پاکستان بنانیوالوں کی اولادیں

پاکستان کی تخلیق اﷲ رب العزت کی طرف سے مسلمانان برصغیر کیلئے ایک بہت بڑی نعمت اور اس میں بسنے والے تمام انسانوں قطع نظر انکی قومیت و مذہب ایک عطیہ خداوندی ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح سمیت برصغیر کی تقسیم کوئی نہیں چاہتا تھا ۔ وہ متحدہ ہندوستان کے ہامی تھے لیکن ہندوؤں کی مکارانہ سوچ سے مجبور ہو کر قائد اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ اب ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جہاں قائد اعظم کے ذہن میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے وہیں سے قیام پاکستان کی سیاسی بنیاد پڑتی ہے ، وہیں سے تخلیق پاکستان کی طرف پہلا قدم اٹھتا ہے اور پھر قدم سے قدم ملتے ہیں ، قافلہ بنتا ہے اور بالآاخر یہ قافلہ 14اگست 1947کو اپنی منزل پر پہنچتا ہے ۔ پاکستان کی تخلیق اور قیام کیلئے اگر کسی نے ایک قدم بھی بڑھایا یا ایک لفظ بھی اسکے حق میں لکھا یا کہا اسکا پاکستان کی تخلیق میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا کسی ایسے شخص کا جس نے اس ملک کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دیا ۔ جس کسی نے پاکستان بننے کے حق میں محض دعا بھی کی تو وہ بھی اسی طرح قابل احترام اورقابل ستائش ہے جسطرح کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان بنانے میں عملی کردار ادا کیا۔کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ملک کی تخلیق کو محض اپنی یا اپنے باپ دادا کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دے اور اس بنا پر قیام پاکستان کیلئے جدو جہد کرنے والے باقی تمام مسلمانان برصغیر کی کوششوں اور قربانیوں کی نفی کرئے ۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی بد اعمالیوں کو اپنے ٓاباؤاجداد کی پاکستان کیلئے قربانیوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرئے اور یہ سمجھے کہ اسے اس ملک میں مادر پدری ٓازادی ہے کہ وہ جو مرضی کرئے کیونکہ اسکے باب دادا نے اس ملک کو بنانے میں کر دار ادا کیا تھا۔ وہ جب چاہے اس ملک کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر گالی دیں اور انکے حواری اپنے ٓاپ کو پاکستان بنانے والوں کی اولادیں کہہ کر پاکستانیوں کو blackmailکرنے کی کوشش کریں ۔

واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت کچھ گرو ہ ایسے تھے جو اسکے مخالف تھے اور اس مخالفت کی وجوہات ذاتی نوعیت کی تھیں اور کچھ گروہ ایسے بھی تھے جو قیام پاکستان کے حق میں تھے اور اسکے پیچھے بھی انکی ذاتی وجوہات اور مفادات تھے ۔المیہ یہ ہوا جب پاکستان بن گیا تو جو مخالف تھے انہوں نے حمائت کا راگ الاپنا شروع کر دیا اور جو مفاد پرست ٹولہ تھا وہ نوزائیدہ پاکستان پر قبضہ کی سازشوں اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرم عمل ہوگیا نتیجہ یہ نکلا کہ بانیان پاکستان اور حصول پاکستان کے اصل اغراض و مقاصد رفتہ رفتہ پس منظر میں چلے گئے۔ مفاد پرست لوگ اپنے سینوں پر پاکستان کیلئے نام نہاد قربانیوں کا تمغہ سجا کر مسندوؤں پر براجمان ہو گئے ۔جو قیام پاکستان کے خلاف تھے وہ تخلیق پاکستان کے بانی کہلائے اور انکی اولادیں ٓاج بڑھ چڑھ کر دوسرے پاکستانیوں پر یہ احسان جتاتے نہیں تھکتی کہ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں ہمارا احترام کرو اور ہم اس ملک میں جو مرضی کریں ہمیں کوئی نہ پوچھے ۔

جو لوگ مہاجر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ مہاجر نہیں ہیں ۔ الطاف حسین 17ستمبر 1953کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوا ، تو وہ مہاجر کیسے ہو گیا وہ تو by birth پاکستانی تھا۔ فاروق ستار 9اپریل 1959کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوا تو وہ مہاجر کیسے ہو گیا؟مصطفی کمال 27دسمبر 1971کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوا تو وہ مہاجر کیسے ہو گیا؟اسی طرح ہر وہ شخص جو پاکستان میں پیدا ہوا وہ مہاجر نہیں بلکہ پیدائشی پاکستانی ہیں ۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب تو ہو سکتا ہے کہ اسکے والدین ہجرت کرکے پاکستان ٓائے تھے لیکن وہ اپنے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مہاجر ہے کیونکہ جس کسی نے بھی 14اگست 1947کے بعد پاکستان کی سرزمین پر جنم لیا وہ اول و ٓاخر پاکستانی ہے مہاجر نہیں اور انکے اس حق کو کبھی کسی نے جھٹلایا نہیں یہ اور بات ہے کہ وہ پاکستانی کہلانے سے زیادہ اپنے ٓاپ کو خود ساختہ مہاجر کہلانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔

دوسری بات یہ کہ کیا پاکستان صرف کراچی میں بسنے والے چند لاکھ اردو بولنے والے افرادکے ٓاباؤ اجداد نے بنایا؟ کیا اس میں برصغیر کے باقی مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا؟ اگر تو ایسا ہے پھر تو یقینا یہ لوگ اس بات کا رونا رونے میں حق بجانب ہیں کہ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں ہمارا احترام کرولیکن اگر ایسا نہیں ہے (جو کہ یقینا نہیں ہے ) تو پھر یہ رٹے رٹائے جملے اور خود ساختہ مہاجر ازم کا لیبل اتار کر پھینکا ہوگا۔

تیسری بات یہ کہ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی کثیر تعداد ایسی تھی جو ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ٓاکر settleہوئے اوراسکی بنیادی وجہ ایک روشن مستقبل کا خواب تھا ۔ پاکستان نے ہر ٓانیوالے کو کھلے دل سے قبول کیا ، گلے لگایا اور انہیں پناہ دی ۔یہ ان لوگوں پر اس سرزمین کا احسان ہے جس نے ان سب کو اپنی گود میں سمو لیااور ٓاج تک ان کی پرورش کر رہی ہے ۔اور ان کا حال دیکھیں کہ خود کو پاکستان بنانے والوں کی اولادیں کہہ کہہ کر الٹا پاکستان پر احسان جتاتے نہیں تھکتے۔ صرف ایک روشن مستقبل کا خواب لیکر پاکستان ٓاکر settle ہوجانے سے کوئی پاکستان کا خالق نہیں بن جاتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر روز لاکھوں لوگ ایک روشن مستقبل کا خواب لیکر بیرون ملک settleہوتے ہیں تو کیا کل ان کی اولادیں یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہونگی کہ فلاں ملک ہمارے ٓاباؤ اجداد نے بنایا ؟ اگر کسی ملک کا خالق ہونے کا یہی پیمانہ ہے تو پھر حیرت ہے الطاف حسین برطانیہ میں settleہو چکا ہے اورابھی تک اسکی بیٹی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ برطانیہ بنانے والے کی اولاد ہے ؟

حقیقی معانوں میں اور عملی طور پر پاکستان بنانیوالوں اور اسکے لئے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کی اولادیں تو کچھ پاکستان اور کچھ پاکستان سے باہر گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں جنکو پاکستان میں بننے والی حکومتوں نے کبھی پوچھا تک نہیں لیکن جوپاکستان ٓاکر settleہوگئے ان کی اولادیں دھڑلے سے اپنے ٓاپکو پاکستان بنانیوالوں کی اولادیں کہہ کر پاکستان پر اس احسان کا بوجھ ڈالتی جا رہی ہیں ۔ کیا کبھی قائد اعظم ، علامہ اقبال ، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور تحریک پاکستان کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے بچوں نے پاکستان بنانیوالوں کی اولادیں ہونے کی دہائی دی ؟ کیا ان تمام رہنماؤں کی اولادیں جو پاکستان میں گمنامی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں انہوں نے پاکستان کیلئے اپنے ٓاباؤ اجداد کی قربانیوں کا رونا رویا؟ نہیں ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ ڈھول تو وہ لوگ بجا رہے ہیں جو پاکستان میں محض ایک سنہرے مستقبل کی ٓاس لیکر ٓائے اور settleہوئے۔ان لوگوں کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور مہاجر کی گردان بند کرکے خود کو پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرنا چاہیے۔ (پاکستان زندہ باد)
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi: 24 Articles with 22143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.