ایم کیو ایم کی ملک دشمنی اور پسپائی

میڈیا پر حملے ،صحافی غیر محفوظ کراچی اسوقت میدان جنگ بن گیا جب الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف زبان درازی کی اور ایم کیو ایم کے کارکنان نے جوش میں آکر قائد کے حکم پر پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرکے عملی طور پر پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا ،جذباتی کارکنان اے آروائے ،جیو،ون نیوز اور سماء ٹی وی کے دفاتر پر حملہ آور ہوگئے،ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا کردی گئی ۔ایم کیو ایم کی رہنما ارم فاروقی نے پاکستان کے خلاف نعرے بازی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ اور ایم کیو ایم کو خیرباد کہہ دیا ۔آرمی چیف نے ہنگامی بنیادوں پر احکامات جاری کئے کہ پاکستان کے دشمنوں اور میڈیا پر حملے کرنے والو ں کو حساب دینا ہو گا ،رینجر ان ایکشن ہوگئی ڈی جی رینجر نے کہا کہ ذمہ دار اور ان کے حمایتی ایک ایک سیکنڈ کا حساب دینے کیلئے تیارہو جائیں ۔میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا ۔نائن زیرو اور ایم کیو ایم دفاتر سیل کر دئیے گئے متعددکارکنان گرفتار کرلئے گئے ۔ملک کے ہر کونے سے ایم کیو ایم کی وطن دشمنی کے خلاف آوازیں سنائی دی جانے لگیں فاروق ستار پریس کانفرنس کرنے آئے تو گرفتار کرلئے گئے پھر رہائی بھی ہوگئی ۔کراچی میں دو تلوا ر برطانوی کونسلیٹ اور لندن میں الطاف کے گھر کے سامنے عوام کا احتجاج،پاکستان میں الطا ف حسین کے خلاف غداری کے مقدمات کا اندراج اور پھر الطاف بھائی کی روائتی معافی اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ۔مگر قوم ابھی بھی مطمعٔن نہیں الطاف حسین اور اس کی جماعت کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ گھمبیر صورتحال کے پیش نظر فارو ق ستار میدان عمل میں اترے اور لندن اور کراچی کی راہیں جداکرنے کا اعلان کردیا ،الطاف حسین سے لا تعلقی تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا عزم کردیا۔فاروق ستار کا کہناتھا تشدد ہماری پالیسی کا حصہ نہیں ،پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرنے والے الگ پارٹی بنا لیں ہمارا ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔

مندرجہ بالا تاریخی ٹرن یو ٹرن کی شکل اختیار کرے گا یا نہیں؟ کیا فاروق ستار کی طرف سے صفائیاں وقتی غصہ ٹھنڈا کرنے کی حکمت عملی ہے یا مستقبل کا عزم صمیم ۔۔۔۔ ؟کیا ایم کیو ایم کی موجودہ پالیسی ایم کیو ایم کے ماضی کے جرائم کی صفائی کر سکے گی یا نہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ایم کیو ایم کو کلین چٹ دینے کیلئے اہل جمہوریت نے خفیہ میثاق جمہوریت کے نام پر ایسی حکمت عملی بنائی ہو ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ غصہ ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پھر ایم کیو ایم کی سربراہی الطاف حسین کی گو د میں ڈال دی جائے گی ؟کیا فاروق ستار ایم کیو ایم کو چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور کس حد تک ؟کیا الطاف حسین کے جیالے فاروق ستار کی قیادت میں کام کر سکیں گے یا نہیں؟ وسائل ومسائل کے معاملے میں نو مولود قیادت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کریگا؟۔لیکن ہمارا ذاتی تجزیہ یہی کہتا ہے کہ جمہوریت کی کشتی پر سوار ہوکر جمہوریت پسندجماعتوں نے ہمیشہ قوم کے ساتھ مذاق در مذاق کیا ۔حالیہ ڈرامائی صورتحال بھی اسی مذاق اور فراڈ کاایک منظر ہے ۔ایک جماعت جمہوریت کی کشتی میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمن بھارت سے تعلقات پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ایجنٹ کی حیثیت سے اختیار کرے ،شہر قائد میں ایسے ایسے جرائم کرے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پاکستان کے جمہوریت پسند حلقے اس جماعت کو گود میں لیٹا کر فیڈر سے دودھ پلائیں یہ پاکستان دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ؟

پاکستان کے اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم الطاف سے علیحدگی اختیار کرے تو اسی میں اس کی سیاسی بقا ہے ان جمہوری سیاسی لیڈران کرام سے ہمارا سوال ہے کہ کیا ایم کیو ایم اگر الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کر دیتی ہے تو اسے سابقہ جرائم سے بری الذمہ قرقر دے دیا جائے گا؟ اس بیان سے تو ایسے ہی لگ رہا ہے۔ یہی ہے وہ موڑ ہے جہاں ہمارے سیاستدان چور دروازے سے اپنے پیٹی بھائیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت اور سیاسی نظام کرپٹ ترین نظام کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی اصلاح وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔پاکستان کے مخلص حلقوں کو چاہیے کہ وہ نفاذ اسلام کیلئے تعمیری اقدام کریں تاکہ مملکت خدادادمیں اسلام کا عادلانا نظام قائم ہو مجرمین کو بلا تفریق سزائیں دی جا سکیں ۔

حالیہ ایم کیو ایم کی دہشت گردی پر قوم کا مطالبہ ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے اور خودساختہ جلاالوطنی کاٹنے والے الطاف حسین کو گرفتار کرکے پاکستان لایا جائے اور الطاف حسین کی جماعت کے وہ لوگ جو پاکستان دشمنی میں صف اول میں کھڑے گھناؤنی سازشوں میں ملوث تھے انھیں سرعام سزائے موت دی جائے ۔پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ اگر فرقہ وارنہ قتل وغارت میں ملوث لوگوں کو انٹر پول کے ذریعے گرفتارکرکے پاکستان لا کرماورائے عدالے خودساختہ پولیس مقابلوں میں قتل کیا جا سکتا ہے تو ان پاکستان دشمنوں کے سروں کو تن سے جدا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

آخر میں گذارش ہے کہ میڈیا کا تحفظ یقینی بنایا جائے اگر میڈیا غیر محفوظ ہوگیا تو پاکستان کا ایک اہم ترین ستون کمزور ہوجائے جو قوم کا حقیقت سے باور کرواتا ہے ۔اسلام اور نظریہ پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیا کی آزادی لازم وملزوم ہے۔
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.