حج:اﷲ کے جانب سے اپنے دوست کے لیے تحفہ

ماہِ ذی الحج کا آغاز ہوچکا ہے۔ ۱۰ ذی الحج کو پوری دنیا کے مسلمان قربانی کی رسم ادا کریں گے۔ جب بھی حج اور قربانی کا ذکر آئے گا تو حضرت ابراہیمؑ خلیل اﷲ کا ذکر ضرور آئے گا۔ البتہ لوگ اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر محض ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے ذکر تک ہی محدود رہتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو پورا حج ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم خلیل اﷲ کی جانب سے دی گئی مختلف قربانیوں کی یاد گار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اﷲ کہا جاتا ہے۔ خلیل اﷲ یعنی اﷲ کا دوست۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی اﷲ کی بندگی اور اﷲ کی خاطر قربانیوں میں گزری ہے۔ ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہی اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنے دوست کا خطاب دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلی قربانی نو عمری میں ہی دی۔ ان کی پہلی قربانی اپنے عقائد و نظریات کی قربانی تھی۔ خاندان کی روایات اور آبائی مذہب سے بے زاری ان کی پہلی قربانی تھی۔ یہ قربانی بہت بڑی قربانی تھی کیوں کہ اول تو انسان کے لیے اپنے نظریات سے دستبردار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ خاندان اور معاشرے سے بغاوت کرنا بہت جرأت کی بات ہوتی ہے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی دی، انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ میں تمہارے ان معبودوں سے بے زار ہوں۔ پوری جرأت سے یہ کہا کہ انسانوں کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت انسان کو کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔

اس کے بعد دوسری قربانی انہوں نے اپنی جان کی دی ۔ آپ لوگ حیران ہونگے کہ حضرت ابراہیم علیہ نے اپنی جان کی قربانی کب دی؟ یہ بات ابھی آپ لوگوں کو سمجھ آجائے گی۔بات صرف مخالفت تک محدود نہیں رہی بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے ایک اور قدم اٹھایا کہ ان جھوٹے معبودوں کو صرف زبان سے ہی جھوٹا نہیں کہا بلکہ عملی طور پر ان کو نقصان پہنچایا اور جب لوگوں نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا کہ تم نے ہمارے معبودوں کو نقصان کیوں پہنچایا تو جواباً انہوں نے سوال کیا کہ یہ بات تم لوگ بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھتے؟ کلہاڑا تو اس کے کاندھے پر پر۔ یہ سن کر ان کی قوم کے لوگ بولے کہ ابراہیم (علیہ السلام ) تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو، یہ بت تو نہ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے، نہ دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ جو نہ بول سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکت ہیں، جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو یہ تمھیں کیا نفع یا نقصان پہنچائیں گے۔ بات تو معقول تھی لیکن عقل کے اندھے جب لاجواب ہوگئے تو انہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔

بادشاہ نے پوچھا ابراہیم ( علیہ السلام ) تمھارا رب کون ہے؟ آ پ ؑ نے جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جو زندوں کو مارتا ہے اور مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ نمرود نے کہا یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے سزائے موت کے ایک مجرم کو معاف کردیا اور ایک بے گناہ شخص کو قتل کرکے کہا دیکھو جو مرنے والا تھا اسے میں نے زندگی دیدی اور جو زندہ تھا اسے میں نے مار دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا میرا رب تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تو رب ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ بات تو یہ بھی معقول تھی ، لیکن ہٹ دھرم اور نامعقول لوگ ایسے موقع پر مزید ضد میں آجاتے ہیں ۔ نمرود نے ایک عظیم الشان آگ بھڑکانے کا حکم دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں ڈال دیا گیا۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے پیش کی گئی دوسری قربانی تھی۔ یہ ان کی قربانی جان کی قربانی تھی ۔ کیوں کہ ان کو آگ میں ڈالنے تک انہیں نہیں پتا تھا کہ آگے کیا ہوگا؟ انہوں نے اپنی جانب سے اﷲ کی خاطر آگ میں جلنا گواراہ کرلیا، انہوں نے تو اپنی جانب سے اپنی جان اﷲ کی راہ میں قربان کردی تھی، یہ تو رب کی رحمت تھی جس نے اپنے دوست کو اس آگ میں بھی محفوظ رکھا۔

جب آگ کا الاؤ ان کے لیے گلزار بن گیا اور وہ اس میں سے بحفاظت باہر آگئے تو ان کی قوم نے انہیں اپنے شہر میں رہنے نہیں دیا، انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اس شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اپنے وطن کو چھوڑنا انسان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن حضرت ابراھیم علیہ السلام نے رب کی خاطر یہ کام بھی کیا اور ایک بار پھر قربانی پیش کی۔ یہ قربانی عزیز و اقارب، والدین، دوست احباب اور وطن کو چھوڑنے کی قربانی تھی۔ یہ کام انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ کام کیا۔ یہ ان کی جانب سے پیش کی گئی تیسری قربانی تھی۔

اب دیکھتے ہیں انہوں نے چوتھی قربانی کیسے پیش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر بہت زیادہ ہوچکی تھی،لیکن کوئی اولاد نہیں تھی، انہوں نے رب سے اولاد کی دعا مانگی، دعا قبول ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی صورت میں انہیں ایک فرزند عطا کرتے ہیں۔ ابھی حضرت ابراہیم علیہ السلام شیر خوار ہی تھے کہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے حکم ہوتا ہے کہ ابراہیم اپنی بیوی اور بچے کو صحرا میں چھوڑ آؤ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بار پھر سر ِ تسلیم خم کرتے ہیں ۔ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو ساتھ لیتے ہیں ایک بے آب گیاہ ، لق و دق صحرا میں چھوڑ آتے ہیں۔ بیوی بھی ان کی طرح رب کی رضا میں راضی ہیں اور کوئی سوال کیے بغیر وہ صحرا میں بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے اﷲ کی راہ میں پیش کی گئی چوتھی قربانی تھی۔

وقت گزرتا رہا۔ وہ شیر خوار بچہ جسے اﷲ کے حکم سے صحرا میں چھوڑ آئے تھے، اب ایک نو عمر لڑکا تھا، باپ کے بڑھاپے کا سہارا، اور دین کے کاموں میں ان کا مددگار تھا۔ لیکن اﷲ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ اپنی عزیز ترین چیز کو اﷲ کی راہ میں قربان کردو۔ حضرت ابراھیم ؑ سمجھ جاتے ہیں کہ عزیز ترین چیز سے مراد ان کی اولاد ہے۔ وہ اطاعت گزار بیٹے سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں۔ وفا شعار بیٹا کہتا ہے مرحبا ابا جان، اگر یہ اﷲ کا حکم ہے تو پھر دیر نہ کیجیے۔ حضرت ابراھیم ؑ بیٹے کو قربانی کے لیے لے کر روانہ ہوتے ہیں، راستے میں بار بار شیطان انہیں بہکاتا ہے اور اس کام سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن حضرت ابراھیم ؑ اس کو کنکریاں مار کر بھگا دیتے ہیں۔

اور پھر وہ وقت آیا کہ با پ نے اپنے عزیز اور چہیتے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے لٹایا، زمین اور آسمان حیرت میں ہیں کہ ایسا منظر انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔قربان جایئے ان باپ بیٹوں پر کہ باپ قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور بیٹا کہتا ہے کہ ابا جان مجھے قربان کرنے سے پہلے میرے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ لیجیے مبادا میں موت کے خوف سے مزاحمت کروں اور نافرمانوں میں شمار ہوجاؤں، اور اس کے بعد آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے کہ کہیں شفقت پدری اﷲ کے حکم پر غالب نہ آجائے اور میری صورت دیکھ کر آپ اپنے ارادے پر عمل نہ کرسکیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی کام کیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہوں نے بیٹے کے سینے پر گھٹنا رکھا اور گردن پر چھری چلا دی، چھری چلانے کے بعد جب انہوں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بیٹا تو سلامت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا تھا۔ یہ ان کی جانب سے پانچویں اور عظیم قربانی تھی۔ یہاں بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ حضرت ابراھیم ؑ نے چھری پھیرنے کا ارادہ کیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے نے مینڈھا بھیج دیا۔ یہ بات اسرائیلیات سے آئی ہے اور بالکل غلط ہے، کیوں کہ مینڈھے کو دیکھ کر اس کو قربان کرنا تو کوئی قربانی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے نے آنکھیں بند کرکے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دی تھی، انہوں نے اپنی جانب سے رب کی رضا کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کردیا تھا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ ان کے چھری پھیرنے سے پہلے ہی مینڈھا بھیج دیا گیا تھا، بالکل غلط ہے۔اس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نے پانچویں قربانی اپنے چہیتے بیٹے کی قربانی کی صورت میں پیش کی۔

وقت گزرتا ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اﷲ کے حکم سے کعبے کی تعمیر کرتے ہیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ یہی کعبے بعد ازاں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے عقیدت و احترام کا مرکز ٹھہرا اور زمانہ قدیم سے ہی لوگ اس کی زیارت کے لیے آنے لگے۔ مسلمانوں کی عظیم الشان عبادت اور اسلام کا پانچواں رکن حج بھی یہیں ادا کیا جاتا ہے۔ اب آخر میں یہ جائزہ لیتے ہیں کہ حج و قربانی اﷲ کی جانب سے اپنے دوست کے لیے انعام کیسے ہے؟

حج اور قربانی کے تمام ہی امور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لیے کیے گئے اعمال کی یاد گار ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے لوگوں کے لیے یادگار بنا دیا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ حج مکہ میں ادا کیا جاتا ہے جو کہ حضرت حاجرہ کو صحرا میں چھوڑنے کے بعد زم زم کا چشمہ جاری ہونے کے بعد رفتہ رفتہ آباد ہوا، قبیلہ بنی جرہم سب سے پہلے یہاں حضرت حاجرہ کی اجازت سے آباد ہوا۔

اس میں کعبے کا طواف کیا جاتا ہے ، کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اﷲ کے حکم سے تعمیر کیا تھا۔ حج اراکین میں صفا و مروہ کی سعی شامل ہے۔ یہ حضرت حاجرہ کے اس عمل کی یادگار ہے جب وہ پانی کی تلا ش میں کبھی صفا پہاڑ پر چڑھ کر دیکھتیں کہ کہیں کوئی قافلہ، کوئی پانی کا نشان نظر آئے، اس کے بعد انہیں خیال آتا کہ بچہ اکیلا ہے کوئی صحرائی جانور اسے نقصان نہ پہنچا دے، یہ سوچ کر وہ نیچے آتیں ، پھر دوسرے پہاڑ کر چڑھ کر دیکھتیں کہ شاید کہیں کوئی قافلہ، یا پانی کا کوئی نشان نظر آئے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کا عمل قیامت تک کے لوگوں کے لیے محفوظ کرلیا۔

حج کے دوران شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ یہ اس عمل کی یادگار ہیں جب شیطان نے حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو قربانی سے باز رکھنے کے لیے بار بار بہکانے کی کوشش کی تھی اور انہوں نے اسے دھتکارا تھا۔آخر میں حجاج کرام جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ عمل حضرت ابراھیم علیہ السلام کی جانب سے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کی یادگار ہے۔ حج کے موقع پر حاجی آب زم زم کو تبرک کے طور پر لاتے ہیں۔ زم زم وہ چشمہ ہے جو صحرا میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جانب سے پیاس کی شد ت سے ایڑیاں رگڑنے پر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنا پر مار کرجاری کیا تھا۔ یہ چشمہ بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرف سے اﷲ کے لیے پیش کی جانے والی قربانیوں میں سے ایک قربانی کی یادگار ہے۔

حضرت ابراھیم علییہ السلام کی قربانیوں کو اﷲ تعالیٰ نے رائیگاں نہیں جانے دیا بلکہ انہیں قیامت تک کے لیے محفوظ کرلیا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو خلیل اﷲ کا اعزاز بخشا۔ اگر آج بھی ہم مسلمان حضرت ابراھیم علیہ السلام جیسا خالص اور بے لوث جذبہ قربانی پیدا کریں تو اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہم پر بھی نازل ہوسکتی ہیں لیکن ضرورت اخلاص نیت اور فنا فی اﷲ کا جذبہ بیدار کرنے کی ہے۔
آج بھیہو جو ابراھیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1450541 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More