بےبسی

اس کہانئ کا نام ہے ** بے بسی** زینب پہاڑوں میں رہنے والی ایک قبیلے سے تعلق رکھتی تھی. یہ قبیلہ کئ سالوں سے ان پہاڑیوں میں رہ رہا تھا. یہ قبیلہ افغانستان سے آیا ہوا تھا. اس قبیلے کا رواج بہت پرانے زمانوں والا تھا.اس قبیلے کی سب لوگ ان پہاڑوں میں بہت خوش تھے ان لوگوں کا کام گاے اور بہت سارے بکریاں پالنا تھا اور ان سے دودھ بیھجنا بس یہی کام اس قبیلے کی سب لوگ کیا کرتے تھے.یہ بہت سیدھے سادے لوگ تھے لیکن مزاج کے بہت سخت تھے.؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس قبیلے کا ایک سردار تھا جس کا نام تھا سکندر خان یہ سکندر خان اس قبیلے کا پنچایت بھی تھا سب لوگ اس کو سردار جی کہا کرتے تھیں اس قبیلے کے سب لوگ اس سردار جی کی غلام تھیں کیونکہ یہاں کی سب لوگ بہت غریب تھیں اور سردار جی بہت پیسے والا آدمی تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور زینب کا بابا جس کا نام تھا عظیم خان اور زینب کی ماں گل بانو جو بہت پہلے مرچکی تھی اور زینب کی ایک بڑی بہن زینت جس کی شادی اس قبیلے میں ہوئی تھی لیکن وہ اپنے بابا کی گھر رہ رہی تھی اور اس کا ایک بیٹاجس کا نام تھا شیر خان وہ بھی اپنے ماں کے پاس تھا. ۔۔۔،،،،،،،،،؟؟؟ میں ہر صبح بہت .سارے بکریوں کو گھاس چرانے کےلیے جایا کرتی تھی اور ساتھ میں شیرخان بھی جاتا تھا. شیرخان اتنا بڑا نہیں تھا . میں اس کو اپنے ساتھ لے جایا کرتی تھی کیونکہ میں اکیلی جانے سے ڈرتی تھی . صبح کا سورج نکلتے ہی بابا نے اواز دینا شروع کیا اٹھوں زینب گائے سے دودھ لیے لو شہر کے لوگ انتظار کر رہے ہیں. دودھ کے لئے کل بھی وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ بابا دودھ زار جلدی لے کر انا.میں نے ان لوگوں سے کہہ بھی دیا کہ میں دودھ بہت دور سے لے کر اتا ہوں. میں صبح سویرے نکلتا ہوں لیکن سائیکل پر اتے اتے دیر ہوجاتی ہے. میں نے اٹھتے ہوئے بابا سے کہا بابا رات کو تو اپ کو بہت تیز بخار تھا اور اب آپ دودھ بیجنے جارہے ہو! ہاں میری بچی اگر میں نے دودھ بیھجنا بند کر دیا تو پھر گھرمیں پیسے کہاں سے آئنگی؟ ان پیسوں سے تو میں پوری گھر کا خرچا چلاتا ہوں.دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے.باجی نے کہا بس کروں زینب اٹھوں جلدی سے بیھنسوں سے دودھ نکالو اور سارے ڈبے سائیکل پر رکھوں.جی باجی میں نے چائے کا کپ بابا کے طرف بڑھاتے ہوئے کہا بابا یہ لو چائے پی لو اور ہاں بابا گھر میں پکانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہیں شہر سے واپس اتے ہوئے دال چاول لے کر انا.زینت میرے بچی میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے جاوں بےبے سے توڑی سے پیسے لےلو، بعد میں واپس کردینگے.بابا میں کل بھی بے بے کے گھر گئی تھی لیکن ان لوگوں کے پاس بھی پیسے نہیں ہے. اچھا تم فکر مت کروں میں شہر جاکر اپنے دوست سے لے لونگا. ٹھیک ہے بابا اور باجی وہاں سے باہر کےطرف گئی. میں نے دودھ کے ڈبے سائیکل پر رکھتے ہوئے بابا کو اواز دیا بابا دودھ تیار ہیں اجاوں بابا نے اوز دیتے ہوئے کہا ارہا ہوں. باجی نے کہا زینب جلدی سے چائے پی کر بکریوں کو باہر لے جانا یہ بےچاری بھوک سے مررہی ہیں. گھر میں کچھ دینے کیلئے نہیں ہیں .جی باجی میں ناشتہ کرکے لےجاتی ہوں اور ہاں باجی میرے لئے ایک پراٹھا بنادینا مجھے چائے کے ساتھ پراٹھا بہت اچھا لگتا ہے. باجی نے انکھیں گھورتے ہوئے کہا تمہارا دماغ خراب ہے ہم بھوک سے مررہے ہیں تمہیں پراٹھے کی پڑی ہے گھر میں کچھ بھی نہیں ہیں جاوں ایک کپ چائے پی لو اور دفعہ ہوجاوں باجی تو وہاں سے گئی لیکن میں بہت دیر تک وہاں بیٹھی رہی اور سوچتی رہی کاش ہم بھی شہر والوں کے طرح امیر ہوتے ہزاروں خواہش ہوتے. کھلی انکھوں سے خواب دیکھنے لگی. ہوش تب ایا جب باجی نے اواز دیا میرے سارے خواب ٹوٹ گئے اور بھاگتے بھاگتے سارے بکریوں کو اکھٹا کرکے پہاڑوں پر لے جانے لگی اور پھر پورا دن گرمی میں بکریوں کے اگے پیچھے دوڑتی رہی شام کو واپس گھر اگئے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ . شیر خان میرے لئے پانی لو بہت پیاس لگی ہیں جی لیے کر اتا ہوں. شیر خان جاوں شکیلہ کے گھر پتا کروں کے بابا اور باجی کہا گئیں ہوئے ہیں. جیسے ہی وہ شکیلہ کے گھر گیا اس وقت دروازے پر دستک ہوا میں جلدی سے دروازہ کھولنے گئی. میں سوچ رہی تھی کہ شاہد باجی ہوگی لیکن جسے ہی میں نےدروازہ کھولا سامنے دیکھا سردار جی کھڑا تھا لمبا چوڑا قد پولا ہوا جسم ایسا لگ رہا تھا ک سامنے گوشت کا پہاڑ کھڑا ہے وہ بہت موٹا تھا اور اس کی بڑی بڑی موچھی تھی.میں نے کہا سردار جی اپ یہاں! بابا تو گھر پر نہیں ہے. سردار جی نے ہنستے ہوئے کہا اپ تو ہے گھر میں. ہاں لیکن میں کچھ کہنے والی تھی اس سے پہلے سردار جی گھر کے اندر دخل ہوا اور صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا.اور مجھے پاس بیھٹنے کے لئے کہا زینب ادھر بیٹھوں میرےپاس. میں ڈر گئی تھی. سردار جی مجھے پہلے دن سے برا لگتا تھا. یہ اچھا ادمی نہیں تھا. سارے قبیلے والوں کو معلوم تھا لیکن سب لوگ مجبور تھے کیونکہ یہ اس قبیلے کا سردار تھا. بہت پیسے والا تھا اور بہت سنگدل انسان تھا. لوگ اس کا نام سنتے ہی ڈر جاتے تھے سب قبیلے والے اس کے غلام تھے. یہ جو بھی کہتا سب ہاں میں ہاں ملا دیتے تھیں. میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میں سردار جی کے پاس نیچے زمین پر بیٹھنے گئی ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ قسط نمبر ١
Nadia Khan
About the Author: Nadia Khan Read More Articles by Nadia Khan: 9 Articles with 22620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.