ہم اپنے نوجوانوں کو کیسی تعلیم دیں

جب تک ہماری تعلیم عملی فائدے نہ دے معاشرے اس کو قبولیت نہیں دے سکتا
جب ہم اپنے موجودہ تعلیم کو دیکھتے ہیں تو یہ علم کی حد تک تو شاید قابل قبول ہوسکتا ہے اس کو تعلیم میرے خیال میں تعلیم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ علم بھی اس کو اس صورت میں کہا جاسکے گا جب اس کو حاصل کرکے کچھ سمجھ بھی آجائے۔ یعنی کانسپٹ کلیئر ہو۔ یہ بھی بد قسمتی سے ہمارے بہت کم تعلیمی اداروں میں ہورہا ہے۔ زیادہ تر ادارے تو رٹے لگوانے پر چل رہے ہیں چاہے وہ پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں یا پبلک سیکٹر میں۔ وہ بھی شاید اس پر مجبور ہیں کیونکہ سیلیبس کور کرانا تعلیمی نظام نے ہماری مجبوری بنا دیا ہے۔ بچوں کو سمجھانا آج کے استاد کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔ اس میں بہر حال سارا قصور صرف استاد کا بھی نہیں بچہ اور اس کے والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ بچہ بھی شارٹ کٹ لگانے کے موڈ میں ہوتا ہے اور والدین نے بھی ڈگری کو تعلیم سمجھا ہوا ہے۔ ذہیں اور چالاک بچے اس سے بھی آسان حل نکال لیتے ہیں اور نقل کرکے ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔
حکومت کی حالت بھی قابل رحم دکھائی دیتی ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں مجھے تو یہ نظر آیا ہے کہ حکومتوں کو حکومت کرنے سے فرصت ہی نہیں ملتی تعلیم کو وہ کہاں توجہ دے سکتے ہیں؟
ایسے حالات میں ہم سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہراتے ٹہراتے وقت گزار رہے ہیں۔ ارے بھائیوں اصل مسئلہ معلوم کرنے کی تگ و دو کرنی ہوگی۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ بتانے سے پہلے مجھے تھوڑی سی تمہید باندھنی ہوگی:
ہم تعلیم کے نام پر تیار خوروں کی ایک فوج ظفر موج پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک بڑی اچھی کہاوت یاد آگئی، ‘کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا‘۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مارکیٹ کیسے تعلیم یافتوں کی ڈیمانڈ کررہا ہے؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارا تعلیم یافتہ اپنے علم کو سمجھ بھی چکا ہے کہ نہیں؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارا تعلیم یافتہ اپنے علم کو استعال بھی کرسکتا ہے کہ نہیں؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے تعلیم یافتہ کو استعمال کے مواقع بھی میسر ہیں کہ نہیں؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے بچے کو جس قسم کی تعلیم پر لگایا تھا کیا یہ اس کے رجحانات اور صلاحیتوں کے مطابق تھا بھی کہ نہیں۔
اگر مندرجہ بالا سوالات پر ہم ابتدا سے سوچتے تو آج کا یہ دن ہمیں شاید نہ دیکھنا پڑتا۔
اب میں اصل مسئلے اور اس کے حل پر کچھ کہنا چاہونگا: میرے خیال میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم زیادہ تر تھیوریٹیکل ہے، یہ آؤٹ ڈیٹڈ بھی ہے، یہ زیادہ تر رٹے پر مشتمل ہے، یہ مارکیٹ کے ڈیمانڈ سے مطابقت نہیں رکھتی، بچے کے پاس مارکیٹ کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، وغیرہ
مسئلے کے حل کو بھی آسان رکھنے کی کوشش کرتا ہوں: تین چیزیں ملالیں اور اس ملاپ کو تعلیم کہیں؛ علم، عمل اور سمت۔
اس کی تھوڑی سی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
علم: کلاس روم میں فراہم کی جانے والی معلومات پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ بس کوشش یہ کی جائے کہ کسی طرح سے بچے کا کانسپٹ کلیئر کیا جائے۔ اس سلسلے میں اگر تھوڑی سی کوشش کرے اور والدین بھی نظر رکھے تو یہ حل ہوسکتا ہے۔
عمل: اس کے لئے پریکٹیکل کے مواقع تلاش بھی کرنے پڑینگے اور فراہم بھی کرنے پڑینگے۔ اس کام کے صدر مدرس سکول، والدین کی تنظیم، حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
سمت: سمت کے تعین میں دو مضامین کا بڑا دخل ہے؛ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان۔ بس تھوڑی سی کوشش، خاص اساتذہ اور والدین کو یہ کرنی ہوگی کہ بچے کے سامنے ان کے قول و فعل میں تضاد کا نہ آنے دیا جائے۔
آخر میں ایک منت سب سے کرنا چاہونگا:
خدا کے لئے تعلیم کے جملہ فیصلوں کا اختیار ماہرین تعلیم کو دیں اور ساتھ ساتھ ان کو اس کام کا ذمہ دار بھی بنائیں۔ جزاک اللہ
Muhammad Ishaq
About the Author: Muhammad Ishaq Read More Articles by Muhammad Ishaq: 7 Articles with 5180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.