مسلمانوں کی شرح پیدائش یورپ کے لئے تباہ کن

اس مضمون میں ڈاکٹر پیٹریشیا ڈویل نے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے بلکہ مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے وہ انتہائی خوفزدہ بھی ہے۔وہ مسلمانوں کو یورپ اور دنیا کے لیے خطرہ سمجھتا ہے ۔ اس کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے متعلق آگہی اسے صرف میڈیا کی حد تک ہے۔ مغربی پروپیگنڈے نے اپنا اثر دکھایا ہے ۔ وہ نہیں جانتا کہ مقامی لوگ بھی اسلام قبول کر رہے ہیں چنانچہ غیر مسلموں کے لئے وہ گوروں کا لفظ استعمال کرتا ہے گویا اس کی دانست میں مسلمان علیحدہ قوم ہیں اور گورے الگ قوم۔
جب آبادی سکڑتی ہے تو ثقافت بھی سکڑتی ہے۔ مسلمانوں کی شرح پیدائیش خوفناک حد تک زیادہ ہے اور کسی بھی لمحے وہ تعداد میں گوروں سے بڑھ جائیں گے۔ بیلجئیم میں پہلے ہی پچیس فیصد مسلمان ہیں۔ جی ہاں ! پچیس فیصد۔

اگر یورپ اپنی آبادی بڑھانے کے لئے ان پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے تو آخر یہ جاہل غیر مہذب ہی کیوں؟ اپنی موجودہ آبادی کو ہی بڑھانے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ آخر ان جنگلیوں کی پرورش کیوں کی جائے جو مغربی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ یہ لوگ کم ذہین ہیں ۔ ۔ شاید اوسطاً ستر آئی کیو کے ساتھ ۔ بھلا سائنسدانوں اور ذہین لوگوں کومختلف ثقافتوں کے مہذب ممالک سے کیوں نہیں لیا جاتا؟ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے جاہل قبائل کے افریقیوں کو کیوں لیا جا رہا ہے؟ یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے۔

یورپی حکومتیں ایسے لوگوں کو اپنے ممالک میں جگہ دے رہی ہیں جو ایک نوکری کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے اور جو ہر بیوی سے تیرہ یا اس سے بھی زیادہ بچے رکھتے ہیں۔ یوں محض ذہنی پسماندہ اور جاہل بچوں کی پرورش کی جائے گی خواہ وہ مقامی گوروں میں گھل مل ہی کیوں نہ جائیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ثقافتی خودکشی کا ایسا پاگل پن کبھی نہیں دیکھا۔

غور کریں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ نے کس طرح جرمن سائینسدانوں کو اچک لیا۔ وہ نائجیریا یا لائیبیریا کی آبادیوں کو اچکنے نہیں گئے۔

مسلمان پہلے ہی یورپ میں گورے بچوں کی نسبت پیدائیش میں بڑھ گئے ہیں۔ ان کی شرح پیدائش انتہائی خوفناک ہے۔ وہ سب کثیرالازواج ہیں اور ہر شخص کو اس کے خاندان کے ہر فرد کے لئے خرچہ دیا جاتا ہے اس(ثقافتی) خودکش ملک کی جانب سے جس پر انہوں نے چڑھائی کی ہو۔ 2025 تک اہلیان یورپ میں مسلمان شمار میں بڑھ جائیں گے۔ یورپ میں تو پہلے ہی مسلمانوں کی مسجدوں کی تعداد عیسائیوں کے گرجا گھروں سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اس بات پر توجہ نہیں دی جا رہی اور اسلام پر پابندی لگانے اور اسے کسی مذہب کا درجہ نہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

ہر ہفتے فرانس بھرکے مسلمان پیرس آتے ہیں اور (نوترے دامے کیتھڈرال) کے باہر سڑک پر نماز پڑھتے ہیں اور کوئی بھی انہیں نہیں روکتا۔ لاکھوں مسلمان سڑک پہ صفیں بچھا کر عبادت کرتے ہیں اور پولیس کچھ بھی نہیں کرتی۔ یہ فرانسیسی قانون کے خلاف ہے کہ سڑک پر عبادت کی جائے مگر مسلمانوں کو خصوصی استحقاق حاصل ہے۔

فرانسیسی انہیں پسند کرتے ہیں۔ یورپ کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ وہ ایسے مسلک سے مراسم بڑھا رہے ہیں جو ہر غیر مسلم کو مردہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمان فرانسیسی خواتین سے شادیاں رچانا چاہتے ہیں۔ جاپان میں بھی مسلمان رہائش پذیرہیں اسی طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی۔ وہ دنیا پر قبضہ کر رہے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔ یا پھر چند اچھے محققین کے۔

مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں تاکہ گوروں کی نسبت بچے زیادہ ہوں۔ سادہ سی بات ہے کہ یورپ میں ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بیلجیم میں پہلے ہی 25 فیصد آبادی مسلمان ہے اور دیگر ممالک کے اعداد و شمار بھی ایسے ہی برے ہیں۔ 2025 تک ان کی اپنی یورپی خلافت ہو گی۔
کینیڈا میں بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہے۔ کینیڈا میں گوروں کی نسبت مسلم بچے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔اس کےبعد امریکہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مسلمان جنوبی امریکہ، سنٹرل امریکہ اور میکسیکو میں رہ اور منتقل ہو رہے ہیں۔ وہ آخری پناہ گاہ یعنی امریکہ کو ہدف بنانے کے لیے توازن قائم کر چکے ہیں۔

ہیلری کلنٹن انہیں آنے اور رہنے کی اجازت دے دے گی۔ پھر تو دنیا کا کام ہو جائے گا۔ شاید چین اور روس انہیں روکے رکھیں۔ کینیڈا کا واحد علاقہ جو شاید مسلمانوں سے محفوظ ہو وہ اس کا شمالی علاقہ اور آرکٹک ہے۔ گرین لینڈ بھی ایک ایسی جگہ ہے جوشاید ان گنواروں سے بچی رہے۔ یہ برا ہے ۔ ۔ ۔ یہ بہت برا ہو گا لیکن بہت سے لوگ محض اسے ماننے سے انکار کر رہے ہیں-
Muhammad Asim
About the Author: Muhammad Asim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.