سائبر کرائم قانون اظہار رائے کی آ ٓزادی پر حملہ

زمانہ قدیم سے لوگوں کی اظہارے رائے، تحریر اور تقریرپر پابندیاں عائد کرکے انہیں پابند سلاسل کیا جاتا رہا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جابر اور ظالم حکمرانوں نے اپنی جابرانہ روش کو قائم رکھنے کیلئے فہیم اور با تکلم لوگوں کو انکی سچائی کیوجہ سے تختۂ دار پر لٹکا دیا کہ وہ قوم کو ان جابر اور ظالم حکمرانو ں کے بارے میں بتاتے ہوئے سچائی سے کام لیتے تھے۔ اسی طرح سقراط کو اسلئے موت کی سزا سے ہمکنار کیا گیا کہ اسوقت کے حکمران یہ سمجھتے تھے کہ سقراط لوگوں کو حقیقتوں سے روشناس کروا رہا ہے اور یہ ان حکمرانوں کی موت تھی جبکہ وہ حکمران سمجھتے تھے کہ سقراط لوگوں کونئے اور جدید خیالات دیکر گمراہ کر رہا ہے۔تاریخ میں آج بھی شواہد موجود ہیں کہ بادشاہ اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر جدید خیالات پیش کرنے والوں کو مروا دیا کرتے تھے۔ اسی طرح پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے جب پوری دنیا میں تہلکہ مچا تو انگلستان کے فرمانرواؤں اور مطلق العنان بادشاہوں کے تخت و تاج میں لرزہ پیدا ہو گیا اور ہمیشہ کیطرح چرچ اور بادشاہ نے آپس میں گٹھ جوڑ کرکے پریس کی آزادی پر پہرے بٹھادئے اور اسکی آزادی کو سلب کرنے کیلئے پریس کی آزادی کو حکومت کے خلاف بغاوت قرار دیکر اسکی سزا سزائے موت مقر کر دی گئی اور 1664ء تک کتب چھاپنے پر سزائے موت دی جاتی رہی۔تاریخ کے ماتھے پر یہ سیاہ دھبہ آج بھی موجود ہے۔۔ انگلستان میں 1663 ء میں موت کی آخری سزا ایک کتاب چھاپنے والے پبلشر کو دی گئی اس کتاب میں یہ کہا گیا تھا کہ بادشاہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور اگر وہ عوام کے سامنے جوابدہی سے انکار کرے تو عوام کو چاہئے کہ اسکے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ہتھیار اٹھا لیں ۔ اس کتاب پر اسکے لکھنے والے کا نام درج نہیں تھا چنانچہ نام دریافت کیا گیا مگر لکھنے والے کا نام سامنے نہیں آیا اور انگلستان کی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اسکے پبلشر جسکا نام جان ٹوائن تھا کو موت کی سزا سنا دی جو پریس کی دنیا میں ہمیشہ سیاہ باب کی حیثیت سے لکھا جاتا رہیگا۔پاکستان میں بھی مصنفین، شعرا حضرات اور صحافیوں کو جنہوں نے پریس کی آزادی کیلئے اور اظہار خیال کی آزادی کیلئے جدو جہد کی انہیں زندان میں ڈال دیا گیا اور انکی پیٹھوں پر کوڑے برسائے گئے ، انہیں سچ کی پاداش میں موت کی نیند سلا دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس جدو جہد کے نتیجے میں انہیں آٹے میں نمک کے برابر منہ کھولنے کی آزادی دی گئی جو ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اب جبکہ پریس، ریڈیو، ٹیلی ویژن ، سینما ، کیبل اور انٹر نیٹ( سوشل میڈیا) نا قابل یقین حد تک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو چکے ہیں تو ہمارے حکمران اس ترقی اور جدید ذرائع ابلاغ سے نہ صرف خفاہیں بلکہ خوفناک حد تک عوام کو آگہی دینے والے ان جدید خبر رساں اداروں سے سہمے ہوئے ہیں جو ہر روز انکے مکروہ چہروں سے نقاب الٹتے ہیں۔ حال ہی میں بنائی جانیوالی ایک فلم جس کا نام مالک ہے ہماری حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے کہ اس میں ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں، اشرافیہ ،جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے ننگا کیا گیا ہے۔اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر آئے روز کی پابندیاں، سرکاری اشتہارات کو روک کر انکی بلیک میلنگ کرنا، لائیسنس کینسل کردینا، جانکاری کے ان میڈیا ہاؤسز پر مقدمات قائم کرکے انہیں خوفزدہ کرنا، ہر دلعزیز اور پسندیدہ چینلز کو بند کر دینا ، حکومتی غنڈوں اور ایجینسیوں کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا پر کام کرنے وا لوں کیخلاف پر تشدد کارروائیاں کرنا اور انہیں جان سے مروا دینا کوئی نئی بات نہیں ہے جوروز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ 2009ء سے تا حال 64جنرلسٹ مارے جا چکے ہیں جبکہ صرف 2014میں 10جرنلسٹوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور حال ہی میں تین میڈیا سے تعلق رکھنے والوں سے انکی زندگی چھین لی گئی جو میڈیا پر ظالمانہ اور جابرانہ تشدد کی انتہائی خوفناک مثال ہے مگر ہمارے پائے استقامت میں زرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی ــ’’ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہینگے‘‘ ۔ حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کو ہدف تنقید بنانا، افواج پاکستان کے بارے میں تنقید کرنا، پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا زبان کھولنا نہ صرف مشکل بنایا جا رہا ہے بلکہ اسکے لئے ایسے ایسے کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ہماری حکومت میڈیا کی آزادی کو سلب کرکے اسے محدود کرنے کے درپے ہے۔ اب جبکہ موجودہ دور میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اپنی مقبولیت کی حدوں کو چھو رہی ہیں اسکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا ، فیس بک،ٹویٹر، واٹس اپ نے سوشل میڈیا کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے جو آن واحد میں کسی بھی ہونے والے واقعے کو پوری دنیا میں نشر کرکے آگہی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جسے نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی اشرافیہ ، سیاستدان، جاگیر دار اور سرمایہ دار تقسیم کر سکتے ہیں۔ یہ ہر انسان کی اپنی دل کی آواز ہے اور دلوں پر پہرے نہیں لگائے جا سکتے۔ پاکستان کی اشرافیہ اپنی بد دیانتی ، بد کرداری اور کرپشن سے انتہائی خوفذدہ ہے اور وہ عوامی رابطے کے اس سوشل ذریعے پر مختلف انداز میں حملے کرکے اس پر قد غن لگانے کے درپے ہیں جو اظہار رائے کی آزادی پر کھلا وار ہے ۔ ہماری اشرافیہ اور موجودہ حکمران جو عوامی رابطے کے اس پلیٹ فارم پر پابندیاں عائد کرکے عوام کو خاموش کروانے کے درپے ہیں شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ اب آزادی رائے کو دبانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکنات میں سے ہے۔ اور یہ ہمارے حکمرانوں کی بد نیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کو اس قانون کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں۔ انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اختلاف رائے کو دبانے اور آزادی رائے کو خاموش کروانے سے شاید خاموشی تو طاری ہو جائے مگر یہ خاموشی اس قبرستان کی مانند ہوگی جہاں انسان نہیں مردہ لوگ دفن ہوتے ہیں۔ جو معاشرے زندہ ہوتے ہیں وہاں ایسی پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں ۔ انسانی حقوق کی پامالی، بے گناہ افراد کا توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسایا جانا، اقلیتوں پر زبردستی اسلام قبول کرنے کیلئے دباؤ، حکومتی ایجنسیوں کا بے گناہ لوگوں کا اغوا کرنا، انسانی حقوق کی پامالی، خواتین کی آبرو ریزی، بچوں کا اغوا کیا جانا گو یا کونساایسا موضوع تھا جسمیں سوشل میڈیا نے اپنا مثبت اور کلیدی کردار نہ کیا ہو مگر شاید ہمارے حکمرانوں کو یہ بات پسند نہیں ٓئی اور وہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کو اپنے بنائے ہوئے کالے قوانین سے پابند سلاسل کرکے عوام سے اسکی صحت مندانہ سرگرمیوں اور عوام کو اطلاع کے ان ذرائع سے دور رکھنا چاہتی ہے جس سے انمیں آگاہی پیدا ہوتی ہے۔ اختلاف رائے اور حکمرانوں، اشرافیہ ، سیاستدانوں اور وہ قوتیں جو ملک اور قوم کی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور منفی سرگرمیوں سے عوام کی تخلیقی سرگرمیوں پر پہرے لگا کر انہیں خاموش کروانا چاہتی ہیں انہیں تنقید ہرگز برداشت نہیں ہے اور وہ معاشرے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہیں۔ ہمیں یارکھنا چاہئے کہ دنیامیں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں وہ بد کردارا ور بد دیانت اشرافیہ کو ننگا کرکے ہی لائے گئے ہیں۔ حسین سے لیکر بھگت سنگھ اور قائد آعظم سے لیکر پاکستان کی آزادی کی متوالے اور وہ تمام آمر جنہوں نے آزادی رائے کے متوالوں پر ظلم و ستم روا رکھا اورانکی پیٹھوں پر کوڑے برسائے وہ نہ توآ ٓزادی رائے پر کوئی قدغن لگا سکے اور نہ ہی وہ ان متوالوں کو روک سکے ہر دور میں ایک فرعون اور اسکے مقابلے میں موسیٰ ہوتا ہے، یزید کے مقابلے میں سچائی کا پرچم بلند کرنے والا حسین ہوتا ہے جس نے حق کی خاطر ایک ایسے مردود ، ظالم، متشدداور بد کردار کو للکارا کہ اسکی للکار رہتی دینا تک قائم رہیگی۔ ایسے حکمران جو اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے رعایا پر مختلف پابندیاں عائد کرکے انکی زبانیں بند رکھنا چاہتے ہیں جب وہ مٹتے ہیں تو انکا نام لیوا کوئی نہیں ہوتا۔ اشرافیہ اور حکمرانوں کا گٹھ جوڑ کبھی بھی معاشرے کی فکری اساس کو ختم نہیں کر سکتا ۔ جمہوریت نام ہے تقریر کی آزادی کا ، جمہوریت نام ہے تحریر کی آزادی کا جمہوریت نام ہے اظہار رائے کی ٓزادی کا اگر سائبر کرائم جیسا کالا قانون سوشل میڈیا پر زبر دستی تھوپ کر جمہوری روایات کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ جمہوریت کی بساط پر آمریت کا کھیلا جانے والا وہ مکروہ کھیل ہوگا جو ہمارے حکمرانوں کے لئے باعث شر م اور انکی پیشانی پر ایک بد نما دھبہ ہوگا جسے عوام رہتی دنیا تک نہ بھول پائیگی۔لہٰذا ہم ایسے تمام قوانین کو جو عوام لناس کی اظہارے رائے پر پابندی عائد کرنے کیلئے بنائے جائیں سختی سے رد کرتے ہیں اور انہیں واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.