تزئین وآرائش اور خودکشیاں!

 گورنر ہاؤس کی تزئین و آرائش پر مزید گیارہ کروڑ باون لاکھ روپے خرچ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، ازراہِ کرم وزارت خزانہ نے رقم جاری کردی ہے۔ اس چھوٹی سی خبر میں اگرچہ گیارہ کروڑ کی بھی بہت اہمیت ہے، مگر ’’مزید‘‘ کی بات نرالی ہے۔ گویا گورنر ہاؤس کی تزئین وارآرائش ایک اہم فریضہ ہے جسے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور مسلسل کئے جاتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ وزراتِ خزانہ گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران بیس کروڑ سے زائد خرچ کر چکا۔ اس کے علاوہ گورنر ہاؤس کے ریسٹ ہاؤس پر چھ کروڑ سے زائد، ملازمین کی رہائش گاہوں پر ایک کروڑ اور سکیورٹی کی مد میں سات کروڑ کے قریب خرچ کیا جائے گا۔ گورنر ہاؤس پر اس قدر اخراجات کی وجہ یہ ہے کہ یہ مقام صوبے میں وفاق کی نمائندگی کرتا ہے، نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی انگریز نما عہدہ ہے، اس کی اہمیت اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ آئین میں اس عہدے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے آئین میں گورنر جہاں مرکز کا نمائندہ ہوتا ہے، وہاں اس عہدہ کی حیثیت نمائشی ہے، صرف دستخط وغیرہ کرنا اور پروٹوکول سے لطف اندوز ہونا گورنر کے فرائض میں شامل ہے۔ اختیارات کے حوالے سے اس عہدیدار کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوتا، اگرچہ آرڈیننس وغیرہ جاری کرنا اور صوبائی اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین کو حتمی شکل دینے کے لئے ان پر دستخط کرنے جیسے اہم کام بھی گورنر کے ذمہ ہیں، مگر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اپنے ہاں گورنر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ دستخط کرنے سے انکار کردیں۔ یوں دستخط کرنا ایک بڑا اختیار تو ہے، مگر اس کے ساتھ ہی بے اختیاری بھی جڑی ہوئی ہے۔

گورنر ہاؤس کی اپنی اہمیت ہے، وسیع وعریض علاقے کو کم از کم پنجاب میں انگریزوں کی سب سے بڑی اور اہم یادگا رقرار دیا جاسکتا ہے۔ چونکہ عمارت انگریزوں کی یاد گار ہے، اس لئے فطری طور پر یہاں کے باسی بھی انگریز بن کر ہی رہتے ہیں، وہی اندازِ حکمرانی، وہی روایات ، وہی مراعات۔ گورنر جب اس عظیم الشان عہدے پر اس عالیشان عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو آتے ہوئے بے شمار دعوے کرتے ہیں، قوم کو بتاتے ہیں کہ تعلیم ان کی اولین ترجیح ہوگی، صوبے کے عوام کی صحت کو بہتر کرکے دم لیں گے، پینے کا صاف پانی ہر فرد کو میسر ہوگا، صوبے میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگا اور امن وامان کی صورت حال مثالی ہو جائے گی، کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پیشرو بھی جاتے ہوئے ایسے ہی دعوے کر کے گیا تھا، مگر عمل کی صورت حال صفر ہی رہی تھی۔ ایسے میں یہ لوگ نہ جانے کس زعم میں دوبارہ انہی دعووں کو دہرانے لگ جاتے ہیں۔ جب وہ جانتے ہیں کہ گورنر کے پاس صرف دستخط کرنے کے اختیار ہیں، اور گردن گردن مراعات ہیں اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں، تو آخر انہیں کونسی چیز اِن دعووں پر مجبور کرتی ہے، جن پر وہ کسی صورت عمل نہیں کرسکتے؟ اگر کوئی گورنر ایسا بھی آجائے جو کچھ کرنے کی صلاحیت یا خواہش رکھتا ہو تو اسے بھی نظام کی جکڑ بندیوں میں کچھ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اپنے ہاں اکثر گورنر ایسے ہوتے ہیں جو مشنری دل ودماغ بھی نہیں رکھتے، جنہوں نے کبھی کوئی ایسا معرکہ بھی نہیں مارا ہوتا جس میں عوامی خدمت یا تعلیمی میدان میں کوئی کارنامہ، یاسماجی خدمت کا کوئی کام یا صحتِ عامہ کے لئے کوئی بہتری نہیں کی ہوتی، وہ بھی جب گورنر بن کر قوم کے خزانے سے دونوں ہاتھوں سے مراعات سمیٹنے لگتے ہیں تو ایسے ایسے نعرے بلند کرتے ہیں کہ قوم حیران وششدر رہ جاتی ہے، اور جب وہ حسبِ توقع کچھ بھی نہیں کرپاتے توشرمندگی بھی نہیں ہوتی، یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ ذرا ان کروڑوں روپوں کودیکھئے اور حکمرانوں کے علاوہ دیگر اداروں کی حالت کا جائزہ لیجئے، سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ لگایئے، سرکاری سکولوں کی کسمپرسی پر ماتم کیجئے، جہاں کمرے ، واش روم اور دیگر سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں ، دوسری طرف معاملہ کروڑوں کا ہے، ظاہر ہے بڑے لوگوں کے لئے کروڑوں کی حیثیت ہی کیا ہے،ایک استحصال ہے جو بڑھتا جارہا ہے، ایک خلیج ہے جو وسیع ہوتی جارہی ہے، ایک ظلم ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں۔ حاکم کے گھر کی تزئین وآرائش پر کروڑوں کا خرچہ اور غریبوں کے گھر میں چند ہزار (بعض اوقات چند سو روپے) نہ ہونے سے خود کشیاں؟ کیا اس بارے میں کسی گورنر نے کبھی سوچا؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427411 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.