پاکستان کے دس بڑے عربی مدارس وجامعات

دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ذیقعدہ1366ھ مطابق ستمبر1947ء کو اکوڑہ خٹک میں ایک چھوٹی سی مسجد میں درس وتدریس کا آغاز فرمایا، جو بعد میں دارالعلوم حقانیہ کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’مجھے اگرچہ تاریخی اعتبارسے تو متحقق نہیں مگر آثار وقرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اسی جگہ قائم ہے، جہاں شہدائے بالاکوٹ کی سب سے پہلی تلوار چلی تھی، یہاں ان کے رفقا شہید ہوئے تھے۔ دراصل اس بے آب وگیاہ، پسماندہ اور پہاڑی علاقہ میں کھنڈرات اور پتھروں سے دارالعلوم حقانیہ کی صورت میں علوم ومعارف کے جو چشمے آپ کو پھوٹتے نظر آرہے ہیں۔ کیا عجب کہ اس میں سیدَین شہیدَین اور ان کے سرفروش رفقا وجاں نثار اور تحریک احیا ئے دین کے شہیدوں کا خون رنگ لایا ہو اور یقین ہے کہ اکوڑہ خٹک میں علوم ومعارف کی یہ بہاریں ان ہی انفاس قدسیہ کی برکات ہیں‘‘۔

ایک اور مقام پر حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا:’’ اس مسجد سے ہم ایک عظیم دارالعلوم حقانیہ منتقل ہوئے، جس میں آج آپ سب تشریف فرما ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس جگہ بڑے بڑے کھڈے تھے، جنگل اور بنجر زمین تھی، اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو جنت الفردوس عطا فرمائے، جنہوں نے دارالعلوم کے لیے یہ زمینیں وقف فرما دیں اور جو زندہ ہیں ان کی عمروں میں برکت دیں، اب وہ چھوٹا سا پانی کا قطرہ خدا کے فضل سے دریا کی شکل میں بہہ رہا ہے‘‘۔ مزید فرمایا ’’ وہ بھی زمانہ تھا جب ہم دارالعلوم کے لیے ایک ایک اینٹ پر سوچاکرتے تھے کہ خریدی جائے یانہ۔ اگر خریدیں تو فنڈ کہاں سے لائیں گے، پھر خدا پر توکل سے قدم اٹھا لیتے۔ تو اﷲ پاک غیب سے انتظام بھی فرما دیتا تھا، اب اﷲ تعالی کا بے حد فضل وکرم کہ اﷲ نے دارالعلوم حقانیہ کو دینی مدارس میں ایک ممتاز مقام سے نوازا ہے، پاک وہند، بنگلہ دیش، عرب اور امریکا ولندن اور دنیاکے گوشے گوشے تک دارالعلوم کا حلقہ وسیع ہو چکا ہے اور اس کے فضلا خدمت واشاعت دین میں مصروف ہیں۔

جامعہ اشرفیہ لاہور
حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمۃ اﷲ علیہ نے قیام پاکستان کے بعد8 ذیقعدہ1366ھ کو نیلا گنبد کے قریب جامعہ اشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ بعدمیں جگہ کی تنگی کے باعث شہر کے اندرونی حدود سے ہٹ کر جامعہ اشرفیہ کا فیروز پور روڈ پر14 شعبان1374ھ کو سنگ بنیاد رکھا گیا۔ چوں کہ حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ کا اصلاحی تعلق حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے تھا جنہوں نے آپ کو 10 ذوالحجہ1343ھ کو طریقت کے چاروں سلسلوں میں بیعت فرمایا تھا اس لیے آپ نے اپنے مدرسے کا نام حضرت حکیم الامہ کے نام پر رکھا۔

جامعہ اشرفیہ کا ملک کے دینی اداروں میں ایک وقیع مقام ہے، درس نظامی کے علاوہ مرکز اللغۃ العربیہ کے نام سے کچھ جدید عربی نصاب کا بھی اہتمام ہے،جامعہ اشرفیہ پاکستان کے نامور اسلامی جامعات میں سے ایک ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
محدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوریؒ نے اس جامعہ کی بنیاد1951ء میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل (سورت) کو خیرباد کہنے کے ٹھیک تین سال کے بعد محرم الحرام1374ھ/1954ء میں رکھی۔ ان تین سالوں میں آپ دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈوالہ یار میں شیخ التفسیر والحدیث کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔

جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کسی تعارف کا محتاج ادارہ نہیں کیوں کہ وہ آج ملک کے ممتاز جامعات اور مرکزی دینی مدارس میں ایک اعلی مقام کا حامل ہے، جس کی متعدد شاخیں ( جو بذات خود جامعات کی شکل اختیار کر رہی ہیں) کراچی وبیرون کراچی میں مصروف عمل ہیں اور جس کے فیوض وبرکات سے عالم اسلام خوب خوب سیراب ہو رہا ہے۔حضرت بنوریؒ فرمایا کرتے تھے:
’’اگر دینی مدرسہ دنیا کے لیے بنانا ہے، تو آخرت کا سب سے بڑا عذاب ہے اور اگر آخرت کے لیے بنانا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے‘‘( ساعتے با اولیاء ص236)

محدث حضرت العصر بنوری رحمۃ اﷲ علیہ اپنے اس مدرسہ میں مندرجہ ذیل تخصصات کرانا چاہتے تھے۔ جن میں پہلے تین تخصصات کا باقاعدہ اجرا کافی عرصہ سے ہوچکاہے اور بقیہ کا انتظار ہے Œ تخصص فی الحدیث  فی الفقہŽ فی الرد علی الفرق الباطلہ فی علوم القرآن فی الکلام والتوحید ‘ فی الأدب العربی واللغۃ ’ فی التاریخ الاسلامی “ فی العلوم الحدیثۃ اقتصاد، معیشت، سیاست وغیرہ۔

جامعہ دارالعلوم کراچی
شوال1370ھ میں حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی ؒ نے نہایت سادگی کے ساتھ نانک واڑہ کراچی میں صرف ایک استاذ اور چند طلبا سے ایک مدرسہ اسلامیہ قائم فرمایا۔ اس مدرسہ کو اﷲ تعالی نے کچھ ہی عرصہ بعد ’’ دارالعلوم کراچی‘‘ کا نام ومقام عطا فرمایا۔ بعد میں جگہ کی تنگی کے باعث کورنگی Kایریا منتقل ہو کر ایک وسیع وعریض رقبے پر منتقل ہوا اور اب ایک بلند وبالا مینارۂ نور کی طرح اپنی روشنی چار سوبکھیر رہا ہے۔

علوم دینیہ وعربیہ کی تعلیم و تعلم اوراحیائے دین کے کاموں میں دارالعلوم کراچی سنجیدگی ومتانت کا قابل تقلید نمونہ ہے۔ تعلیم قرآن، حفظ وناظرہ سے لے کر میٹرک وایف اے اور علوم وفنون عربیہ، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب عربی، صرف ونحو، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، ریاضی، عقائد وکلام دارالعلوم اور اہل دارالعلوم کا شب وروز کا مشغلہ ہے اور کیوں نہ دارالعلوم کو یہ مقام حاصل ہو، کہ اس کے مؤسس حضرت مفتی اعظم ہیں۔ رحمہ اﷲ تعالی رحمۃ واسعۃ، جنہوں نے پاکستان آکر دو چیزوں کی ٹھانی تھی۔ ایک پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے لیے کوشش، دوسرے کراچی میں اس کے لئے شایان شان دارالعلوم کا قیام۔

جامعہ فاروقیہ کراچی
شیخ الحدیث استاذ العلما حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب مدظلہم کی بے انتہا محنتوں اور کوششوں کے نتیجہ میں یہ ادارہ 23 جنوری 1967ء مطابق1387 ھ کو معرض وجود میں آیا۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان کا تعلق علاقہ دوآبہ یوپی کے مشہور گاؤں حسن پور لوہاری سے ہے۔ پٹھانوں کا یہ گاؤں ہمیشہ اکابرین کا مرجع ومسکن رہا ہے۔ حضرت حاجی امداداﷲؒ مہاجر مکی کے شیخ میاں جی نور محمد نوراﷲ مرقدہ نے زندگی کا بڑا حصّہ اسی گاؤں میں گزارا۔

قدرت نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا جس کے باعث آپ شب وروز کی مسلسل اور کام یاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان میں ایک نئی دینی درس گاہ ( جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو) کی تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔

چناں چہ23 جنوری1967ء مطابق1387ھ میں آپ نے ’’جامعہ فاروقیہ کراچی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ کی یہ مخلصانہ کوشش اتنی قبولیت حاصل کرگئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد سے لے کر اب تک کے مختصر عرصہ میں جامعہ نے تعلیمی وتعمیری میدان میں جوترقی کی ہے وہ ہر خاص وعام کے لیے باعث حیرت ہے۔ فﷲ الحمد علی ذلک۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے 1980ھ میں آپ کو وفاق المدار س العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

وفاق کے ناظم اعلیٰ مقرر ہو جانے کے بعد آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیار تعلیم کی بلندی کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں نہایت اختصار سے انہیں ذکر کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ :……
آپ نے وفاق کے طریقہ امتحان کو بہتر شکل دی، بہت سی بے قاعدگیاں جو پہلے اس امتحان میں ہوا کرتی تھی انہیں ختم کیا۔

پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ، رابعہ، ثانیہ، متوسطہ اور درجات تحفیظ القرآن الکریم کے امتحانات کو بھی لازم قرار دیا۔
نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لیے نئی دیدہ زیب عالمی معیار کی سندیں بھی جاری کروائیں۔

فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کرکے نیتجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انہیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کی جاسکیں۔

وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے اپنی صلاحیتوں سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ جس بنا پر وفاق المدارس العربیہ کو ملک کی واحد نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

مدارس عربیہ میں موجود نظام تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب درس کی اصلاح کی مہم شروع کی چنانچہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا جارہا ہے، جب کہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔

وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی فیس یادیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل توجہ کے نتیجے میں وفاق مالی طور پر ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔

آپ نے وفاق کے مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے نہایت شان دار عمارت کا انتظام کرایا، جب کہ اس معاملے میں پہلے عارضی بندوبست اختیار کیا جاتا رہا تھا۔

آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو 1989ء میں وفاق کا صدر منتخب کر لیا گیا، اب آپ تاحال بحیثیت صدر، وفاق المدارس کی خدمات کو انجام دینے میں مصروف ہیں۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان صاحب مدظلہم کے فیوض کو صحت وسلامتی کے ساتھ ہمارے لیے اور سارے عالم کے لیے قائم ودائم رکھیں۔ آمین۔

شعبہ ہائے جامعہ
جامعہ فاروقیہ کراچی میں درج ذیل شعبے مصروف کار ہیں۔
۱- تعلیمات، ۲-تصنیف وتالیف،۳-دارالافتاء، ۴-معہد اللغۃ العربیۃ والدراسات الاسلامیۃ، ۵-تحفیظ القرآن کریم، ۶- کتب خانہ، ۷-دارالاقامہ، ۸-الفاروق اردو، ۹-الفاروق انگریزی، ۱۰-الفاروق عربی، ۱۱- الفاروق سندھی، ۱۲- فاروقیہ میڈیکل سینٹر، ۱۳-فاروقیہ کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ، ۱۴- مالیات جامعہ، ۱۵-تخصص فی الفقہ، ۱۶-تخصص فی الحدیث، ۱۷-تخصص فی الأدب العربی، ۱۸-داراسات دینیہ۔

نیز جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت چوں کہ مقامی ہوتی ہے اس لیے تعلیمی اور تدریسی زبان جامعہ میں اردو ہی ہے۔ البتہ دراسات علیا میں اسباق اردو ، عربی دونوں زبانوں میں ہوتے ہیں جب کہ شعبہ معہد اللغۃ العربیہ میں تدریسی زبان فقط عربی ہے۔

الحمدﷲ ادارہ الفاروق1984ء سے عربی رسالہ الفاروق مسلسل شائع کر رہا ہے۔ جو ایک سہ ماہی علمی وتحقیقی مجلہ ہے جس کے بعض اعداد بہت ہی اہمیت کے حامل قرار دیئے گئے ہیں۔ عرب ممالک ہوں یا عجمی ممالک عربی زبان کی بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر یہ مجلہ ایک عالمی مجلہ قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح ادارہ الفاروق سے اردو میں بھی1985ء سے مسلسل ماہنامہ الفاروق نکل رہا ہے، جو عوام وخواص کے ذہنوں کو اسلامی وملکی مسائل وتبصروں سے معطر کر رہا ہے ۔ اردو الفاروق میں ملک و بیرون کے مختلف علمائے کرام، ڈاکٹرز، اسکالرز اور دانش وروں کے تحقیقی وتفصیلی مقالات ومضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی دنیا کے مختلف کونوں میں موجود اردوداں مسلمانوں کے لیے اچھا ترجمان ہے۔

اسی طرح 1989ء سے الفاروق ایک نئے لباس یعنی، انگلش میں بھی آرہا ہے۔ یہ بھی ایک معیاری پرچہ ہے خصوصاً یورپ، امریکا اور انگریزی خواں طبقہ کے یہاں الحمدﷲ الفاروق انگلش کی بڑی مانگ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ذکرکرنا مناسب ہو گاکہ الفاروق دنیا کے تمام اسلامی جرائد میں وہ واحد یا کم ازکم پہلی صف کا ایسا مجلہ ہے جو عربی، اردو، انگلش اور سندھی میں شائع ہو رہا ہے اور بالکل اسلامی رنگ ڈھنگ کے ساتھ، اس میں تصاویر، فضول اور مزاحیہ مقالات اور ناجائز کاروبار کے اشتہارات سے مکمل اجتناب برتا گیا ہے۔ الفاروق اردو میں اب تک تین نمبر شائع ہوئے ہیں۔ جہاد افغانستان نمبر، سیرت نمبر اور جامعہ فاروقیہ نمبر، ان خواص وامتیازات کی بنا پر الفاروق نے بہت کم مدت میں کافی شہرت پائی ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کار خیر کو مزید دن دوگنی رات چوگنی ترقیاں عطا فرمائیں۔

دارالعلوم الاسلامیہ لاہور
پاکستان میں علوم دینیہ کی تدریس وفروغ کے لیے یہ ادارہ بطرز دارالعلوم دیوبند،1948ء میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے ایما پر حافظ سخاوت علی نے قائم کیا، حضرت شیخ الاسلام اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود زندگی بھر اس کی خصوصی سرپرستی فرماتے رہے، حافظ سخاوت علی ؒ فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد ارض مقدس ہی میں مالک حقیقی سے جا ملے تو ان کے خلف الصدق الحاج شیخ شوکت علی صاحب اور ان کے رفقا کے اصرار پر تحریک آزادی کے نامور سپاہی الحاج قاری سراج احمد نے مدرسہ کے انتظام کی ذمہ داری قبول کی، جو اخیر دم تک مہتمم اعلیٰ کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ آپ نے دارالعلوم الاسلامیہ کو گہوارہ تجوید وقرأت بنانے میں اہم کردارادا کیا۔ چنانچہ دارالعلوم الاسلامیہ کو مثالی ادارہ بنانے کے لیے نئے تجربات کیے گئے۔مثلاً تعلیم بالغاں، شبینہ درس، جدید وقدیم کا آمیزہ نصاب تعلیم وغیرہ، اس وقت بھی دارالعلوم فن تجوید وقرأت کے فروغ میں مستعد رہا۔ سر زمین پاک میں تجوید وقرأت کی ترویج واشاعت اور تعلیم وتعلم سے عام غفلت کے پیش نظر قاری صاحب نے اس علم پر خصوصی توجہ دی اور امام القراء حضرت الحاج قاری محمد عبدالمالکؒ ،استاذ الاساتذہ حضرت مولانا قاری محمد عبدالعزیر شوقی ؒ اور استاذ القراء جناب قاری افتخار احمد عثمانی جیسے اساتذہ فن سے مدرسہ کو مزیّن کیا، الحمدﷲ آج بھی مدرسہ میں ماہر فن اساتذہ کا اجتماع ہے جو شائقین کو فیض یاب کر رہے ہیں۔ جس میں مولانا قاری احمد میاں تھانوی صاحب کا نام گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔

اپریل1983ء سے دارالعلوم کو ایک نشاۃ ثانیہ کا دور نصیب ہوا، اس کی انتظامی کمیٹی کی صدارت حضرت مولانا محمد مالک صاحب کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور کے سپرد کر دی گئی اور اہتمام کی ذمہ داری مولانا مشرف علی صاحب تھانوی ( نبیرہ اہلیہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ )کے سپرد کر دی گئی ۔ الحمدﷲ اس قلیل مدت میں دارالعلوم نے ان دونوں بزرگوں کی علمی ودینی صلاحیتوں اور حسن تدبر سے ترقی کی طرف تیزی سے قدم بڑھانا شروع کردئیے۔ اب امید ہوچلی ہے کہ بانیانِ دارالعلوم نے جس خواب پر تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ اس کی تعبیر کا وقت آگیا ہے ۔ اور اِن شاء اﷲ اب بہت جلد دارالعلوم حقیقت میں دارالعلوم بن جائے گا۔ یہ عظیم ادارہ لاہور شہر میں دو جگہ خدمات انجام دے رہا ہے۔(1) پرانی انار کلی(2) علامہ اقبال ٹاؤن وحدت روڈ( طیب آباد)

مولانا مشرف علی صاحب تاحال مہتمم ہیں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم مالیات بھی۔

جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ، صدر پشاور
حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ خلیفہ مجاز حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے 1983ء میں اس جامعہ کی بنیاد پشاور کی عظیم تاریخی مسجد ’’ جامع مسجد درویش‘‘ کے سایوں میں رکھی۔

حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ایک عظیم عالم اور اسم بامسمی فقیر تھے، یہاں جامعہ فاروقیہ کراچی اور دیگر کئی جگہوں میں احقر نے خود دیکھا تھا کہ قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے، یا وعظ وارشاد کی محفل ہے اور حضرت کے چہرہ مبارک پر آنسوؤں کا ایک سیلاب ہے خود بھی روتے اور اہل محفل کو بھی ر لادیتے، اسی لیے اہل علم نے انہیں ’’ بکّاء‘‘ یعنی بہت زیادہ رو نے والے کا لقب دے رکھا تھا۔

صوبہ سرحد کی جامعات میں دارالعلوم حقانیہ کے بعد دورہ حدیث شریف میں سب سے زیادہ تعداد یہاں ہوتی ہے۔

سینیٹر حاجی عبدالرحمن صاحب فرزند ارجمند حصرت مولانا فقیر محمد بکَّاء رحمۃ اﷲ علیہ نے والد ماجد کے انتقال کے بعد سے اس کے اہتمام کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور خوب نبھائیں، اس ادارے کی آبرو یہاں کے شیخ الحدیث، نابغۂ عصر ،سابق رکن قومی اسمبلی، نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان، فاضل جامعہ اسلامیہ المدینہ المنورہ حضرت مولانا حسن جان صاحب دامت برکاتہم ہیں سن تاسیس سے ا ب تک اس جامعہ سے ہزاروں حفاظ اور علما فارغ التحصیل ہوئے اور جو کچھ کچھ فیض یاب ہو کر چلے وہ لاتعداد ہیں۔

دارالعلوم کبیر والا، خانیوال
تاسیس1373ھ/1953ء
بانی مولانا غلام احمد صاحب مہتمم اول حضرت مولانا عبدالخالق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سابق استاذ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا علی محمد صاحب، حضرت مولانا منصور الحق صاحب، حضرت مولانا ظہور الحق صاحب، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب، حضرت مولانا محمد انور صاحب رحمہم اﷲ تعالی جمیعاًاور موجودہ مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب دامت برکاتہم العالیہ یہاں کے بڑے اور نامور اساتذہ کرام میں ان کے اسمائے گرامی قابل ذکرہیں۔ مہتمم وتجدیدی مؤسس حضرت مولانا عبدالخالق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کے زمانہ دیوبند کے استاذ تھے، اس لیے اس جامعہ کی سرپرستی حضرت والا سالہا سال سے فرما رہے ہیں۔

درس نظامی بنین وبنات، تحفیظ اور تخصص فی الفقہ والقضاء کے ساتھ ساتھ متعدد شعبے یہاں فعال ہیں مولانا عبدالخالق رحمۃ اﷲ علیہ کے بعد حضرت مولانا منظور الحق صاحب بالاتفاق مہتمم بنائے گئے تھے، آخر میں اہتمام کی ذمہ داریاں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد انور صاحب زید مجدھم رکن مجلس عاملہ ونصاب کمیٹی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سپرد تھیں، ان کے دور میں ادارے نے خوب ترقی کی، پچھلے رمضان میں ان کا عارضۂ قلب کی بنا پر انتقال ہوا۔ إناﷲ، وإنا إلیہ راجعون

اس ادارے کا شمار صوبہ پنجاب کے سرکردہ اداروں میں ہوتا ہے۔

جامعہ خیر المدارس ملتان
تاریخ تأسیس22 ذیقعدہ1366ھ/ بمطابق18 اکتوبر1947ء
بانی ومہتمم اول حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہ العزیز رکن مجلس تاسیسی وفاق المدارس العربیہ پاکستان آپ کے انتقال کے بعد حضرت مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اﷲ علیہ آپ کے جانشین ہوئے ان کے انتقال کے بعد صغر سنی ہی میں حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مہتمم بنے جو بحمداﷲ تعالی تاحال آب وتاب کے ساتھ یہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب اور پھر ناظم اعلیٰ کے اہم ترین عہدوں پرکئی برس سے براجماں چلے آرہے ہیں، ان دونوں اداروں کی ترقی میں آپ کی خدمات نہایت قابل ستائش ہیں۔

جامعہ خیر المدارس اپنی تأسیس کے حوالے سے ایک پس منظر رکھتا ہے، مولانا خیر محمد جالندھری، مولانا احمد بخش اور مولانا محمد علی جالندھری تینوں ہی مدرسہ فیض محمدی جالندھر (بھارتی پنجاب) میں مدرس تھے، کہ یہ مذکورہ مدرسہ بندہو گیا اوراساتذہ وطلبہ حیراں وپریشان رہ گئے، اتنے میں مذکورہ اکابرثلاثہ اپنے تلامذہ کو لے کر مسجدعالمگیری تشریف لے گئے اور وہاں درس وتدریس کا مشغلہ شروع کر دیا کچھ عرصہ تک اسی پرا نے مدرسہ فیض محمدی کے نام سے کام جاری رکھے ہوئے تھے، پھر حضرت تھانوی ؒ سے مشاورت کی انہوں نے فرمایا کہ نام ( خیر المدارس) ہو گا، چناں چہ19 شوال1349ھ 9 مارچ1931 کو جالندھر ہی میں خیرالمدارس کی بنیاد رکھی گئی اور جب پاکستان وجود میں آیا تو پہلے ہی سال ہجرت کرکے ملتان میں موجودہ جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

حضرت مولانا محمد ازھر صاحب کی ادارت میں یہاں سے ایک وقیع رسالہ الخیر بھی نکلتا ہے، درس نظامی بنین وبنات، دارالافتاء اور معہد الخیر کے علاوہ جامعہ کے کئی شعبے وشاخیں مصروف عمل ہیں۔

جامعہ مدنیہ کریم پارک،لاہور
اس کی بنیاد حضرت مولانا حامد میاں بن مورخ الہند، ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا محمدمیاں رحمہما اﷲ تعالی نے رکھی ۔شروع میں لاہور میں احمدیہ بلڈنگ کے قریب مدرسہ احیاء العلوم کے نام سے 1952ء، پھر 1955ء میں مسلم مسجد لوہاری میں جامعہ مدنیہ کے نام سے کچھ کام شروع کیا مگر 1964ء میں کریم پارک میں مستقل جگہ مل جانے پر ایک بڑی عمارت کی صورت میں اﷲ تعالی نے اس جامعہ کو وجود بخشا۔

حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ چونکہ ظاہر وباطن کے ایک متبحر عالم دین اور نابغۂ روز گار شخصیت تھے، اس لیے خود ہی مشیخت حدیث پر فائز رہے اور صحیح بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے۔

حضرت کے انتقال کے بعد ان کے فرزند ارجمند حضرت مولانا رشید میاں صاحب مدرسہ کا نظم ونسق چلا رہے ہیں، نامور اساتذہ کرام میں حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب مدظلہم کا نام بہت نمایاں ہے۔

جامعہ میں درس نظامی، تحفیظ، تجوید، تخصصات اور تعلیم بالغاں کے شعبے فعال ہیں، ایک وقیع رسالہ بنام ( انوار مدنیہ) بھی جامعہ مدنیہ کی ترجمانی میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دے رہا ہے۔

حضرت مولانا حامد میاں ۔ رحمۃ اﷲ علیہ۔ فاضل دیوبند وخلیفۂ مجاز شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد المدنی رحمۃ اﷲ علیہ کے لگائے ہوئے اس شجر سایہ دار سے ہزاروں حفاظ، قرّا اور علما فیض یاب ہو کر فارغ التحصیل ہوئے۔
(الفاروق کراچی)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811507 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More