قنوطی

سری نگر ، بارہ مولا ، بڈگام ، کپواڑا، پونچھ ،راجوری ، بھدرواہ ، کشتواڑ، ڈوڈہ اور جموں وکشمیر کے طول و عرض میں ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ کے نعروں کے ساتھ جشن آزادی منایا گیا ہے ۔ قنوطی اب بھی پوچھتے ہیں کشمیریوں کے پاس آپشن کیا ہے ؟مسئلہ کشمیر کے سات حل ہوں یا باون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس کو کیا قبول ہے اور کس کو کیانامنظور ؟اس کا فیصلہ کسی اور نے کرنا ہے ۔ اگر یہ فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے جن سے پوچھا جانا ہے تو وہ ایسے ہیں کہ ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے ۔ جو الٹے لٹکائے گئے ‘ جن کے چہرے مسخ کر دیے گئے ہیں ‘ جن کے ناخن کھینچ دیے گئے‘ کھالیں ادھیڑ ڈالی گئیں ‘ کوڑوں کی بھر مار میں جن کی ٹانگیں بھاری رولروں تلے کچل دی گئیں ۔ جن کے جواں سال بچے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی لہو میں تڑپادیے گئے‘ جو اذیت کدوں کو گئے پھر کبھی زندہ واپس نہیں لوٹے ‘ جو گھر سے آزادی کی تلاش میں نکلے تھے مگر زندگی کی بازی ہار گئے ۔

اگر فیصلہ کسی اور نے کرنا ہے کہ جن کی آج تک نکسیر نہیں پھوٹی جن کے گھر سلامت اور گھروں میں امن کا بسیرا ہے ‘ جن کے جگر گوشے مامون اور زندگی میں خوشیوں کا نیر تاباں چمک رہا ہے تو پھر معاملہ دگر ہے ۔

ہمالیہ کے دامن میں پھیلی دنیا کی جنت ارضی پر وہ کون سا ظلم تھا جو توڑا نہیں گیا وہ کیا جبر تھا جس کے تلے ایک پوری نسل دب گئی لیکن پست ہمتی نہیں دکھائی ۔جن کے گھروں سے آگ کے شعلے اٹھتے رہے اور چہروں پر مسکراہٹ باقی رہی کہ وہ ایک درخشاں مستقبل کی امید پر زندہ رہے ۔ تحت سلیمان سری نگر کے دامن میں بادامی باغ کا ٹارچر سیل الٹے لٹکتے کشمیریوں کی چیخوں اور آہوں پر گواہ ہے جو تشدد کا پہاڑ سینے پر اٹھا کر بھی کہتے رہے بھارت غاصب ہے اور اس سے آزادی کا ایک ہی راستہ ہے ‘کشمیریوں کو ان مرضی کے استعمال کا حق دیا جائے ۔اوڑی سے لکھن پور تک چراغ لے کر ڈھونڈنے سے ایک بھی نہیں ملتا جو بھارت کو ایک حرف کی رعایت دینے کو تیار ہو اس قریہ زمین پر ایک واضح اور پر عزم اکثریت پوری ریاست کا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنے کو بے قرار رہی ۔

جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے برسوں تک ظلم سہا ‘ گھر بار لٹائے‘ اولاد قربان کی‘ پاکستان سے ان کی جذباتی اور نظریاتی وابستگی کے لیے کوئی اور ثبوت درکار ہے ؟ کشمیری بھارت کو غاصب کہتا ہے‘ اس کے ساتھ الحاق تسلیم نہیں کرتا‘ وہ سات لاکھ فوج کے گھیرے میں گھر کر اسے بھیڑیا کہتا ہے‘ وہ بھارت سے لڑتا اور پاکستان کے لیے مرتا ہے مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد جسے اس دنیا میں پاکستان عزیز ترین ہے ۔

ان کی کوئی صبح خوش رنگ نہ کوئی شام دل آویز‘ انہیں جینے کا حق ہے نہ حق مانگنے کی اجازت ‘ عقوبت کدے اور خون میں نہانا ان کا مقدر ٹھہرا ۔کھیت و کھلیان ‘ مال و متاع ‘ باغات اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ۔

ان کا قصور کیا ہے ؟ یہ کہ وہ تحریک پاکستان کی تکمیل چاہتے ہیں ‘اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں ۔ جب پاکستان پر کوئی حرف آتا ہے ‘ کسی مصیبت کا ذکرچھیڑتا ہے تو کرب سے اہل کشمیر تڑپ اٹھتے ہیں ۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں ‘ اوڑی کیمپ کا سانحہ ہو‘ دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو‘ خون یہاں ٹپکتاہے دل کشمیریوں کے پھٹتے ہیں ‘ آندھیاں یہاں چلتی ہیں اور تباہیاں وہاں ہوتی ہیں ۔

خوشیوں اور خوشبوؤں کی بارات یہاں اترتی ہے تو مسکراہٹیں سری نگر ‘ بارہ مولہ ‘کپواڑہ اور راجوری میں بکھر جاتی ہیں ۔

ان میں کوئی پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا طلب گار ہے نہ صدارت کا امیدوار ‘ کوئی قومی اسمبلی کا ممبر بننا چاہتا ہے نہ کسی ٹاؤن کا چیئرمین وہ کسی بنک کو لوٹ کھانے کو بے قرار ہیں نہ کمیشن اور بھتہ خوری کے متمنی ۔ وہ پاکستان سے عقیدت کا رشتہ اس لیے نہیں پالتے کہ یہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں ‘ عدل کا چلن عام ہے شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں نہ یہاں ظلم تاراج اور امن کا بسیر اہے ‘ نہ سری نگر میں لادینیت ہے اور اسلام آباد میں اسلام کی بہاریں جلوہ گر ہیں نہ ادھر بھوک اگتی ہے اور نہ یہاں دولت کی ریل پیل ہے ۔

ایک ایمان کی دولت ہے جو انہیں پاکستان سے جوڑتی ہے اور وہ لال چوک میں گولیوں کی جھنکار میں سبز ہلالی پرچم بلند کرتے ہیں ۔

سات آپشن ہوں یا باون ‘ مذاکرات ہوں یا ڈپلومیسی کا کوئی حربہ …… کبوتر کو سونے کے پنجرے میں رکھنا ہے یا لوہے کے پنجرے میں اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے قیدی کبوتر کی کوئی خبر لینے والا ہے ؟ جو جموں و کشمیر کے وفا شعاروں سے بھی پوچھ سکے کہ تمہیں کتنے آپشن قبول ہیں ؟جن کے لیے موت کا آپشن تو بہرحال کھلا ہے۔وہ موت سے مسلسل لڑ رہے ہیں اور ہمارا توندیل دانشور اس سادہ لوح قوم کو پھر سے نئی بحث میں الجھا رہا ہے کہ کشمیریوں کا مستقبل کیا ہے ؟ کوئی تو ان قنوطی لوگوں پوچھے کہ آپشن کے بارے میں اب بھی کوئی سوال باقی ہے ؟ ان کے گنجیلے سروں کے اندر دماغ نام کی کوئی چیز باقی ہے۔ ان کے نام نہاد ’’ دانشورز‘‘ دانش فروشوں کے پاس قنوطیت کے علاوہ کوئی ایسی شے باقی بچی ہے جسے وہ فروخت کر سکیں ؟کشمیریوں نے اپنا ہر آپشن لہو دے کر واضح کر دیا ہے!!

Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.