ریاست پرستوں کو سلام

مشہور کہاوت ہے کہ کسی بادشاہ کا اپنے وزیر سے کسی بات پر اختلاف ہوا،بادشاہ کے حکم پر وزیر کو قید کردیا گیا،تھوڑے دنوں بعد اس کی جن امور پر بادشاہ سے اختلاف ہوا تھا اس میں بعض کی تو صفائی ہوگئی اور بعض کی تحقیقات ہورہی تھی،انھیں دنوں ہمسائیہ ریاست سے کس ایک نے وزیر کے پاس جیل خانے میں ایک خط بھیجا کہ آپ جیسے لائق شخص کی قدر نہ کرنے اور بے عزتی کا برتاﺅ ہونے کا حال سن کر ہمیں سخت افسوس ہوا،اگر آپ ہمارے یہاں آنا پسند کریں تو آپ کی قدر و عزت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے گا۔اس سلطنت کے سب سردار آپ کے دیدار کے مشتاق اور جواب کے منتظر ہیں۔

قید وزیر نے اس خط کے پشت پر ایساجواب لکھ دیا جومیرے اس کالم کا سبب ہے،وزیر نے لکھا تھا”آپ کا نیک گمان میری قابلیت سے بڑھ کر ہے،جس کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں لیکن ملازمت کا جو ارشاد ہوا ہے ،خاکسار کسی طرح بھی اسے منظور نہیں کرسکتا کیونکہ میں اسی ریاست کا پروردہ ہوں ذرا سی خفگی پر ریاست سے پھر جانا او ر بے وفائی کرنا مناسب نہیں سمجھتا“قید وزیر کاجوابی خط کسی طرح بادشاہ کے ہاتھ لگاتو وہ شرمندہ ہوا فوری وزیر کی رہائی کے احکامات جاری کیا،جب وزیر بادشاہ کے حضور پیش کیا گیاتوبادشاہ نے وزیر کو خلعت و انعام سے نوازنے کے بعد عذر خواہی فرمائی کہ افسوس ہے کہ تم جیسے ریاست کے خیر خواہ اور نمک حلال شخص کے ستانے میں بہت غلطی ہوئی،وزیر نے عرض کی ”جہاں پناہ ! دشمن کے ہاتھوں تکلیف پہنچنے کی بجائے حضورکے ہاتھوں پہنچ گئی تو تھوڑی ہے کیونکہ کم ازکم دشمن کو ہم پر ہنسنے کا موقع تو نہیں ملا۔

اپنی بات شروع کرنے سے پہلے اس کہاوت کا سہارا اس لئے لیا کہ آج ملک میں جہاں دیکھو ایک دوسرے پر ملک غداری کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے اور یہی نہیںبلکہ شواہد بھی پیش کی جارہی ہیں، جس میںبہت حد تک صداقت بھی ہے اور بلا شبہ ریاست کے غداروں کے متعلق قطعی دو رائے نہیں انکا انجام ہر محب وطن برا ہی چاہتا ہے ،مگر رونا تو اس بات پر ہے کہ امحب وطن کون ہے؟اگر باریک بینی اور غیر جانبدارانہ طور پرگزشتہ چند عصروں کامطالعہ کیا جائے یہ بات عیاں ہے کہ اس وقت ملک پر غالب گروہ کے بیشتر سربراہان اوریہی نہیں بلکہ آج حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے پہلے پائے پر برجمان ماضی میں ریاست کے کیخلاف ہرزہ سرائی اور وطن دشمن پالسی میںپیش پیش رہے ہیں اور آج بھی اندرونِ خانہ انکی کارستانی جاری ہیں،،ٓج مذکورہ کہاوت کی مطابق اپنی غلطی پر شرمندہ نہ کوئی بادشاہ ہے اور نہ کوئی وزیر!نہ کوئی ریاست پرست نہ کوئی حق پرست،جو ہیں وہ سب موقع پرست ہیں،جسکی لاٹھی اس کا بھینس کا قانون لاگو ہے،جو گرفت میں آجائے وہ چور اور جو بادشاہ کے حضور سر خم کردے وہ وزیر،پورا معاشرہ کرپٹ ہوچکاہے ،جو جہاں بیٹھا ہے کرپشن میں ملوث ہے ،ریلوے اسٹیشن پر متعین لال وسبز جھنڈی دکھانے والوں سے عوامی خدمت کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے خانقاہوں کے مسندپر فائز حضورِ والا،سب ریاست دشمنی پر تلے بیٹھے ہیں ،جہاں سرکاری اداروں میں دودھ کی گتھی پر فراڈ ہو،جہاں جھوٹی شادی کا سرٹیفکٹ جمع کروا کر اضافی الاﺅنس پر ھاتھ صاف کرنے کی کوشش کی جائے اورجہاں ریاست کی خدمت کا حلف اٹھانے والے ملازمین کو ریاست کے اندر عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے عوض اسپیشل الاﺅنس کی ضرورت پیش آئے ایسے ریاست پرستوں کا اللہ حافظ۔ ماسوائے وہ چند جو دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہتے ، وہ جوروز وشب ریاست کی سربلندی کیلئے وقف کرچکے اور وہ جوبلا مول ریاست کے حضور جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ،ان کو سلام۔
Faiz Khan
About the Author: Faiz Khan Read More Articles by Faiz Khan: 10 Articles with 5804 views میرا نام فیض خان ہے،گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں،بچپن میں ہمدرد،نونہال اور معیار میں کہانی اور سماجیرپورٹ لکا کرتا تھا،م،ابتدائی تعلیم پک.. View More