طلال چوہدری ۔پٹھہ ن لیگ۔

پپو:میں پریشان ہوں ۔وہ لڑکی مجھے دیکھ کر ہنسے جا رہی ہے۔ دوست :پریشان نہ ہو۔؟۔ جب پہلی بار میں نے تمہیں دیکھا تھا تو ۔تین دن تک ہنسی نہیں رکی تھی۔میرے دوست شیخ مرید نے جب پوچھا ’’ایم این اے طلال چوہدری جانگیہ پہنے کیسا لگے گا؟‘‘۔میری ہنسی بھی تین روز نہیں رکی۔ مجھے جون ایلیاکا قول یاد آگیاکہ ’’وجود ۔خیال کا زوال ہے‘‘۔مریدکا سوال جانگیہ پہنے کھڑا تھا۔ طلال چوہدری کاوجود ۔ڈنڈ ۔ بیٹھکیں مار ۔رہاتھا ۔کیونکہ وزیرکھیل سندھ محمد بخش مہر نے پنجابی وزرا کوپش آپس کا چیلنج دیا تھا۔ڈنڈ مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائریل ہوچکی تھی۔ سندھی وزیر کی پکار پر ۔کئی پنجابی’’ محمد بن قاسم‘‘بننے کو تیار تھے۔ محمد بخش بھی لنگوٹ پہن چکےتھے۔ سیاست کے نوآموز پٹھوں کو کڑِکی کے سواکوئی داؤ نہیں آتا تھا لیکن ۔وہ۔ بھولو کی طرح رستم پاکستان اورگامےجیسے رستم زمان بننا چاہتے تھے ۔
پپو:میں پریشان ہوں ۔وہ لڑکی مجھے دیکھ کر ہنسے جا رہی ہے۔
دوست :پریشان نہ ہو۔؟۔ جب پہلی بار میں نے تمہیں دیکھا تھا تو ۔تین دن تک ہنسی نہیں رکی تھی۔
میرے دوست شیخ مرید نے جب پوچھا ’’ایم این اے طلال چوہدری جانگیہ پہنے کیسا لگے گا؟‘‘۔میری ہنسی بھی تین روز نہیں رکی۔ مجھے جون ایلیاکا قول یاد آگیاکہ ’’وجود ۔خیال کا زوال ہے‘‘۔مریدکا سوال جانگیہ پہنے کھڑا تھا۔ طلال چوہدری کاوجود ۔ڈنڈ ۔ بیٹھکیں مار ۔رہاتھا ۔کیونکہ وزیرکھیل سندھ محمد بخش مہر نے پنجابی وزرا کوپش آپس کا چیلنج دیا تھا۔ڈنڈ مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائریل ہوچکی تھی۔ سندھی وزیر کی پکار پر ۔کئی پنجابی’’ محمد بن قاسم‘‘بننے کو تیار تھے۔ طلال نے چیلنج قبول کر لیا تھا۔خیال مسلسل محو پرواز تھا۔ محمد بخش بھی لنگوٹ پہن چکےتھے۔ سیاست کے نوآموز پٹھوں کو کڑِکی کے سواکوئی داؤ نہیں آتا تھا لیکن ۔وہ۔ بھولو کی طرح رستم پاکستان اورگامےجیسے رستم زمان بننا چاہتے تھے ۔
چرسی : پہلوان ، تم ایک وقت میں کتنے آدمی اٹھا سکتے ہو۔ ؟
پہلوان : كم از كم دو۔آدمی ۔!
چرسی: تم سے اچھا تو میرا مرغا ہے۔روزانہ پورے محلے کو اٹھاتا ہے۔
طلال اورمحمد بخش ۔ بھی صرف بانگ ہی دے سکتے تھے ۔ لیکن وہ ٹٹیری کی طرح آسمان ٹانگوں پر اٹھانے کاسوچ رہے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ پہلوانوں کوہمیشہ مال داروں نے پال پوس کرسیل کُکڑ کی طرح لڑایا ہے۔نظام زر۔نے دیسی اور فری سٹائل کی جگہ نورا کشتی کو جنا ہے ۔جس میں وجیتا کافیصلہ پہلے ہو جاتا ہے۔ پہلوان نورا کشتی میں داؤ پیچ ہی دکھاتے ہیں۔طلال 2013 میں پہلی بار ’’نوراکشتی‘‘ جیتے۔میں انہیں تب سے جانتا ہوں جب وہ ایم این اے نہیں تھے۔ اب وہ مجھے نہیں جانتے۔ وزارت سے پہلے محمد بخش بھی گمنام تھے۔لیکن ان برائلروں نے گامےجتنی کُکڑوں ، کڑوں کر ڈالی ۔ پنجابی اور سندھی بانگیں سن کر اٹھ بیٹھے۔مرغوں نے کیل پہن رکھے ہیں۔ منادی ہوتے ہی ٹھونگے بھی ماریں گے۔ دھوبی پٹکا، بغل ڈوگلا، ڈھاک ، پُٹھی ، قلا جنگ ، مچھلی گوٹا اور ملتانی جیسےداؤ۔ دیکھنے کوملیں گے۔لیکن مرید کہتا ہے کہ کُکڑ بیمارہیں۔
پپو ٹرین میں سیٹ پر اکیلا لیٹا تھا۔
مسافر:بھائی اٹھیں ۔میں نے بھی بیٹھنا ہے۔
پپو : تمہیں پتہ ہےمیں کون ہوں۔ ؟۔۔مسافر۔آگے چلا گیا ۔پھر ایک پہلوان آیا اور پپو کو دوبارہ اٹھایا۔
پپو: تمہیں پتہ نہیں میں کون ہوں۔ ؟
پہلوان نے اسےتین چار۔ٹکائیں اورپوچھا ۔تم کون ہو۔؟
پپو: میں بیمار ہوں۔!
یہاں اب گفتاری پہلوانوں کی کثرت ہے۔ایک پہلوان یومیہ دودھ ، گوشت، کچا بھنہ قیمہ، ڈرائی فروٹ،مربے، عرقیات، دیسی گھی اور مکھن کھاتا تھا۔لیکن دوسرے کے پلے سے۔آخرمفت میں ’’سانڈ‘‘ کون پالے۔سرمایہ داروں نے اکھاڑوں سے پیسہ نکال کر کسینو، ڈربی اور کرکٹ میں لگا دیا۔کیونکہ عزت بھوک نہیں مٹاتی۔اُن کے پیٹ اورکولہے کسٹرڈ جیلی بن چکے ہیں۔یہاں ڈوری اور ڈنڈا ۔ سردائی کے منتظر ہیں۔ ٹھنڈی کھوئی ۔تپنے لگی ہے۔پہلوان کانگڑی ہو گئے ہیں۔زندگی اکھاڑا لگنے لگی ہے۔لنگوٹ۔لباس بن گیا ہے۔ مسائل ۔رستم زماں دِکھتے ہیں۔ گِچی حالات کے بغل ڈوگلا میں ہے۔بے روز گاری۔ دھوبی پٹکا۔اور۔ غربت پٹھی مار چکی ہے ۔قرض خواہ مچھلی گوٹا کھیلتے ہیں۔جینے کی آس پرروز سہاگہ پھر جاتا ہے۔پہلوان مشقِ مذاق بن گئے ہیں ۔
ڈرائیور نے پہلوان کو ٹکر ماری۔تو پہلوان نےاسے باہر نکالا ۔کافی دور لے جا کر ایک لکیر لگائی اور بولا : اگر تم لائن کےاس پارآئے تو مزید ماروں گا۔پھر پہلوان نےپوری کار توڑ ڈالی۔لیکن ڈرائیور ۔مسلسل ہنستا رہا ۔
پہلوان: تم ہنس رہے ہو۔؟
ڈرائیور:جب تم گاڑی توڑ رہے تھے میں نے کئی بار لائن پار کی تھی ۔
1947 میں جب لکیریں کھنچیں تو لاہور میں 600 اکھاڑے تھے۔اور ۔دس ہزار لنگوٹیے ۔۔جنہیں خلیفے(لقب )داؤ پیچ سکھاتے۔ خلیفہ پٹھے کی خوراک، ہڈیوں ، کسرت، اوزار، لنگوٹ کی حفاظت، شیخی اور غصےکا خیال رکھتا۔ کن ٹٹوں کو قابو میں رکھنےاور ۔احترام خواتین کےگُربھی سکھاتا۔نماز۔روزے کی پابندی ہوتی ۔لوگ بچوں کو دم کرانےآتے ۔ہر پہلوان سرگی سے لوڈ ے ویلے تک پانچ گھنٹےکسرت کرتا۔تب جا کے رستم زمان گاماپہلوان جیسے ناقابل شکست سورما پیداہوتے۔خاتون اول بیگم کلثوم نواز۔ گاما پہلوان کی نواسی ہیں اورمیاں نواز شریف ن لیگ کےخلیفہ ہیں ۔یوں طلال چوہدری کو ہم پٹھہ نوازلیگ کہہ سکتے ہیں۔ محمد بخش ۔کے خلیفہ بلاول ہیں ۔لیکن ان کا لقب بلو رانی ہے۔ کم بخت مریدنے اچانک پوچھ لیا ۔خلیفہ بھی لنگوٹ پہنتا ہے ۔؟تین روزہ ہنسی چھوٹ چکی تھی۔ مرید نے پیش گوئی کی کہ ’’دنگل اگلے مہینے کی پہلی جمعرات کو ہوگا ‘‘اور ۔وجیتا کو گرُز ملے گا۔
گرز اکھاڑے کی بادشاہت کا نشان ہے۔اکھاڑا ۔ 14 مربع فٹ کا ہوتا ہے ۔اکھاڑے اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن کُشتی کی دم توڑتی روایت کوکرکٹر مصباح الحق نے لارڈز میں ڈنڈ لگا کر دوبارہ زندہ کیا ہے۔یوں صحت مند مقابلے کا قومی رجحان پیدا ہوا ۔احتجاج میں کُتے کی جگہ پش آپس آگئے۔گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، خانپور، ڈھرکی اور سکھر کے گراونڈزکچرا کنڈی بن چکے ہیں۔وہاں کھلاڑیوں نے احتجاجاپش آپس لگائے۔ محمد بخش نے ہنگ اور پھٹکری کے بغیر ہی سندھی مسائل کو مسلز میں بدل دیا ۔دنگل کی منادی کے لئے ڈھول بھی نہیں بجانا پڑا۔ ڈھول ایسا عقیدتی آلہ ہے۔جو گلےپڑجاتا ہے۔ میلےٹھیلے،شادی، عرس اور سحری پرڈھول ہی بجایا جاتا ہے بلکہ کالو قصائی نے کٹاذبح کیا تو بھی ڈگا ہی لگے گا۔۔روزوں میں مرغوں والا کام ڈھولچی کرتا ہے ۔سالوں پہلے دنگل کی منادی بھی ڈھولچی کرتا تھا ۔ ڈھول پردنگل کاایسا اشتہار لگا ہوتا۔جس میں گرز اٹھائے خلیفہ، پہلوان اور پٹھے کی تصویریں ہوتیں۔تصویروں میں ڈنڈ، ڈولے، پیٹ اورپٹ۔بے ہودہ فلمی ہیروئن کی طرح ایکسپوز ہوتے اور اچھے بھی لگتے۔شائقین سالوں دنگل کو یاد رکھتے ۔
دنگل سے واپسی پر ایک بار گاما پہلوان کوکسی نےپتھر ماردیا۔سر سے بہت خون نکلا۔اس نے مفلر لپیٹا بدلہ لئے بغیر گھر چلا گیا۔ کیونکہ گاما کاعقیدہ تھا کہ’’مجھے میری طاقت نے نہیں میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے‘‘۔لیکن سیاست عدم برداشت کانام ہے۔انتخابی لڑائی کوکہا تو دنگل جاتا ہے لیکن اس میں ملاکھڑے کی طرح نیفے پر ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔محمد بخش کےچیلنج کے بعد عابد شیر علی توتھپڑ کبڈی پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں’’ گراؤنڈ کا انتخاب محمد بخش کر لیں ۔پہلےویٹ لفٹنگ ہو گی۔پھر350 بیٹھکیں اور 45منٹ یوگا ۔اس کے بعد پش آپس لگا ئیں گے‘‘ ۔مرید کہتا ہے عابدشیر علی کے ڈوپ ٹیسٹ ہونے چاہیں۔اتنی انرجی ان میں ہوتی تو آج بجلی کی حالت سندھ کے گراونڈز جیسے نہ ہوتی۔ویسے بھی عابدشیر علی پٹھے نہیں ۔خلیفے ہیں کیونکہ ویلے آدمی کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے۔ یہاں ہرسیاستدان خلیفہ ہے ۔نورا کُشتی والا۔ سیاسی کشتی میں مخالف کو چِت کرنے کا پینترا۔ایک ہی ہے۔ہڈیاں توڑنے والا۔پہلوانی کے تین سو ساٹھ داؤ ہیں۔عورت کےچار سو چار چلتر ہیں اورسیاست کے ہزاروں ہیر پھیرہیں۔مریدجمعرات کو دنگل کی پیش گوئی کرکے جا چکا ہے۔میرے دماغ میں سندھی اور پنجابی لنگوٹ گھوم رہے تھے۔اچانک مجھے یا د آیا۔ جمعرات کو تواکھاڑا بند ہوتا ہے۔وہاں سرسوں کا تیل اور عرق گلاب ڈالا جاتا ہے اور لوبان کی دھونی بھی دی جاتی ہے۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 94634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.