ناقص صحت وصفائی اور زہریلا پانی

عوام کو صحت وصفائی کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے لیکن حکومت اس میں بھی ناکام نظر آرہی ہے پاکستان کے دو شہر کراچی اور لاہور اس سلسلے میں نمایاں ہیں ۔آئے روز کراچی میں صفائی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے الیکٹرانک میڈیا پر خصوصی نشریات شائع کی جا رہی ہیں کراچی میں گندگی کے ڈھیرے لگے ہوئے ہیں ان کو اٹھانے والا ہی کوئی نہیں ۔صوبائی حکومت نے جو صفائی کے حوالے سے وعدہ کیا تھا اسے پورا میں ناکام ہو گئی ہے گلی کوچوں میں بکھرے کوڑاکے ڈھیر حکومتی کارکردگی کا پول کھول رہے ہیں عوام سراپائے احتجاج ہیں کوئی اہلیان کراچی گند گی ،کوڑا کرکٹ سے تنگ آگئے ہیں ان میں مہلک بیماریوں کے پھیلنے کا کدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ،دوسرا بڑا مسٔلہ پانی کی عدم فراہمی ہے لوگ پانی کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں جو پانی مہیا کیا جا رہا ہے وہ بھی غیر معیاری ہے ۔ زندہ دلان لاہور بھی گندے پانی سے تنگ ہیں جب بھی پانی کیلئے نل کھولا جاتا ہے تو پانی کے ساتھ کیڑے ،مکوڑے، نقصان دہ ذرات واضح نظر آتے ہیں جو متعدی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں پانی کے گندہ ہونے کے باعث لوگ فلٹر پلانٹس پر صاف پانی کے حصول کیلئے لائنوں میں پانی لیتے دکھائی دیتے ہیں فلٹر پلانٹس پر پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد مجموعی طورپر 2 سے3 فیصد ہے باقی 98 سے 97 فیصد لوگ جراثیم ،بیماریوں کا مغلوبہ پانی پینے پر مجبور ہیں ۔اگر حکومت نے صاف پانی کی فراہمی یقینی نہ بنائی تو فلٹر پلانٹس سے پانی قیمتاً ملا کرے گا ۔جو عوام پر سراسر ظلم ہوگا ۔بہر کیف ماضی قریب کی صورتحال یہی دکھائی دے رہی ہے ۔عوام گندہ پانی نلوں میں آنے پرخود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔سرکاری پائپ لائنوں میں پانی اس قدر گندہ کیوں ہے ؟اس کی کیا وجوہات ہیں َ؟مشاہدے کی بات ہے کہ پائپ لائنیں پچاس سے سو سال کئی علاقوں میں تو اس سے بھی زیادہ پرانی پائپ لائنیں ہیں جو خستہ حال ہو گئی ہیں اور سیوریج کی لائنیں بھی اکثر مقامات سے خراب ہیں اس طرح سیوریج کا گندہ پانی اور صاف پانی کا پائپ لائنوں کے ساتھ مکس ہوگیا ہے زیادہ تر لاہور کے جو علاقے اس مسٔلے سے دوچار ہیں وہ اندرون بھاٹی گیٹ،بلال گنج،بادامی باغ،مصری شاہ،شادباغ،اچھرہ ودیگر علاقے ہیں جہاں کئی مقامات پر تو پانی نے اندرون خانے مار کرتے ہوئے نیچے سے زمین کو کھوکھلا کر دیا ہے اوپر سڑک ہے نیچے سے خالی کئی مقامات سے سڑکیں زمین میں دب گئی ہیں ۔اس کی زندہ مثال نظام حیات کے دفتر والا میں بازار قذافی کالونی ہے جن کے مکینوں کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی مار کے باعث ہماری عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ایسی ہی صورت حال کئی علاقوں میں دیکھی گئی مگر حکومت کے منتخب نمائندے اس اہم ترین عوامی مسٔلے کو حل کرنے کی بجائے چشم پوشی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے اس مسٔلے کا حل ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہی نہیں ہے ۔ایسی صورت میں جب گھروں میں پانی حاصل کرنے کیلئے لوگ نلکا کھولتے ہیں تو پانی کے ساتھ جراثیم، نقصان دہ ذرات بھی پانی میں شامل ہو تے ہیں ۔جس سے حفظان صحت کی صورتحاک خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے ڈاکٹرز حضرات کا کہنا ہے کہ گندہ پانی استعمال کرنے سے معدے،یرقان جیسے مہلک امراض جنم لے رہے ہیں ۔یہ دیکھا گیا ہے کہ مریضوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو گندے پانی کے باعث بیمار ہوئے ان کی صحت کی بحالی کافی مشکل کام ہے کیوں کہ گندہ پانی استعمال کرنے والے مریضوں پر دوائی اثر ہی نہیں کرتی۔ جب تک وہ گندہ پانی استعمال کرنا بند نہیں کریں گے تو۔ اس لئے عوام کو چاہیے کہ جب بھی پانی پیئں تو ابال کر پیئں اس سے پانی میں موجود جراثیم کا کسی حد تک خاتمہ ہوجاتا ہے اور مریض کی صحت بہتر ہو جاتی ہے بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فلٹر پلانٹس کا پانی اتنا موثر نہیں جتنا ابالا گیا پانی ہے لہٰذا عوام کو پاہیے کہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ابال کر پانی استعمال کریں۔عوام کو معیاری پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ پرانی پائپ لائنیں ختم کرکے نئی معیاری پائپ لائنیں بچھائی جائیں تاکہ عوام کوصحت افزاء پانی کی فراہمی یقینی ہو سکے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوامی مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے کیونکہ اگر عوام کی صحت ہی درست نہ ہوگی تو وہ ملکی ترقی میں خاک کردار ادا کریں گے۔میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلانے والے اس جدید دور میں عوام صفائی اور صاف پانی کی فراہمی کیلئے ترس رہے ہیں لیکن حکمران ہیں کہ انھیں جیسے عوام کے ان بنیادی مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ۔٭٭٭

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.