میرا پاکستان کیسا ہو

ہماری ویب نے چودہ اگست یعنی یوم آزادی کے حوالے سے مضمون لکھنے کا مقابلہ منعقد کروایا ہے جس کا عنوان “ میرا پاکستان کیسا ہو ‘‘ رکھا۔ میں بھی اس مضمون پر لکھ رہا ہوں کہ میری پاکستان کے بارے کیا سوچ ہے کیا نظریات ہیں اور کیا خواہشات ہیں کہ میرا ملک کیسا ملک ہو اور یہ کس طرح میری امنگوں اور خواہشات کے مطابق ڈھل سکتا ہے

آزادی مبارک

خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
پاکستان 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک الگ مملکت کے طور پر نمودار ہوا اور یہ دنیا کی سب سے پہلی ریاست ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وہ نظریہ ’’ اسلامی نظریہ حیات ‘‘ ہے پاکستان کے قیام کے پسِ منظر میں کیا کیا وجوہات تھیں ، کیا محرکات تھے ، اس کی قیام کے کیا کیا مقاصد تھے اور اس کے قیام کے لئے شب و روز تگ و دو کرنے والے ہمارے رہنماؤں ، اکابرین اور تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے والوں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے دلوں میں، سوچوں میں اور خیالوں میں کیا کیا خواہشات تھیں کیاکیا مقاصد اور کیا تصورات تھے اور کیا وہ تمام مقاصد اور خواہشات پوری ہوئیں یا نہیں یہ سب کچھ ایک الگ اور طویل موضوع ہے جبکہ میرا آج کا موضوع یہ نہیں بلکہ میرا موضوع ہے ’’ میرا پاکستان کیسا ہو ‘‘ ا س موضوع میں مجھے یہ بتانا ہے کہ میری اپنے ملک کے بارے کیا خواہشات ہیں کہ یہ کیسا ملک ہو، میری نظر میں پاکستان کیسا ملک ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا ہے کہ میرا ملک پاکستان ایسا ملک کیسے بنے گا جو میں چاہتا ہوں اس موضوع پر لکھنے کے لئے مجھے پاکستان کے مقاصد کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔

دنیا کے لئے اور دنیا کے ہر انسان کے لئے آزادی سب سے بنیادی ، بڑی اور اہم نعمت ہے میں چاہتا ہوں کہ میرا پاکستان بھی مکمل طور پر ایک خود مختار اور آزاد ریاست ہو ۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہم آزاد تو ہیں پھر یہ کس قسم کی آزادی کی بات کر رہا ہے جی ہاں اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم سب اپنے پیارے ملک پاکستان میں ہم بالکل آزاد اور خود مختار ہیں اپنی زندگیاں اپنی مرضی کے مطابق گذار رہے ہیں اور پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب، فرقے ، نسل ، زبان یا کسی بھی رنگ سے تعلق رکھتا ہے اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے لیکن میں بحثیت ایک انسان یا شہری آزادی کا ذکر نہیں کر رہا ہوں بلکہ ایک ملک، ایک ریاست اور ایک مملکت کی مکمل آزادی اور خو د مختاری کا ذکر کر رہا ہوں پاکستان کو قائم ہوئے تقریبا ستر سال ہونے کو ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار نہیں سمجھتا
لہو برسا ، بہے آنسو ، لُٹے رہرو، کٹے رشتے
ابھی تک نا مکمل ہے مگر تحریک آزادی

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم جب بھی کسی ملک یا ریاست سے کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کی طرف سے پیغام آجاتا ہے کہ فلاح معاہدہ نہ کیا جائے، جب کوئی واقعہ رونما ہو تا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو ورنہ آپ کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا ، جب اپنے ہی ملک میں کوئی بڑا منصوبہ یا پروجیکٹ شروع کیا جائے یا ملک کے معدنی وسائل کی دستیابی اور فراہمی کی بات ہو تو ہمیں دوسرے ممالک کی اجازت لینی پڑتی ہے کبھی بین الاقوامی اداروں کی پابندیاں اور روک ٹوک اور کبھی کسی ملک کی طرف سے رکاوٹیں اور پابندیاں۔ جبکہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست اپنے تمام فیصلے اپنے ملکی اور قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر بغیر کسی ڈر، دباؤ اور پابندیوں کے بغیر کر سکتی ہے اس لئے میری خواہش ہے کہ پاکستان بھی ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست بن جائے جو اپنے تمام فیصلے اپنی بقاء اور سلامتی اور قومی، ملکی اور اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھ کر کرے اسے کسی بین الاقوامی ادارے یا کسی ملک سے اجازت لینے کی ضرورت نہ پڑے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ میں نہ آئے۔
میری دوسری خواہش یہ ہے کہ میرا ملک اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو اور ہر زندگی کے ہر میدان میں خود کفیل ہو اسے دوسروں کی طرف نہ دیکھنا پڑے، دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں ،دوسروں کی امداد نہ لینی پڑے، قرضے نہ لینے پڑے اور بھیک نہ مانگنی پڑے میری یہ خواہش اور پہلی خواہش ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ یہی سب کچھ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام میں بنیادی اور بڑی رکاوٹ ہے۔ جب بھی کوئی ملک یا بین الاقوا می ادارہ قرضہ دیتا ہے یا امداد کرتا ہے تو وہ اس کے بدلے کچھ شرائط بھی رکھتا ہے اور کچھ پابندیا ں بھی عائد کرتا ہے جن پر عمل کرنا پڑتا ہے اور یوں ریاست کی آزادی اور خود مختاری پر آنچ آجاتی ہے اور اس بارے سوالات جنم لیتے ہیں کیونکہ بعض اوقات ایسی شرائط اور پابندیاں بھی ماننی پڑتی ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ ریاست کی آزادی اور خود مختاری کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اس بات کو کسی شاعر بہت خوبصورتی کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
سہارا جو کسی کا ڈھونڈتے ہیں بحرِ ہستی میں
سفینہ ایسے لوگوں کا ہمیشہ ڈوب جاتا ہے
اسی بات کو ایک اور شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
بقاء کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور یہ ہماری اور ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ قائد اعظم کے بعد ہمیں مخلص حکمران نہیں ملے۔ تقریبا ہر سیاسی پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ کشکول توڑ دیں گے، ملک سے قرضے کو بوجھ اتار دیں گے اور آئندہ قرضے نہیں لیں گے لیکن جب حکومت میں آتے ہیں تو اپنا منشور بھول جاتے ہیں دوسری تمام باتوں کی طرح اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم نے قرضوں کا بوجھ ختم کرنے کا عہد کیا تھا اور اپنے ہی منشور کو ایک طرف پھینک کر ملک و قومی اور اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی اور انفرادی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہو جاتے ہیں قرضوں کو کم کرنے کی بجائے ہر آنے والی حکومت نے قرضوں میں اضافہ کیا ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ہیں اگر ان کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ہر حکومت نے اپنی سے پچھلی حکومت سے زیادہ قرضہ لیا ہے اگر ہماری حکومت قرضہ اتارنے میں سنجیدہ اور مخلص ہو جائے تو پوری قوم اس کا ساتھ دے گی اس کی مثال دی جا سکتی ہے جب میاں نواز شریف نے ’’ قرض اتارو ملک سنوارو ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا تو پوری قوم نے شانہ بشانہ ساتھ دیا تھا جس کی جتنی طاقت تھی اس سے بڑھ کر حصہ لیا تھا حتی کہ عورتوں نے زیور تک دے دیئے تھے میری خواہش ہے کہ پاکستان میں ایسی مخلص ، نڈر اور ایماندار حکومت قائم ہو جو ملک کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا دلا سکیں اور جب ملک پر کوئی قرضہ نہیں ہوگا تو تب ہی ملک مکمل آزاد اور خود مختار ہوگا-

میری تیسری خواہش یہ ہے کہ میرا پیارا پاکستان ایسا ہو جس میں امن و امان ہو اور دہشت گردی کا نام ونشان نہ ہو ۔ ہر شہری ملک میں امن و سکون سے اور بغیر کسی ڈر خوف کے زندگی بسر کرے قتل و غارت کا خاتمہ ہو، لڑائی جھگڑے، چوری، زنا کاری، ڈاکہ زنی اور خون خرابہ کا نام و نشان نہ ہو۔ سیر و تفریح کے مراکز لوگوں سے بھرے رہیں کھیلوں کے میدان آباد ہوں اور ہسپتال ویران ہوں ہر شہری اپنی اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ اور امن و سکون سے زندگی بسر کر سکے، خوشیوں کے مواقع اور مذہبی تہوار جوش و خروش اور مل جل کر منا سکیں اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ملک سے قرضوں کا بوجھ ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ملک کا بہت سا زرمبادلہ اور وسائل دہشت گردی کو ختم کرنے اور امن و امان قائم کرنے پر خرچ ہو رہا ہے اس لئے میری خواہش ہے کہ میرے ملک میں مکمل طور پر امن و امان ہو اور دہشت گردی اور قتل و غارت کا مکمل خاتمہ ہو۔

میری چوتھی خواہش یہ ہے ملک سے علاقا ئی تعصبات اور فرقہ واریت کا مکمل خاتمہ ہو جائے میرے پیارے ملک کوئی پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان اور مہاجر نہ ہو بلکہ پاکستان کا ہر مستقل شہری صرف اور صرف پاکستانی کہلوائے۔ علاقائی تعصبات ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی، ترقی اور خوشحالی اور امن و سکون کے راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں اور ملک و قوم کے دشمن ان علاقائی تعصبات کو مزید ہوا دے کر ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں اسی لئے ہمیں علاقائی سرحدوں اور حدود سے نکل کر ملک و قوم کے بارے سوچنا چاہئے علاقائی تحفظات اور مفادات کے ساتھ ساتھ اجتماعی، ملک اور قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے اور جہاں ان میں تصادم کا خطرہ ہو وہاں علاقائی اور ذاتی مفادات کو ملک اور قومی مفادات پر قربان کر دینا چاہئے
گھن کی صورت یہ تعصب تجھے کھا جائے گا
اپنی ہر سوچ کومحسن نہ علاقائی کر

اسی طرح میری خواہش ہے کہ ملک میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ہوجائے اس میں نہ کوئی سنی ہو نہ کوئی شیعہ، نہ کوئی بریلوی ہو نہ کوئی دیوبند، نہ کوئی ہندو ہو نہ کوئی عیسائی اور نہ کوئی مسلم بلکہ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص اس کا شہری ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب ، کسی بھی فرقہ، کس بھی رنگ، نسل اور زبان سے تعلق رکھتا ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ ملک و قوم کی بقاء اور ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کرے اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو اور وہ یہاں امن و سکون سے رہ کر اپنے اپنے عقائد اور مذاہب کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں
لڑتے ہیں اختلاف عقائد پہ لوگ کیوں
یہ تو ہے اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ

اس لئے میری خواہش ہے کہ میرا ملک پاکستان ایسا ملک ہو جہاں فرقہ واریت، انتہا پسندی اور علاقائی تعصبات کا نام و نشان نہ ہو۔ اور اگر ان کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے تو ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا ملک سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پھر درج بالا دوسری اور پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے گی یعنی میری خواہشات اایک سیڑھی کی مانند ہیں جونیچے سے اوپر زینہ بہ زینہ چڑھتی ہوئیں سب سے پہلے زینہ پر پہنچ جائیں گی ۔

میری پانچویں خواہش ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو ملک کے ہر شہری کو سستا اور فوری عدل و انصاف ملے عدالتوں میں فیصلے بر وقت اور عدل و انصاف کے مطابق ہوں جج صاحبان بغیر کسی ڈر، خوف ، لالچ اور دباؤ کے اپنے تمام فیصلے عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کریں سفارش اور رشوت نہ ہو۔ عدالتوں میں امیر و غریب ، ملازم اور مالک ، بادشاہ و گدا اور حاکم و محکوم میں تمیز نہ رکھی جائے میری چھٹی خواہش یہ ہے کہ میرا پیارا ملک ایسا ہو جہاں قانون کی مکمل بالادستی قائم ہو قانون ہر کسی کے لئے ایک ہو اور قانون کی نظر میں تمام لوگ برابر ہوں اور ایک غریب پر جس طرح کوئی قانون لاگو ہو اسی طرح امیر پر بھی ہو، جس طرح عوام پر ایک قانون پر عمل کرناضروری ہوتا ہے اسی طرح حکمرانوں پر بھی عمل کرنا ضروری ہو اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے چاہے جو بھی ہو جس شعبے سے بھی تعلق رکھتا ہو اسے قانون کے مطابق سزا ملے۔

میں چاہتا ہوں کہ میرا پیارا ملک ایسا ملک ہو جہاں عدل و انصاف ہو، مساوات ہو ، اخوت و بھائی چارہ ہو، روادری ہو، بردباری ہو سب لوگ امن و سکون ، پیار محبت اور مل جل کر زندگی گزاریں۔

میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ایسا ہو جہاں کوئی بے روز گار نہ ہو ہر کسی کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام ملے، لوگ مزدوری کو عار نہ سمجھیں۔ ہاتھ سے کام کرنا عظمت ہے اور لوگ اس پر عمل کریں تمام لوگ ایمانداری سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں لوگوں میں صداقت، امانت ، شرافت، ایثار و قربانی، روادری اور حب الوطنی جیسے اعلی اخلاق بدرجہ اتم پائے جائیں میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ایسا ہو جہاں سب کی زندگی اور عزت محفوظ ہو، میں چاہتاہوں کہ میرا ملک ایسا ہو کہ اس میں کوئی غریب نہ رہے ہر کسی کے پاس رہنے کے لئے مکان، پہننے کے لئے کپڑاا ور کھانے کے لئے روٹی ہو اور وہ بھی بغیر کوئی ، غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور غلط کام کئے ۔

میں چاہتا ہوں کہ میرے ملک میں کوئی بھکاری نہ ہو یعنی کسی آدمی کو زندگی گذارنے اور اس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھیک نہ مانگنی پڑے میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ایک ایسا ملک ہو جہاں تما م شہریوں کو تعلیم ، صحت،روزگار ، تفریح اور زندگی کی دوسری تمام سہولیات اور حقوق بغیر کسی تمیز کے میسر ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ملک ہو اس میں امن امان ہو اورخوش حالی ہو۔

درج بالا تمام خواہشات اگر پوری ہو جائیں تو میر ا ملک پاکستان ایسا ملک بن جائے گا جس کی دنیا تعریف کرے گی، مثالیں دے گی، امداد دے گی نہیں مانگے گی، پاکستان قرضے لینے والا نہیں دینے والا ملک ہوگا، دنیا میں اس کی آواز، اس کی سفارشات اور اس کے فیصلوں کو اہمیت دی جائے گی اور دنیا میں امن و سکون، ترقی اور خوشحالی کے لئے دنیاکی نظریں اس کی طرف ہوں گی دنیا کے بڑے بڑے ملک اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے اور اس کا ساتھ چاہیں گے۔

لیکن ایسا ملک جس طرح میں نے اوپر بیان کیا ہے کس طرح بن پائے گا کس طرح میر اپیارا ملک اس ریاست کے رُوپ میں ڈھل سکتا ہے جس کا خواب میں اور ملک میں رہنے والا تقریبا ہر شہری کرتا ہے مجھے اس کے لئے تجاویز بھی دینی ہیں اور یہ تجاویز بھی بہت طویل اور زیادہ ہو سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں بہت زیادہ تجاویز اور طوالت کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک ہی تجویز ہے اور وہ ہے ملک میں ’’ اسلامی ضابطہ حیات ‘‘ کا نفاظ کیا جائے اور ملک سے ’’ کرپشن ‘‘ کی لعنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دنیا کے ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب، فرقے، رنگ، نسل ، زبان اور علاقے سے تعلق رکھتا ہے کے لئے رہنمائی موجود ہے ۔ اسلامی ضابطہ حیات صرف مذہبی زندگی پر محیط نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتاہے یہ مذہبی ، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی شعبوں میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اکثرلوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا اس کی بنیاد اسلامی نظریہ پر رکھی گئی اس لئے اس میں صرف مسلمان ہونے چاہئے تمام لوگوں کا مذہب اسلام ہو ۔ میں اس سے بالکل متفق نہیں ہوں جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کو غلط تصور پیش کرتے ہیں -

اسلام میں صرف مذہب کو اہمیت نہیں دی گئی ہے بلکہ انسانیت کو اہمیت دی گئی ہے اور دنیا کے تما م مذاہب کو قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں زبردستی کسی کو مسلمان کرنے کی کہیں بھی تائید نہیں کی گئی بلکہ قرآن پاک میں اس کا ذکر یوں ہے کہ ’’ لااکراہ فی الدین ‘‘ یعنی دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اور کوئی بھی حضرت محمد ﷺ ، اُن کے خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین اور علمائے کرام کی زندگیوں سے ایک میں مثال ایسی دکھا دیں جس میں کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہو یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرایا گیا ہوالبتہ ایسی مثالیں بہت مل جائیں گی جن میں اسلام قبول کرنے پر غلاموں اور ماتحتوں کو مختلف قسم کی مصبتیں دی گئیں، سزائیں دی گئیں اور زبردستی اسلا م کے خلاف کیا گیا اس کے باوجود کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنانے یا اس کے دین سے ہٹانے کے لئے زبردستی نہیں کی گئی۔ بلکہ اسلام میں کسی کو مسلمان کرنے اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا جوطریقہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگیاں ایسی گزاریں، ایسے اعلی اخلاق کا مظاہرہ کریں، لوگوں سے اس حسنِ سلوک سے پیش آئیں اور ایسے طور و طریقے اپنائیں کہ لوگ ان سے متائثر ہوں اور خود بخود دینِ اسلام کی طرف کھنچے چلیں آئیں اور اسلام قبول کریں اور تاریخِ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ، ان کے خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین ، علماء کرام اور پیرانِ عظام کی زندگیوں میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ صرف اور صرف ان کے اعلی اخلاق ، حسن سلوک ، طور طریقے اور رویوں کی وجہ سے لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریہ حیات پر رکھی گئی اور پاکستان حاصل کرنے کا سب سے بڑا ور بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کے مواقع میسر ہوں اور ملک میں اسلامی ضابطہ حیات قائم ہو -

تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان میں اسلام کے مطابق زندگیاں بسر کرہے ہیں اور ملک میں اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کے تمام مواقع موجود ہیں کسی کو نماز پڑھنے سے کوئی نہیں روکتا، زکوۃ دینے پر کوئی پابندی نہیں، روزہ رکھنے، حج ادا کرے اور دوسرے مذہبی امور سر انجام دینے میں کوئی رکاوٹ کوئی مشکل نہیں ہے گائے ذبح کرنا ممنوع نہیں ہے یعنی یہ مقصد تو پورا ہو رہا ہے
جو لوگ اس کا مفہوم اس طرح لیتے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ شراب پر پابندی ہو ، ناچ گانا حرام ہو اور بے حیائی نہ ہو تو میرا ان سے اس بات پر بھی اختلاف ہے ہم خود مسلمان ہیں اور ان سے خود بچنا چاہئے حکومت نے مسلمانوں کے لئے کھلے عام کسی بھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دی ہوئی جسے اسلام میں ممنوع قرا ر دیا گیا ہو ریاست میں اس کو مکمل نہیں روکا جا سکتا۔ کیا کسی عیسائی ملک میں اگر نماز پڑھنے یا قرآن پڑھنے پر پابندی لگائی جائے تو اسے درست سمجھیں گے؟ کیا کسی ہندو ملک میں بت پرستی کا حکم دیا جائے اور نماز سے روکا جائے، گائے ذبح نہ کرنے دی جائے دودھ یا پانی کی جگہ شراب پلائی جائے تو کیا ایسے اقدامات کو احسن سمجھاجائے گا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ تو پھر ہم اپنے ملک میں ایسی پابندیاں کیسے لگا سکتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پسند نہیں ہیں اس لئے کہ یہ اسلامی ضابطہ حیات کے مطابق بھی نہیں ہے اسلام میں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی گئی ہے -

جب ملک میں اسلامی ضابطہ حیات قائم ہو جائے گا تو ملک میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، مساوات، اخوت ، بھائی چارہ، روادری ، ایثار و قربانی اور بردباری جیسے اعلی اقدار فروغ پائیں گے ملک میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی ترقی ہوگی امن و سکون ہوگا دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا علاقائی تعصبات اور فرقہ واریت کا نام و نشان نہیں ہوگا اور میرا پیارا ملک ایک ترقی یافتہ، آزاد اور خود مختار ریاست بن جائے گا۔

میں نے تجویز میں اسلامی ضابطہ حیات کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کا ذکر بھی کیا ہے یہ دونوں پہلو ایک دوسرے میں باہم جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں یعنی اسلامی ضابطہ حیات قائم ہو گا توکرپشن خود بخود ختم ہو جائے گی اور اگر کرپشن ختم ہوجائے تو اسلامی ضابطہ حیات خود بخود لاگو ہو جائے گا یعنی دونوں میں سے جو قدم پہلے اٹھا لیا جائے دوسرا قدم بھی اٹھ جائے گا اس کی وضاحت کے لئے کرپشن کی تفصیل میں جانا پڑے گا-

عام طور پر کرپشن کا معنی محدود لیا جاتا ہے اور اس کا مطلب صرف یہ لیا جاتا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے مال و دولت اکٹھا کرنا کرپشن کہلاتا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا مفہوم بہت وسیع اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے میرے خیال میں کرپشن کی تعریف یا مفہوم اس طرح بہتر بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی شخص کے ذمہ کوئی کام لگایا جائے، اس کا کوئی قانونی یا اخلاقی فرض ہو ، اور وہ شخص وہ کام یا قانونی فرض یا اخلاقی فرض صحیح طور پر سرانجام نہیں دیتا یا مکمل نہیں کرتا یا مقررہ وقت پر نہیں کرتا یا کمی بیشی کرتا ہے تو وہ کرپشن کر رہا ہوتا ہے اس تعریف کی وضاحت کے لئے میں کچھ مثالیں دینا ضروری سمجھتا ہوں مثلا ایک مسلمان نماز صحیح نہیں پڑھتا تو وہ کرپشن کر رہا ہوتا ہے کیونکہ فرض کی ادائیگی درست نہیں کر رہا ہوتا ہے اسی طرح امانت میں خیانت کرتا ہے تو اخلاقی فرض کی ادائیگی پوری نہیں کی اسی طرح ایک طالب علم کا فرض ہے کہ وہ تعلیم پر پوری توجہ دے لیکن اگر وہ تعلیم کی بجائے کھیل کود میں زیادہ وقت گزارتا ہے تو وہ کرپشن کا مرتکب ہوا ہے اسی طرح امتحان میں نقل یا دوسرے ذرائع سے کامیاب ہونے کی کوشش بھی کرپشن کے زمرے میں آئے گی استاد اگر مقررہ وقت پہ سکول نہیں جاتا، یا پیریڈ میں دیر سے جاتا ہے وقت سے پہلے نکل آتا ہے تو کرپشن کرتاہے، بنک میں بل جمع کرانے جائیں اور رش کی وجہ سے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے جلدی بل جمع کروا لیا تو جمع کرانے والا اور جمع کرنے والا دونوں نے کرپشن کی، ڈاکٹرز سرکاری ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ کلینک میں زیادہ وقت دیں تو کرپشن، پولیس جان بوجھ کر بے گناہ کو پکڑیں تو کرپشن، کسی کے کام کے بدلے رشوت لینا کرپشن، عدالت مین ججز کا عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ نہ دینا یا ایک فریق کو خوش کرنے کے لئے فیصلہ دینے میں تاخیر کرنا کرپشن، مزدور کو پورے وقت کام نہ کرنا ، یا کام کے اوقات میں آرام زیادہ کرنا کرپشن، دکانداد کو ناپ تول میں کمی بیشی کرنا کرپشن، سیاستدان کا کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے حق میں ووٹ دینے پر راضی کروانا جبکہ وہ دل سے اسے پسند نہ کرتا ہو تو کرپشن غرض زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو ( اخلاقی فرائض مثلا صداقت، امانت، عدل و انصاف، مساوات وغیرہ) سے لے کر بڑے سے بڑے پہلو (سیاسی اورمعاشی پہلو مثلا حکومت کرنا، کوئی ادارہ چلانا،وغیرہ) میں کسی بھی قسم کی غفلت ، لاپرواہی، کمزوری اور کوتاہی کرنا کرپشن کے زمرے میں آئے گی۔

اس لئے اگر ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو اوپر بیان کردہ تمام خواہشات پوری ہو سکتی ہیں اس کے لئے صرف حکومت ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ہر شہری ذمہ دار ہے ہاں حکومت کو اقدامات کرنا ہونگے اور ایسے مواقع پیدا کرنا چاہئے ایسی قانون سازی کرنی ہوگی کہ ہر شہری کرپشن سے بچ سکے کیونکہ حکمران بھی تو ملک کے شہری ہی ہوتے ہیں۔اس کے لئے ہر شہری اپنے آپ سے شروع کرے اور پہلے اپنے آپ کو کرپشن سے بچائے اور عہد کرے کہ میں کوئی ایسی بات، کوئی ایساکام نہیں کروں گا جو کرپشن کے زمرے میں آئے اور نہ کرواؤں گا اسکے بعد اپنے خاندان، دوستوں پھر محلے سے کرپشن کا خاتمہ یقینی بنائے اور میرا یقین ہے کہ اگر ہر شہری کوشش کرے اور اس طرح سلسلہ وار کرپشن کا خاتمہ ہو تو وہ دن دور نہیں جب ملک سے کرپشن کا نام و نشان مٹ جائے گا اور جب کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا تو میر ے ملک میں عدل و انصاف ہوگا، قانون کی بالا دستی ہوگی، مساوات ہوگی، اخوت و بھائی چارہ ہوگا، اقلیتوں کا تحفظ ہوگا، روزگار کے مواقع میسر ہونگے، تعلیم، صحت اور تفریح کی سہولیات دستیاب ہوں گی، ہر طرف امن و امان ہوگا، علاقائی تعصبات اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا میرا ملک اپنے پیروں پہ کھڑا ہواجائے گا اس کے وسائل کو صحیح برائے کار لا کر ملک و قوم کی تمام ضروریات خود پوری کرسکیں گے، میرا ملک ترقی یافتہ، آزاد اور خود مختار ریاست کے رُوپ میں ڈھل جائے گا اور اس میں تما م شہریوں کو بغیر کسی تمیز کے تمام مذہبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی حقوق حا صل ہوں گے ۔ انشاء اللہ

بعض قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے ملک کو قوم کی ترقی ،خوشحالی، امن و امان اور اس کے لئے دوسری بہت سی خواہشات کا ذکر تو کیا ہے لیکن ملک وقوم کی بقاء اور سلامتی کی خواہش کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ تو محترم قارئین اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا وطن قائم تھا، ہے اور تا قیامت قائم رہے گا۔ انشا ء اللہ مجھے اس کی بقاء اور سلامتی کی کوئی فکر نہیں اب اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ہمارے مخلص اور محنتی سائنسدانوں کی وجہ سے ہمارا ملک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے ہمیں ان پر فخر اور ناز ہے ان پر مکمل بھروسہ اور اعتماد ہے ہماری فوج نڈر، بہادر، باصلاحیت، باہمت اور باحوصلہ ہے جس کا اعتراف پوری دنیا میں کیا جاتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ 1947ء میں اور پھر 1965ء میں جب دشمن نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تو بہت کم وسائل ہونے کے باوجود دشمن کو شکست دی اور بزدل دشمن آخر کار اقوام متحدہ بھاگ گیا اسی طرح 1971ء کی جنگ میں دشمن نے جنگ نہیں جیتی بلکہ ہم نے خود ہی ہتھیار ڈالے تھے اس کی بھی سب سے بڑی اور واحد وجہ کرپشن ہی تھی کیونکہ اگر کرپشن نہ ہوتی تو مشرقی پاکستان کو اس کے تمام حقوق ملتے اور ان میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہوتا اور ان کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف لاوا نہ پھٹتا۔ کرپشن ہی کی وجہ سے کچھ غدار پیدا ہوئے جن کی وجہ سے شکست ہوئی۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اگر ان میں غدار نہ ہوں۔ اور غدار پیدا ہونے سے روکنے کا واحد حل بھی کرپشن کا مکمل خاتمہ ہے یعنی جس کے ذمہ جو کام لگایا جائے وہ اسے پوری ایمانداری، محنت اور لگن سے سر انجام دے۔

مجھے اپنی فوج کے ساتھ ساتھ قوم پر بھی ناز اور فخر ہے کہ جب بھی ملک و قوم پر کوئی کڑا وقت آیا، کوئی مصیبت آئی، کوئی امتحان آیا تو پوری قوم ایک ہو کر اسکے مقابلے کے لئے فوج اور حکومت کے شانہ بشانہ ہو کر میدان میں اتری اور ہمیشہ سرخرو اور کامیاب و کامران رہی۔
ہزار بار زمانے کے سرد طاقوں پر
چراغ خونِ جگر سے جلائے ہم نے

اس لئے مجھے پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے بارے کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ میرے وطن کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اس کا حافظ و ناصر پہلے اللہ تعالی ہے اور پھر بہادر اور باہمت فوج کے ساتھ ساتھ نڈر اور غیور عوام بھی ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ جب بھی میرے ملک کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو ہماری بہادر فوج اور باہمت قوم اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گی اور دشمن کی سازشوں اور چالوں کو ناکام بنا کر اس کی خواہشات اور آرزؤں کو خاک میں ملا دے گی۔ انشاء اللہ
حاصل بحث:
میرے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ میرا پاکستان ایسا ملک ہونا چاہئے جو مکمل طور پر آزاد، خود مختار، ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ملک ہو اس میں ہر شہری کو مذہب ، رنگ ، نسل ، علا قے اور زبان کی تمیز کے بغیر جو بھی اس ملک کا شہری ہو کو تمام بنیادی حقوق، معاشی حقوق، سیاسی حقوق، معاشرتی حقوق، مذہبی حقوق، ثقافتی حقوق اورتہذیبی حقوق مکمل طور پر میسر ہوں عدل و انصاف کو بول بالا ہو، قانون کی بالادستی ہو، مساوات ہو ، اخوت و بھائی چارہ ہو اور پوری قوم متحد اور ایک ہو، اور اس سب کے لئے ایک ہی تجویز کہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ملک میں اسلام کا ضابطہ حیات نافذ کیا جائے۔
میں اپنے مضمون کا اختتام ان اشعار پر کرتا ہوں :
دلوں میں عزم، نگاہوں میں زندگانی ہو
تمام قوم مچلتی ہوئی جوانی ہو
شبِ سیاہ سے کیا ڈر کہ وہ تو فانی ہے
مرے وطن پہ اجالوں کی حکمرانی ہو
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 155887 views I live in Piplan District Miawnali... View More