عشق رسولﷺ کے داعی اور اقبالؒ کے مرد مومن حافظ محمد مشتاقؒ

اﷲ پاک نے مومن کے لیے اِس دُنیا کو قید خانہ کہا ہے۔ موت کو مومن کے لیے تحفہ قرار دیا ہے۔ عالم فنا سے عالم بقا میں جانے والے اپنے رب کے حضور پیش ہوجاتے ہیں اور یہ ہی انسانی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ زندگی کی ظاہری شام در حقیقت ایک صبح نور کی نوید ہوتی ہے۔ اور ایسی زندگی مرد مومن کو میسر آنے والی ہوتی ہے جو ہمیش ہوتی ہے۔ جس کے بعد کوئی اختتام نہیں۔ایسی ہی روشن راہوں کے مسافر ہمارئے دوست جناب حافظ محمد مشتاق زاہدؒ ہوگئے ہیں۔چند ماہ پیشتر ہمارئے دوست چوہدری مقصود صاحب کے بھائی کی وفات پر تعزیت کے لیے معین الحق علوی جو ہمارئے بہت ہی محترم دوست ہیں اور تحریکی ساتھی ہیں۔ تشریف لائے اور حافظ مشتاق ؒ کو بھی میرئے ہاں بلاوا لیا کہ ہم اکھٹے تعزیت کے لیے مقصود چوہدری صاحب کے ہاں جائیں گئے ۔ یوں حافظ محمد مشتاق ؒ کے ساتھ وہ آخری ملاقات رہی۔ حافظ مشتاق صاحب ؒ ایک دلیر شخص کا نام تھا۔ عشق رسولﷺ کی شمع فروزاں کرنے کے لیے ساری زندگی تگ و تاز میں رہے اور زندگی کا سفر پچاس سالوں میں ہی مکمل کرکے اپنی رب کے حضور پیش ہوگئے۔ حافظ قران ہونے کی وجہ سے اور دینی معاملات کا علم ہونے کی وجہ سے اور اقبالؒ کا عاشق ہونے کی بناء پر انجمن طلبہ ء اسلام ،مصطفائی تحریک پاکستان فلاح پارٹی کے پروگراموں میں انتہائی محترم حثیت رکھتے ۔ انجمن طلبہ ء اسلام لاہور کے اُس وقت ناظم رہے جب طلبہ ء تنظیموں پر پابندی تھی۔ حافظ صاحبؒ نے دنیاوی نمود نمائش کی بجائے اپنی آقا کریمﷺ کی محبت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے تھا۔میرا حافظ صاحب سے تعلق بہت ُپرانا ہے۔ کوجینٹ کالج شادمان اور کوجینت کالج سمن آباد میرئے پاس جناب حکیم غلام مرتضیٰ کے ساتھ تشریف لاتے رہے۔بلکہ جب بھی حکیم غلام مرتضیٰ جو ہمارئے تنظیمی ساتھی ہیں تشریف لاتے تو حافظ مشتاق صاحب ساتھ ہی ہوتے ۔ بلکہ انجمن طلبہ ء اسلام، مصطفائی تحریک المصطفیٰ ویلفیر سوسائٹی کے پروگراموں میں حکیم غلام مرتضی مجاہد اور حافظ محمد مشتاق یک جان دو قالب ہوتے۔ اکھٹے آتے اور اکھٹے ہی جاتے۔شوگر کے جان لیوا مرض نے اچانک حافظ صاحبؒ کی زندگی میں بسیرا کر لیا اور ہمارئے ہنستے مسکراتے حافظ صاحبؒ ہمیں چھوڑ گئے۔کچھ نجی معاملات کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میرئے چیمبر بھی تشریف لاتے رہے اور میں اُس حوالے سے اُن کا وکیل بھی رہا۔ بہت بہادر، جی دار انسان تھے۔ہر وقت مسکراہٹ چہرئے پہ سجائے ملتے اور جس سے بھی ملاقات ہوتی اُسے عزت دیتے اور بور نہ ہونے دیتے۔عشق رسولﷺ کے مشن کے فروغ کے لیے اپنی زندگی کی آخری ساعتوں تک تگ وتاز میں رہے۔ انجمن طلبہ ء اسلام اور مصطفائی تحریک کی بناء پر حافظ محمد مشتاق ؒ کے ساتھ بننے و الا تعلق خالصتاً اﷲ پاک کی رضا کے لیے تھا۔ حافظ صاحب اقبالؒ کے عاشق تھے۔جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ قلندر میلِ تقریر نہ دارد، جز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد، ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت،کہ آب از خون شبیر ندارد (ارمغانِ حجاز)حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جہاد فی سبیل اﷲ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو جناب حافظ مشتاق نے بھی اقبال کی اسی فکر کو پنایا کہمگو از مدعائے زندگانی، ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست، من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست (پیام مشرق) جناب حافظ مشتاق صاحبؒ اقبالؒ کے اِس فلسفے پر کار بند رہے۔ کہ جیسا کہ حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں۔ زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔ ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است، وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) جناب حافظ محمد مشتاق ساری زندگی حضرت اقبالؒ کے فلسفے پر کاربند رہے کہ جس میں حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل،یا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم) حافظ محمد مشتاق نے ؒ یہ بات عملی طور پر ثابت کی کہ حضرتِ اقبال نے جیسے فرمایا تھا کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ حافظ مشتاق نے اقبالؒ کا عاشق ہونے کا حق ادا کیا اور اِس سوچ کو پروان چڑھایا کہ مگو از مدعائے زندگانی، ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست، من از ذو ق سفر آنگونہ مستم،کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست، (پیام مشرق) جیسا کہ جناب حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام نہیں، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔قوموں کی زندگی میں لیڈرشپ کا بہت اہم کردار ہوا کرتا ہے۔جس قوم میں اعلیٰ قومی قیادت موجود ہو اُس قوم کو ہر طرح کے خطرات سے نبردآزما ہونے کی ہمت مل جاتی ہے۔ گویا قومی سطح پر قیادت ہی پوری قوم کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہوتی ہے ہر کس و نا کس کی رائے کا احترام کرنا بھی درحقیت لیڈر شپ کا کمال ہوتا ہے۔ حافظ محمد مشتاق بطور قائد انجمن طلبہء اسلام بہت ہی فعال رہے اور عشق رسولﷺ کے مشن کے فروغ کے لیے گلی گلی قریہ قریہ گھومے۔انتہائی سادہ منش انسان، نہ کوئی لالچ اور نہ کو ظاہری شان و شوکت۔آج ہمارا دوست حافظ محمد مشتاق ؒہم نہیں لیکن وہ ہم سے جدا بھی نہیں۔ رہنماء کبھی اپنے ساتھیوں سے جدا نہیں ہوتے۔ اﷲ پاک حافظ صاحبؒ کی منزلیں آسان فرمائے اور اُنھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔حافظ محمد مشتاقؒ کی وفات پر حافظ زاہد رازی، حکیم غلام مرتضیٰ مجاہد،معین الحق علوی، تنویر چوہدری، منیر چوہدری، ذیشان راجپوت، امانت زیب، پیر زادہ بدر ظہورر چشتی، عامر اسماعیل مسعود سیالوی، حسن علی ٹیپو، حافظ الیاس ،ناصر قادری، سید راشد گیلانی اور دیگر دوست اکھٹے تھے تو حافٖظ صاحب ؒ کی زندہ دلی کا تذکرہ کر رہے تھے۔اﷲ پاک حافظ صاحب ؒ کا نیا سفر آسان کرئے ۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381798 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More