میرا پاکستان کیسا ہو۔۔۔۔۔۔؟

 اردو ادب کے نامور شاعر حضرت جون ایلیانے بڑی اچھی بات کی ہے وہ کہتے ہیں
ـ ’’جو سماج افلاس اور جہالت کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی خواب نہیں دیکھ سکتا اور نہ شاید اس کا حق رکھتا ہے ۔ ہم بار بار ترقی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تعمیر و ترقی کی باتیں اسی قوم کو زیب دیتی ہیں جو معاشی استحکام اور تعلیمی ترقی کے ایک خاص نقطے تک پہنچ چکی ہو اس سے پہلے تعمیر و ترقی کی باتیں کرنا دماغی عیا شی اور ذہنی بد کاری کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
(فرنود ، ص ۱۵۶)
دنیا کے کسی بھی فلاحی ریاست میں عوام اور ریاست کے مابین ایک عمرانی معاہدہ تشکیل پاتا ہے جس میں افراد اپنے اختیارات سے دستبردار ہوکر اجتماعی حکومت کو قبول کر تے ہیں اور حکومت اس کے بدلے عوام کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔عمرانی معاہدہ کا استعارہ ان تمام سماجی قوانین ،ضابطوں ،پابندیوں اور اخلاقیات کے لئے مجموعی حوالوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔سب سے پہلے تو یہ نکتہ غورطلب ہے کی کیا پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اور کیا ریاست کا عوام کے ساتھ عمرانی معاہدے کا رشتہ مضبوط ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم موجودہ دور میں بھی ایک فلاحی ریاست میں وضع کیے جانے والے عمرانی معاہدے کے ثمرات سے محروم ہیں ۔جس میں کئی وجوہات اور عوامل کار فرماہیں ۔ریاست ِ پاکستان میں مختلف اہل ِ فکرکی نظر میں اسکی بنیاد کے حوالے سے ہی مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔جس میں ایک طبقے کی رو سے پاکستان مذہب کے نام پر بنا ایک مذہبی ملک ہے لیکن جب قائد اعظم محمد علی جناح کی تقا ریر اور تاریخی دستا ویزات کا مطالعہ کیا جائے تو نتائج اس کے بالکل بر عکس آتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے جمہوری نظام کا حامی دکھائی دیتا ہے ۔اب پاکستان میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ سے موجودہ دور تک مختلف ادوار میں جس طرح عمرانی معاہدے کی دھجکیا ں اڑا کے عوامی امنگوں کا خون اور کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے اس کو نہ صرف جمہوریت یا کسی اور نظام ِ حکومت کی رو سے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ دنیا کا کوئی مذہب بھی اس طرح کا استحصال کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔اب جس ریاست میں اس کی بنیاد کے حوالے سے ہی تضادات پائے جاتے ہوں یا جو مذہبی جماعتیں قیامِ پاکستان کے ہی سخت مخالف تھیں وہ آج پاکستان کو اسلام کا ایک قلعہ بنانے کے حوالے سے ببانگ دہل اعلانات کریں تو یہ ایک صاحب ِ فہم اور حساس فردکے لئے ذہنی کرب کا باعث بنتا ہے

دنیا کے مختلف مغربی ممالک کی تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھا جائے تو مغرب مختلف ادوار میں مختلف مراحل سے گزرتا آیا ہے لیکن مجموعی طور پر جمہوریت ہی فلاحی ریاستوں کی تشکیل و تکمیل میں معاون رہا ہے ۔جمہوریت کا نظامِ حکومت کے طور پر سفر ایک لمبے عر صے پر محیط ہے۔اس کے بیشتر بنیادی عناصر بیسوی صدی میں ٹھوس شکل اختیار کر چکے ہیں۔جنگ عظیم دوئم کے بعد کے دور کو نو آبادیوں کے خاتمے اور جمہوری اصولوں اور اقدار کے واضح اظہار کا دور سمجھا جاتا ہے اور جنگ عظیم دوئم کے بعد اقوام ِ عالم کی جمہوریت اور انسانی حقوق میں مزید دلچسپی بڑھ گئی ۔جمہوریت کی متعدد تعریفیں بیان کی گئی ہیں ۔ایک ترقی یافتہ ملک میں زبانِ زد ہونے کے ساتھ ساتھ نافذالعمل جمہوریت کی تعریف کچھ یوں ہے-:
"ـernment by the people,of the people,for the people "Gov
لیکن پاکستان میں اس کا مطلب کچھ یوں لیا جاتا ہے۔
"Government buy the people,off the people,far the people"

مذ کورہ تعریف کی رو سے پاکستان جمہوریت کے لئے تکلیف دہ سفر کا حامل ملک رہا ہے ۔اس کی تاریخ ، آئین سازی میں تاخیر ،سیاسی نظام کے تنزل اور فوجی اقتدار اورفوجی حکمرانوں کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ اور آئینی و سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے جیسے اقدامات وہ عوامل ہیں جن کے سبب پاکستان مین جمہوریت کبھی اپنے اصل شکل میں نافذ العمل ہی نہیں ہو سکی اور ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے جمہوریت اور جمہوری کلچر کو اس کے حقیقی فکری رجحان کے ساتھ چلانے کے لئے قیادتیں سیاسی طور پر بلوغت کی منزل تک ہی نہیں پہنچ پائی ہیں جس کے سبب پاکستان میں جمہوریت کے معیارکا بھی مسئلہ درپیش ہے اگرچہ تمام سیاسی رہنما اور سماجی گروہ جمہوریت کا پر چار تو کرتے ہیں لیکن در اصل وہ جمہوری اصولوں کی خود ساختہ تشریح کے ذریعے اپنے غیر جمہوری طرز حکومت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔جب کسی ملک میں جمہوریت کے معیار کا تعین کر نا مقصود ہو تو اس ریاست میں انسانی حقوق کی حالت ِ زار کو پرَکھا جاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں انسانی حقوق کی حالت ِ زار تشویش ناک ہے۔ملک میں غربت کی ستائی مائیں اپنے جگر گو شوں کو فروخت کر رہی ہیں یا پیٹ کی آگ بجھا نے کے لئے عصمت فروشی پر مجبور ہیں جبکہ گلی کوچوں میں بھوک و افلاس اس طرح گردش میں ہے کہ اشرف المخلوقات کے لقب کا حامل حضرت ِ انسان مُردوں اور گدھے کا گوشت کھا کر خوب شکم سیر ہو رہا ہے ۔ملک میں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اقبال کے شاہینوں کی پَریں اُن کی پرواز سے قبل ہی کاٹ دی گئی ہیں اور انہیں غمِ روزگار میں اس طرح الجھایا گیا ہے کہ یا وہ خود کشی کر رہے ہیں یا جرائم کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں ۔مذکورہ عوامل و حالات کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عام عوام کے کیا فرائض ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟تو اس کا سادہ سا جواب ہے ۔پاکستان میں جمہوریت کی اصل روح ضرور ناپید ہے لیکن فی الحال عوام کے پاس ووٹ کی طاقت تو ضرور ہے اور لوئر کلاس سے لے کر اَپر کلاس طبقے سے تعلق سے رکھنے والا ہر فرد اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن جب کسی ریاست کے شہری اپنے ووٹ کو فقط ایک لیپ ٹاپ،سکوٹر،موبائیل فون یا نقدی کے عوض کریں تو حکمرانوں سے استحصال کے گلے شکوے کرنا ہی بے سود ہے اور جب عوام کو اس جمہور گریز جمہوریت میں دور دور تک کوئی صاحب ِفہم اور باکردار سیاستدان کا وجود ہی دکھائی نہ دے تو الیکشنز کا ہی بائیکاٹ کرکے دنیا کے سامنے عوامی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

دنیا کے مختلف سماجی ماہرین کے مطابق اقوام سماجی برائیوں سے کہیں زیادہ فکری جمود کے باعث زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔پاکستان میں بھی بد قسمی سے عام عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں خصو صاََ مذہبی جماعتیں فکری جمود کا شکار ہیں اور ہمارے افکار کے معیار کو دیکھ کر گماں ہوتا ہے کی قرون وسطیٰ کے دور میں سانس لے رہے ہوں۔کسی بھی درخت کی چند شاخیں بانجھ پن کاشکار ہو جائیں تو انہیں کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ نئی کونپلیں پھوٹیں ۔اگر انہیں اسی طرح رہنے دیا جائے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پورا شجر سوکھ جاتا ہے۔اس طرح کسی قوم کی فکری جمود کو توڑنے کے لئے بھی غلط افکار کا خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستان کے عوام کو سب سے پہلے اپنے اذہان سے مذہبی انتہا پسندی ،تنگ نظری اور رجعت پسندی کی غلاظتوں کو صاف کرکے اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مکمل جمہوری نظام کے حامی ہیں یا مذہبی نظام کے متلاشی۔لیکن ’’کسی ملک کے عوام کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ انہیں کیا چاہنا چاہیے اور کیا نہیں تو مسئلوں کے حل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور متین حلقے ملک میں نئے عمرانی معاہدے لانے کے لئے کوششیں کریں تاکہ سماج کے ہر طبقے کو درپیش مسائل اور اس کے ازالے کا بندوبست کیا جا سکے اس کے علاوہ پاکستان میں عدلیہ کی جانب سے جب تک اٹلی کے مشہور مقولہ
Give it to the ceaser what is due to the ceaser and give it to the God what belong to God
کے مصداق ہر طبقے کوانصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتاملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہونانہایت مشکل ہے۔آج کے دور میں پاکستان میں کسی دانشور کے بقول انصاف کی فراہمی کے لئے ’’حضرت نوح ؑکی عمر،قارون کا خزانہ اور حضرت ایوب کی صبر کی ضرورت ہے ‘‘جب تک پاکستان میں جمہوری رویوں کو فروغ دینے کے ذریعے جمہوریت کے اصل روح کوبحال نہیں کیا جاتا ملک کو ترقی کے خواب دیکھنا ’’ذہنی بدکاری ‘‘کے سوا کچھ نہیں۔

نامور شاعر فیض احمد فیض کی اسی ـ’’دعا‘‘ کے ساتھ جہالت ،غربت و افلاس اورمحرومیوں کے گھُپ اندھیروں میں جینے والی قوم کی حکایت کے اوراق کو سمیٹ لیتے ہیں۔
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منو ر کر دے
جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے ، جراتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ ِ جفا ہیں ان کو
دست ِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

TEHZEEB HUSSAIN BERCHA
About the Author: TEHZEEB HUSSAIN BERCHA Read More Articles by TEHZEEB HUSSAIN BERCHA: 19 Articles with 21204 views

                                                                        
.. View More