مایوسی کی باتیں ہی نہ لکھیں

اکثر تحریریں جو ادھر ادھر نظروں سے گزرنے کو ملتی ہیں مایوس کردیتی ہیں۔ یہ تحریریں چاہے پرنٹ میڈیا میں ہوں، الیکٹرانک میڈیا پر یا آج کل کی نئی اصطلاح یعنی سوشل میڈیا پر اکثر مایوس کردیتی ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ میری تحریریں آپ کے ویب سائٹ کے معیار پر پوری اترتی ہونگی یا نہیں لیکن ایک امید پر لکھنا شروع کیا ہے کہ شاید میری یہ تحریریں ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا سمج کر قبول کی جائیں۔ امید پر دنیا قائم ہے اور میں بھی جلدی مایوس ہونے والا نہیں۔

مملکت خداداد میں میڈیا کو اچھی خاصی آزادی تو مل گئی ہے۔ تاہم یہ دیکھنا تھوڑا وقت لے گا کہ ہم میڈیا اس آزادی کا فائدہ اٹھاکر قوم کی بہتری کرسکے گی کہ نہیں۔ اللہ کرے ہم جلد از جلد اس آزادی سے مثبت راہیں متعین کرنے میں کامیاب ہوں (آمین)

قصور میڈیا کا بھی نہیں۔ اصل قصور تو بحیثیت قوم ہمارا ہوگا کہ ہم اس میڈیا کو کیسا فیڈ بیک دے رہے ہیں اور اس کے ذریعے ہم کیا سکیھنا چاہتے ہیں۔

آرٹیکل لکھنا میرے جیسے کم علم لوگوں کے لئے ایک مشکل کام ہے تاہم میں طالب علم بن کر اس سلسلے میں کچھ سیکھتے ہوئے اور شیئر کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔

یہ تو تمہید سی تھی اب اصل موضوع پر براہِ راست آنا چاہتا ہوں:
میں نے اکثر اپنے اخبارات، ٹی وی چینلز، رسالوں، اور دوسرے کرنٹ افیئرز کے واسطوں پر دیکھا ہے کہ ہم مسائل پر بہت زیادہ بات کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں اور ان کے بارے میں ہماری معلومات بھی کافی زیادہ ہیں۔ اگر کمی ہے تو وہ مسائل کے حل کے تجاویز کی ہے۔ یعنی ہمیں مسائل تو ٹھیک ٹھاک معلوم ہیں بس ان کا حل نہیں پتہ! کیا وجہ ہے اس مسئلے کی؟ بہت سوچا! بہت سوچا! پتہ چلا کہ دراصل میں خود مسائل پیدا کرنے والوں میں سے ہوں! اچھا یہ بات ہے! تبھی تو مسئلے کا حل بتانے سے قاصر ہوں!

تعلیم کے شعبے کو ہی لے لیں۔ ہم سب کو اپنے تعلیمی نظام کی ساری خامیاں معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا نظامِ تعلیم تھیوریٹیکل ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ نظام ڈبل سٹینڈرڈ ہے یعنی غریبوں کے لئے الگ اور امیروں کے لئے الگ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں رٹے کا راج ہے کانسپچول لرننگ بہت کم ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم مارکیٹ کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارا استاد جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تدریس کے موثر ہتھیاروں سے لیس نہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہم کمپیٹیشن کے نام پر لیگ پًلنگ سیکھ رہے ہیں(میرا بیٹا سکول میں فرسٹ آنا چاہیئے)، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ۔۔۔۔۔ ہمیں کیا نہیں معلوم؟ سب کچھ تو ہمیں معلو م ہے!

کیا معلوم تو اپنی پوزیشن معلوم! نہیں معلوم تو اپنی غلطیاں نہیں معلوم! نہیں معلوم تو تعلیم کو عملی بنانا نہیں معلوم! نہیں معلوم تو انصاف کرنا نہیں معلوم! نہیں معلوم تو چیزوں بجائے رٹنے کے سمجھنے کی کوشش کرنا نہیں معلوم! نہیں معلوم تو اپنے بچے کو اس کے رجحانات کے مطابق تعلیم نہیں معلوم! نہیں معلوم تو مارکیٹ کے تقاضے نہیں معلوم! نہیں معلوم تو استاد کے ساتھ مل کر کام کرکے اس کو سپورٹ کرنا نہیں معلوم! نہیں معلوم تو کمپیٹیشن کے نام پر لیگ پُلنگ سے بچنا نہیں معلوم! یہ سب کچھ ہمیں معلوم ہونے کے با وجود نہیں معلوم!

سیدھی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اپنے بچوں کا مستقبل ہم خود ہی تاریک بنارہے ہیں۔

اللہ کرے ہمیں جلد یہ سب سمجھ آجائے (آمین)
Muhammad Ishaq
About the Author: Muhammad Ishaq Read More Articles by Muhammad Ishaq: 7 Articles with 5182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.