پاکستان بنانے والے سیاستدان نہیں تھے!

میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کہ کرپشن آمریت کی پیداوار ہے آئین اور ایٹم بم سیاستدانوں اور جمہوریت کا تحفہ ہیں۔پاکستان سیاستدان نے بنایا۔ اگر پاکستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ کو جا بجا سیاستدانوں کے ’’کارنامے‘‘ جلی حروف میں نظرآئیں گے جنہوں نے کسی نہ کسی انداز میں وطن عزیز کو اس کے وقار کو اور اس کی عوام کو داغدار ،ذلیل و رسوا کیا بھٹو سے لیکر زرداری تک یوسف رضا گیلانی سے لیکر راجہ پرویزاشرف تک الطاف حسین لے لیکر قمر منصور وسیم اختر سبزواری اور لنگڑا ، کانا تک، نواز شریف سے لیکر شہباز شریف تک اور ان کے دوسرے سیاسی رشتہ دار رفقا کار تک،مولانا فضل الرحمن سے لیکرمولانا عبدالعزیز تک کسی نہ کسی طور جمہوریت کی آڑ میں گھناؤنے کھیل کھیلتے رہے۔ کوئی ملک کو دو لخت کرواگیا تو کسی نے ملک کو بیچ کھایا۔ کسی نے دہشت گردوں کی سرپرستی کی تو کوئی دہشت گردی میں ملوث ہوکر مملکت خداداد اور عوام پاکستان کی جانوں سے کھیلتا رہا۔ کسی نے پاور پروجیکٹس،نندی پور پروجیکٹس، قرضہ سکیم، آشیانہ سکیم، سٹیل مل ، میٹروپروجیکٹس کی آڑ میں ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تو کوئی زراعت کے شعبے اور کسانوں کو بستی میں دھکیل رہا ہے یہ سب لوگ جمہوریت کے پروردہ ہیں جمہوریت کے آنچل میں سب سے بڑے آمر ہیں تعلیم ،صحت ،سپورٹس ،میونسپلٹی، ڈویلپمنٹ ، پولیس ،واپڈا، ایڈمنسٹریشن غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں چھوٹا یا بڑا سیاستدان کرپشن میں ملوث نہ ہواور اب تو بات اس سے بھی آگے جا چکی ہے کہ ان جمہور پسندوں میں سے ہی کچھ لوگوں نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پروان چڑھایا۔کوئی ڈائریکٹ تو کوئی ان ڈائریکٹ ان کے سہولت کار کے طور پر سامنے آرہا ہے اور نجانے کون کون کس کس انداز میں بے نقاب ہوگا۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان بنایا وہ لوگ سیاستدان نہیں تھے وہ لوگ تو لیڈر تھے راہنما تھے،جنہوں نے دامے درمے سنحنے ہر طرح سے قربانیاں دی عوام اور مملکت کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کیں ان میں سے کسی پر نہ تو کبھی کرپشن کا الزام لگا اور نہ ہی کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات ہوئی-

69 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اس عرصے میں نصف میں جمہوریت کا بگل بجا اور نصف میں آمریت کا راج رہا ہے ان دونوں ادوار موازنہ ایمانداری سے کیا جائے تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیگا کہ کسی فوجی یا فوج کی کرپشن کے حوالے سے کبھی نہ تو لوگ سڑکوں پر آئے اور نہ ہی انہیں اس انداز میں طعن و تشنیع کیا گیا۔ان ادوار میں ہمیشہ ملک و قوم کی بہتری اور فلاح کے حوالے سے کام ہوئے اور بتقاضائے بشریت غلط کام بھی ہوئے لیکن ان کو justify بھی کیا گیا۔ہٹ دھرمی کا لبادہ نہیں اوڑھا گیا لوگ یحیی خان جنرل نیازی ضیاء الحق پرویزمشرف جنرل پرویز اشفاق کیانی اور ان کی پالیسیوں کیوجہ سے نشانہ تنقید بناتے ہیں اور اب جنرل راحیل شریف نے اس باب کو بھی اپنی حکمت عملی دانشمندی اور راست اقدام سے بند کردیا ہے ہر طرف جنرل راحیل شریف کے گن گائے جارہے ہیں لیکن اب بھی ایک خاص طبقہ ایسا ہے جو اس پاپولیریٹی کو ہضم نہیں کرپارہا ہے۔وہ طبقہ دراصل غلام ابن غلام کی کسی نسل سے متعلق ہے جوخود بھی محکوم بن کر رہنا چاہتا ہے اور قوم کو بھی اپنا مطیع بنانے کا خواہاں ہے ۔

درحقیقت! ہم غلام ہیں، ہماری سوچیں غلام ہیں، ہماری فکریں غلام ہیں، ہماری اقدار غلامی کی دردناک وادیوں میں گم ہیں، ہماری نام نہاد جمہوریت غلام ہے ،ہم نے تو ابھی تک حقیقی آزاد ی کا مزہ تک نہیں چکھا اس وقت بھی ہم انگریزوں کے غلام تھے اور آج بھی ہم ان کے غلام ہیں اورجو غلام و محکوم ہوتے ہیں ان کے کیا حقوق ہوتے ہیں کن حقوق کی بات کرتے ہیں عوام کے حقوق کی جو کبھی آپ نے ،آپ کی سیاست نے، آپ کی جمہوریت نے ،چاہے وہ پی پی پی یا مسلم لیگ اور کوئی اور لیگ ہو ،نے عوام کو دیے ہی نہیں۔ اور یہ غلام و محکوم عوام ہی ہے جس کی وجہ سے آپ کی حکومت قائم ہے انہیں جس طرح کولہو کے بیل کی طرح جوتا ہوا ہے جس طرح ان کے خون پسینے کو نچوڑ کر دولت سمیٹ رہے ہیں یہ عوام کی غلامانہ ذہن کی عکاسی ہی تو کرتی ہے۔کس نے کہا کہ آپ لوگ ایوانوں کے قابل ہیں آپ سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کوملک کو سیاست کے نام پر بیوقوف بنایاان کے حقوق غصب کئے اور جمہوریت کا لولی پاپ دے دے کر ان کو مریض بنادیا لیکن ملک میں جمہوریت نام کو نہ آسکی ۔ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے امیر امیر ترین۔ بدمعاش طاقتور اور حاکم ہوتا جارہا ہے اور شریف محکوم و لاغر ذلیل و رسوا۔آپ کی مہنگائی کے تحائف نے لوگوں کو اپنی اولادیں اپنے لخت جگر اور عصمت تک بیچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایک غریب طالب علم وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خود کشی کرتا ہے تو دوسرا خود سوزی کا خواہاں ہے واہ ری جمہوریت۔

اگر ہم آئین بنانے کی بات کریں تو اس کی کیپیسٹی بھی سب جانتے ہیں کہ کون کس قابل ہے پارلیمنٹ میں نہ تو آئین بنتا ہے اور نہ قانون۔دھرنے کے دنوں کے علاوہ کتنی مرتبہ جنا ب وزیراعظم نواز شریف صاحب پارلیمنٹ میں تشریف لائے کتنے سینٹ کے اجلاس اٹینڈ کئے یعنی کہ صرف اور صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی حد تک پارلیمنٹ اور جمہوریت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اول تو کوئی مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا جاتا یا جاسکتا اور بالفرض کوئی شومئی قسمت ہو بھی جائے تو اس طرح سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جنگ کی نذر ہوجاتاہے کہ مسئلہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یا خدایا میں کس عذاب میں پھنس گیا ہوں یہ تو وہ عذاب ہے جس کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ جب اس قسم کے حالات ہوں اور اگر کوئی عام کی بھلائی اور خیرخواہی چاہنے والا عوام کی مظلومیت کو دیکھتے ہوئے ان کے دکھوں کے مداوے کا سوچتا ہے تو وہ آمر بن جاتا ہے۔یعنی سیاستدان جس طرح چاہیں جمہوریت کی آڑ میں عوام کو تگنی کا ناچ نچاتے رہیں اور جب کو ئی مسیحا ان کی مسیحائی کا ارادہ کرے تو اسی کا مکو ٹھپنے کی کوشش میں آمر آمر کا ڈھندورا پیٹ دیا جاتا ہے میں آپ سب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جمہوریت سے کیا مراد ہے ’’ عوام کی حکومت، عوام پر حکومت اور عوام کے ذریعے سے حکومت‘‘ لیکن اب جمہوریت کا قبلہ ہی تبدیل ہو چکا ہے کہ ’’خواص کی حکومت، عوام پر حکومت اور خواص کے ذریعے حکومت‘‘اور یہ خواص وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے ہی تابع ہے ہمارے لئے ہے ہم حاکم ہیں اور 18 کروڑ عوام ہیں جن پر حکومت کرنا ہمارا خاندانی وراثتی اور پشتینی حق ہے۔یہ سوچ تبدیل ہونا چاہئے بہت ضروری ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192010 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More