یہ سب کیا ہے……؟

اپوزیشن عرصے سے خواہش مند تھی کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیدیں یا رخصتی پر کہیں چلے جائیں ۔وزیراعظم نے لندن جاکر ظاہری اور اندرونی خواہش رکھنے والوں کی دلی مراد پوری کردی،مگر اُن کی واپسی کے بعد لگتا یوں ہے کہ جو اُمیدیں کسی سے وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔وزیراعظم اپنے دل کا کامیاب آپریشن کرواکر لندن سے وطن واپس لوٹ آئے ہیں اور اَب نئی زندگی کی شروعات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارادہ رکھتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا سوہوا،مگر اَب اپنی ذات ا ور اپنی سیاست سے ملک و قوم کے لئے ایساکچھ بہترکرنے کی خواہش ہے کہ حقِ حکمرانی ادا ہو جائے ،اپنے کاندھوں پر پڑی ذمہ داریوں کے بوجھ کو صحیح طرح سے اداکریں، تاکہ جب وہ اﷲ کے حضور حاضر ہوں، تو شرمندہ نہ ہوں۔

پچھلے کئی ماہ سے اپوزیشن پانامالیکس پر وزیراعظم نوازشریف کی ذاتِ خاص کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنارہی ہے، حکمران جماعت کے کاموں اور منصوبوں پر انگلیاں اْٹھائے جانے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔اپوزیشن کی تنقید کے سلسلے کوفوری طور پر رکوانے پر کام جاری ہے ، اِس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی اوآرز کے معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کے لئے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خاص وفاقی وزرا ء کو یہ خصوصی ہدایت دی ہے کہ وہ ٹی اوآرز پرحکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک بارپھر اتفاقِ رائے پیداکرنے کی کامیاب کوشش کریں۔کہیں ایسانہ ہوکہ پھر بغیر نتیجہ نکلے وہی کچھ ہو،جیساکہ کچھ عرصہ قبل ہواتھا ۔

اِس وقت ملک کئی چیلنجز سے نبردآزما ہے،اس لئے احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ اپوزیشن سے رابطہ کیاجائے ، ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘کی پالیسی کو اپناتے ہوئے پانامالیکس پر ٹی اوآرز کا معاملہ حل کرکے اِسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منوں مٹی تلے دفن کردیاجائے ۔ویسے بھی اس کی اہمیت ایک سیاسی نمبر سکورنگ سے بڑھ کر نہیں رہی ۔حکومت 2018ء تک کسی الجھن میں پڑے بغیر اگلے الیکشن کی تیاری کرنا چاہتی ہے، آزاد کشمیر کے انتخابات کی کامیابی سے حکومت کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں۔اپوزیشن اس صورتحال سے باخوبی واقف ہے،وہ ہر صورت حکومتی شیشے کے محل کو زمین بوس کرنا چاہتی ہے اور کرپشن کے خلاف تحریک چلا کر اسی سال الیکشن کروانا مقصود ہے ۔

وزیراعظم نواز شریف کو لندن میں دل کے آپریشن سے واپسی کے بعد آزاد کشمیر میں ان کی پارٹی کی واضح کامیابی کی صورت میں پہلا سیاسی ریلیف ملا ہے ،ان انتخابات کا ملکی سیاسی حالات اور خصوصی طور پر وزیراعظم نواز شریف کو سیاسی دباؤ سے نکلنے کے حوالے سے مثبت اثر پڑے گا ،جس سے آنے والے دنوں میں وہ سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں آسکتے ہیں اور عمران خان کی نئی سیاسی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے اپنی سیاسی مہارت سے پیپلزپارٹی اور دیگر بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا سکتے ہیں ۔عمران خان نے 17 اگست سے حکومت کے مخالف تحریک کا اعلان کر دیا ہے ۔اس کے فوراً بعد حسب عادت پیپلز پارٹی نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس بدلتی صورت حال سے بظاہر عمران خان کی تحریک کو نقصان بھی ہوسکتا ہے ،لیکن مجموعی طور پر عمران خان سیاسی طور پر ’’سولوفلائٹ‘‘ کے حوالے سے اپنی کئی خامیوں کو دور کر کے بہتر پوزیشن میں آسکتے ہیں ۔حکومت کی طرف سے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ جوڑ توڑکی سیاست عروج پر ہے،دیکھیں حکومتی اراکین کے رابطوں اور رویوں کے بعد اپوزیشن والے اپناپینترابدلتے ہیں یا حکومت پر اپنادباؤ بڑھاکر اپوزیشن سے اپنے سارے جائزو ناجائز مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، کون کس پر حاوی رہتا ہے یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا۔

فی الحال آگے آگے دیکھیئے کس میں کتناہے دم اور کون کتناسنبھل کرقدم رکھتاہے ، اِس کے ساتھ ہی اپوزیشن نے حکومت پر خوشامدانہ انداز اپناتے ہوئے دباؤ بڑھانے کے لئے یہ بھی کہہ دیاہے کہ حکومت گڑے مردے اْکھاڑنے کے بجائے پانامالیکس کی تحقیقات کرائے،وزیراعظم ڈیڈلا گ ختم کرائیں۔اپوزیشن لیڈر نے ایان علی ، ڈاکٹرعاصم ، یوسف رضاگیلانی اور پرویزاشرف کے حوالوں سے ڈیل کی خبروں کو بھی بے بنیاد قرار دے دیاہے‘‘اِس صورتحال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے پانامالیکس اور ٹی اوآرز کا فضول ایشوبنارکھاہے ،اصل میں بات یہ ہے کہ اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی والے پانامالیکس پر حکومت کو بلیک میل کرناچاہ رہے ہیں ۔ ا یان علی ، ڈاکٹرعاصم ، یوسف رضاگیلانی اور پرویزاشرف جیسے کرپٹ افراد کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، اگر ایسانہیں ہے تو پھریہ سب کیا ہے……؟عوام پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے جانناچاہتے ہیں کہ پانامالیکس اور ٹی او آرز کا اصل کھلواڑ کیا ہے؟

حکو مت بمقابلہ اپوزیشن ایک اور میچ شروع ہو چکا ہے ،کہا جارہا ہے کہ بال حکومت کی کورٹ میں ہے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اپوزیشن کی کورٹ میں پھینکنے میں کا میاب ہو جاتی ہے ۔اس کھیل میں کوئی تیسرا بھی شامل ہو سکتا ہے ۔اپوزیشن عمران خان کی تحریک سے لا تعلق ہو کر کبھی بھی پانامالیکس سے تعلق ختم نہیں کر سکتی ۔اگر وہ منفی عمران خان حکومت سے کوئی سمجھوتہ کرتی ہے ،تو وہ ردی کا ٹکڑا ہو گا۔خورشید شاہ ایک بار پھر حکومت کے لئے نجات دھندہ بنتے نظر آرہے ہیں،مگر شاید بلاول بھٹو انہیں اتنی اجازت نہ دیں،آصف علی زرداری بھی اس پوزیشن میں نظر نہیں آرہے۔اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،یہ تو آنے والا وقت اور حالات ہی بتائیں گے،مگراس بار تیسری قوت تمام حالات وواقعات کا بغور مطالعہ کر رہی ہے اور وہ کسی صورت ملکی مفادت کے خلاف ریلیف دینے کے موڈ میں نہیں ہے،اس لئے تحریک کا انجام کچھ بھی ہو ،مگر نتائج مختلف ہو ں گے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.