صنفیات : متن کی داخلی شناخت اورصنفی عرفان پر ایک اہم کتاب

کتاب کے مصنف قاضی افضال حسین ہیں جن کا شماراہم ترین محققین اور ناقدین ادب میں ہوتا ہے۔مختلف موضوعات پر انہوں نے متعدد گراں قدر کتابیں اور مضامین سپرد قلم کئے ہیں ۔اپنی بصیرت مندانہ علمی و فکری تحریروں کے حوالے سے ایوان ادب میں انہوں نےجو مقام بنایا ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے ۔موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب قرأت ، متن ، لفظیات اورقاری و متن کے مابین ان رشتوں پر بحث کرتی ہے جس کے بغیر کتاب کی صحت مند قرأ ت ممکن نہیں
تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : صنفیات ( مطالعہ ٔ اصناف )
مصنف : قاضی افضال حسین ( اقراء کالونی ، اسٹریٹ نمبر 01علی گڑھ 202002
ای میل : [email protected]
صورت حصول : ایجوکیشنل ہاؤس ، مسلم یونیورسٹی مارکیٹ ، علی گڑھ
کتابوںکا تعارف اور ان پر تبصراتی و تجزیاتی کالم لکھنے کا ایک طویل تسلسل یہ بتاتا ہے کہ اچھی اور کام کی کتابیں اب خال خال ہی شائع ہوتی ہیں ۔عام طور پر منظر عام ہونےوالی کتابوںمیں شعری تصنیفات کی بھرمار ہوتی ہے ، ان میں بھی بیشتر لایعنی ، کمزور، مدقوق اور ایسی سطحی قسم کی شاعری جس کا ماحصل تضیع اوقات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔شاد و نادرہی سہی کچھ کتابیں اس کے برعکس بھی آجاتی ہیں ، حال ہی میںمدیر محترم شکیل رشید صاحب نے ایک کتاب ’’ صنفیات ‘‘ برائے مطالعہ عنایت فرمائی ، لیکن اس حکمنامے کے ساتھ کہ اس پر کچھ اظہار خیال بھی کردیا جائے ۔جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے، یہ کتاب ناول ، غزلیات یا افسانوں پر مشتمل نہیں ہے ، جسے تفریحاً پڑھ لیا جائے اور جو بن پڑے لکھ دیا جائے ۔
کتاب کے مصنف قاضی افضال حسین ہیں جن کا شماراہم ترین محققین اور ناقدین ادب میں ہوتا ہے۔مختلف موضوعات پر انہوں نے متعدد گراں قدر کتابیں اور مضامین سپرد قلم کئے ہیں ۔اپنی بصیرت مندانہ علمی و فکری تحریروں کے حوالے سے ایوان ادب میں انہوں نےجو مقام بنایا ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے ۔موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب قرأت ، متن ، لفظیات اورقاری و متن کے مابین ان رشتوں پر بحث کرتی ہے جس کے بغیر کتاب کی صحت مند قرأ ت ممکن نہیں ۔ظاہر ہے اس طرح کے موضوعات انتہائی خشک اور عموما ً بے کیف ہوتے ہیں جس سے قاری بہت جلد اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے ۔جس طرح پل صراط کے دشوار گذار مرحلے سے گذرنے کے بعد ہی انسان انعامات خداوندی کا اہل بنتا ہے ،اسی طرح ادب کی فصیح و بلیغ تفہیم اور متن سےاصلی لطف انگیزی تبھی ممکن ہےجب تک اسے ادبی صنفیات اوراس کے تمام تر لوازمات کا ادراک نہ ہوجائے ۔ کتاب کے اس اقتباس میں اسی نظریئے کی بہتر انداز میں وضاحت کی گئی ہے ۔

’’قرأت ایک جدلیاتی عمل ہے ۔اس لئے کہ متن سے قاری کا رشتہ کبھی یک طرفہ نہیں ہوسکتا ۔ متن پڑھتے ہوئے قاری اس سے بعض توقعات وابستہ کرتا ہے ۔اور یہ توقعات بھی متن کی نوعیت کے اعتبار سے تبدیل ہوتی جاتی ہیں ۔غزل پڑھتے ہوئے ہم متن سے وہ توقعات وابستہ نہیں کرتے جو مثلا ً ناول پڑھتے ہوئے ہم ناول کے متن سے وابستہ کرتے ہیں ۔ ‘‘

’’ متن کی داخلی شناختی نشانیاں ، قرأ ت کے رہنما اصول مرتب کرتی ہیں۔ قاری کیلئے توقعات کا وہ افق تشکیل دیتی ہیں ، جن کی روشنی میں وہ کسی متن کامطالعہ کرتا ہے ۔ اور اگر متن کی قرأت کیلئے لازم توقعات کا افق قائم نہ ہوسکا تو متن اپنے قاری کیلئے بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔ قاری اگر واقف ہی نہیں کہ غزل بحیثیت صنف کن شناختی صفات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے تو غزل کا ہر شعر اس کیلئے بے معنی بلکہ تضحیک کا موضوع بن جائے گا ۔ ‘‘

اس طرح کتاب کے مطالعے کیلئے ہر قاری پر یہ امر لزوم کا درجہ رکھتا ہے کہ اسے اس بات کا ادراک ہو کہ جو متن اس کے زیر مطالعہ ہے وہ اس کے صنفی لوازمات سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہے یا نہیں ، ورنہ تفہیم کی بے سمتی اس کی دورافتادگی میں مزید اضافہ کرسکتی ہے ، جس کا شکار کوئی بھی فرد ہوسکتا ہے ۔مشہور نقاد کلیم الدین احمد غزل کی تفہیم و تشریح کرتے ہوئے غالبا ً اسی بے سمتی کا شکار ہوئے ورنہ وہ غزل جیسی زندہ و تابندہ صنف سخن ،جس کے دو مصرعے ( جن میں معانی کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے)بسا اوقات دودھاری تلوار سے کم نہیں ہوتے جس کی کاٹ انتہائی شدید ہوتی ہے ، کو نیم وحشی صنف ہرگز قرار نہ دیتے ۔ مطالعاتی تقاضوں کیلئے صنعتی عرفان اشد ضروری ہے ۔قاضی صاحب اس تعلق سے لکھتے ہیں ۔

’’اصناف سے واقفیت خود با معنی قرأ ت کیلئے ضروری ہے ۔اردو کا پڑھا لکھا قاری بلکہ ادب کا نقاد بھی اگر کسی مخصوص صنف کی قرأت کے تقاضوںسے واقف نہیں یا اسے مصلحتا ً نظراندازکرتا ہے تو اس سے جو افسوسناک نتائج برآمد ہوتے ہیں،اردو نقادوں کے قصیدہ اور غزل پر اعتراضات اس کی مثالیں ہیں ۔‘‘

آج جس طرح کا ادب تیار ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے قاری کی دل برداشتگی کا سبب بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے ، اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے جو اصول و قاعدے قاری اور متن کو باہم متصل کرتے ہیں،یہ کتاب ان نکات پر نہ صرف سیر حاصل بحث کرتی ہے بلکہ رہنمایانہ کردار بھی ادا کرتی ہے ۔مصنف نے ان مباحث کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے ، پہلے باب میں صنفی شناخت کے اصول مشرقی و مغربی ادب کے تناظر میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔دوسرے باب میں شعری اصناف کی تشکیل کے ساتھ عربی زبان سے ماخوذ اصناف قطعہ ، قصیدہ ، ہجو اور فارسی اصناف غزل ، مثنوی ، رباعی او ر اسی طرح اردو کی مرثیہ ، واسوخت ، شہر آشوب ، ریختی اور نظم جیسی اصناف کی جہات ، ہیئت اور کیفیات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے ۔تیسرے باب میں نثری متون کی صنف بندی ، افسانہ ، داستا ن ، ناول ، ڈرامہ کے ساتھ غیر افسانوی اصناف مثلا ً خودنوشت ، سوانح ، خاکہ ، انشائیہ ، سفرنامہ ،رپورتاژاور فیچر کی الگ الگ شناخت اور کیفیات بیان کی گئی ہیں ۔چوتھاباب ادب سے ہی متعلق کچھ دیگر شعبہ ہائے علوم مثلا ً تنقید ، تحقیق ، تاریخ اور مضامین پرمشتمل ہے ۔اخیرمیں مصنف نے حاصل کلام کے عنوان سے کتاب کی ضرورت ، مقصد اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے صحت مند اور مفید ادب کی تخلیق پر زور دیتے ہوئے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ اس ضمن میں مغربی ادب سے بھی استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مجموعی طور پر یہ کتاب متن کی تفہیم ، فکری ارتقاء کے ساتھ کامیاب ادبی تخلیق اور متن و قاری کے درمیان مضبوط و مستحکم ربط اور معنی خیز اتصال کی ترویج میںپوری طرح معاون ہوگی ۔
سائنسی تقریبات
مختلف النوع سائنسی مضامین پر مشتمل ایک معلومات افزا کتاب
’سائنسی تقریبا ت ‘ کتاب کا نام کچھ عجیب سا لگتا ہے، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب ان تقریبات پر مشتمل ہوگی جو سائنس کے موضوع پرمختلف مقامات و مواقع پر منعقد کی گئی ہوں گی ۔اس کے برعکس یہ کتاب چند ایسے مضامین پر محیط ہے ،جس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے منسلک موضوعات پر سائنس کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کتاب کے مصنف ایس ایس علی ہیں جن کا تعلق اکولہ ( مہاراشٹر ) سےہے ۔ اس سے قبل ان کی ایک اور کتاب ’’ کھل جا سم سم ‘‘ ابھی حال ہی میں اسی کالم کے ذریعے متعارف کرائی جاچکی ہے ۔موصوف نثرپر خاصی گرفت رکھتے ہیں اور اپنا مافی الضمیر دلنشین اور سہل انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہی ’’کتاب میں شامل مضامین کی نوعیت کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے ۔مذہبی ، سیاسی اور ادبی و ثقافتی تقریبا ت سے تو سبھی واقف ہیں۔ لیکن سائنسی تقریبا ت اردودنیا میں شاید عنقا ہیں ۔ممکن ہے اس کمی کو پورا کرنے میں یہ کتاب کچھ مدد کرسکے ۔ جنوری سے دسمبر تک ہر ماہ ایک سائنسی تقریب کے لحاظ سے کتاب میں کل بارہ مضامین شامل ہیں ۔ ‘‘
قارئین کی سہولت کے پیش نظر موصوف نے سبھی مضامین کے ساتھ ان عالمی یوم کی تاریخ بھی درج کردی ہے، مثال کے طور پر پہلا مضمون ’عالمی یوم جذام ‘پر تحریرکیا گیا ہے جس کا 30؍جنوری کو پوری دنیا میں اہتمام کیا جاتا ہے ۔اسی طرح دوسرا مضمون ’عالمی یوم ریڈیو ‘ پر لکھا گیا ہے جس کا انعقاد 13فروری کو ہوتا ہے ۔اگلا مضمون نیند کے تعلق سے ہے اور یہ ’ عالمی یوم نیند ‘ مارچ کے تیسرے جمعے کو منایا جاتا ہے ۔ بقیہ مضامین بھی اسی ترتیب کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں ۔جس طرح ادب میں لسانیات کا موضوع انتہائی خشک ہوتا ہے ، سائنسی مضامین بھی قاری کو بہت جلد اکتاہٹ میں مبتلا کردیتے ہیں ۔مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہو ں نے اس خشکی کو تراوٹ اور حلاوت میں تبدیل کردیا ہے ۔ کتاب میں ایک مضمو ن ہے جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔

’’چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن ؍جیسی اب ہوگئی قاتل ، کبھی ایسی تو نہ تھی ۔بہادر شاہ ظفر نے جب یہ شعر کہا ہوگا تو ان کے گمان میں بھی یہ بات نہ رہی ہوگی کہ مستقبل میں کوئی شئے پیشہ ٔ قتل و غارت گری میں ان کی اس ’ چشم قاتل ‘ کو بھی مات دے جائے گی ۔ ‘‘

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ یہ مضمون آنکھوں کی عشوہ طرازیوں سے متعلق ہوگالیکن قیاس کے علی الرغم یہ مضمون تمباکوکی تباہ کاریوں پر مشتمل ہے جسے سائنسی حوالوں سے مبرہن کیا گیا ہے ۔زبان و بیان پر گرفت کے ساتھ مصنف نے اس با ت کا ہر لمحہ خیال رکھاہے کہ قاری اکتاہٹ کا شکار نہ ہو اور بڑی حد تک کامیابی بھی ان کے ہاتھ آئی ہے ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب نہ صرف قابل مطالعہ ہے بلکہ سیلف میں سینت کررکھنے کے بھی قابل ہے۔ تاکہ گاہے گاہے اس سےمستفید ہوا جاسکے ۔کتاب کی ترتیب و اہتمام میں شکیل اعجاز کا تعاون شامل ہے ۔136؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 150/-روپئے ہے ۔ مصنف سے رابطہ : Email [email protected] فون : 9921967621 (مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی 51موبائل :9004538929)
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94532 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.