بری اقتصادی حالت روح اور جسم دونوں کو تباہ کر دیتی ہے

معاشیات اور اخلاق کا باہمی گہرا تعلق ہے، اگر کسی معاشرے میں معاشی نظام طبقاتی اور استحصالی ہو گا اور معاشرے کا اکثریتی طبقہ نان و جویں کا محتاج ہو گا تو اس معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے۔غربت و افلاس سے مارے ہوئے افراد اپنی روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے مذہب، اخلاق اور قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔لہذا معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا کرنے کے لئے ایسا معاشی نظام ضروری ہے جو بلا تفریق پورے انسان معاشرے کی کفالت کرے، اور کوئی بھی شخص یا خاندان محروم المعیشت نہ رہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف جھوٹ، رشوت، چوری، فراڈ، اور کرپشن کی طرح طرح کی شکلیں اور مناظر نظر آتے ہیں، معاشی معاملات میں بھائی بھائی کا دشمن نظر آتا ہے، معاشرہ اخلاقی گراوٹوں کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، ایک ریڑھی والے سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک کرپشن اور دھوکہ دہی کا بازار گرم نظر آتا ہے۔معاشرے کی حالت یہ ہے کہ بھائی بھائی کے اوپر اعتبار کرنے سے کتراتا ہے، معاشی عدم تحفظ نے ایسی صورتحال کو جنم دے دیا ہے جس سے معاشرے کی تہہ در تہہ انفرادیت پسندی اور مفاد پرستی نے جڑیں بنانا شروع کر دیا ہے، معاشی عدم تحفظ ہی کی وجہ سے لوگ بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں، معاشی عدم تحفظ ہی سے گھروں میں بے اتفاقی اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔چند روپوں کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نوبت آ جاتی ہے، عورتیں دو وقت کی روٹی کے لئے عزت بیچنے پہ مجبور ہوتی ہیں۔معاشی مجبوری کی انتہا یہاں تک ہوتی ہے کہ لوگ اپنے گذر اوقات کے لئے مذہب ، رشتوں ناطوں ، حب الوطنی سب کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔حتیٰ کہ اپنی اولاد کو بیچنے اور خود کشی پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف بری معاشی حالت سے اخلاقی گراوٹوں میں مبتلا ہو کر روحانی ترقی سے معاشرہ ہاتھ دھو رہا ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’جو کچھ بھی اس زمین پہ تخلیق کیا گیا اس پہ تمام مخلوق کا یکساں حق ہے‘‘ لیکن آج عام مشاہدہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک عام پاکستانی کتنی متوازن خوراک کھا سکتا ہے، وہ اچھا فروٹ، اچھی سبزی، دودھ، گوشت اور دیگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو صرف دکانوں پہ سجا ہوا ہی دیکھ سکتا ہے لیکن اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ملک کی اکثریتی آبادی بمشکل اپنا پیٹ پالتی ہے، صاف پانی،صاف ماحول، معیاری تعلیم،میعاری ہسپتال،میعاری رہائش گاہ و دیگر بنیادی سہولیات سے محرومی کی وجہ سے جسمانی طور پہ غیر صحتمند رہتے ہیں اس وقت ملک میں اکثریتی بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اور لوگ جسمانی طور پہ صحت مند نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آخر اس تمام اخلاقی گراوٹوں، جسمانی کمزوریوں اور معاشی عدم تحفظ کی وجہ کیا ہے؟ باوجودانفرادی اصلاحی وتبلیغی کوششوں کے، وعظ ونصیحت کے معاشرہ دن بدن خرابی سے دوچار ہو رہا ہے،معاشرتی برائیاں اور جسمانی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ہر آنے والا دن پچھلے دن سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔غربت و افلاس میں پھنسی ہوئی اکثریتی آبادی، جو بنیادی ضروریات کے لئے ترستی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں، دوسری طرف ایک فیصد طبقہ اپنی عیاشیوں اور آسائشوں کے لئے دولت کو بے تحاشہ لٹاتا ہے، ملکی معیشت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے، پوری قوم کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتا ہے اور یہ طبقہ بھی اخلاقی گراوٹوں میں پڑ کر اصل انسانیت سے دور ہو چکا ہے۔

ماہرین سماجیات کے مطابق معاشرے کے اندر ہمہ وقت علت و معلول یعنی Causes and Effectsکا عمل جاری رہتا ہے، لہذا سماجیات میں کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی وجہ کو جانا جائے، کیونکہ بغیر وجہ جانیں کبھی بھی اس مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کیا جا سکتا، عام طور پہ اگر کوئی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کی بیماری کی علامات کو سب سے پہلے دیکھتا ہے اور پھر ان علامات کی روشنی میں اصل وجہ کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر وہ اس اصل وجہ کا علاج کرتا ہے جس سے مرض کی تمام علامات دور ہو جاتی ہیں،بعینہ اسی طرح سے معاشرے میں ہونے والے خرابیوں اور برائیوں کا سد باب کرنے کے لئے ان وجوہات کو جاننا اور انہیں ختم کرنا ضروری ہے جو ان اخلاقی گراوٹوں یا برائیوں کی وجہ بنتی ہیں۔

آج ہم اگر اپنے معاشرے میں خرابیوں کی اصل وجہ جاننا چاہتے ہیں توسب سے پہلے قرآن حکیم کے ان الفاظ پہ غور کرنے کی ضرورت ہے’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیآء منکم‘‘(ترجمہ: دولت کی گردش صرف چند ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے۔) یہاں قرآن حکیم انسانی سوسائٹی میں عادلانہ نظام معیشت کو قائم کرنے کی بات کرتا ہے، ایسا معاشی نظام جہاں دولت کی گردش صرف چند خاندانوں تک محدود نہ ہو، بلکہ اس سے پورا معاشرہ مستفید ہو۔اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو چند خاندان ملکی دولت و وسائل پہ قابض ہیں، انہوں نے اپنی ایک الگ دنیا بنا رکھی ہے، قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ معمول کا حصہ ہے، قومی اقتدار پہ قابض ہو کر قومی وسائل کو بروئے کار لا کر اپنی ذاتی وخاندانی وسائل بڑھائے جاتے ہیں، صنعت ، تجارت، قومی ادروں پہ مکمل کنٹرول کے ذریعے سے عوام کا بھر پور استحصال کیا جاتا ہے، ملک و قوم کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر معیشت کو دیوالیہ کے قریب پہنچا دیا گیا۔اب دو طبقے معاشرے کے اندر وجود میں آ چکے ہیں ایک طرف غربت کے ڈیرے ہیں اور دوسری طرف عیش و عشرت کا بازار گرم ہے۔

ماہرین سماجیات کا کہنا یہ ہے کہ کسی بھی قوم یا ملک میں معاشی دولت خون کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے اسی طرح معاشی دولت کو بھی سماج کے پورے جسم میں گردش میں رہنا چاہئے، جس طرح خون اگر جسم کے کسی حصہ میں زیادہ چلا جائے تو اس حصے کو تباہ کرتا ہے اور اگر کسی حصہ میں بالکل نہ جائے تو اس حصے کو مفلوج کر دیتا ہے، اس طرح دونوں صورتوں میں جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘لہذا اسی اصول کی روشنی میں سماجی ڈھانچے کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، اگر ملک میں طبقاتی معاشی نظام ہو گا، دولت کے تمام ذرائع وسائل پہ چند خاندانوں کا قبضہ ہو گا، وہ اپنی لوٹ کھسوٹ کی اس بے تحاشہ دولت سے عیش و عشرت میں پڑ جائیں گے، اخلاقی گراوٹوں اور اپنے مال و اقتدار کی طاقت سے معاشرے میں ظلم کا بازار گرم کر کے اعلیٰ اخلاقی قدروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔اور دوسری طرف استحصال کا شکار اکثریتی طبقہ جو کہ معاشی بد حالی میں مبتلا کر دیا گیا، وہ بھی اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے چوری، فراڈ ، رشوت و دیگر اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ’’غربت و افلاس کفر تک لے جاتے ہیں‘‘ یہی حال اس مفلوک الحال طبقے کا ہوتا ہے، وہ اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہر اخلاقی، مذہبی سبق کو بھول جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ’’ غربت کبھی آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔ اور ’’بری اقتصادی حالت روح اور جسم دونوں کو تباہ کر دیتی ہے‘‘ اس طرح ایک طبقاتی معاشی نظام کے غلبے کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔

ماہرین سماجیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی علم کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کی پیداوار ہے،اگر آپ افراد معاشرہ کو اچھا ماحول فراہم کریں گے تو ان کے اخلاق اچھے ہوں گے اور اگر ان کو خراب ماحول میں رکھیں گے اور بھلے جتنے بھی اخلاقی دروس دیں ، تبلیغ کریں ان کے اخلاق کو اچھا نہیں بنایا جا سکتا۔جب تک ماحول کو بدلیں گے نہیں،اور آج کے دور میں ماحول مکمل طور پہ ملکی نظام سیاست اور معیشت کے کنٹرول میں ہوتا ہے، نظام کے معاشرے پہ بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں ، کوئی بھی شخص نظام کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔اگر ملک میں معاشی نظام طبقاتی ہو گا تو کسی بھی صورت میں افراد معاشرہ کی معاشی حالت کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، اورنہ ہی اخلاقی گراوٹوں سے انہیں محفوظ بنایا جا سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ منصفانہ معاشی نظام معاشرے میں قائم ہو، غریب غریب تر اور امیر امیر تر کی کیفیت نہ ہو، چند خاندان ملکی و قومی وسائل پہ قابض نہ ہوں، ملکی معیشت میں تمام افراد معاشرہ کا حصہ ہو اور االلہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام نعمتوں سے تمام انسان یکساں فائدہ اٹھائیں۔اس طرح معاشی خوشحالی سے آہستہ آہستہ ایسی تمام اخلاقی گراوٹوں کا خاتمہ ہو گا جن کا تعلق انسانوں کی معیشت سے ہے۔

ایک عادلانہ معاشی نظام ایک صحت مند دماغ اور جسم رکھنے والی قوم پیدا کرتا ہے، اگر معاشی نظام استحصالی ہو گا تو اس کے نتیجے میں یقیناً بیمار قوم پیدا ہو گی۔ اور یقیناً وہ دنیا ئے اقوام میں اپنا مقام بنانے سے قاصر ہو گی جیسا کہ اس وقت ہماری حالت زار ہے۔اس وقت خصوصاً نوجوان نسل کو اس پہلو پہ ضرور غور کرنا چاہئے اور ایک ایسی شعوری جدو جہد کو اپنا شعار بنانا چاہئے جس کے ذریعے ایک عادلانہ معاشی نظام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136107 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More