ترکی:ناکام انقلاب کے بعد کا منظرنامہ!

 گزشتہ15،16جولائی کی درمیانی شب میں ترکی فوج کے ایک جتھے کی جانب سے وہاں کی حکومت کوہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی،جسے سربراہِ مملکت کے ذہنی استحضار،دانش مندی اور وہاں کے دلیرعوام کے پختہ سیاسی شعور نے ناکام بنادیا۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا،جوشعلۂ مستعجل کی مانند اچانک رونماہوااور پھر اچانک ہی انجام پذیر بھی ہوگیا،ترکی کی موجودہ سیاسی و اسٹریٹیجک حیثیت کے پیشِ نظردنیاکے بیشتر بڑے چھوٹے ممالک کی نگاہیں وہاں کے حالات پر ٹکی ہوئی تھیں کہ دیکھیے یہ رات کیسی صبح لاتی ہے،میڈیاکے ایک طبقے نے تویہ طے بھی کرلیاتھاکہ ترکی کے صدررجب طیب اردوگان کوملک چھوڑکربھاگناہوگا،حتی کہ مصری میڈیاتویہاں تک کہنے لگاتھاکہ اردوگان نے فلاں ملک سے پناہ گزینی کی درخواست بھی کی ہے،جسے اس نے مسترد کردیاہے۔بہرکیف اب وہ انقلاب اپنی موت آپ مرچکاہے،وہاں کے حالات بظاہر قابومیں ہیں،سڑکوں،بازاروں اور دفاترمیں لوگ حسبِ معمول اپنی مصروفیات میں سرگرم ہیں، البتہ ترکی حکومت آیندہ زمانۂ قریب یابعید میں کسی بھی قسم کے حکومت مخالف انقلاب کے امکان کو معدوم کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے؛کیوں کہ ترکی سمیت دنیاکے بہت سے سیاسی تحلیل کاروں کاایساکہناہے کہ فوجی انقلاب کی یہ کوشش آخری نہیں ہوگی،آیندہ بھی ایساہوسکتاہے اور ترکی کی سیاسی تاریخ میں متعددفوجی انقلابات رونماہوبھی ہوچکے ہیں،یہ تواردوگان حکومت کی حصولیابیاں اور عوام کے دلوں میں ان کے تئیں پایاجانے والااعتماداور مقبولیت ہے، جس کی وجہ سے دنیانے گویاایک بالکل غیر متوقع واقعے کامشاہدہ کیاکہ انقلاب کے علمبردارفوجی اہلکاروں کے جیب و گریباں عوام کے ہاتھوں میں تھے اورمنتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے جرم میں انھیں بروقت سزاملی۔

اس انقلاب کے ناکام ہونے کے بعدفوج،عدالت اور تعلیم کے شعبوں سے جڑے ہزاروں ایسے افراداپنے عہدوں سے معزول یاگرفتارکیے جاچکے ہیں، جو اس انقلاب کی کوشش میں ملوث تھے،جوفوجی گرفتارہوئے ہیں،ان کے بارے میں بھی جلد طے ہونے والاہے کہ انھیں کیاسزاملنی چاہیے ۔آنے والے دنوں میں کسی انہونی کے اندیشے کودورکرنے کے لیے ترکی حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیاہے؛چنانچہ قومی سیکورٹی کونسل کی میٹنگ کے بعدیہ طے کیاگیاکہ آیندہ تین ماہ کے لیے ترکی میں ایمرجنسی نافذکردی جائے ؛چنانچہ 21جولائی کوترک پارلیمنٹ کے346ممبران کی حمایت کے بعدوہاں ایمرجنسی نافذکردی گئی ہے،صدراردوگان کا کہناہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیاگیاہے کہ ترکی میں جمہوریت اور عوامی حقوق کودرپیش خطرات سے جلداور مؤثرطریقے سے نمٹاجاسکے،نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی نے حکومت کے موقف کی تاییدکی ہے ،البتہ بائیں بازوکی ریپبلیکن پپیلزپارٹی اور کردی النسل عوام کی نمایندگی کرنے والی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے اس تجویزکی مخالفت کی ہے،حالاں کہ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے دونوں پارٹیوں کے سربراہوں سے فون کرکے حکومت کی حمایت میں کھڑے ہونے کی اپیل کی تھی؛لیکن انھوں نے انکارکردیا،ان کا کہناہے کہ ترکی کے حالات کوقابوکرنے کے لیے ایمرجنسی کی بجاے پارلیمنٹ میں متفقہ طورپرکوئی تجویزپاس کرکے اس پر عمل درآمدکی جاسکتی تھی،ان کے مطابق ایمرجنسی کانفاذبھی خطرات سے خالی نہیں ہے اوراس کی وجہ سے صدرکوغیر معمولی اختیار ات حاصل ہوں گے،جن کی وجہ سے عوامی حقوق و مفادات پر ضرب پڑسکتی ہے اورجمہوری اداروں کے تشخص پرحرف آسکتاہے،حالاں کہ دوسری جانب الجزیرہ کے ایک عوامی سروے کے مطابق خود وہاں کے عوام بھی حکومت کے فیصلے سے مطمئن نظرآرہے ہیں ،انھیں اپنے حقوق یا سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی اندیشہ نہیں ہے؛بلکہ عام طورپرترکی عوام کی رائے یہ ہے کہ آیندہ کے حالات کوقابومیں رکھنے کے لیے حکومت کایہ فیصلہ صحیح ہے ۔ سیاسی، اقتصادی و سماجی تحقیقات کے معروف ادارہ’سیتا‘کے اسکالرجان آجون نے اپنے ایک انٹرویومیں کہاکہ چوں کہ انقلاب کی کوشش کرنے والے عناصر کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کوایسے فوری اور مؤثراقدامات کرنے ہوں گے،جوعام حالات میں ممکن نہیں ہیں؛اس لیے ہنگامی حالت کانفاذدرست ہے، ان کا کہناتھاکہ ایمرجنسی کی وجہ سے فوج کے اختیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا؛بلکہ ملک میں جمہوریت کومضبوط رکھنے کے حوالے سے تجاویزواقدامات طے کرنے اورملک مخالف عناصرکے خلاف موزوں کارروائی کرنے میں آسانی ہوگی۔ترک تجزیہ کاروحیدالدین انجہ کابھی کہناہے کہ فوج کاایمرجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا،دستور کے مطابق بھی حکومت فوج کے قبضے میں نہیں ہوگی،بلکہ اس سے شہریوں کے حقوق،پولیس نظام میں مضبوطی آئے گی اورہرعلاقہ وہاں کی مقامی انتظامیہ کے ہی کنٹرول میں ہوگا،اس سے عوام کی آزادی وحقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،البتہ سرکاری اداروں میں رہ کر حکومت کے خلاف سازشیں رچنے والے عناصرپر لگام لگاناآسان ہوگا۔ ترک میڈیابھی حکومت کے فیصلے سے مطمئن ہے اورایمرجنسی کوملک کی جمہوریت برقراررکھنے کے حوالے سے مثبت مان رہاہے۔

البتہ ترکی کے اس فیصلے سے مغرب کے پیٹ میں مروڑاٹھنے لگاہے،جہاں امریکہ نے ترکی کو انقلابی عناصرکے خلاف کارروائی میں قانون کومدِنظررکھنے کی تلقین کی ہے، وہیں یورپی یونین نے تعلیم،عدلیہ اور میڈیاکی صورتِ حالت کے تئیں بے چینی ظاہر کرتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذکوناقابلِ قبول بتایا ہے، اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون بھی انقرہ کوحقوقِ انسانی کے احترام کی’پاٹھ‘پڑھاتے نظرآرہے ہیں اورآسٹریانے اپنے ملک میں موجودترک سفیرکو بلا کر ایمرجنسی کے خلاف احتجاج بھی درج کروایاہے۔
انقلاب کی کوشش کرنے والے جوہزاروں افرادگرفتارکیے گئے ہیں،ان کی سزاکے حوالے سے بھی حکومت کایہ کہناہے کہ اس کا فیصلہ ترک پارلیمنٹ کرے گی،ویسے وہاں کے عوام کامتفقہ مطالبہ یہ ہے کہ ایسے عناصرکودارپرچڑھادیناچاہیے،البتہ صدراردوگان کاکہناہے کہ ان کی حکومت پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق عمل کرے گی اوراگر پارلیمنٹ کی اکثریت ان لوگوں کی پھانسی کی تجویزپیش کرتی ہے،تووہ اس کی تاییدکریں گے۔پھانسی کی سزاکی بحالی کے اشاروں کے بعدیورپی یونین نے ترکی کودھمکی دی ہے کہ اگرایساہواتوترکی کے یورپی یونین میں شامل کی راہیں مسدودہوجائیں گی،اردوگان نے ایک انٹرویوکے دوران اس کا دوٹوک جواب دیاہے ،انھوں نے کہا’ دنیایورپی یونین میں سمٹی ہوئی نہیں ہے‘،اسی طرح فرانس نے بھی انقلاب کی ناکامی کے بعدترکی حکومت کے اقدامات پرتنقیدکی ہے،فرانسیسی وزیر خارجہ جان مارک ایرولٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ناکام انقلاب کی وجہ سے ترک صدر کو ’بلینک چیک‘نہیں حاصل ہوگیاہے کہ وہ جمہوری اصولوں اورانسانی حقوق کی پامالی کریں۔فرانس کایہ کہناحیرت انگیزہے؛کیوں کہ خودفرانس میں گزشتہ سال دہشت گردانہ حملے کے بعد نومبرسے ہی ایمرجنسی نافذکی گئی تھی،جواب تک جاری ہے اورکم ازکم اگلے سال جنوری تک رہے گی،ایسے میں فرانس کی تنقیدمیں دم کہاں رہ جاتاہے،ویسے فرانسیسی وزیرِخارجہ کے بیان کاجواب بھی اردوگان نے بڑاہی معنی خیزدیاہے،انھوں نے کہاکہ’اولاً مجھے پتہ نہیں کہ فرانسیسی وزیرخارجہ نے کیاکہاہے اوراگرانھوں نے یہ بات کہی بھی ہے،توجس طرح فرانس ہمیں جمہوریت کادرس دے رہاہے،اسی طرح ہم بھی اسے جمہوریت کا درس دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔

رجب طیب اردوگان کی یہی وہ ادا،اندازِگفتگو،ذہن کا استحضار،دم دارطرزِتخاطب اورقول و عمل میں ہم آہنگی ہے،جس سے مخالفین گھبرائے ہوئے ہیں۔ اردوگان نے گزشتہ پندرہ سالوں میں ترکی کوکہیں سے کہیں پہنچادیاہے،تعلیم سے لے کر اقتصادتک کے شعبوں میں بے پناہ ترقی حاصل ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام ان کوسراہتے ہیں اوروقت پڑنے پراپنے صدرکے تحفظ کے لیے ٹینک کے سامنے لیٹ جانے تک کا جذبہ رکھتے ہیں،ایک طویل عرصے کے بعداردوگان کی حکومت میں عوام کوآزادی کی سانس لینے کاموقع میسرآیاہے؛اس لیے وہ کسی بھی قیمت پراسے ضائع نہیں ہونے دیناچاہتے،زمینی سطح پر کیا کیا خوشگوارتبدیلیاں رونماہوئیں یاہورہی ہیں،وہ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں؛اس لیے وہ اپنی حکومت کے دفاع میں جان تک کی بازی لگادینے کوآمادہ ہیں۔اردوگان اپنے ملک اور ترک عوام کی ہی نمایندگی نہیں کرتے؛بلکہ جب وقت اور موقع آتاہے تووہ فلسطین،عراق،شام،مصر،برمااوردنیابھر کے مسلمانوں کی آوازبن کر مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے اور حق و انصاف کی راہ میں کوئی سمجھوتانہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چندسالوں میں اردوگان کی مقبولیت کادائرہ ترکی کی حدودسے نکل کرعالمی سرحدوں میں داخل ہوچکاہے ،جس کا مشاہدہ ہمیں 15جولائی کوہواکہ جب پتہ چلاکہ ترکی میں چندطالع آزمافوجیوں کاایک گروہ اردوگان کے خلاف علمِ بغاوت کررہاہے،توجہاں ترکی کے عوام اپنی منتخب جمہوری حکومت کے دفاع میں سڑکوں اور میدانوں میں نکل پڑے،وہیں سوشل میڈیاکے ذریعے پوری دنیاکے مسلمانوں نے اردوگان کی تایید وحمایت میں ایک تحریک چھیڑدی، ہر چہار جانب سے ان کی نصرت وحوصلہ مندی کے لیے دعائیں کی جانے لگیں اوربالآخرترکی کی جمہوری اسلامی حکومت ہی سرخرورہی۔

یورپی یونین،امریکہ،اقوامِ متحدہ یاکوئی اورمغربی ملک ترکی کوترقی و خوشحالی اورامن و امان کی اس پٹری سے اتارناچاہتے ہیں،جس پر وہ پورے استقلال کے ساتھ گامزن ہے،حالیہ دنوں میں ترکی کے مختلف مقامات پرجوداعش نامی پراسرارگروہ کی جانب سے حملے ہوئے،وہ درحقیقت اسی کاحصہ تھے،یہ طاقتیں دل و جان سے یہ چاہتی ہیں کہ انھوں نے جس کامیابی اورمکاری کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کوجہنم زاربنادیاہے ،کسی طرح ترکی بھی اسی کاحصہ بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب انقلاب کی ابتدائی خبریں آئیں،توانھوں نے فوراً وہاں کی جمہوری حکومت کی تاییدکرنے کی بجاے حالات کاانتظارکیا،وہ یہ چاہتے تھے کہ ترکی میں وہی کھیل ہوناچاہیے،جومصرمیں السیسی اینڈکمپنی نے کھیلاتھا؛لیکن مصراورترکی کے حالات میں زمین آسمان کافرق تھا،سوان کی آرزوبس آرزوہی رہ گئی۔ہماری دعاہے کہ آنے والے ایام ترکی کی جمہوری حکومت اوروہاں کے شیردل،پرعزم اورباشعورعوام کے لیے پرامن اورخوش کن ثابت ہوں۔
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 22058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.