پاکستان کو ایک بہترین اور ترقی یافتہ ملک کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟

آزادی کتنی عظیم نعمت ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس نعمت سے محروم ہو اور قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہو ،چاہے وہ انسان ہو یا قفس میں قید کوئی اور ذی روح ،آزادی سے جینا ہر کوئی چاہتا ہے اور یہ ہر ایک کا بنیادی حق بھی ہے۔پاکستان کو آزاد ہوئے آج ۶۹ برس بیت چکے ہیں ،اور اتنے برس بیت جانے کے بعد آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے ۔اگر اتنے برسوں میں ہم خود کو ایک مضبوط آزاد اور ترقی یافتہ مملکت بنانے میں نا کام رہے ہیں تو پھر اس کی وجوہات اور اسباب کیا ہیں ،یہ ہم سب کے لئے بحیثیت قوم سوچنے کا مقام ہے ۔سب سے پہلی خامی جس نے ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رکھا ہے وہ ہے نظام (system)۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران ۶۹ سالوں میں اس ملک کو کوئی مربوط نظام نہیں دے سکے نا تعلیم کے شعبہ میں ،نا معشیت اور نا معاشرت میں نتیجتا آج بھی ہم ایک نو آموز اور ترقی پذیر قوم کی طرح مختلف قسم کے تجربات سے ہی گزر رہے ہیں ۔۔۔

۱۔ قوموں کے عروج و زوال تک کی کہانی میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے جس قوم نے اس میدان میں عروج حاصل کیا ،باقی دنیا اس کے آگے سر نگوں ہوتی چلی گئی ۔بدقسمتی سے پاکستان کا نظام تعلیم انتہائی ناقص ہے آج تک پورے ملک کے لئے یکساں نظام تعلیم متعارف نہیں کروایا جا سکا ۔گورنمنٹ اسکولوں کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور پرائیویٹ اسکول عام طبقہ کی پہنچ سے باہر ہیں ۔اگر نظام تعلیم میں یہ تفریق ہو گی تو ترقی کیو نکر ممکن ہوگی ۔تعلیم ملکی ڈھانچہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔

سب سے پہلی چیز تو یہ کرنی چاہئے کہ تعلیمی نظام کو بہتر کیا جائے اور ایسا مربوط نظام لایا جائے جو پوری قوم کے لئے یکساں ہو اور جس تک عام آدمی کی پہنچ بھی ممکن ہو ۔تعلیم کو سستا بنایا جائے جس تک ہر عام شہری کی رسائی ممکن ہو۔

۲۔ہماری بیشتر یونیورسٹیز میں سائنس اور انجینئرنگ سے متعلق مضامین صرف کتابوں کی حد تک پڑھائے جاتے ہیں ،طالبعلموں کو عملی مشقیں نہیں کروائی جاتیں جب کے کوئی بھی سائنسی یا تجرباتی علم اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک اس کو عملی طور پر نا اپنایا جائے۔کیونکہ علم کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی اشد ضرورت پڑتی ہے عمل کے بغیر علم کسی کام کا نہیں ۔

۳۔اس کے علاوہ پاکستان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کو بھی فروغ دینا چاہئے ۔ہر شعبہ چاہے سائنسی ہو ،یا سماجی ،لسانی ہو یا ادبی اس کی تحقیق کو زمینی حقائق کے ساتھ جوڑا جائے اور اس کو مقصدیت کے اعتبار سے بہتر کیا جائے۔

۴۔پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ہے جو جو قدرتی وسائل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے پاکستان میں بیک وقت ،صحرا سمندر ،پہاڑ اور دریا موجود ہیں ۔مگر کیا وجہ ہے کہ اتنے وسائل ہونے کے باوجود پاکستان دوسرے ممالک سے قر ضے اٹھانے پر مجبور ہے ؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے حکمران طبقہ کا وہ غیر سنجیدہ رویہ ہے کہ جس کی وجہ سے ملک آج خسارے کا شکار ہے۔ کسی بھی حکمران نے آکر اس طرف خصو صی توجہ نہیں دی صوبہ بلوچستان ہو ،شمالی علاقہ جات یا تھرچولستان، معدنی وسائل کے خزانوں سے مالا مال ہیں ۔اگر ان معدنی وسائل کو نکالا جائے ا وران کو بروئے کار لایا جائے تو ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔

۵۔بجلی کی پیداوار میں اضافہ۔۔۔۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو جدت سے ہم آہنگ کیا جائے ایک زمانہ تھا جب سب کام ہاتھوں سے کئے جاتے تھے بجلی کا استعمال اتنا عام نا تھا آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اسی لئے بجلی کے استعمال میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ،مگر ساتھ ہی ملک بجلی کی پیداوار میں کمی کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے ملک آج بہت سے مسائل کا شکار ہے ۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ پچھلے دس سالوں میں اس کی پیداوار بڑھانے کے لئے کوئی سیریس قدم نہیں اٹھایا گیا جب کہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوا اور نئی صنعتیں اور کارخانے لگائے گئے تو ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بھی بڑھانی چاہئے تھی جس کے لئے چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر ہر صوبے میں اشد ضروری تھی۔جس کی وجہ سے آج ملکی معیشت کا پہیہ بہت سستی سے چل رہا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ تیل اور گیس پر انحصار کرنے کے بجائے کوئلے اور پانی سے سستی بجلی بنائے ،اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائے کیونکہ ڈیموں کے ذریعہ دریا ،جھیل اور ندی کا پانی استعمال کر کے با آسانی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور جس سے عوام کو بھی فائدہ ملے گا ۔اور کاروبار کا پہیہ بھی تیزی سے رواں ہو گا ۔اس کے ساتھ ساتھ سولر سسٹم یعنی شمسی توانائی کے ذریعہ بجلی بنانے اور پن بجلی یعنی قدرتی ہوا کے ذریعہ بجلی بنانے کے منصوبوں پر بھی عمل کر نا ضروری ہے ۔

۶۔قرضوں سے نجات۔۔۔۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ وہ قرضیں ہیں جن میں ہمارا بال بال جکڑا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے ہم کبھی اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے ۔پاکستان کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے نجات دلائی جائے ۔اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں افراط زرر میں اضافہ کیا جائے اور ملکی معیشت کو مضبوط کیا جائے ۔اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی درآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ۔چھوٹی اور گھریلو صعنتوں کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ بے روزگا ر اور غریب ناداروں کو بھی کام میسر آسکے گا ۔اور عالمی منڈی میں ہماری مصنوعات کو بھی فروغ حاصل ہوگا ۔

۷۔بے روزگاری اور غربت۔۔۔ ہمارے ملک کی تباہی کا ایک اور بنیادی مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے ،غریب عوام غربت سے تنگ آکر اپنے ہی ملک کے لئے انتشار پھیلانے والوں کا اعلی کار بنتے جا رہے ہیں کیونکہ پیٹ کی بھوک وہ بلا ہے جو انسان سے ہر غلط کام بھی کر والیتی ہے چنانچہ ضروری ہے کے غربت اور بے روزگاری جیسے سنگین مسئلے پر غور کیا جائے اور اس کو ختم کر نے کے لئے عملی قدم اٹھایا جائے ۔نئے چھوٹے ،بڑے منصوبے شروع کئے جائیں نئے کارخانے اور فیکٹریاں لگائی جائیں اور روزگار میں اضافہ کیا جائے جس کی وجہ سے پڑھا لکھا نو جوان طبقہ مایوسی کا شکار ہوکر غلط راستوں کا انتخاب نا کرے اور دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں کا کھلونا نا بنیں ۔اور جب ملک دحشت گرد تنظیموں سے محفوظ رہے گا تو امن و سکون ہوگا ،لوگوں کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہو گا تو بیرونی ملک میں مقیم پاکستانی بھی اپنا سرمایہ ملک میں بلا خوف و خطر لگا سکیں گے اور ملک خوشحال ہوگا ۔

۸۔انصاف اور قانون کی بالا دستی۔۔جس ملک میں قانون کی بالا دستی قائم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی اور جہاں کوئی قانون نا ہو وہاں جنگل کا قانون راج کرتا ہے اور ملک افراتفری کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہوتا ہے ۔اس لئے بہت ضروری ہے کہ ملکی قوانین کا احترام کیا جائے اور اس کو لازمی بنا یا جائے اس سلسلے میں کسی امیر ،و زیر کی قید نا ہو ،ہر چھوٹے بڑے اور حاکم اور خادم پر لازم ہو کہ وہ قانون کا احترام کرے اور اگر کوئی قانون توڑے تو بلا تخصیص و امتیاز اس کو سزا بھگتنی پڑے تو ملک سے با آسانی بہت سی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے لئے سب سے اہم اقدام یہ ضروری ہے کہ ملک کے تمام اہم اداروں کو آزاد اور خودمختار ہو نا چاہئے تاکہ وہ بنا کسی دباؤکے درست فیصلے کر سکیں جیسا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا چلا آرہا ہے۔

۹۔ٹیکس چوری کی روک تھام اور کرپشن کا خاتمہ۔۔۔ ملکی معیشت کے پہیہ کو چلانے کے لئے ٹیکسوں کی وصولی کا شفاف نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے ۔مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ جس جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے اتنا ہی وہ بڑا ٹیکس چور ہے اور اسی وجہ سے ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے ۔دوسری اہم وجہ کرپٹ عناصر ہیں جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کر نا صرف کھایا ہے بلکہ ملک کی جڑوں کو بھی کمزور کر دیا ہے ان عناصر کو پکڑنے کے لئے ضروری ہے کہ احتساب کا شفاف نظام بنایا جائے اور ہر شخص پوری ایمانداری کے ساتھ اس سلسلے میں کام کریں ذاتی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ،چور اور کرپٹ عناصر کو اگر سزا ملے گی تب ہی دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کریں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ۔

۱۰۔ہر شہری اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھائے ۔۔۔کوئی بھی قوم ایک اکائی کی طرح ہوتی ہے چنانچہ اسے مضبوط اور منعظم کر نے کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص دوسرے کی حقوق کا خیال رکھے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرے ۔آج معاشرے میں تہذیب اور اخلاق نام کی چیز ناپید ہے جس کی وجہ لوگوں میں برداشت کی کمی ہے کوئی کسی اور کی رائے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ایک دوسرے کا حق مارنا معمولی بات بن کے رہ گئی ہے ۔جب تک ہم سب اپنی اپنی جگہ خود کو درست نہیں کریں گے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ نہیں دیں گے تب تک یہ معاشرہ نہیں سدھر سکے گا ہرشخص کو اپنا کام پوری ایمانداری سے کرنا ہو گا ایک دوسرے کو عزت دینی ہوگی تب ہی ملک میں اتحاد اور یگانگت فروغ پا سکے گی۔

۱۱۔انتخابات کا شفاف نظام قائم کر نا۔۔۔ ہمارے ملک کا ایک اور اہم اور سنگین مسئلہ انتخابات کا غیر شفاف نظام ہے جس کی وجہ سے ملک کئی مسائل سے دوچار ہے ۔ہر بار الیکشن کے بعد جیتنے والے خوش اور ہارنے والے دھاندلی کے الزامات لگاتے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ صرف اور سرف یہی ہے کہ الیکشن کے موجودہ نظام پر کسی کواعتبار نہیں ہے ۔جب کے دوسرے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں ہارنے والے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہیں اور پھر آنے والی حکومت کی راہ میں کوئی روڑے نہیں اٹکاتے ،مگر افسوس ہمارے ملک میں آئے دن کے دھرنوں ،ہڑتالوں اور مارچوں نے ملکی نظام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے ۔لہذا سب سے اہم ضروری بات یہی ہے کہ انتخابات کے لئے ایک وا ضع اور شفاف کمپیوٹرائز نظام متعارف کر وایا جائے تاکہ آئندہ کے لئے اس جھگڑے سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے اور کوئی کسی بھی قسم کا الزام لگانا سکے۔

۱۲۔سیاحت کو فروغ دینا۔۔۔ہمارا ملک قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک اس خوبصورتی کو مزید نکھارنے کی طرف توجہ نا دی گئی جس کی وجہ سے ملک میں سیاحت کو بھی خاطر خواہ فروغ حاصل نا ہو سکا ۔شمالی علاقہ جات اور بعض پیاڑی علاقے ایسے بھی ہیں جو ساری دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہیں اور اس کی اہم وجہ وہ دشوارکن راستے ہیں جن کے ذریعہ ان جگہوں تک رسائی ممکن نہیں ۔اگر ہماری حکومتیں اس طرف بھی تھوڑی توجہ دیتی اور راستوں کو ہموار اور کشادہ بنانے میں کچھ پیسہ خرچ کرتی تو آج ملک میں سیاحت کو بہت فروغ حاصل ہوتا جس کا فائدہ بلاشبہ ہمیں ہی ملنا تھا ۔چنانچہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ ملک میں سیاحت کے فروغ کے لئے اقدام اٹھائے اور وہ علاقے جو اپنی خوبصورتی میں پوری دنیا میں اپنی مثال نہیں رکھتے ان تک لوگوں کی رسائی ممکن بنائے۔

۱۳۔نئی نسل کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر نا۔۔ پاکستان میں اچھے اور ذہین دماغ کے لوگوں کی کمی نہیں ہے ڈھونڈنے نکلیں تو ایسا ایسا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے کہ جس کی مثال نہیں مگر کمی ہے تو اس بات کی کہ ذہین اور اچھے دماغ رکھنے والے لوگوں کو کوئی آگے آنے نہیں دیتا یا بھر وسائل کی کمی کے باعث ایسے لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ،چنانچہ ملک کے تعلیمی ادارے ہوں یا دوسرے ملکی ادارے وہاں بلا تخصیص اور بلا امتیاز ایسے طالبعلموں اور لوگوں کو آگے آنے اور بڑھنے کے مواقع فراہم کر نے چاہئے جو آگے چل کر ملک کے لئے سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں اور اپنی ذہانت سے ملک کو نفع پہنچا سکتے ہیں۔

۱۴۔اسلامی قوانین کا نفاذ ۔۔ اگر آج ہم اپنے دین کے اور اﷲ رسولﷺ کے بتائے ہوئے نظام زندگی کو اپناتے تو بلاشبہ بہت سے مسائل سے بچ جاتے ،مگر افسوس کے ہم نے اپنے دین کو پس پشت ڈال دیا ہے اسی لئے تباہی کا شکار ہیں ۔اگر آج بھی ہم ان سنہری اصولوں کو اپنا لیں تو کچھ شک نہیں کہ ہم دنیا کی سب سے مضبوط قوم بن کر ابھرسکتے ہیں ۔سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ہمارا کہ ہم نے ملک تو دین کہ نام پر حاصل کیا ہے مگر ہم دین کے راستے پر چلنے کو تیار نہیں ۔ہمرا دین ہمیں اخلاقیات کا درس دیتا ہے ،ایمانداری ،سچائی ،دیانتداری کا سبق پڑھاتا ہے ہمارا دین ہمیں جھوٹ ،دھوکہ ،فریب ،حرام کھانے ایک دوسرے کی جان و مال چھینے ،ناحق قتل کرنے اور سود کھانے سے منع کر تا ہے جب کہ آج ہم بحیثیت مسلمان سب سے زیادہ انہیں برائیوں میں مبتلا ہیں جب تک ہم ان سب برائیوں سے خود کو انفرادی طور پر نہیں بچائیں گے ،اجتماعی طور پر کچھ نہیں کر پائے گے ،اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اسی میں سراسرہماری بھلائی پوشیدہ ہے۔
Elina Malik
About the Author: Elina Malik Read More Articles by Elina Malik: 7 Articles with 11743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.