پاکستان میں جمہوریت کی دعویدار غیر جمہوری پارٹیاں

اہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے اور ان نام نہاد جمہوریت کے نام پہ بننے والے استحصالی گروپوں کو معاشرے میں کامیاب کرنے کی بجائے حقیقی جمہوری پارٹیوں کی تشکیل کے عمل کو فروغ دینا چاہئے، اس کے لئے پڑھے لکھے نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان بہروپیوں کو معاشرے میں بے نقاب کریں ، دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ہونے والے جمہوری تجربات سے شعوری فائدہ اٹھا کر لوگوں کی حقیقی جمہورری رویوں کے حوالے سے شعوری تربیت کریں، وقت بدل گیا، وقت کے تقاضے بدل گئے، اب معاشرے کے اندر عدل و انصاف کے قیام کے لئے جمہوریت کے بغیر اور کوئی دوسرا راستہ نہیں، خالصتاً جمہوری سوچ وفکر ہی معاشرے کی فکری، علمی،سماجی، معاشی ترقی میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ جمہوری رو یوں کی آبیاری کا عمل معاشرے کی نچلی سطح سے شروع ہوتا ہے اور پھر ہر سطح تک نشوونما پاتا ہے اورحقیقی جمہوری تنظیم کی تشکیل کی صورت میں پورے معاشرے تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ شعور اور طریقہ ہے جس سے معاشرے میں جمہوریت کے غلبے اور استحکام کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں نے جمہوریت کو معاشرے کی ترقی اور بقاء کے لئے لازم بنا دیا ہے، حقیقی جمہوریت کے بنیادی لوازم میں سے سیاسی اور معاشی مساوات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔معاشرے میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے جماعت سازی کا ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے،اس سے معاشرے کے تمام طبقات منظم اور متحرک ہو کر ایک اجتماعی عمل کو فروغ دیتے ہیں۔جس معاشرے میں اجتماعی عمل فروغ نہیں پاتا وہاں انفرادیت جڑ پکڑ لیتی ہے اور معاشرہ آمرانہ رویوں کا شکار ہو تا چلاجاتا ہے۔حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے بننے والی سیاسی تنظیم کے اندر سیاسی مساوات اور معاشی مساوات کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے،کیونکہ جب سیاسی تنظیم کے اندر یہ خصوصیات موجودہوں گی تو تب ہی وہ عام افراد معاشرہ کو سیاسی اور معاشی مساوات سے مستفید کر سکے گی۔سیاسی مساوات سے مراد رائے کی آزادی اور تمام افرادکوعقلی قوتوں کے بھر پور استعمال کے مواقع کا نام ہے، مال ودولت، خاندان، مذہب کے نام پہ کسی قسم کی فوقیت اور طبقاتی روش نہ ہو، سیاسی قائدین کا انتخاب کثرت رائے سے ہو، اس میں کسی قسم کے تقدس، خاندانی تفوق یا معاشی بالا دستی کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے بلکہ قابلیت، صلاحیت اور کردار کو پرکھا جائے اور اسی بنیاد پہ انتخاب ہو،جب چاہیں کثرت رائے سے قائدین کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکے۔اصل طاقت ووٹ یا رائے کی ہو۔

اس تناظر میں آج ہم اپنے معاشرے میں موجود ہ جمہوریت کے نام پہ بننے والی پارٹیوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں، خاندانی تشخص،مذہبی تقدس،قومی وقبائلی تفوق وغیرہ کی حامل شخصیات سیاسی جماعتوں کی لیڈر بن بیٹھی ہیں، سرمایہ دار وجاگیر دار طبقے نے اپنے اثر رسوخ اور سرمائے کی بدولت ایسے گروپ تشکیل دے دئیے ہیں جنہیں وہ جمہوری پارٹیوں کا نام دیتے ہیں،صبح وشام جمہوریت کا نام لیتے ہیں، لیکن ان کے گروپوں کے اندر جمہوری رویوں کا نام نہیں ہے، کسی طرح کا انتخابی میکنزم نہیں،بڑے سے بڑے عہدے کے لئے انتخاب کی جگہ سلیکشن ہوتی ہے،پارٹی میں اثر رسوخ اس کا زیادہ ہوتا ہے جس کے پاس سرمائے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے،کوئی شہری اپنے سرمائے کے بل بوتے پہ ایسی کسی بھی پارٹی میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے تک پہنچ سکتا ہے،کسی کو جرات نہیں کہ وہ پارٹی لیڈر سے اختلاف رائے کر سکے،سالہا سال سے ایک ہی خاندان نام نہاد جمہوری پارٹیوں پہ حکمرانی کرتا ہے، باپ مرتا ہے تو بیٹا آتا ہے یا بھائی یا بیٹی یا بہن پارٹی پہ مسلط ہو جاتی ہے،جاگیردار اور سرمایہ دار خاندانوں کی نسلیں اپنے اثاثوں کے تحفظ اور ملکی خزانوں کے استحصال کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ پارٹی کو اپنی گرفت میں رکھیں،ورنہ انہیں خطرہ ہوتاہے کہ وہ اقتدار سے بے دخل ہونے کے ساتھ ہی احتساب کے عمل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ان نام نہاد جمہوری پارٹیوں میں کوئی نظریاتی مضبوطی یا ہم آہنگی موجود نہیں ہوتی،اس کے اراکین اکثر اپنے مفادات کے تحت اپنی پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، جنہیں ہمارے ہاں ’’لوٹا‘‘ کہا جاتا ہے، اگر تحقیق کی جائے تو ہمیں ہر طرف لوٹے ہی لوٹے نظر آتے ہیں، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان لوٹوں میں اکثریت وہ ہے جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے فوجی آمروں کو بھی مضبوطی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں،اور بعض تو جمہوری پارٹیاں ایسی بھی ہیں جنہیں آمروں ہی نے تخلیق کیا اور ان کے قائدین کو جمہوریت سکھائی اور انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔اب وہ جمہوریت کی چیمپئن ہیں، لیکن جب کبھی بھی انہیں اپنے مفادات کے لئے آمریت کی مدد چاہئے ہوتی ہے وہ اسے دعوت دینے میں دیر نہیں لگاتیں۔حیرت انگیز اور افسوسناک کیفیت یہ بھی ہے، سوشلزم، سیکولر جمہوریت، روٹی، کپڑا، مکان کے نام پہ منشور وضع کرنے والے سیاسی گروپ بھی موجود ہیں جو نسل در نسل مخصوص خاندانوں کی ملکیت میں چل رہے ہیں، جمہوریت کی تعریفیں اور اس کی بقاء کے لئے قربانیوں کی ایک لمبی فہرست تھمائے، عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے یہ گروہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو انتہائی پسماندہ رکھتے ہیں، ان کے اپنے حلقوں میں بچے بھوک سے مرتے ہیں،لیکن خود یہ شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ملکی اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث یہ گروہ معاشرے میں سوشلزم اور جمہوریت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جمہوری رویوں کی تربیت کا عمل مقامی سطح کی سیاست سے شروع ہوتا ہے، جہاں یونین کونسل، وارڈ یا ڈسٹرکٹ کونسل کی سطح پہ الیکشن میں حصہ لینا عوامی مسائل کا ادراک، انہیں حل کرنے کے لئے عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا، اس طرح نہ صرف سماجی شعور حاصل ہوتا ہے بلکہ سیاسی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ، عوامی اعتماد اور عوامی مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔مقامی سطح کے اس سیاسی اور سماجی خدمت کے عمل سے گزر کر صوبائی اور پھر قومی سطح پہ ترقی کرنے والے افراد ہی صحیح معنوں میں کسی جمہوری عمل کا حصہ ہو سکتے ہیں، اور وہ قومی سطح پہ عوام کی سیاسی قیادت کرنے کے اہل ہوتے ہیں، اگر دیانت داری سے تجزیہ کریں تو ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں کے قائدین جو سالہا سال سے اس ملک کے اقتدار کے مزے جمہوریت کے نام پہ لوٹتے رہے، وہ کہاں سے آئے؟ ان کا عوامی مسائل اور عوام کے ساتھ کتنا تعلق ہے؟انہوں نے عوامی قیادت کا حق اپنے سرمائے کے بل بوتے پہ حاصل کیا یا اپنی خدمت کے بل بوتے پر؟بادشاہوں کی زندگی گزارنے والے یہ نام نہاد جمہوری لیڈر جمہوریت کے نام پہ عوام کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہیں۔

اگر اہم ان نام نہاد جمہوری سیاسی پارٹیوں کے اندرونی نظاموں کا مطالعہ کریں توحالت یہ ہے کہ لیڈروں اور عام کارکنوں میں ایک خلاء نظر آتا ہے، عام کارکنان ان سے مل بیٹھ نہیں سکتے،دونوں کی الگ دنیا ہوتی ہے،مخصوص الیکشن کے موسم میں ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوتا ہے،عام زندگی میں بڑی سے بڑی قربانی دینے والا کارکن سیاسی لیڈر سے ہم کلام نہیں ہو سکتا ،اپنی رائے کا کھل کے اظہار نہیں کر سکتا،اگر اظہار کی اجازت ہوتی بھی ہے تو اس کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔کارکن قربانیاں دیتے ہیں،لیڈر ان کی قربانیوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں،یہ سیاسی جماعتیں فقط چند شخصیات کے سیاسی مفادات کا ذریعہ ہیں۔عام کارکنان کے ساتھ عدم مساوات کا یہ رویہ ایک طرف سیاسی جمہوری عمل کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے تو دوسری طرف سماجی عدم مساوات کا باعث ہے۔لہذاکسی بھی سیاسی جماعت میں لیڈر اور کارکنان میں پیدا شدہ خلاء جمہوری سیاسی عمل کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا۔

مذہب کے نام پہ سیاست کرنے والی جماعتیں بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، جو اپنی سیاسی حکمت عملی میں جمہوریت پسند معلوم ہوتی ہیں اور آمریت کے خلاف آوازیں بلند کرتی نظر آتی ہیں، لیکن عملی طور پہ کبھی آمریت کے ساتھ اور کبھی نام نہاد جمہوری قوتوں کے ساتھ شیر وشکر ہو کر اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف نظر آتی ہیں۔اگرچہ کہ وہ مذہب کے نام پہ ووٹ مانگنے کے باوجود ابھی تک عوامی سطح پہ پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں،اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ عوام اور جمہوریت کا نام تو کسی قدر لیتی ہیں لیکن عوامی مسائل، سماجی خدمت کے نظرئیے اور حقیقی جمہوری رویوں سے دوری کا شکار ہیں، چاہے پارٹیوں کا اندرونی نظام ہو یا بیرونی ان کے ہاں جمہوریت کا نام صرف اپنے مطلب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مذہب کے نام پہ تشکیل سیاسی گروپوں میں قائدین اور عام کارکنوں میں مذہبی تقدس کی وجہ سے خلاء اور بھی وسیع تر ہو جاتا ہے۔ خاص طور پہ جب سیاسی جماعت کی تشکیل میں مذہبی رسومات کو داخل کر دیا جاتا ہے تو مذہبی تقدس اور رسومات سیاسی مساوات پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔مثال کے طور مذہب کے نام پہ سیاسی جماعت بنا کر حقیقی جمہوری مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے، کیونکہ عام طور پہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین تقدس کی بنیاد پہ سر پرست یا قائد خود ہی بن جاتے ہیں اور پھراس تقدس کو پارٹی کے تمام کارکنان اور معاونین کے لئے اس قدر ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ اسے ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے،نیز وہ شخصیت اتنی مقدس ہوتی ہے کہ وہ کسی کے فیصلوں کی پابند نہیں ہوتی،اس کا ہر فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے،کسی کو اس کے سامنے جرات سوال نہیں ہوتی،اس کے فیصلوں پہ تنقید کرنے والا راندہ درگاہ سمجھا جاتا ہے ،تو یقیناً ایسی صورت حال میں وہ سیاسی یا مذہبی جماعت جمہوری عمل سے بہت دور ہو جاتی ہے۔ان کے ہاں ایسا کلچر پیدا ہو جاتا ہے جس میں سیاسی رائے کی برابری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مثلاً اگر مذہبی مقدس شخصیت کا مرکزی کنٹرول موجود ہے تو وہ اپنے ارد گرد اپنے خلفاء کا حلقہ بنا دے گا،نتیجہ یہ ہو گا وہ بھی مقدس ٹھہریں گے،ان کی رائے بھی حرف آخر ہو گی،اسی طرح تقدس کا یہ سلسلہ جماعت کے عام کا ر کنوں کی آراء کی اہمیت کو ختم کر دے گا۔در اصل جب مذہبی رسومات سیاسی جماعت میں گھر کر جاتی ہیں تو لا محالہ ان میں رجعت پسندی کے ساتھ شخصیات کا تقدس اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ کارکنوں کو جرات سوال نہیں ہوتی اور سیاسی اور جمہوری عمل کے لئے جس آزادی اظہار رائے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ناپید ہو جاتی ہے۔لہذا حقیقی جمہوری سیاسی جماعت کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی رسومات سے اسے علیحدہ رکھا جائے۔ اگر کسی بھی سیاسی جماعت میں مذہبی رسومات کو داخل کر دیا جائے تو وہ آگے چل کر لا محالہ رجعت پسندی میں مبتلا ہو جائے گی۔ آئے دن کے معاشرتی تجربات سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ جمہوریت کے لئے جس قدر وسعت نظری چاہئے، آزادی اظہار رائے کی جو آزادی درکار ہے وہ مذہبی ذہنوں میں ناپید ہے۔برصغیر کے معروف سیاسی مفکرمولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ’’ہمارا مذہبی ذہن جمہوریت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ہمارا ذہن صدیوں کی فرقہ پرستی ،تنگ نظری ،جمود اور عقلی غلامی ،جذبات پرستی اور آگے جانے کے بجائے ہمیشہ پیچھے دیکھنے کی عادت سے نہیں نکل سکتا،اس ذہن کو اپیل کر کے اور اسے متحرک بنا کر جو نظام حکومت بروئے کار آئے گا وہ مزاجاً شاہی اور شخصی ہو گا،جمہوری نہیں،ہمیں جمہوری نظام حکومت کی طرف جانے کے لئے نیا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور نئے راستے کے لئے پچھلے راستے کو ترک کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ہمیں مولانا عبید اللہ سندھی کے ان الفاظ پہ ضرور غور کرنا چاہئے۔

ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے اور ان نام نہاد جمہوریت کے نام پہ بننے والے استحصالی گروپوں کو معاشرے میں کامیاب کرنے کی بجائے حقیقی جمہوری پارٹیوں کی تشکیل کے عمل کو فروغ دینا چاہئے، اس کے لئے پڑھے لکھے نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان بہروپیوں کو معاشرے میں بے نقاب کریں ، دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ہونے والے جمہوری تجربات سے شعوری فائدہ اٹھا کر لوگوں کی حقیقی جمہورری رویوں کے حوالے سے شعوری تربیت کریں، وقت بدل گیا، وقت کے تقاضے بدل گئے، اب معاشرے کے اندر عدل و انصاف کے قیام کے لئے جمہوریت کے بغیر اور کوئی دوسرا راستہ نہیں، خالصتاً جمہوری سوچ وفکر ہی معاشرے کی فکری، علمی،سماجی، معاشی ترقی میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ جمہوری رو یوں کی آبیاری کا عمل معاشرے کی نچلی سطح سے شروع ہوتا ہے اور پھر ہر سطح تک نشوونما پاتا ہے اورحقیقی جمہوری تنظیم کی تشکیل کی صورت میں پورے معاشرے تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ شعور اور طریقہ ہے جس سے معاشرے میں جمہوریت کے غلبے اور استحکام کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 135646 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More