مسلمانان جموںکی حالت زار....! سول وپولیس انتظامیہ اور تعلیم کے اہم عہدوں پر نظر انداز ا

”1947میںتقسیم بغیر صغیر ہند سے قبل جموں صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی61فیصد تھی جبکہ اس وقت مسلمانوں کی کل آبادی31فیصد ہے “ ”صوبہ جموں کے مسلم افسران کو 1947سے لیکر آج تک پولیس، سول انتظامیہ اور محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر نظر انداز کیاگیا۔ کوئی بھی مسلم جموں کا آئی جی مقرر نہیں ہوا، کوئی بھی چیف سیکریٹری نہیں بنا، کوئی بھی صوبائی کمشنر مسلم جموں کا نہیں رہا، جموں یونیورسٹی اور سکاسٹ یونیورسٹی کا وائس چانسلر تو دور ’سرچ کمیٹی ‘میں بھی کسی مسلم افسر کا نام بحث کے لئے پینل میں شامل تک نہ کیاگیا“
پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلو ط حکومت سازی کے بعد کئی حلقوں سے یہ آوازیں اٹھائی گئیں کہ صوبہ جموں کے مسلمان احساس عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں، حکومت کی طرف سے بھی چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس سے ان آوازوں کی تصدیق بھی ہونے لگی۔ جنگلات اراضی سے ناجائز قبضہ ہٹانے کی مہم کو چند مخصوص علاقہ جات سے شروع کرنے اور خاص طور سے جموں، کٹھوعہ، سانبہ، اودھم پور ریاسی اضلاع میں سول وپولیس انتظامیہ کے اہم عہدو ں پر سے مسلم افسران کی تعیناتی عمل میں نہ لائے جانے پرکافی وبال کھڑا ہوا۔ متعدد سیاسی، سماجی ومذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حریت نواز تنظیموں نے بھی پہلی مرتبہ کھل کر آواز اٹھائی۔ حزب اختلاف جماعتوں نے بھی دبے الفاظ میں ہی سہی مگر حکمران وقت کے اس رویہ کی مذمت کی لیکن اگر 1947سے لیکر آج تک کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ واضح ہوتا کہ صوبہ جموں کے 10اضلاع کے مسلمانوں کو سول و پولیس انتظامیہ اور شعبہ تعلیم کے اہم ترین عہدوں پر نہ صرف ریاستی بلکہ صوبائی سطح پر نظر انداز کیاگیا ہے۔ قابلیت اور اہلیت کے باوجود صوبہ جموں کے مسلمانوں کو اہم عہدوں پر کبھی بھی فائز ہونے کا موقع فراہم نہیں کیاگیا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کشمیر مرکوز سیاسی حکمرانوں نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں کے تئیں متعصبانہ رویہ اختیار کیا۔ صرف کشمیر مرکوز سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ صوبہ جموں سے وابستہ حکمران جنہیں حکومتی سطح پر اہم عہدوں پر فرائض انجام دینے کا موقع ملا بھی اس کے ذمہ دار رہے ہیں،جنہوںنے کبھی اس انتہائی اہمیت کے حامل معاملہ کی توجہ مرکوز نہ کی۔جب ہم کشمیر اور جموں میں اہم عہدوں پر مسلم اور غیر مسلم افسران کی تعیناتیوں کے موجود اعدادوشمار کا موازنہ کرتے ہیں کہ اس میں واضح طور جموں کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اور انانصافی کی گئی جبکہ کشمیر میں اس امر کے باوجو دکہ وہاں مسلم اکثریت میں، ہیں مسلم اور غیر مسلم افسران کو یکساں سول وپولیس کے اعلیٰ عہدوں پر خدمت کا موقع دیاگیا۔ جموں صوبہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مسلم افسر کو انتظامیہ (جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ(GAD) کے اعلیٰ عہدہ پر تعیناتی کا موقع نہیں ملا۔ 1949سے لیکر اب تک ریاست جموں وکشمیر کے 27چیف سیکریٹری ہوئے ہیں جن میں سے 11افسرا ن ریاستی جبکہ باقی غیر ریاستی شامل ہیں۔ ان میں مجموعی طور 8مسلم چیف سیکریٹری ہوئے جن میں سے 6کا تعلق کشمیر اور دو بیرون ریاست سے تھے۔ عمومی انتظامی محکمہ (GAD) اور محکمہ داخلہ کا پرنسپل سیکریٹری اہم ترین عہدے ہیں جن پر کبھی بھی مسلم افسر کو تعیناتی کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ انتظامیہ میں فیصلہ ساز عہدوں اسسٹنٹ کمشنر /کمشنر سیکریٹری عہدوں پر بھی جموں کے مسلمانوں کو کم ہی موقع ملا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر/کمشنر سیکریٹری عہدوں پر چنیدہ چنیدہ KAS/IASافسران کا انتخاب عمل میں لایاجاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اب تک ریاست میں 400سے زائد اسسٹنٹ کمشنر/ کمشنر سیکریٹری ہوئے ہیں جس میں 240کے قریب مسلم شامل ہیں مگر ان میں سے جموں سے تعلق رکھنے والے مسلم افسران کی تعداد40ہے۔ آئی اے ایس جس میں جموں وکشمیر ریاست کو 50:50کا کوٹہ دیاگیا ہے جہاںپچاس فیصد ڈائریکٹ کوٹہ اور پچاس فیصدپرموشن کوٹہ سے آئی اے ایس افسر۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں یہ تناسب67:33کا ہے۔ اب تک مجموعی طور143افسرا ن ہیں جن میں سے صوبہ جموں سے صرف 7ہیں ۔ کشمیر صوبہ سے 1972میں پہلا مسلم آئی اے ایس افسر بنا تھا اور40برس بعد ڈاکٹر شاہد اقبال صوبہ جموں سے آئی اے ایس بننے والے پہلے شخص تھے ۔ آئی اے ایس کیڈر کے تمام افسران میں جموں کے مسلم افسران کی شرح محض4فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس کشمیری پنڈت جن کی آبادی ریاست کا مجموعی آبادی کا پانچ فیصد سے بننے والے آئی اے ایس افسران کی تعداد مجموعی طور چارفیصد ہے جبکہ وجے بقایہ ریاست کے چیف سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔صوبائی کمشنر جوکہ صوبہ کے تمام اضلاع جن کی موجودہ تعداد10 ہے ،کانگراںہے،کے عہدہ پر پچھلے 31برسوں سے کوئی بھی مسلم افسر تعینات نہیں کیاگیا۔ 1965 سے لے کر اب تک 31صوبائی کمشنر جموں بنے ہیں جس میں سے صرف 4ہی مسلم تھے ، پچھلے پانچ دہائیوںکے عرصہ کے دوران جموں صوبہ میں تعینات4مسلم صوبائی کمشنر وں کی مجموعی مدت کار36ماہ ہی رہی۔ اس کے برعکس صوبہ کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے میں کئی مرتبہ صوبائی کمشنر غیر مسلم تعینات ہوتے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرینگر کے علاوہ دیگر وادی کے اضلاع کے ضلع ترقیاتی کمشنرز، آئی جی پی کشمیر عہدہ پر بھی غیر مسلم فائض رہے ہیں۔سال 2013میںسینٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ریکنسی لیشن کے تحت کی گئی دوبرس کی طویل عرق ریزی اور جانفشانی کے بعد کی گئی تحقیق جس پرمبنی ایک کتاب ’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں‘منظر عام پر آچکی ہے ، میںجموں کے مسلمانوںکی سیاسی، سماجی واقتصادی صورتحال کے حوالہ کئی ایک سنسنی خیز اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں جوکہ آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔یہ ایسی پہلی کتاب ہے جس میں مسلمانان جموں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے لانے کی کامیاب سعی کی گئی ہے۔ صوبہ جموں میں ضلع وار مسلم افسران کی تعیناتی کاذکر کیاجائے تو 1958سے آج تک جموں ضلع میں46ڈپٹی کمشنر بنے ہیں جس میں سے صرف 3مسلم تھے،اور وہ بھی مختصر دورانیہ کے لئے .... تین مسلم ڈپٹی کمشنروں کی کل ملاکر46ماہ پر محیط تھی۔ آخری مرتبہ 1995میں خرشید احمد گنائی 11ماہ تک ڈی سی جموں رہے تھے جبکہ 1964میں ملک عبدالخالق پہلے ڈی سی جموں بنے تھے۔ کٹھوعہ ضلع میں بھی 1956سے اب تک 37ضلع ترقیاتی کمشنر ہوئے ہیں جس میں سے صرف 3 ہی مسلم تھے۔سانبہ ضلع جوکہ 2006 کو بنائے گئے تھے میں اب تک کوئی بھی ڈی سی تعینات نہیں کیاگیا جبکہ ریاسی میں کچھ عرصہ تک ڈاکٹر شاہد اقبال چوہدری ڈی سی تعینات رہے ۔ اودھم پور میں مسلم ڈی سی کی تعیناتی کی شرح 10فیصد ہی رہی ہے۔ راجوری اور پونچھ اضلاع جہاں مسلم اکثریت میں ہی قدر صورتحال بہتر رہی ہے اور یہاںتعینات ہونے والے مسلم ڈپٹی کمشنروں کی شرح 20 فیصد رہی ۔ غیر منقسم ڈوڈ ہ جوکہ اب تین اضلاع رام بن، ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع پر مشتمل ہے ،میں 67فیصد ڈی سی مسلم تعینات ہوتے رہے ہیں۔جہاں تک پولیس محکمہ کا تعلق ہے میں گر چہ جموں کے مسلمانوں کی کافی تعداد شامل ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں اہم ترین عہدوں پر فرائض انجام دہی کا کبھی موقع نہیں دیاگیا۔ جموں وکشمیر میں 121کے قریب آئی پی ایس کیڈر کے افسران ہیں ۔ مسلم کے آئی پی ایس کی تعداد 38ہے جس میں سے 13کا تعلق جموں صوبہ سے ہی لیکن کوئی بھی ڈی جی عہدہ تک نہیں پہنچا۔ اگر چہ آئی جی عہدہ سے اوپر تک مسلم افسران پہنچے مگر ان میں سے کسی کو بھی جموں کا آئی جی نہیں بنایاگیا۔ انہیں پولیس اکیڈمی، کرائم برانچ یا جیل خانہ جات یا پھر پولیس ہیڈکوارٹر میں رکھاجاتارہاہے۔ یہ حیران کن مگر تلخ حقیقت ہے جموں صوبہ کا کوئی بھی مسلم آج تک آئی جی نہیں بنا اس کے برعکس کشمیر میں غیر مسلم آئی جی کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پولیس اور سول انتظامیہ ہی نہیں بلکہ تعلیم کے میدان میں بھی جموں کے مسلم افسران کو قابلیت، اہلیت اور تجربہ سب کچھ ہونے کے باوجود اہم عہدوں پر فائض ہونے کا موقع نہیں ملا۔1969میں ایک ایکٹ کے تحت قائم کی گئی جموں یونیورسٹی خطہ کا اہم کلیدی ادارہ ہے، میں مسلم ٹیچنگ ونان ٹیچنگ سٹاف کی تعداد بمشکل3فیصد ہے۔یہ بھی شعبہ اردو کی بدولت ہے لیکن اس میں بھی غیر مسلم پروفیسر حضرات بھی ہیں۔ جموں یونیورسٹی کی 47سالہ تاریخ میںاب تک کسی مسلم کو وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ۔ اس کے برعکس کشمیر یونیورسٹی میں19میں سے 16وائس چانسلر مسلم رہے ہیں۔وائس چانسلر کی تعیناتی کا اختیار گورنر کے پاس ہوتا ہے جوکہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔گورنر موصوف سرچ کمیٹی کی طرف سے تیار پینل میں سے کسی ایک کا انتخاب عمل میں لاتے ہیں۔تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں میں اس بات کا سنسنی خیز خلاصہ کیاگیا ہے کہ جموں یونیورسٹی کےلئے بننے والی سرچ کمیٹی میں کبھی کسی مسلم افسر کا نام تک بحث کے لئے بھی شامل نہ ہوا۔ کشمیر میں مسلم اور جموں میں صرف ہندو کو ہی ترجیحی دینے کا عمل جاری ہے۔شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (سکاسٹ)جموںمیں اگر چہ ایک مسلم وائس چانسلر رہا ہے لیکن اس کا تعلق کشمیر سے تھاایک ۔سکاسٹ یونیورسٹی میں مجموعی طور وائس چانسلر سے لیکر لائبریرین ودرجہ چہارم تک بمشکل2.8فیصد مسلم ملازم ہیں۔ماتاویشنودیوی یونیورسٹی کٹرہ متعدد شعبہ جات میں پروفیسر وں کی تعدادزائد از100ہے جس میں سے محض2ہی مسلم ہیں، ایک کاتعلق کشمیر سے ہے۔ یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل یا گورننگ باڈی میں کبھی بھی کوئی مسلم چہرا شامل نہیں کیاگیا۔ اس کے برعکس باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جوکہ مسلم وقف بورڈکے تحت قائم کی گئی ہے میں مجموعی طور 25فیصد ملازم غیر مسلم ہیں۔ انتظامی سطح ڈپٹی رجسٹرار، کنٹرولر، ڈئین اکیڈمک افیئر ز جیسے اہم ترین عہدوں پر تعینات ہونے والے غیر مسلم افسران کی تعدادباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں 33فیصد ہے۔یہ مسلمانان جموں کے لئے بہت بڑا لمیہ اور حکمران وقت کے لئے بہت بڑا سوال ہے کہ آخر کیاوجوہات رہی ہیں کہ قابلیت و اہلیت کے باوجود جموں کے مسلم افسران کو سول وپولیس انتظامیہ کے اہم عہدوں سے دور رکھاگیا............؟؟
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 5717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.