خطرناک کانگو وائرس سے احتیاط

جان لیوا کانگو وائرس سے بچاؤ کیلئے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں مگر عوامی تعاون اور عوام میں اس خطرناک مرض سے آگاہی اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کا شعور اجاگر کیے بغیر اس مرض سے مکمل نجات اور ہلاکتوں میں کمی ممکن نہیں‘گذشتہ دنوں دوران علاج احتیاط نہ برتنے کے سبب وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کا ڈاکٹر اور نرس کانگو وائرس کانشانہ بن کر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لیے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ کانگو وائرس جانوروں کی کھال پر موجود خو ن چوسنے والے ٹکس(Tick)(ایک قسم کا جراثیمی کیڑا‘جسے عام طور پر چچڑ کہا جاتا ہے)کے ذریعے پھیلتا ہے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاً بھیڑ‘ بکریوں‘ بکرے‘ گائے‘بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے‘لیکن جیسے ہی کوئی انسان اس جانور سے کنٹریکٹ میں آتا ہے یہ انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

کانگو وائرس جس کا سائنسی نام کریمین کانگو ہیمریجک فیور(Hemorrhagic fever crimean congo)ہے۔یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے‘اس وائرس کی چار اقسام ہیں‘ڈینگی وائرس‘ایبولا وائس‘لیسا وائرس‘ریفٹی ویلی وائرس یہ وائس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ مشرقی یورپ ایشیاء اور مشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ افریقی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے‘یہ بیماری سب سے پہلے1944ء میں کریمیا میں سامنے آئی اسی وجہ سے اس کا نام کریمین ہیمرج رکھا گیا۔

پاکستان میں کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھی جو 6فروری 2002ء کو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کیساتھ گئی جب 9فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوئی تو 11فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے شدید قسم کا اخراجِ خون شروع ہو گیا‘صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا12فروری کو اسے راولپنڈی بھیجا گیا جبکہ 13فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو گئی ۔بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمی کا علاج کیا تھا وہ بھی دو ہفتے کے بعد25فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کانگو وائرس کی واضع علامات یہ ہیں کہ جب کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس انفیکشن کے بعد کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے اسے سردرد‘متلی‘قے‘بھوک میں کمی‘نقاہت‘کمزوری اور غنودگی‘منہ میں چھالے‘اور آنکھوں میں سوجن ہو جاتی ہے۔تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہو جاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور کچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہو جاتے ہیں جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں متاثرہ مریض کی جلد کے مساموں سے خون رسنے لگتا ہے خاص کر مسوڑھوں‘ناک اور اندرونی اعضاء سے خون خارج ہونے لگتا ہے اور یوں خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے‘یہ مرض اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

صفائی کی ناقص صورتحال کے سبب جانوروں میں پیدا ہونیوالے خطرناک چچڑ اس بیماری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں‘اس بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جولائیو اسٹاک اور ذبیحہ خانوں سے منسلک ہیں ایسے تمام لوگوں میں یہ بخار عام افراد کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hafiz Amin
About the Author: Hafiz Amin Read More Articles by Hafiz Amin: 13 Articles with 13281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.