سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ……چند یادیں چند باتیں

یہ صدیوں کی بات نہیں ، ہنوز چند سال ہی گزرے ہیں کہ اس لیل و نہار میں ایک آزادمنش کھدر پوش وقت کے موڑ پر کھڑا مسلمانان عالم کو پکار پکار کر کہہ رہاتھا :
ہماری بات سنو اور ہمارے ساتھ چلو
ہماری بات کے اک دن بنیں گے افسانے

اس شخص نے کہا : ’’ اگر میں قرآن پہاڑوں کو سناتا تو وہ بھی پگھل جاتے ، افسوس کہ میری قوم کا دل موم نہ ہوا ،اپنوں نے سنی ان سنی کردی ، مگر غیر ملکی حکمران فرنگی نے اس آواز کو سنا بھی اور سمجھا بھی، اسے اس پکار میں اپنے خلاف بغاوت کی بو آئی اوراسی جرم میں انہیں بہار و خزاں کے کئی موسم اسارت فرنگی میں گزارنے پڑے
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

گھنگھریالے بال، نورانی چہرہ ، موٹی موٹی آنکھیں ، یہ اپنی مثال آپ کون تھا ؟ یہ وہ تھا جو گلی گلی ، قریہ قریہ ، بستی بستی ، نگر نگر ، انگریز کے خلاف بآواز بلند کہتا ہوا سنا گیا:’’ میں انگریز کا باغی ہوں ،میں ہندوستان سے انگریز کو نکال کر رہوں گا‘‘۔

یہ مرد قلندر ، عاشق رسول رحمت اپروانۂ شمع حریت ، محافظ عظمت و تقدیس و رسالت ا، علم بردار ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام ثکروڑوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن اور ایشیاء کا بے مثل خطیب امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے نام نامی سے جانا جاتا ہے ، جس پر تاریخ آج بھی فخر کرتی ہے ، جو اپنی داستان کہتے کہتے بالآخر۲۱ اگست ۱۹۶۱؁ء کو تھک ہار کر اس جہان فانی سے بصدائے بلند رخصت ہوا ؂
ہم سا عشاق زمانے میں نہ پاؤگے کہیں
لاکھ ڈھونڈو گے چراغ رخ زیبا لے کر

یہ ۱۹۳۹؁ء کی بات ہے شاہ جی لاہور مجلس احرار اسلام کے دفتر میں تشریف لائے ، جب وہ نیچے سے اوپر آنے لگے تو بھنگی اوپر سے گندگی لے کر نیچے آرہا تھا ،سیڑھیوں کے درمیان دونوں میں مڈبھیڑ ہوگئی ، بھنگی سمٹ کر دیوار کے ساتھ لگ گیا کہ شاہ جی آسانی سے گزر سکیں ، جب اﷲ کے ولی کی نظر اس بھنگی پر پڑی تو اس سے کہا : ’’ یہ ٹوکری نیچے رکھ کر اوپر آجاؤ ، میری ایک بات سن جاؤ‘‘ بھنگی ٹوکری نیچے رکھ کر اوپر چلا آیا اور شاہ جی سے کہا : ’’ میرے لئے کیا حکم ہے ؟ ‘‘ شاہ جی نے فرمایا : ’’ یہ صابن لو اور منہ ہاتھ دھوکر میرے پاس آجاؤ ‘‘ اس نے ایسے ہی کیا ، شاہ جی نے اسے اپنے پاس بٹھالیا ، کھانا منگوایا اور ایک لقمہ توڑ کر سالن میں ڈبویا اور اس کے منہ میں ڈال دیااورپھر اس سے کہا : ’’میاں ایک لقمہ تم توڑ کر سالن لگاؤ اور میرے منہ میں ڈال دو ‘‘ وہ بھنگی بڑی حیرانگی سے شاہ جی کی طرف دیکھنے لگا ، شاہ جی نے اس سے کہا : ’’ بھائی انسان ہونے کے ناطے آپ میں اور مجھ میں کیا فرق ہے ؟ گندگی اٹھانا تمہارا کام ہے ، تم اس مکان کی گندگی صاف کر رہے ہو ، جب کہ میں پوری قوم کی گندگی صاف کر رہا ہوں ‘‘اس نے لقمہ اٹھایا اور شاہ جی کے منہ میں ڈال دیا اور کہا : ’’ شاہ جی ! یہیں بیٹھے رہیں ‘‘ وہ گھر گیا اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر آیا اور کہنے لگا : ’’ یہی اسلام ہے تو پھر ہم سب کو مسلمان کر دو۔ ‘‘شاہ جی نے سب کو کلمہ پڑھایااور مسلمان کیا ، جب یہ مرا تو اس کا جنازہ بھی دفتر سے اٹھایا گیا ، اخلاق حقیقتاً اتنا بڑا ہتھیار ہے کہ اس سے جس کو چاہیں اپنا بنالیں ۔ جگر مرحوم نے خوب کہا ہے ؂
وہ ادائے دل بری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

۱۹۳۹؁ء میں جنم لینے والی تحریک فوجی بھرتی نے انگریز کا دبدبہ اور شہرت سب کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا ، انگریز اس جنگ میں بہت سا جانی و مالی نقصان کرا بیٹھا اور اسے ہندوستان پر حکومت کرنا بہت مشکل ہوگیا ، انگریزوں نے مار کھانے کے باوجود جگہ جگہ وکٹری کے نشان (v) لگائے ، بطور خاص سرکاری عمارتوں اور دفتروں پر یہ نشانات اکثر دکھائی دیتے تھے ، شاہ جی نے جب دیکھا کہ جگہ جگہ وکٹری کا نشان لگا ہوا ہے تو شاہ جی نے موچی دروازے میں تقریر کرتے ہوئے کہا :’’ میں امرتسر سے لاہور آرہا تھا ،جب میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو ایک انگریز کو میں نے دیکھا جو پینٹ پہنے جارہا تھا ،کیلے کے چھلکے سے اچانک اس کا پاؤں پھسلاتو اس کی دونوں ٹانگیں اوپر ہوگئیں ، میں نے تو بھائی اس روز سے اپنی ڈیوٹی لگالی ہے کہ جہاں کیلے کا چھلکا دیکھتا ہوں ہٹادیتا ہوں ، تاکہ کسی اور کی وکٹری (v) نہ بن جائے۔ ‘‘ جلسہ قہقہوں سے گونج اٹھا اور’’ فرنگی مردہ باد‘‘ کے نعرے لگنے لگے۔

۱۹۴۶؁ء میں انتخابات کی بات ہے، شاہ جی نے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ’’زندگی ہی کیا ہے ؟ تین چوتھائی ریل میں کٹ گئی ، ایک چوتھائی جیل میں ، جتنے دن باہر رہا ، لوگ گلے کا ہار بنتے گئے ، آج کلکتہ ، کل ڈھاکہ ، ڈھاکہ سے لکھنؤ ، لکھنؤ سے بمبئی ، پھر آگرہ ، آگرہ سے دہلی، دہلی سے لاہور ، لاہور سے پشاور ، پشاور سے کراچی ، ذرا ہندوستان کے دیہات اور قصبات کا اندازہ کرلو ، ہر کہیں گھوما پھرا ہوں ، سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں تین سو چھیاسٹھ تقریریں کی ہوں گی دن کہیں، صبح کہیں ، رات کہیں ، میں نے تقریر کی لوگوں نے کہا : ’’واہ شاہ جی واہ ‘‘ میں قید ہوگیالوگوں نے کہا : ’’آہ شاہ جی آہ ‘‘ اورتمہاری اس’’ واہ واہ‘‘ اور ’’آہ آہ‘‘ میں ہم ہوگئے تباہ……‘‘

وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان نے جب کشمیر پر اعلان جنگ کردیا تو اس موقع پر مجلس احرار اسلام نے ’’ دفاع پاکستان ‘‘ کے عنوان پر جلسوں کا اعلان کردیا ۔ قافلہ کے حدی خواں امیر شریعت سید عطاء اﷲ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لاہور میں ایک بہت بڑے جلسے کا اعلان کردیا، جس میں کم و بیش چھ لاکھ آدمیوں کی تعداد تھی ، اسی جلسہ میں کسی شریک جلسہ نے شاہ جی سے یہ سوال کردیا کہ : ’’ شاہ جی ! آپ کے ہاتھ میں رائفل ہو اور آپ بارڈر پر ہوں،دوسری طرف ہندوستان کے بارڈر پر مولانا آزاد آپ کے سامنے آجائیں اور ان کے ہاتھ میں بھی رائفل ہو تو آپ کیا کریں گے ؟ ‘‘ شاہ جی نے جواب دیا : ’’بھائی ! آپ مولانا آزاد کی بات کرتے ہیں ، خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر ہندوستان کے بارڈر پر مولانا حسین احمد مدنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ہوں ( میں اپنے آپ کو ان کی جوتیوں کی خاک سمجھتا ہوں ) میں سب سے پہلے ان کی چھاتی پر گولی ماروں گا ، اس لئے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کریں گے اور میں اپنے ملک کا دفاع کروں گا ۔‘‘ اس پر کچھ دیر تو سناٹا چھایا رہا ، پھر لوگ عش عش کر اٹھے ۔

سید امین گیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک جلسۂ عام میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے قرآن پڑھنا شروع کیا ، مجمع جم کر سن رہا تھا کہ ایک طرف سے شہد کے چھتے سے شہد کی مکھیاں آئیں اور وہ جلسہ گاہ میں لوگوں کے سروں پر منڈلانے لگیں ۔ لوگ مکھیوں کو دیکھ کر بھاگنے لگے ، تو شاہ جی نے اپنے گرجتی ہوئی آواز میں فرمایا :’’ لوگوبیٹھ جاؤ ! یہ بھی قرآن سننے آئی ہیں ، یہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گی ۔‘‘ اس طرح شاہ جی تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہے اور شہد کی مکھیاں منڈلاتی رہیں ، حتی کہ جب شاہ جی نے تلاوت ختم کی تو شہد کی مکھیاں بھی خود ہی چلی گئیں۔
 
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.