فالج

فالج کیا ہے اور کیسے اس کی علامات کا پتہ چلتا ہے؟فالج کو انگریزی زبان میں سٹروک یا اپوپلیکس کہا جاتا ہے،فالج کی ڈیفینیشن،اعداد ، وجوہات، ممکنہ نتائج اور فوری امداد ایک نظر میں۔فالج کا اٹیک ایک ہنگامی صورت حال ہے اور فوری مدد طلب کرنی اہم ہے تاکہ مریض کو مناسب طبی امداد حاصل ہو اور کم سے کم نقصان ہو۔فالج کے دورانِ اٹیک یعنی سٹروک کی صورت میں چوبیس گھنٹوں کے اندر اچانک دماغی خلیات یعنی دماغ کے مخصوص حصوں میں ناکافی خون کی فراہمی کے سبب ہوتا ہے یعنی بھورے رنگ کے سیل دماغ کے خاص حصے میں کافی مقدار میں آکسیجن اور غذائی اجزاء کے حاصل نہ ہونے سے خطرات پیدا کرتے ہیں یا گردش کرنا چھوڑ دیتے ہیں اس دوران دماغی حصوں میں خون کی سرکولیشن میں روکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس سے دماغ اور جسم شدید متاثر ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ مکمل طور پر سیلز ختم ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بھورے دماغی خلیات کتنے مضبوط یا کمزور ہیں اور عارضی طور پر روکاوٹ پیدا کررہے ہیں یا مستقل فنکشن کرنے سے محروم ہیں اور عام طور پر ان علامات کے نتائج ایسے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں کہ انسان کو بولنے میں دشواری ہوتی ہے، مختلف اعضاء کا فنکشن نہ کرنا، بصیرت کا شکار یا چہرے پر ٹیڑھا پن بھی نمودار ہو سکتا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے فالج اٹیک ہونے کی صورت میں فوری ایمبولیس کو فون کیا جائے کیونکہ ٹرانسس ٹوریکل اٹیک جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔دماغی سیلز میں خون کے بہاؤ کے منجمند ہونے یا دیگر خلیات کا گردش نہ کرنے کی دو خاص وجوہات ہو سکتی ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً اسی فیصد کیسسز میں دماغی خون کی بندش یا مکمل طور پر سرکولیشن نہ کرنا جسے طبی زبان میں ایمبوئس کہا جاتا ہے یا دوسری وجہ جسے سکیمنگ وائٹ سٹروک کہا جاتا ہے ممکن ہے یا ہیمرج سٹروک ہو سکتی ہے۔حقائق اور اعداد وشمار۔جرمنی میں دولاکھ ستر ہزار افراد ہر سال فالج کا شکار ہوتے ہیں جن میں اسی فیصد سے زائد افراد ساٹھ سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں لیکن جوان لوگ بھی فالج اٹیک کا شکار ہو سکتے ہیں،یہاں تک کہ نوزائدہ بچے اور چھوٹے بچوں پر بھی فالج اٹیک ہوتا ہے۔فالج اٹیک کی مختلف وجوہات صرف دماغی حصوں پر سے شروع ہوتی ہیں انحصار کرتا ہے کہ کس حصے میں شدت سے تکلیف ہوئی جس کے نتیجے میں چہرہ بگڑ گیا اور بولنے کی طاقت نہ رہی یا بصارت سے محروم ہونایا ہاتھ پاؤں ساکت ہوگئے،سماعت سے بھی کئی افراد محروم ہو جاتے ہیں یا جسم کا آدھا حصہ حرکت نہیں کرتا شدید چکر آنا وغیرہ۔جرمنی میں فالج اٹیک کے بعد ہوسپیٹلز میں بروقت علاج یعنی ریہا بیلیشن ،پلاسٹیسیٹی تھیراپی سے کیا جاتا ہے فالج کے مریضوں کی انتہائی گہری نگہداشت سے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جینے اور حرکات و سکنات کرنے میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے مختلف ادویہ ،تھیراپی ،فٹنس ٹریننگ ٹیسٹ جاری رہتے ہیں ،فالج کے ایکسپرٹ ڈاکٹر کا کہنا ہے ہمارا اولین فرض ہے کہ سب سے پہلے انسان کی زندگی بچائیں اور علاج سے شفایابی کیلئے دیگر مواد استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ انسان کا دل و دماغ فنکشن کرتے رہیں اسی میں ہماری کامیابی ہے ہمارے تجزئے کے مطابق عام طور پر چھ ماہ کے دوران فالج زدہ انسان میں کافی حد تک تبدیلی لائی جا سکتی ہے تاکہ اس کے اندر جینے کی تمنا ہو اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے کہ علاج کے ساتھ ساتھ مریض کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ماہرین کا کہنا ہے فالج اٹیک عام طور پر ڈپریشن سے پیدا ہوتا ہے لیکن اگر بروقت طبی امداد اور ادویہ استعمال کی جائیں جو انسانی ذہن کو خاص طور پر پرسکون کریں تو بہت جلد صحت یابی ممکن ہوتی ہے ،مطالعے میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کی صورت میں فوری طور پر ادویہ ساز گار حالات پیدا کرتی ہیں اور فالج کی نوبت ہی نہیں آتی۔رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں معقول علاج ،ادویہ اور دیگر مراعات حاصل نہ ہونے پر کئی افراد تمام زندگی کیلئے معذور ہو جاتے ہیں جبکہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں انسان کی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228007 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.