے کراں وادیوں میں ڈُوب رہا تھا،اس وقت حالات نے انتہائی بھیانک صور ت اختیار کر لی تھی۔دساور سے آنے والے طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے مقامی ہوس پرستوں،بے ضمیر منافقوں اور بے غیرت موقع پرستوں سے ساز باز کر کیاس خطے کو عدم استحکام کی بھینٹ چڑھا دیا۔خانہ جنگی کے باعث مختلف فتنے سر اُٹھا رہے تھے اور بستیاں خون میں تر کر دی گئیں ۔درانیوں ،مر ہٹوں اور جاٹوں نے جنگل کا قانون نافذ کر رکھا تھااور ہر روز تباہ کُن آفت اور نئی قیامت بر پا ہو رہی تھی۔اس اندھیر نگری میں کی جانے والی غارت گری کی جو تصویر میر تقی میرؔکی شاعری میں دکھائی دیتی ہے وہ اس جری شاعری کی جبر کے خلاف ایک للکار ثابت ہوئی۔یہ شاعری زوال پذیر بادشاہت پر طنز بھی ہے اور عبرت کا تازیانہ بھی۔جب قومیں یہ حقیقت فراموش کر دیتی ہیں کہ حیاتِ جاوداں کا راز ستیز میں نہاں ہے اور طاؤس و رباب کی دلدادہ ہو جاتی ہیں تو ان کی شامتِ اعمال کے باعث ان کی تباہی نوشتۂ تقدیر بن جاتی ہے۔میرؔ کی شاعری میں یہ سب کرب سمٹ آیا ہے:
’’در ہجو لشکر‘‘
جس کسو کو خدا کرے گمراہ
آوے لشکر میں رکھ امید رفاہ
یاں نہ کوئی وزیر ہے نے شاہ
جس کو دیکھوسو ہے بہ حال ِتباہ
طرفہ مردم ہوے اکھٹے آہ!
فوج میں جس کودیکھو سو ہے اُداس
بھوکھ سے عقل گم ، نہیں ہیں حواس
بیچ کھایاہے سب نے سازو لباس
چیتھڑوں بِن نہیں کسو کے پاس
یعنی حاضریَراق ہیں گے سپاہ
مفلسی سے رہا ہے کس میں حال
خورش وخواب ہیں گے خواب وخیال
چار دن عمر کے ہوئے ہیں وبال
زندگی اپنے طور پر ہے محال
مر گ ملتی نہیں ہے خاطر خواہ
دیکھے میں نے مصاحبانِ شاہ
نکلے سب بے حقیقت و بے تہ
ٹھہری آخر کو ان سے کچھ مت کہہ
رہ سکے ہے کسی طرح تو رہ !
ورنہ لشکر سے جا خدا ہمراہ !

ذکر ِمیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میر تقی میر نے اپنے عہد کے پُر آشوب حالات میں دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلے اورکبھی اپنے غم کا بھید نہ کھولا اور صبر و تحمل سے کا م لیتے ہوئے زندگی گزاری۔دس برس کی عمر میں یتیمی کے جان لیوامصائب برداشت کرنے والے اس زیرک تخلیق کار کو رشتہ داروں کی بے توجہی ،احباب کی ناانصافی اور آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں نے سدا پریشا ن رکھا۔اپنی شاعری کو زندگی کے تلخ حقائق سے مربوط کر کے میر تقی میر نے جس مہارت ،خوش ذوقی اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے وہ تہذیبی لوازم کی ترویج کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئے۔
میرؔ جنگل پڑے ہیں آج جہاں
لوگ کیاکیا یہیں تھے کل بستے

اس اندازِ فکر کے معاشرتی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگے ۔ہوائے جور و ستم میں رُخِ وفا کو فروزاں رکھنے والے اس باکمال تخلیق کار نے جبر کے آہنی شکنجوں میں جکڑے،افلاس کے دُکھ بھو گتے بھوگتے اور سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے والے بے بس و لاچار انسانوں کے احوال کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر اپنی انفر ادیت کا لوہا منوایا:
سبزانِ تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھیے تو وہاں نہیں سایہ درخت کا
دِلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اُنھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تخت و تاج کا
زمانے نے رکھا مجھے متصل
پرا گندہ روزی ،پراگندہ دِل

بر عظیم کی تہذیب کو جن حوادث کا سامان تھا میر تقی میرؔ کی شاعری میں ان کا بر ملا اظہار کیا گیا ہے۔جس وقت پُوری مملکت میں بے حسی کی گھنگھو گھٹا چھا گئی تھی مہیب سناٹوں اور جان لیوا تنہائیوں نے عوامی زندگی اجیرن کر دی تھی اس زمانے میں میر تقی میرؔ کی شاعری میں جذبۂ انسانیت نوازی تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے جو آج بھی قارئین کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔نالہ ،فریاد ،آہ اور زاری کو بلند آہنگ اور قلب اورروح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی لے اور انتہائی مؤثر اور مترنم نے کے اعجاز سے یہ شاعری ساحری کا روپ دھار لیتی ہے ۔اس نابغۂ روزگار شاعر نے اپنی شاعری کے معجز نما اثر سے دلوں کو جس طرح مہر و وفا کرنے کی سعی کی اِس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ان کے متخیلہ میں تہذیبی اور ثقافتی شعور کا ادراک ان کے منفرد اسلوب اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا منھ بو لتا ثبوت ہے ۔اپنے عہد کے عصر ی روّیوں کو میر تقی میرؔ نے نہایت خلوص کے ساتھ اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے ۔

مرزا محمد رفیع سودؔا(پیدائش :1713،وفات:1781) نے جب ہوش سنبھالاتو برصغیر میں مغلیہ خاندان کی مطلق العنان حکومت کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا تھا۔ اگر چہ مرزا محمد رفیع سودؔا کے خاندان کا آبائی پیشہ تجارت تھا لیکن اس عہد میں جب عسکری قوت ختم ہوچکی تھی اور فوجی نانِ جویں کے محتاج ہوگئے تھے ۔مرزا محمد رفیع سوداؔ کو اپنے باپ کی وراثت میں سے جو حصہ ملا تھوڑے ہی عر صے میں وہ ان کی آزادمنش طبیعت کے اللوں تللوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے بعد مرزا محمد رفیع سودا ؔنے ملازمت اختیار کرلی تذکرہ نگاروں نے سوداؔ کو ’’ سپاہی پیشہ ‘‘لکھا ہے۔ سوداؔ کے اشعار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ۔ سوداؔکے باپ مرزا محمد شفیع تجارت کرتے تھے لیکن ان کا آبائی پیشہ سپاہ گری ہی تھا۔ جس زمانے میں مرزا محمد رفیع سودا ؔدہلی میں مقیم تھے فرخ سیر نے ایوانِ اقتدار میں اپنے سبز قدم رکھ دئیے تھے۔عیاش مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا (عرصۂ اقتدار:1719-1748)کے عہد حکومت میں بسنت خان خواجہ سرا کولال قلعہ میں اہم مقام حاصل تھا۔بسنت خان خواجہ سرا ،مہربان خان اور احمد علی خان کی سر پرستی اور عنایات سے مرزا محمد رفیع سوداؔآلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رہے۔ آخری عہدِ مغلیہ میں انتظامِ سلطنت بُر ی طرح تباہ ہو چکا تھا۔معاشی بد حالی ،غربت و افلاس ،جہالت اور کوتاہ اندیشی نے صرف سیاسی زوال کی راہ ہموار نہیں کہ بل کہ معاشرے کو اخلاقی دیوالیہ پن کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب دھکیل دیا۔قصیدہ تضحیک روزگار میں گھوڑا مغلیہ سلطنت کی جان کنی کی کیفیت کی علامت سمجھی جا سکتی ہے۔اس گھوڑے کی نا طاقتی کا احوال بیان کرتے ہوئے سودا ؔنے مبالغہ سے کام لیا ہے اور گھوڑے کی علامت ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں سامنے آتی ہے جس سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
’’قصیدہ تضحیک روز گار ‘‘
نہ دانہ ونہ کاہ نہ تیمار نہ سیئس
رکھتا ہو جیسے اسپ گلی طفل شیرخوار
ناطاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں
فاقوں کااس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
ما نندنقش نعل زمیں سے بہ جز فنا
ہر گز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے ایک بار
اس مر تبے کو بھوک سے پہنچا ہے اس کا حال
کر تا ہے راکب اس کا جو بازارمیں گزار
قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کرو گے یاد
امید وار ہم بھی ہیں کہتا ہے یوں چمار
ید رنگ جیسے لید ، و بد بو ہے جوں پیشاب
بد یمن اس قد ر کہ کرے اصطبل اجاڑ
جس شکل میں سوار تھا اس دن میں کیا کہوں
دشمن کو بھی خدا نہ کرے یوں ذلیل و خوار
چابک تھا دونوں ہاتھ میں پکڑے تھا منہ میں باگ
تک تک سے پا شنے کی مر ے پاؤں تک فگار
آگے سے تو بڑا اُسے دکھلائے تھا سئیس
پیچھے نقیب ہانکے تھا لا ٹھی سے مار مار
اس مضحکے کو دیکھ ہوئے جمع خاص و عام
اکثر مدبروں میں سے کہتے تھے یوں پکار
پہیے اسے لگاؤ کہ تا ہووے یہ رواں
یا با د بان با ندھ پون کے دو اختیار
کہتا تھا کو ئی مجھ سے ہوا تجھ سے کیا گناہ
کو توال نے گدھے پہ تجھے کیوں کیا سوار
دھوبی کمہار کے گدھے اس دن ہو ئے تھے گم
اس ما جرے کو سن کیا دونوں نے واں گزار
ہر اک نے اس کو اپنے گدھے کا خیال کر
پکڑے تھا دھوبی کان تو کھنچے تھا دُم کمہار
اک دن گیا تھا ما نگے یہ گھوڑا برات میں
دولھا جو بیا ہنے کو چلا اس پہ ہو سوار
پہنچا غر ض عروس کے گھر تک وہ نو جوان
شیخو خیت کے درجے سے کر اس طرف گزار
سبزے سے خط سیاہ و سیہ سے ہو اسفید
تھا سرو سا قد سو ہو ا شا خ بار دار

سودا کی شاعری انحطاط پذیر معاشرے کی تباہی کو حقیقی تناظر میں پیش کرتی ہے :
پڑے جو کام انھیں تب نکل کے کھائی ہے
رکھیں وہ فوج جو مڑتی پھرے لڑائی سے
پیادے ہیں سوڈریں مر منڈاتے نائی سے
سوار گر پڑیں سوتے ہیں چارپائی سے
کرے جو خواب میں گھوڑا کسی کے نیچے الول
سخن جو شہر کی ویرانی سے کروں آغاز
تو اُس کو سُن کے کریں ہوش چغد کے پرواز
نہیں وہ گھر نہ ہو جس میں شغال کی آواز
کوئی جو شام کو مسجد میں جاتے ہیں بہرِ نماز
تو واں چراغ نہیں ہے بہ جز چراغِ غول
خراب ہیں وہ عمارات کیا کہوں تجھ پاس
کہ جن کے دیکھے سے جاتی رہے بھوک اورپیاس
اور اب جو دیکھو تو دل ہوو ے زندگی سے اداس
بہ جائے گل ، چمنوں میں کمر کمر ہے گھاس
کہیں ستون پڑا ہے کہیں پڑے مر غول
جہان آباد تو کب اِس ستم کے قابل تھا
مگر کبھو کسی عاشق کا یہ نگر دِل تھا
کہ یوں مٹا دیاگویا کہ نقشِ باطل تھا
عجب طرح کا یہ بحرِ جہاں میں ساحل تھا
کہ جس کی خاک سے لیتی تھی خلق موتی رول
بس اب خموش ہو سوداکہ آگے تاب نہیں
وہ دِل نہیں کہ اب اس غم سے جو کباب نہیں
کسی کی چشم نہ ہو گی کہ وہ پُر آب نہیں
سوائے اِس کے تری بات کا جواب نہیں
کہ یہ زمانہ ہے اِک طرح کا زیادہ نہ بول
سپاہی رکھتے تھے نوکر امیر دولت مند
سو آمدن اُن کی تو جاگیر سے ہوئی ہے بند
کیا ہے ملک کومدت سے سر کشوں نے پسند
جو ایک شخص ہے بائیس صوبے کا خاوند
رہی نہ اس کے تصرف میں فوج داری کول
قوی ہیں ملک میں مفسد امیر ہیں سو ضعیف
ٹکے کہاں جوہمیں دے کے ہو ں انھوں کے حریف
نہ کچھ ربیع میں حاصل نہ درمیان خریف
جو عامل ہیں اب ہیں محالات پر سویوں ضعیف
کہ جس طرح کسی حاکم کے گھر گنوار کی اول
رہی ہے فقط عر بی باجے پر انھوں کی شان
جو چاہیں اس کو نہ بجوائیں تویہ کیا امکان
پر ان کا فکر ہے تخفیف خرچ پر ہر آن
رہے گا حال اگر ملک کا یہی تو ندان
گلے میں تاشا کہاروں کے پالکی میں ڈھول
انھیں ہے اپنی امارت سے اب یہی منظور
کہ ہو ں دو مور چھل اور ایک کا تبی سمور
نہ رسم صلح کی سمجھیں نہ جنگ کا دستور
جوان میں قاعدہ داں تھے ہوئے وہ ان سے دور
قماش ان کی طبیعت کا سب طرح سے ٹھٹھول
امیر اب جو ہیں دانا انھوں کا ہے یہ خیال
ہوئے ہیں یہ خانہ نشیں دیکھ کر زمانے کا حال
بچھی ہے سوزنی خوجا کھڑا جھلے ہے رمال
حضور بیٹھے ہیں اک دوندیم اہل کمال
دھر ی ہے سامنے اک پیک دان واِک تنبول
جو کو ئی ملنے کوان کے انھوں کے گھر آیا
ملے یہ اس سے گر اپنا دماغ خوش پایا
جو ذکر سلطنت اس میں وہ درمیاں لایا
انھوں نے پھیر کے اودھر سے منھ یہ فرمایا
خدا کے واسطے بھائی کچھ اور باتیں بول!
جومصلحت کے لیے جمع ہوں صغیر و کبیر
تو ملک و مال کا فکر اس طرح کریں ہیں مشیر
وطن پہونچنے کی سوجھی ہے بخشی کو تد بیر
کھڑایہ اٹکلے دیوان خاص بیچ وزیر
کہ شا میانے کے بانسوں پہ نقرئی ہیں خول
خجل ہو یہ نہ سمائے زمیں بہت پھاٹی
کیے وہ مشورے ہیں کھیلیں خون سوا ماٹی
تمام عمر ہے تدبیر ملک میں کاٹی
ندان کر اُٹھے مل کر گھر اینٹ کاماٹی
پھر اپنے زعم میں ہر اِک برائے خود بہلول
وہ نوکر اب جسے آقا ہر آن پہچانے
جو پُوچھواس سے کہ تم کچھ روپے لگے پانے
کہے ہے آہ وہ بھر کر سوائے آٹھ آنے
روپے کی شکل نہیں دیکھی ہے خدا جانے
کہ اس زمانے میں چپٹابنے ہے یا وہ گول

شاہ عالم کی بے بضاعتی کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔مغل شہنشاہ جو کسی زمانے میں بائیس صوبوں کے حاکم ہوتے تھے اب ان کی حالت زار یہ تھی کہ صوبوں نے مرکزی حکومت کے خلاف صف آرائی شروع کر دی اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔شاہ عالم کی بے بسی اور بے چارگی کا یہ حال تھا کہ ’’کول‘‘ (موجودہ علی گڑھ )کی فوجداری بھی اس کے اختیار میں نہ رہی۔اس قدر بے توقیری کے باوجود شاہ شطرنج کی ڈھٹائی کا یہ حال تھاکہ وہ پھر بھی بائیس صوبوں خاوند بنا بیٹھا تھا۔ آخری عہدِ مغلیہ میں لال قلعہ میں مقیم بادشاہوں نے شمشیر و سناں سے ناتا توڑ کر طاؤس و رباب سے عہدِ وفا استوار کر لیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت زوال کا شکار ہو گئی مگر ان لرزہ خیز حالات میں بھی حریتِ ضمیرسے جینے کی راہ اپنانے والے ادیبوں نے زندگی کی حیات آفریں اقدار کی ترجمانی کرتے ہوئے اقتضائے وقت کے مطابق عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ۔مغلوں کا جاہ و جلال تو تاریخ کے طوماروں میں دب کر قصۂ پارینہ بن گیا لیکن اس عہد کے ادیبوں نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔اس کے معجز نما اثر سے اُردو زبان کی ثروت اور وقعت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے ہر عہد کے ادب میں نشاں ملیں گے۔مرزا محمد رفیع سودا ؔکی شاعری سے متاثر ہو کر شاہ عالم نے ایک مرتبہ یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اس شاعر کو ملک الشعرا کا خطاب دینا چاہتا ہے۔اس پیش کش کے بارے میں سُن کر مرزا محمد رفیع سوداؔ نے نہ صرف اسے مسترد کر دیا بل کہ بر ملا کہا کہ ملک الشعرا بننے کے لیے انھیں کسی جابر سلطان کی بیساکھیوں کی احتیاج نہیں۔ اگر ان کے کلام میں جان ہو گی تو وہ خود انھیں ملک الشعرا کے منصب پر فائز کرے گا۔( 27) سلطانی ٔ جمہور کے حامی مرزا محمد رفیع سوداؔ کی یہ سوچ ان کی خودداری کی مظہر ہے ۔سوداؔ نے اس پر آشوب عہد میں درباریوں،مصاحبوں، منصب داروں،سپاہیوں اور امراکی خستہ حالی اور دیگر معاشرتی عیوب کو اپنی ہجویات میں اس طرح بیان کیاہے کہ پڑھنے والاچشم تصور سے اس ماحول کا احساس و ادراک کر نے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ایک مفت خور ،لیموں نچوڑ قماش کا نو دولتیا جس کی خِست و خجالت اس کے لیے باعث ننگ و عار بن گئی تھی اور وہ بخل میں سفلگی کی حد سے بھی متجاوز تھا اپنے بیٹے کی فضول خرچی عیاشی اور آوارہ گردی کا شکوہ کرتے ہوئے اسے اپنے مرحوم باپ کی مثال دیتا ہے وہ کس طرح لوگوں کی جیب کاٹ کر اپنی تجوری بھرتا رہا۔
جو کوئی اس کے گھر میں نو کر تھا
رات کو اس پہ یہ مقرر تھا
پھرتا وہ ٹکڑے ما نگتا گھر گھر
لا تا آقا کے آگے جھولی بھر
اچھے چُن چُن کے آپ کھا تے تھے
بُرے تنخواہ میں لگا تے تھے
پیدا کر گئے تھے اس طر ح اجداد
سو یہ بد بخت دے ہے یوں بر باد

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ،انتظامی شکست و ریخت اور بادشاہوں کی عیاشی کے باعث نراجیت کا ماحول پیدا ہو چکا تھا اور دہلی کی زوال پذیرمعاشرتی زندگی میں اخلاقی ، سیاسی او ر سماجی برائیوں نے گمبھیر صورت اختیار کر لی تھی ۔ سوداؔ نے معاشرتی زندگی کی زبوں حالی ،اخلاقی دیوالیہ پن اور سماجی قباحتوں پر تیشۂ حرف سے کاری ضرب لگانے میں کبھی تامل نہ کیا۔ ادیبوں نے اس اعصاب شکن ماحول میں تہذیبی انحطاط کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک بحرانی دور میں بھی اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے پُر عزم اور با ضمیر ادیبوں نے تہذیبی و ثقافتی اقدار اور روایات کے تحفظ کو اپنا مطمح نظر بنایا اور ہجوم غم و آلام میں دِل کو سنبھالتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ انھوں نے حوصلے اور اُمید کا دیپ فروزاں رکھنے پر اصرار کیا کیوں کہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ظلم کی شب بالآ خر ڈھلے گی ۔ ایک تخلیق کار کو اپنی زندگی پر بہر طور کسی نہ کسی طرح گزارنے کے لیے ضروریات زندگی بالخصوص غذا درکار ہے لیکن یہ سوچ کس قدر منفی ہے کہ ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان جائز و ناجائز طریقے سے کالا دھن کمانے اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو اپنا مطمح نظر بنالے۔کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں اُٹھا کر نوچنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ کو سودا ؔنے جو آئینہ دکھایاہے وہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ حیات انسانی کی بقا کے لیے صرف روٹی ہی کافی نہیں بل کہ اخلاقیات ،عزت نفس اور انا کو ملحوظ رکھنا بھی از بس ضروری ہے۔ ہمار المیہ یہ ہے کہ ہر دور میں ہماری معاشرتی زندگی میں میر ضاحک جیسے مسخروں نے اپنی بے بصری کے باعث زندگی کے معائر کو ایسے چرکے لگائے جن کے مسموم اثرات سے اب تک گلو خلاصی حاصل نہیں ہو سکی ۔ایسے چکنے گھڑے اور تھالی کے بینگن اپنی ڈھٹائی کے باعث ہمیشہ مردودِ خلائق سمجھے جاتے ہیں۔تاریخ ہر دور میں ان کی عیاری اور مکاری پر نفرین کرتی رہے گی ۔ اپنی شگفتہ شاعری میں سوداؔ نے مبالغہ اور طنز کی آمیزش سے جس طرح اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں وہ قاری کے لیے انوکھا تجربہ ثابت ہوتی ہیں۔سوداؔ نے میر ضاحک کی بسیا ر خوری کے بارے میں لکھا:
آگ لگ کر کسی گھر سے دُود
ایک ذرہ بھی گر کرے ہے نمُود
لوگ تو دوڑیں ہیں بُجھانے کو
دوڑے یہ لے رکابی کھانے کو
اس لیے ہجو ِخلق کرتا ہے
گالیاں کھانے تک بھی مرتا ہے
نہیں ڈرتا یہ لاٹھی پاٹھی سے
کیا کرے لاٹھی اس کی کاٹھی سے
آوے جو کھینچ سامنے تلوار
جب تلک پہنچے اُس کا اِس تک وار
مورچے کی طرح یہ اس پر آئے
کھتی سے پیپلے تک کھا جائے

سوداؔ کے ہاں اس بات پر شدید کرب پایا جا تا ہے کہ سیاسی زوال کے نتیجے میں ہندوستان کی رعایاپر عر صۂ حیات تنگ ہو رہا ہے۔معاشی اختلال نے افراد کو ذہنی سکون سے محروم کر دیا تھااورآلامِ روزگار سے عاجز آکر تباہ حال لوگ انتہائی تکلیف دِہ حالات اور جبر کے ماحول سے بیزار ہو کر دوسرے شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے ۔جس وقت دہلی میں عیاش مغل بادشاہوں کے اقتدار کی بساط اُلٹ رہی تھی اور متعدد اہلِ کمال دہلی سے لکھنؤ ہجرت کر گئے توسوداؔ نے دہلی میں قیام کا فیصلہ کیا۔لکھنؤ کے نواب شجاع الدولہ نے سوداؔ کو لکھنؤ آنے کی دعوت دی لیکن سوداؔ نے ایک شان استغنا سے یہ دعوت قبول نہ کی اور یہ رباعی لکھ کر ارسال کی :
سوداؔ پئے دنیا تُو بہ ہر سُو کب تک
آوارہ ازیں کُوچہ بہ آں کُو کب تک
حاصل یہی اِس سے نہ کہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تُو کب تک

انسان جب گردشِ ایام کی زد میں آ جاتا ہے تو سب تدبیریں اُلٹی ہو جاتی ہیں اور حالات کے جبر سے بعض ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ نواب آصف الدولہ کے عہد میں سودؔ انے دہلی کے حالات سے دِل برداشتہ ہو کر لکھنؤ جانے کا فیصلہ کیا۔اہلِ لکھنؤ نے اس باکمال شاعر کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔اس کے ساتھ ہی میر تقی میرؔ بھی جنھیں زمانے نے متصل پراگندہ ر وزی اور پر اگندہ دِل رکھا تھا لکھنؤ منتقل ہو گئے۔ان دونوں شعرا نے اپنی زندگی کے باقی ایام لکھنو ٔ میں گزارے اور اسی شہر کی زمین نے اردو شاعری کے یہ آسمان اپنے دامن میں چُھپا رکھے ہیں۔میر تقی میرؔ کی قبر پر لکھنؤ کا ریلوے سٹیشن تعمیر ہو چُکا ہے ۔ سوداؔ کو اپنی تہذیبی میراث اور شاندار تاریخی روایات کا شدت سے احساس ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں سوداؔ کے خیالات و محسوسات ایک تسلسل کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اظہار کا وہ روپ دھار لیتے ہیں کہ یہ امرا واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں اپنی درخشاں روایات سے بے نیازی بر تنا کسی طور گوارانہیں ۔ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اور کالے قوانین کی تعمیل کے بارے میں سوداؔ نے کبھی سوچا بھی نہیں۔مسلمہ اقدار اور روایات سے اغماض بر تنے کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معا شرتی زبوں حالی امن و سکون کو نگل لیتی ہے۔سوداؔ نے مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور حالات کا رُخ دیکھ کر صحیح سمت میں قدم اُٹھایا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوداؔنے کٹھن حالات سے دِل برداشتہ ہونے کے بجائے انھیں نوشتۂ تقدیر سمجھ کر نہ صرف انھیں قبول کیا بل کہ ان سے بڑی حد تک سمجھوتہ بھی کر لیااور اپنے لیے ایک واضح نصب العین کا تعین کر لیا ۔وہ نصب العین یہ تھا کہ اجتماعی غم کی اس فضا میں تزکیۂ نفس کی خاطر شگفتہ مزاجی کو شعار بنایا جائے اور اپنی گل افشانی گفتار سے خزاں میں بھی بہار کی عطر بیزی کا احساس اُجاگر کیا جائے۔
اب سامنے میرے جوکوئی پیر و جواں ہے
دعوی نہ کرے یہ کہ مرے منہ میں زباں ہے
میں حضر ت سودا ؔ کو سنا بولتے یارو
اﷲ رے اﷲ رے کیا نظم بیاں ہے
سن کر یہ لگے کہنے کہ خاموش ہی رہ جا

اس امر میں قاصر تو فرشتہ کی زباں ہے
کیاکیا میں بتاؤں کہ زمانہ کی کئی شکل
ہے وجہ معاش اپنی سو جو جس کا یہ بیاں ہے
سب پیشہ یہ تج کر جوکوئی ہو متوکل
جورو تو سمجھتی ہے نکھٹویہ میاں ہے
اور بیٹی کے دل کو ہے خرافت کا تیقن
بیٹے کو جنوں ہونے کا بابا کے گماں ہے
آرام سے کٹنے کا سنا تو نے کچھ احوال
جمعیت خاطر کوئی صورت ہو ، کہاں ہے؟
دنیا میں تو آسودگی رکھتی ہے فقط نام
عقبی میں یہ کہتا ہے کوئی اس کا نشان ہے
سو اوس پہ تیقن کسی کے دل کو نہیں ہے
یہ بات بھی گو بندہ ہی کا محض گماں ہے
یاں فکر ِ معیشت ہے تو واں دغدغۂ حشر
آسودگی حرفیست نہ یاں ہے نہ وہاں ہے

سوداؔکی شاعری میں شگفتگی کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے تاہم اس میں طنز کی آمیزش سے وہ تلخی کے بجائے مقصدیت کی تمنا رکھتے ہیں۔اپنی حقیقت پسندی اور جرأت اظہار کے وسیلے سے انھوں نے مغلیہ حکومت کے عہدِ زوال کی لرزہ بر اندام معاشرت کی جس انداز میں لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔آخری عہدِ مغلیہ میں سیاسی زوال نے ایسے وبال کی صورت اختیار کر لی جس نے معاشرتی اور سماجی زندگی کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا اور لوگوں کا جینا محال ہو گیا۔نااہل حکمرانوں اور شورش پسند باغیوں نے زندگی کی اقدارِ عالیہ کو پسِ پشت ڈال کر عوامی زندگی کو جہنم کا نمونہ بنا دیا تھا۔نظامِ اقدار کو شدید خطرات کا سامنا تھا اور یہ حقیقت کسی سے مخفی نہ تھی کہ حالات کا مدو جزر تہذیبی سطح کو بھی زیر و زبر کر سکتا ہے۔معاشرے میں ایک ایسی محیر العقول تبدیلی کے آثار نمایا ں تھے جن کو دیکھتے ہوئے اس امر کا اندیشہ تھا کہ کہیں تہذیبی اثاثہ ،زندگی کے حقائق اور اقدار و روایات کی بو قلمونی اپنی تابانیوں سے محروم نہ ہو جائیں۔نفسیات اور علم بشریات کے ماہرین کا خیا ل ہے کہ مایوسی اور جبر کے ماحول میں جس طرح طیور اپنے آشیانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں اُسی طرح عقوبت و اذیت کے مسموم حالات میں تخلیق ِادب کے سوتے بھی خشک ہونے لگتے ہیں۔سوداؔ نے ان پُر آشوب حالات میں اپنی بھر پور تخلیقی فعالیت سے حوصلے اوراُمید کی مشعل فروزاں رکھی ۔سوداؔ کی شگفتہ شاعری نے سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوایا۔سیاسی زوال کے زمانے میں تخلیقی عروج کی یہ مثال تا ابد فکر و نظر کو مہمیز کرتی رہے گی:
پوچھا سوداؔ سے میں اک روز کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کامعین بھی مکاں ہے کہ نہیں
یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا وہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں
دیکھا میں قصر فریدون کے اوپر اک شخص
حلقہ زن ہوکے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں

اودھ کی حکومت بھی اپنی ناقص منصوبہ بندی کے باعث زوال کا شکار تھی۔اودھ کے مقتدر حلقوں کی حیثیت طلائی تار پر اپنے رقص کے جوہر دکھانے والی ایک کٹھ پُتلی سے زیادہ نہ تھی۔وہ ایک ایسی مضحکہ خیز کٹھ پُتلی کے روپ میں سامنے آتے تھے جس کی ڈور ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر منصوبہ سازوں کے ہاتھ میں تھی۔اودھ کے کٹھ پُتلی حکمرانوں نے اپنے تمام اقتصادی اور عسکری وسائل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتا اہل کاروں کے قدموں میں ڈھیر کر دئیے اور خود ان کے دست نگر بن کر اپنی جعلی شان و شوکت اور اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مار رہے تھے۔لکھنؤ کے دبستان شاعری کے نمائندہ اُردو زبان کے ممتاز شاعر اور اس عہد کے حالات کے چشم دید گواہ شیخ قلندر بخش جرأت ( یحییٰ امان: 1748-1810)نے اپنی شاعری میں حالات کی حقیقت پسندانہ لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔جعفر علی خان حسرت کے اِس ذہین شاگرد نے جوعالم شباب میں بصارت سے محروم ہو گیا تھا اپنی بصیر ت سے گردشِ ایام اور اودھ کے فرماں رواؤں کی حالتِ زار پر اپنے رنج کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
کہیے نہ انھیں امیر اب اور نہ وزیر
انگریزوں کے ہاتھ یہ قفس میں ہیں اسیر

جو کچھ وہ پڑھائیں سو یہ منھ سے بولیں
بنگالے کی مینا ہیں یہ پُورب کے امیر

جس وقت پُورا ہندوستان معاشی ابتری اور اقتصادی زبوں حالی کا عبرت ناک منظر پیش کر رہا تھا اس وقت لکھنؤ کے حالات قدرے بہتر تھے۔آصف الدولہ نے اپنی فوج کو خدمات سے فارغ کر کے برطانوی ایست انڈیا کمپنی کی فوج کو ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔اس کے تمام اخراجات حکومت اودھ ادا کرنے کی پابند تھی۔سعادت خان برہان الملک کے بعد اودھ کے حکمرانوں نے شمشیر و سناں سے اپنا تعلق توڑ لیا اور طاؤس ورباب اوررقص و سرود ان کے مشاغل بن گئے۔ شجاع الدولہ(1732-1775) مہ جبیں حسیناؤں ،رقاصاؤں اور جسم فروش رذیل طوائفوں کا گرویدہ تھا۔پُورے ہند سندھ کی پیشہ ور رذیل طوائفوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی غرض سے لکھنؤ کا رُخ کیا ۔قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں کی متعدد ڈیرہ دار طوائفیں اور بھڑوے شجاع الدولہ کے ملازم تھے۔شجاع الدولہ کا زیادہ وقت ان رسوائے زمانہ طوائفوں کی صحبت میں گزرتا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب شجاع الدولہ لمبے عرصے کے لیے طویل مسافت طے کر کے بیرونی علاقوں کے دورے پر روانہ ہوتا تو ان بے غیرت اور بے ضمیر طوائفوں کا ہجوم بھی ساتھ روانہ ہوتا۔(28) آصف الدولہ(1748-1797) کو فوجی مہمات اور انتظام سلطنت سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ ڈُوم، ڈھاڑی، ڈیرہ دارطوائفیں ، مغنیہ ، رقاصائیں،خانگیاں،رنڈیاں،بھڑوے اور مسخرے قحبہ خانوں میں داد عیش دینے کے فراواں مواقع فراہم کر رہے تھے۔معاشرتی زندگی میں جنسی جنون،فحاشی اور عیاشی کا زہر سرایت کر گیا اور شاعری میں سعادت یار خان رنگین ؔنے اہلِ ہوس کے جنسی جنون اور گھٹیا عیاشی کی تسکین کے لیے نسائیت اور فحش گوئی کی مظہر صنف شاعری ریختی اختراع کی۔اردو کے جن شعر انے ریختی میں طبع آزمائی کی ان میں جرأتؔ،ناسخؔ، رندؔ،مسیحؔ،انشاؔ،امانتؔ،جان صاحبؔ،لاڈوؔاورنازنینؔ شامل ہیں۔ انگریز شاطر اس کور مغز اور نااہل حاکم آصف الدولہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے اطاعت کیش رفیق کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور اس کٹھ پُتلی سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے۔اپنے مغربی آقاؤ ں کی خوشنودی حاصل کرنے کے بعد آصف الدولہ عیش و نشاط کی محفلیں سجانے اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہتے ۔(29)آصف الدولہ کا دربار عیاش مسخروں اور ضمیر فروش بھڑووں کا مر کز بن گیا۔لکھنؤ کا وہ دربار جو ماضی میں اہلِ کمال کا ٹھکانہ سمجھا جاتا تھا اب اس میں بہ جز رذیل اور پوچ مصاحبوں کے آصف الدولہ کے دربار میں کسی کا نشان بھی نہیں تھا۔(30)آصف الدولہ سے قبل شاہانِ اودھ جو کثیر رقوم مملکت کی فلاح ،استحکام اور دفاع پر خرچ کرتے تھے وہ آصف الدولہ نے ذاتی نمود و نمائش ،تصنع پر مبنی آرائش و زیبائش اورتعیش پسندی کی بھینٹ چڑھا دی۔واجد علی شاہ کا دربار حاکمیت ،افادیت اور صلاحیت سے محروم تھا۔اس عہد میں فنون لطیفہ کی سر پرستی قابل ذکر ہے ۔ اوپیرا (Opera) یعنیموسیقی کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا اس عہد میں مقبول ہوا۔واجد علی شاہ کو فرانسیسی اوپیرا سے گہری دلچسپی تھی ،وہ چاہتا تھا کہ ہندوستانی اوپیرا کو بھی اسی انداز میں پیش کیا جائے۔اس مقصد کے لیے آصف الدولہ نے آغا حسن امانتؔکی خدمات حاصل کیں اور منظوم ڈرامہ لکھنے پر مائل کیا۔ا ٓغا حسن امانتؔ کی معرکہ آرا تصنیف ’’اندرسبھا‘‘(1847-1853)اسی عہد کی یاددلاتی ہے۔اِندر سبھااردو کا پہلا منظوم سٹیج ڈرامہ ہے جو پہلی بار 1853میں سٹیج پرپیش کیا گیا۔ایک شہزادے اور پری کی یہ منظوم داستان محبت بہت مقبول ہوئی اور اس کے بعد بر صغیر میں صنف ڈرامے کو نئی آب و تاب نصیب ہوئی ۔آخری عہدِ مغلیہ میں نوابان اودھ نے لکھنؤ میں فنون لطیفہ کی جس طرح سر پرستی کی اس کی بدولت مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور عوام کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوا ۔سحر لکھنوی نے اس عہد کے لکھنو کی معاشرت کی چکا چوند اور عیش و عشرت کے بارے میں کہا تھا:
خدا آباد رکھے لکھنؤ کے خوش مزاجوں کو
ہر اِک گھر خانۂ شادی،ہر اِک کُوچہ ہے عشرت گاہ

نوابانِ اودھ کی اطا عت کیش وفادار ی کے با عث انگریزان پر بے حد مہر بان تھے۔ شما لی ہند وستان میں شا ہانِ اودھ کا فی عر صہ تک انگریزوں اور دوسری قوتوں سے محفوظ رہے یہاں تک کہ 1856 میں یہ علا قہ انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ (31) اس کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہوس ملک گیری کے اپنے نو آبادیاتی چُنگل کو مزید پھیلا دیا۔

مآخذ:
1. H.H.Dodwell:The Cambridge History Of India,Vol.1,Cambridge University Press,London,1929,Page,77
2.William Harrison Wood ward:A Short History Of the Expansion of the British Empire,Cambridge University Press, 1991,Page 173.
(3)محمود خان منگلوری:تاریخ جنوبی ہند ،پبلشرز یو نائیٹڈ ،لاہور،بار دوم ،1947،صفحہ 249۔
(4) H. H DODWELL : The Cabridage History of India , Volum V , Page 101
(5)اشتیاق حسین قریشی ڈاکٹر:بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ،جامعہ کراچی،اشاعت دوم،1983، صفحہ225۔
(6)A.P NEWTON:The British Empire Since 1783,Methuen & Company London,2ndEdition 1935,Page ,7 .
(7)ای۔پی۔مون:وارن ہیسٹنگز اور انگریزی راج، اُردو ترجمہ سید محمد اولاد علی گیلانی،کتاب منزل ،لاہور،بار اول ،1951،صفحہ10۔
(8)گستاولی بان ڈاکٹر:تمدن ہند،اردو ترجمہ مولوی سید علی بلگرامی،مطبع شمسی آگرہ،1913،صفحہ 161۔
William Irvine :Later Moughals,Vol,1,Universal Books ,Lahore, Page ,192 ۔(9)
(10)غلام حسین ذوالفقارڈاکٹر:اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، مطبع جامعہ پنجاب ،لاہور ،1966 ، صفحہ61۔

(11)کلب علی خان فائق رام پوری:مومن،مجلس ترقی ادب ،کلب روڈ ،لاہور،اشاعت اول،1961،صفحہ2۔
12)) وقار عظیم سید (مرتب):تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ، مطبع جامعہ پنجاب ،لاہور ،ساتویں جلد، صفحہ9۔
13 .H.H Dodwell:The Cambridge History Of India,Vol.v, Page 146.
(14)ای،پی مون: وارن ہیسٹنگز اور انگریزی راج،اردو ترجمہ ،سید اولاد علی گیلانی،کتاب منزل ،لاہور ، ، ,1951 صفحہ 43
(15)H.H.Dodwell: The Cambridge History of India,vol V Page 151
16.Ramsay Muir:A short history of British Commonwealth,George Phillip andSons,London,1947, Page775. (17)سید حسن ریاض:پاکستان نا گزیر تھا ِجامعہ کراچی،اشاعت سوم،جون 1982،صفحہ 19۔
(18 ) پنڈرل مون : ہندوستان میں اجنبی راج ، مکتبہ جدید لاہور ، سال اشاعت درج نہیں ، صفحہ 43
(19) ڈاکٹرمبارک علی : آخری عہد کامغلیہ ہندوستان ،نگارشات،لاہور،مارچ 1986 ، صفحہ 28
(20) ڈاکٹر آغا افتخار حسین : قو موں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، طبع دوم ، جون 1985 صفحہ50
(21) ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی :بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ صفحہ 225
(22) ڈاکٹرمبارک علی : آخری عہد کامغلیہ ہندوستان صفحہ 33
(23)ڈاکٹر آغا افتخار حسین : قو موں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، طبع دوم ، جون 1985صفحہ45
(24) بہ حوالہڈاکٹر آغا افتخار حسین : قو موں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، طبع دوم ، جون 1958 صفحہ47
(25) بہ حوالہ ڈاکٹرمبارک علی : آخری عہد کامغلیہ ہندوستان صفحہ21
(26) کلب علی خان فائق رام پوری:مومن صفحہ14
(27)عبداﷲ یوسف علی:انگریزی عہد میں ہندوستانی تمدن کی تاریخ،کریم سنز پبلشرز ،کراچی،اشاعت اول،1967، صفحہ56
(28)ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر :لکھنؤ کا دبستانِ شاعری، اُردو مرکز ،لاہور ،1956، صفحہ32
(29)حسن اختر ملک ڈاکٹر :تنقیدی اور تحقیقی جائزے،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،ستمبر 1983، صفحہ89
(30)وقار عظیم سید (مدیر):تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند،جلد ہفتم، صفحہ26
(31) شیخ محمد اکرام : رود کو ثر ، ادارہ ثقافت اسلا میہ ، لاہور طبع دواز دہم 1988 ، صفحہ600
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ghulam Ibn-e-Sultan (Mustafa Abad Jhang City)
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 609303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.