مذہب کا حقیقی کردار اور سیاسی استعمال

انسانیت کے تمدنی ارتقاء میں جہاں دیگر عوامل کا کردار رہا ہے وہاں مذہب نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا، مذہب کا انسانی زندگی سے بہت گہرا تعلق رہا ہے ، انسانوں نے شروع دن سے اپنے سیاسی اور سماجی ضروریات کے لئے جواز مذہب میں ڈھونڈنے کی کوششیں کیں۔وقت کے بدلتے ہوئے دھاروں نے عقلی قوتوں کو ترقی دی اورنئے تقاضوں کو جنم دیا، لیکن ہر دور میں مذہب انسانوں کی زندگیوں میں کسی نہ کسی طرح دخیل رہا، تہذیب نفس ،اعلیٰ معاشرتی اقدار کے حصول کے لئے مذہبی افکار ونظریات اپنا کام کرتے رہے ۔، مذہب نے انسانی حیات کے مختلف شعبوں پر بے پناہ اثر ڈالا ۔ اگرچہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان مذہبی افکار نے بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھا لیکن بہر حال ان کی جڑیں معاشرے میں گہری ہوتی گئیں ۔ ہرقوم اور ملت اپنے مذہبی افکار ونظریات کو پروان چڑھاتی رہی۔ کچھ تو مرور زمانہ سے ختم ہوکر رہ گئیں ان کے افکار مذہبی اور صحائف دنیاسے مٹ گئے اور کچھ نے وقت اور حالات کے مطابق ان میں جدت اور نئے دور کے حوالے سے تطبیق پیدا کرکے ان کی حیات وجاودانی کو سلامت رکھا ۔ آج کرہ ارض پر بسنے والا ہر انسان کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی مذہبی فکراور نظریہ کا حامل ہے چاہے اس کی وابستگی ظاہری ہی کیوں نہ ہو ۔بقول کینتھ واکر ’’دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنا کسی قسم کا معیار اقدار اور ضابطہء اخلاق نہ رکھتاہو اور جس پر اس کا برائے نام ایمان نہ ہو ۔‘‘

مذہب کا معاملہ ہمیشہ سے بڑا حساس رہا ہے ۔ کیونکہ اس کی اساس غیر متزلزل ایمان اور یقین پر ہوتی ہے اور اس میں کسی حدتک شدت کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے اگر کسی فرد کے ان افکار پر تنقید ہو، ان کو چھیڑا جائے تو لامحالہ اس کا ایک شدید رد عمل دیکھنے میں آتا ہے ۔ مذہبی عقائد ونظریات اس کے رگ وجاں میں بسے ہوتے ہیں اور اس کا نفسیاتی مسئلہ بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ مذہب نام ذہنی احساس ہی کا نہیں بلکہ اس کے زیر اثر کردار و عمل کا بھی ہے ۔ لہذا وہ ان تمام معاملات میں انتہائی حساس ہوتا ہے جن کا تعلق اس کے عقائد ونظریات سے ہو۔ ایک مذہبی آدمی اپنے خداا وررسول، رہنما ، پیغمبر اپنے صحائف مذہبی کتب اور دیگر عبادات کے طریقے اور رسم ورواج کو اپنی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور ان تمام پہلوؤں کے ساتھ انتہائی جذباتی وابستگی قائم کرلیتا ہے ۔ اور ان کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتا ہے دنیا کے کسی بھی مذہب کے پیرو کاروں کا تجزیہ کیا جائے تو یہی کیفیت نظر آئے گی ہر مذہب کا پیروکار اپنے تصور خد،ا رہنما ،پیغمبر ،کتاب اور دیگر عقائد ورسوم کو دوسروں سے اعلیٰ اور حق سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام عقائد ونظریات اور مذاہب کو باطل ٹھہراتا ہے اور ایک خاص طرح کی عدوات اپنے اندر رکھتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ مذہبی تاریخ باہمی آویزشوں ، جنگوں سے بھری پڑی ہے کہیں مذاہب کے باہم تنازعات رہے کہیں ان مذاہب کے اندر فرقہ وارانہ جنگیں رہیں ۔ تاریخ انسانی کے ان واقعات کا سبب اگرچہ کہ صرف مذہب نہیں کیونکہ بنیادی طور پر مذہب انسانوں کی اخلاقی ،روحانی ، تہذیبی ارتقاء کے لئے کام کرتا رہا ہے مگر مذاہب کے درمیان گروہیت پر مبنی جنگ وجدل کے پیچھے ان مفادپرست سیاسی عناصر کا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے حصول اقتدار کی خاطر مذہب کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرکے معاشرے میں افتراق و انتشار پیدا کیا ۔

تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بعض مفاد پرست مذہبی رہنماؤں نے بالادست حکمران طبقہ کے مفادات کی تکمیل کے لئے اوراس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے مذہبی جنگوں کو ہوادی ۔لہذا معاشرے میں مذہب بدنام ہوا ۔ ان مذہبی رہنماؤں نے عقیدہ ، مسلک کی بنیاد پر ایسے فروعی اختلافات کو ہوا دی کہ صدیوں سے ان اختلافات کی بنیاد پر انسانیت ٹکڑوں میں بٹ کے رہ گئی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ افرادِ معاشرہ کی مذہب کی حقیقی روح سے دوری پیدا ہوئی اور وہ فروعی مسائل واختلافات میں الجھ کے رہ گئے جس سے معاشروں کا شیرازہ بکھرنے لگا۔

جب مذہبی طبقہ سیاسی اقتدار کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے اور اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لئے معاشرے کے مفاد پرست عناصراور انسان دشمن قوتوں سے الحاق شروع کر دیتا ہے اورعوامی مذہبی جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ثواب اور کامیابی کے لالچ دیکر مخالف قوتوں کے خلاف تشدد کے نظریات کا پرچار ہتا ہے۔تاکہ کسی طرح ان کو شکست دیکر اقتدار تک پہنچا جائے یا اپنے مخصوص عقیدے یا مسلک کی بالا دستی قائم کی جائے۔اب اس عمل کے دوران جمہوری رویوں کی بجائے زبردستی اور طاقت کا فکر غالب آجاتا ہے اور معاشرہ تشدد کی آماجگاہ بن کر رہ جاتا ہے ۔تشدد کرنے والے اسے عین سعادت اور مذہبی فریضہ سمجھنے لگتے ہیں اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مذہب کے مقدس نام پر مفادات کی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔اس عمل میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مذہبی طبقہ ایک دوسرے سے بھی دست و گریباں ہو جاتا ہے نئے نئے فرقے ، مذہبی اور سیاسی ٹولے نمودار ہوتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے کرسی اقتدار کا مالک بن جائے، یا معاشرے میں اس کے حلقہ جات زیادہ ہو جائیں۔ مذہبی درس اپنے مخالفین کی ہرزہ سرائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔اور اس عمل کو مزید بڑھانے میں سرمایہ پرست قوتیں خوب سرمایہ کاری کرتی ہیں خوب فرقہ وارانہ آگ کو ہوا دی جاتی ہے۔سیاسی حکمران طبقہ بظاہر سب فرقوں کے ساتھ ہوتا ہے،ہر مذہب کی تعریف کرتا ہے اور با الواسطہ یا بلا واسطہ انہیں اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔

معروف مفکر مولانا عبید اﷲ سندھی ؒ کے بقول:’’ہر قوم جو اپنے زمانہ تاریخ میں فکر وعمل کی دنیا میں بین الاقوامی قیادت کی مالک بنی اس کا طرہ امتیاز اس کی یہی عالمگیریت اور جا معیت تھی اور جب اس قوم کے مٹنے کے دن آئے تو اس قوم کے افراد کی نظریں تنگ ہو گئیں ان کے دماغ اور بھی تنگ ہو گئے اورانسانیت کا بین الاقوامی تصور تو الگ رہا ان کے ذہنوں میں اپنی پوری قوم کی سمائی بھی مشکل ہوگئی ۔وہ انسانیت سے قومیت پر آگئے اور قوم سے ان میں فرقے بن گئے اور آخر فرقوں میں بھی آپس میں دال بٹنے لگی اور نفسیٰ نفسی تک نوبت پنہچ گئی پہلے یہو دی اور عیسائی اس روگ میں مبتلا ہوئے اور آج مسلمانوں کابھی یہی حال ہے۔‘‘۔ موجودہ دور میں مذہبی کشمکش ،بغض و عناد اور سیاسی آلہ کار بن جانے کی وجہ دراصل یہی ہے کہ عالمگیریت اور جا معیت کی روح نکل گئی ہے۔

مذہب کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ صرف قومی سطح پہ ہوتا ہے بلکہ عالمی سامراجی طاقتیں بھی اسے گذشہ کئی دھائیوں سے بھر پور طریقے سے استعمال کر رہی ہیں، عالمی منظر نامے میں مذہب کے سیاسی استعمال کا کام اس وقت شروع ہوا جب 1917میں روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور بعد ازاں سوویت یونین کا قیام عمل میں آیا، سوشلزم کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے لئے مذہبی قوتوں کو میدان میں لایا گیا، سرمایہ داری بلاک نے اس حوالے سے خوب سرمایہ کاری کی ، سوشلسٹ نظریات کے خلاف مذہبی جماعتوں کی تشکیل کی گئی، کتب ،رسائل و اخبارات شائع کئے گئے، ایسی مذہبی شخصیات کو میڈیا کے ذریعے مشہور کیا گیا جو سوشلزم کے خلاف مذہبی عقائد کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، عالمی سطح پہ مذہبی اتحاد جن میں تمام مذاہب کی نمائندگی تھی بنائے گئے، اور یہاں تک ہوا کہ ’’خدا بچاؤ‘‘ تحریک شروع کی گئی، اور اس کام کے سلسلے میں مذہبی پیشواؤں کو خوب مراعات فراہم کی گئیں۔یہ دور امریکہ اور اس کے حواریوں اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کہلاتا تھا۔اس سرد جنگ کے زمانے میں خاص طور پہ اسلام، اسلامی سکالرز ، اداروں اور اسلامی ممالک کو استعمال کیا گیا اور باقاعدہ ’’جہاد‘‘کے کلچر کو اس انداز سے متعارف کروایا گیا کہ پوری مسلمان امہ میں سے نوجوانوں کو جمع کر کے انہیں اسلحہ چلانے کی تربیت فراہم کر کے روسی فوجوں کے خلاف جنگ میں اتارا گیا۔جہادی تنظیموں کو معاشی طور پہ مضبوط کیا گیا،’’مجاہدین‘‘ کو میڈیا میں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔

اور اس طرح عالمی سطح پہ دو سیاسی قوتوں کے درمیان جنگ میں مذہب کو ایک آلہ کے طور پہ بھر پور طریقے سے استعمال میں لایا گیا۔ہزاروں جانیں لقمہ اجل بنیں، اور ایک طویل جنگ وجدل کے بعد فغانستان تباہ ہوا اور سوویت یونین بکھر گیا اور سرمایہ داری بلاک کو بظاہر فتح نصیب ہوئی۔

وقت نے نئی کروٹ لی اور اب عالمی سطح پہ غالب سرمایہ دار قوتوں کے مفادات تبدیل ہوئے انہوں نے اقوام کے معاشی وسائل کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لئے پھر سے مذہب خصوصاً اسلام کو استعمال کرنے کے لئے نئی حکمت عملی ترتیب دی، اس کے لئے انہوں نے اپنی تخلیق کی گئی اور استعمال شدہ تمام ’’جہادی تنظیمیں‘‘ اور ’’مجاہدین‘‘ کو دہشت گرد قرار دیا اور ان کے خلاف بظاہر ’’جنگ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے ملکوں اور قوموں پہ چڑھائی شروع کر دی۔اس طرح آج پوری دنیا میں خوف اور دہشت کو پھیلا نے کے لئے ہر طرح کے ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے اور ایک طرف ان دہشت گردوں کوبالواسطہ یا بلا واسطہ اسلحہ، لاجسٹک سپورٹ، افرادی قوت سے مضبوط کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ان کے خلاف واویلہ کر کے انہیں جواز بنا کر ممالک کے نظاموں اور معیشتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔آزاد میڈیا یہ بھی بتاتا ہے کہ آج جتنے بھی’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نام پہ بننے والے نیٹ ورک پوری دنیا میں سر گرم ہیں انہیں عالمی سامراجی ایجنسیوں نے خود پال رکھا ہے، اور ان سے بظاہر جنگ کے نام پہ ملکوں اور قوموں کی خود مختاری کو روندا جا رہا ہے۔اس تمام صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے،اور یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے معاشرے میں ایسے کسی بھی نیٹ ورک کو پھیلنے اور نشوونما پانے سے روکنے کی ٹھوس حکمت عملی اختیار کریں۔

مذہب کے سیاسی استعمال کے نتیجے میں جہاں معاشرے میں جمہوری رویے دم توڑتے ہیں وہاں عوام مذہب کے اخلاقی اصلاحی عمل سے استفادہ نہیں کر سکتے اور معاشرہ مذہب کی بنیاد پر تشدد اور جابرانہ رویوں کا شکار ہو کرزوال کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے۔ حالانکہ مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا بلکہ معاشرے کے اندر سے سماجی برائیوں کا خاتمہ چاہتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار معاشرے کے اندر پیدا کرکے اس کو ترقی کے راستے پر رواں دواں کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن یہ بلند تر مقصد اس وقت ہی پورا ہوسکتا ہے جب معاشرہ کے اندر تمام مذاہب کے پیروکار باہم شیروشکرہوکر رہیں اپنے مذہبی عقائد کے اختلافات کو باہم متنازعہ بناکر معاشرے کو انتشار میں مبتلا نہ کریں، دوسروں کے لئے وسعت نظری ، رواداری ، محبت، اخلاص اور ہمدردی کے جذبات پیدا کریں ۔ مذاہب کی باہمی آویزشوں ، چپقلشوں اور فرقہ وارانہ جنگ وجدل کو ختم کرکے رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مذاہب کی وہ تعلیمات جو انسانیت کی فلاح وبہبود تحمل وبرداشت ، ہمدردی وایثار پیدا کرتی ہیں ان کو عام کیا جائے ان کو معاشرے میں فروغ دیا جائے ۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136023 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More