کھل جا سِم سِم طنزومزاح پر مبنی ایک دلچسپ تحریر

طنز و مزاح زندگی کا جزو لا ینفک رہا ہےاور ادب زندگی کے تمام تر پہلوؤںکی ترجمانی کرتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ ادب کا بھی ہمیشہ سے ایک جزو خاص رہا ہے۔ اس کے باوجود نقادان ادب نے اس صنف سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی اور اس کوشش میں بھی رہے کہ اسےزمرۂ ادب سے دور ہی رکھیں ۔لیکن بھلاجزو خاص بھی جزو عام بن سکتا ہے ؟ سووہی ہوا اور ناقدین ادب کی ایک قابل قدر تعداد نے اس صنف کو نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ اس پر اچھا خاصا ورک بھی کیا
تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : کھل جا سِم سِم (طنزومزاح )
مصنف : ایس ایس علی ( 9921967621)
قیمت : 100/-روپئے صفحات : 108
ملنے کا پتہ : ایس ایس علی پلاٹ نمبر ۲۱،لائن نمبر ۵، ۱۶۰۰ پلاٹس ، نہرو نگر ، آکوٹ فائل
آکولہ ۔۴۴۴۰۰۳(ایم ایس ) E-mail : [email protected]
طنز و مزاح زندگی کا جزو لا ینفک رہا ہےاور ادب زندگی کے تمام تر پہلوؤںکی ترجمانی کرتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ ادب کا بھی ہمیشہ سے ایک جزو خاص رہا ہے۔ اس کے باوجود نقادان ادب نے اس صنف سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی اور اس کوشش میں بھی رہے کہ اسےزمرۂ ادب سے دور ہی رکھیں ۔لیکن بھلاجزو خاص بھی جزو عام بن سکتا ہے ؟ سووہی ہوا اور ناقدین ادب کی ایک قابل قدر تعداد نے اس صنف کو نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ اس پر اچھا خاصا ورک بھی کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ جب ادب ہی زوال پذیر ہورہا ہے تو بھلا اس صنف کوکیوںکر عروج حاصل ہوسکتا ہے ۔حقانی القاسمی نے درست ہی کہا تھا کہ ’’ ہم نے دیوزادوں کی تخلیق بند کردی ہے اور دھڑا دھڑ بونے پیدا کررہے ہیں اور اب انہی بونوں میں سے ہی ہمیں دیوزاد منتخب کرنے ہوں گے ‘‘۔سو اب یہی عمل جاری ہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم آمنّا و صدّقنا کہہ کر قناعت کا راستہ اختیار کرلیں اور دھونی رما کربیٹھ جائیں ۔علم و فن کی یہ روایت رہی ہے کہ اس میں جتنا ہی غورو فکر کیا جائے گا اتنا ہی اضافہ ہوگا ۔اس لئے ہم سبھی پر یہ فرض کی حد تک ضروری ہوجاتا ہے کہ جمودو سہولت کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر علم و ادب کے وسیع و عریض میدان میں آئیں اور فکرو دانش کی سرسبزوادیوں سے گلہائے رنگا رنگ کی فصلیں اگائیں ۔

اکولہ سے تعلق رکھنے والے شکیل اعجاز ایک عرصہ سے اسی اصول ونہج پرنبردآزما ہیں اور کسی نہ کسی درجے میں کامرانی بھی حاصل کررہے ہیں ، ان کی نگاہیں ہمیشہ اس بات کی متلاشی رہتی ہیں کہ گوہران ادب کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں جن کی تخلیقات پر کسی نہ کسی سبب بے اعتنائی برتی گئی یا پھر ان کے فن کی پذیرائی میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا ۔وہ بدقت تمام ان مستور فنکاروں کوپردہ ٔ خفا سے باہر لاتے ہیں ، ان کے لخت لخت فنی شذرات کو اکٹھاکرکے کتابی شکل میں پیش کردیتے ہیں ۔’کھل جا سم سم ــــ‘ مزاحیہ مضامین پر مبنی ایک ایسی ہی کتاب ہے ، جس کے مصنف ایس ایس علی ہیں ، لیکن محرک شکیل اعجازہی ہیں ورنہ یہ کتاب اور اس کے مصنف مستور ہی رہتے ۔کتاب کل بیس مضامین پر مشتمل ہے جس کے مشمولات بڑی حد تک دلچسپ ، مفرح القلوب اور طنز و مزاح سے بھرپور ہیں ۔مصنف باتوںمیں بات پیدا کرنے کے ہنر سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ باتو ں ہی باتوں میں کام کی بات اتنی آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری مسحور ہوکر رہ جاتا ہے ۔کسی بھی تحریر میں ترسیل بہت اہم رول اداکرتی ہے ، یعنی مصنف جو سوچتا ہے اور جو کہنا چاہ رہا ہے وہ صدفیصد قاری کے ذہن و دل میں اترجائے، اس کی تفہیم کیلئے اسے کسی لغت یا معانی کا سہارا نہ لینا پڑے ۔کتاب سےکچھ اقتباسات ہم یہاں درج کررہے ہیں ، جس میں انداز بیان کی لطافت ، شیرینی اور ظرافت کاملا جلاامتزاج ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ۔

’’سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر بیگم نے کہا ،مبارک ہو ،آپ کی بھی آنکھیں آرہی ہیں ، ہم نے جواب دیا مبارکباد کیلئے شکریہ لیکن آنکھیں آرہی ہیں کے کیا معنی ؟ کیا اس سے پہلے ہم نابینا تھے جو اب آنکھیں آرہی ہیں ، اور اگر آرہی ہیں تو کہاں سے ؟تکلیف سے تو ہمیں لگ رہا ہے کہ ہماری آنکھیں جارہی ہیں ۔‘‘ ’’ دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہونا ایک محاورہ ہے جو عام گفتگو میں اکثر استعمال ہوتا ہے جس شخص کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم نہ ہو وہ بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا شخص انتہائی خوش نصیب ہوتا ہے بلکہ عقلمند بھی ۔ کیونکہ وہ گھر گرہستی کی پریشانیوںسے آزاد ہوتا ہے ۔‘‘

کھل جا سم سم ایک جملہ ہے جو ایک دیومالائی کہانی کی یاد تازہ کرتا ہے یعنی دروازہ کھلتے ہی سامنے زروجواہرات سے لبریز خزانہ نظر آتا ہے جس میں انواع و اقسام کے جواہرات و نوادرات جھلکتے چمکتے رہتے ہیں ۔لیکن کتاب کھولنے پر مزاحیہ ادب کی وہ ساری انواع و اقسام نظر نہیں آتیں جن کا مزاح کے ساتھ چولی دامن کاتعلق ہوتا ہے ۔خاص طور پر طنز کا جس کا مزاح کے ساتھ تو لازم و ملزوم کا رشتہ ہے ، یعنی کتاب میں دیگر ذائقے تو موجود ہیںلیکن ذائقہ ٔطنز کا فقدان کتاب کے پھیکے پن میں اضافہ کرتا ہے ۔طنز کے بغیر مزاحیہ تحریر سپاٹ اور بے لطف ہوجاتی ہے اور اس کی آمیزش اسے شوخ و سنگ بنادیتی ہے ۔مجموعی طور پر مصنف اپنے انداز بیان ،لفظوں کی ترکیب اور زبان کے اعتبار سے ایک خوبصورت تحریر کے مالک ہیں بس ذرا سی طنزیہ شوخی بھی شامل ہوجاتی تو بات کچھ اور آگے جاسکتی تھی ، اس کےباوجود ’ کھل جا سم سم ‘ کو کامیاب تحریر کے زمرے میں بہ آسانی رکھا جاسکتا ہے ۔ ۱۰۸؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کو صرف ۱۰۰؍روپئے میں حاصل کرسکتے ہیں ، شائقین اس کے حصول اور مصنف سے گفتگو کیلئے اس موبائل نمبر پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں ۔ 9921967621

ڈاکٹر عبدالقادر غیاث الدین فاروقی کی فراز شناسی
نذیر فتحپوری پونہ سے اشاعت پذیرادبی مجلہ ’اسباق ‘ کے مدیر ہیں جو تقریبا ً ۳۴؍برسوں سے ادب کے افق پر اپنی بساط بھر ضوپاشی کرتا رہتا ہے۔ موصوف اب تک ۷۰؍کتابوں کی تصنیف و تالیف کرچکے ہیں جس کی فہرست زیر نظر کتابچہ کے آخری اوراق پر موجود ہے ۔یہ کتابچہ ڈاکٹر عبدالقادر فاروقی کی کتاب ’احمد فراز شخصیت اور شاعری ‘ پر ایک مختصر مگر جامع تجزیئے کی صورت میں تحریر کیا گیا ہے، جس کا نام ’ڈاکٹر عبدالقادر غیاث الدین فاروقی کی فراز شناسی‘ ہے ۔ کتاب میں نذیر فتحپوری نے بڑے سلیقے کے ساتھ ڈاکٹر فاروقی کی فراز شناسی کو اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے، لیکن عنوان کی طوالت نے فراز شناسی کو محیط کرلیا ہے ۔ ۲۶؍صفحات کا یہ کتابچہ زیادہ ترحوالوں سےبھرگیا ہے یہاں تک کہ مصنف کی اپنی باتیں بھی دب گئی ہیں ۔عام طور سے حوالوں سے بوجھل تحریریں قاری کی الجھنوں میں اضافہ کرتی ہیں ۔جس سے قرأت مجروح ہوتی ہے ۔

کتاب سے چند سطریں ہم یہاں درج کررہے ہیں جس میں انہوں نےاحمد فراز کے فن اور افکارکی بڑی دل آویز تصویر کشی کی ہے ۔’’سچ مچ انسانی زندگی ایک خوبصورت تتلی کی طرح ہے ، ست رنگی ، نرم ،ملائم ذرا سی جان اور دھان پان جسم رکھنے والی ، لیکن یہ زندگی مکڑی کے جالوں میں پھنسی ہوئی ہے ۔یہ جالے سیاست کے ہیں،وراثت کے ہیں ،سماجیات کے ہیں ، اخلاقیات کے ہیں ۔فراز نے یہ سارے دکھ جھیلے ہیں ، صدمے اٹھائے ہیں ، وطن سے بے وطن ہونا مکڑی کا سب سے بڑا جالا ہے یہ دردربھٹکاتا ہے اور خاک چھنواتا ہے ۔‘‘ ایک جگہ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ فاروقی لکھتے ہیں ۔

’’ احمد فراز کے احساسات اور جذبات نہ کسی سرحد میں قید تھے اور نہ ہی کسی سرحد تک محدود تھے ۔احمد فراز کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ قید وبند سے آزاد تھا ۔وہ نہ صرف اپنے شہر اور وطن کی بلکہ دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کی نمائندگی کرتا ہے ۔جو ظلم و بربریت کا شکار ہوچکی ہے ۔‘‘ مجموعی طور پر یہ کتابچہ فراز شناسی کے موضوع پر حوالوں سے بوجھل ہونے کے باوجود ترسیل میں کامیاب ہے ۔۵۰؍روپئے میں یہ کتابچہ اس نمبر پر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ 09822516338
ماہنامہ تریاق ( ممبئی )

ضمیر کاظمی اور صاحب حسن کی ادارت میں اشاعت پذیرتریاق اب معنوی طور پر بھی تریاق ہوتا جارہا ہے ۔جولائی کا تازہ شمارہ اپنے مشمولات و معیار کے حوالے سے یہی ثابت کررہا ہے ۔یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ مدیران نے مشمولات کے انتخاب اور حسن انتظام سے رسالے کو قارئین کی دھڑکنوں سے بہت قریب کردیا ہے ۔

ادارتی صفحہ پر اردو زبان و ادب کی زوال پذیر صورتحال پر مدیر نے جس دردمندانہ انداز میں اپنے تاثرات پیش کئے ہیں وہ صدفیصد درست ہیں جس کا کم و بیش علم ہر ایک کو ہے۔رہی بات کچھ امید افزا حالات کی تو اس تعلق سے فی الحال یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’ ڈھول کی آواز دور سے بڑ ی سہانی معلوم ہوتی ہے ۔‘ تاج دار تاج کی شاعری پر گوشہ اچھا لگا، اس لئے کہ بیشتر تاثرات متوازن اور مبنی برحقائق محسوس ہوئے جوکہ ایک اچھی روایت ہے ۔ سلام بن رزاق کا کرشن چندر کے فن افسانہ پر بڑی حد تک غیر جانبدارانہ تجزیہ ایک بہتر اور فکر انگیز سلسلہ ہے ۔اس کی حیثیت اس تھرما میٹر جیسی ہے جس میں ماضی اور حال کی ادبی حرارت و برودت کی منصفانہ تفہیم کی بھرپور صلاحیت ہے ۔

افسانوں اور غزلوں کا حصہ بھی بڑی حد تک دم دار ہے ۔عارف اعظمی شاعری سے افسانے کی طرف کالی عینک کے ساتھ آئے ہیںخدا کرے ان کی دانائی و بینائی سیہ چشمگی سے متاثر نہ ہو اور اس میدان میںبھی وہ کامیاب رہیں ۔فریادآزر کی فنی جہات پر حقانی القاسمی کی تحریر چشم کشا اور مبنی برحقائق ہے ۔ ڈاکٹر تابش مہدی ، شمس رمزی ، مشتاق حیدر، خلیق الزماں نصرت ، حنیف سید ، روبینہ تبسم ، ناہید طاہر ، رؤف خوشتروغیرہم کی تخلیقات بھی توبہ مبذول کررہی ہیں ۔مدیران سے رابطہ : 9004000252/9867861713۔
(مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی 51موبائل :9004538929)
 
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.