میرا پاکستان کیسا ھو؟

پاکستان کو وجود میں آئے 69 برس ہو چکے ہیں مگر آج بهی یہ اپنے وجود کی وجہ کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پا یا۔ "پاکستان کا مطلب کیا : لا اله الا لله " یہ نعره اس وطن کے وجود میں آنے کی وجہ ظاہر کرتا ہے۔ مگر افسوس کے هم آج اس جذبے، جنون اور ہمت سے قاصر ہیں جس کی بنیاد پر هم نے یہ سر زمین حاصل کی تهی۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اسے ایک بہترین ریاست بنانے کے لیے کسی اور چیز کی نہیں بلکہ صرف اسلامی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ هم لوگ قرآن میں جنت اور دوزخ تو ڈهونڈتے ہیں مگر اس کی تعلیمات پر غور نہیں کرتے۔ 18 جون 1945ء کو فرونٹیر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا :
"Pakistan not only means freedom and independence but Muslim ideology which has to be preserved, which have come to us a precious gift and treasure and which we hope others will share with us"
قائد نے دن رات محنت کر کے ایک آزاد اسلامی ریاست بناتے وقت یہ سوچا ہو گا کہ پاکستان کیسا ہو گا؟ تاریخ کی سب سی بڑی ہجرت اور بے جا لاکهوں قتل ہونے والوں نے سوچا هوگا کہ جس کے لیے هم جان دے رہے ہیں وہ ملک کیسا ہوگا؟ اس کے لوگ کیسے ہوں گے؟ کیا وہ اس کی شان بنائے رکهیں گے ؟ کیا وہ ان قربانیوں کی قدر کریں گے؟کیا ایک آزار ، خوش ، اسلامی ، عدلی ریاست کا خواب پورا ہوگا؟انہوں نے یہ تو نہیں سوچا ہوگا کہ یہاں اسلام تو ہوگا اسلامی تعلیمات نہ ہوں گی-

میرا پاکستان، میرا پیارا پاکستان ایسا تو نہیں ہونا چاہیئے تها جہاں بے گناہ کا خون بہے اور باقی سب صرف اظہار افسوس کریں۔ میرا پاکستان ایسا بهی نہیں ہونا چاہیے تها جہاں کا مستقبل گهر کے علاوہ کہیں محفوظ نہ ہو. میرا پاکستان ایسا بهی نہیں ہونا چاہیے تها جہاں جو آواز اٹهائے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جائے. میرا ملک ایسا نہیں تها جہاں اپنے مقصد کے لیے معصوم پهولوں کو نشانا بنایا جاتا ہو. جہاں عوام اپنے تحفظ اور روزگار کے لئے ٹیکس تو دیتے ہوں مگر انکو یہ سب مل نہ سکے. یہ ملک اور اس کے باشندے بظاہر تو آزاد ہیں مگر اندر سے بہت سی زنجیروں نے جکڑ لیا ہوا ہے. وہ زنجیریں سیاسی ہوں یا روگاری، معاشی ہوں یا معاشرتی. آزادی کے پروانے اس ملک کو پروان چڑهانے کے لئے خود خل گئے تهے۔ میرا پاکستان ویسا ہو جہاں ہر پاکستانی کو آواز اٹانے کے لئے مکمل آزادی ہو. جہاں کے جوان صرف سوشل سائٹس پر ہی اپنی ہمت کا اظہار نا کرتے ہوں. جہاں ہر کوئی اپنے فرائض بہترین طریقے سے ادا کرتا ہو اور اپنے حقوق کو پانے کے بجائے ڈر سے چپ نہ ہو. جہاں رشوت سفارش جیسی بیماریاں نہ پائی جاتی یوں اور ایسے بیمار کهلی ہوا کے نیچے آزادی سے گهومنے سے قاسر ہوں. جہاں امیر غریب میں عزت نفس کا مسئلہ نا ہو بلکہ سب اسلامی بهائی بن کر رہتے ہوں. جہاں لوگ صرف اپنے گهر کو نہیں بلکہ اپنے ملک کو بهی صاف رکهیں. جہاں ایک غریب کا بچہ بهی اونچے رطبے پر نوکری کر سکے. جہاں کی عدلیہ کے پاوءوں میں رشوت، سفارش، ڈر، خوف جیسی زنجیریں نا ہوں. جہاں اس ملک کے مستقبل کو اونچے درجے کی تعلیم دی جاتی ہو۔ جب تک اد ملک کو اچهی انپٹ ( input ) نہیں ملے گییہاں سے اچهی اوٹپٹ (output) کی امید رکهنا بےواقوفی ہے. میری آپ سے صرف ایک ہی گزارش ہے کہ اپنے فرائض کو ٹهیک
الزام تراشی کرنے سے ٹهیک نہیں ہوتے. آپ پاکستانی ہیں، اور اس ملک کے خالات کے آپ اور ہم زمہ دار ہیں. تاریخ گواہ ہے کہ صرف اور صرف ایک اکیلا انسان ہی کافی ہوتا ہے تاریخ بدلنے کے لئے. وہ انسان آپ ہیں .

Ayesha Mansha
About the Author: Ayesha Mansha Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.