پرندوں کے پر کاٹنے کی کوشش

پر کاٹنے کی کوشش اس وقت ہوتی ہے جب کوئی حد سے زیادہ پرواز کرنے لگے اور اس کے پرواز سے خطرہ لاحق ہوجائے ۔لیکن آج کل یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کہیں نہ کہیں مشکوک ہے ۔ایک نظریہ کی تبلیغ اور تشہیر کے لئے سب کچھ جائز اور دیگر نظریات پر بند لگانے کی ہر ممکن کوشش ،یہ کسی بھی معاشرہ کے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔اسی واقعہ کا ہم بی بی سی اردو کے مطابق جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔’’ ہدایتکار انوراگ کشیپ کی فلم ’اڑتا پنجاب‘ ان دنوں میڈیا میں زبردست بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔یہ فلم پنجاب میں نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی نشے کی لت پر بنی ہے اور17 جون کو ریلیز ہو رہی ہے۔لیکن ریلیز سے قبل مرکزی حکومت کے سرٹیفیکیشن بورڈ نے اس فلم کا نہ صرف نام بدلنے کی ہدایت کی بلکہ اس میں ’ایم پی‘ اور ’ایم ایل اے‘ جیسے الفاظ سمیت کم از کم 89 مناظر کو کاٹنے کا بھی حکم دیا ہے۔بورڈ کے سربراہ فخریہ طور پر خود کو وزیر اعظم نریندر مودی کا مداح بتاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ اس فلم کو بنانے کا پیسہ عام آدمی پارٹی نے دیا ہے۔پنجاب میں آئندہ چند مہینوں میں صوبائی اسمبلی کیانتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں فی الوقت عوام میں بی جے پی اور اکالی دل کیاتحاد کی حکومت کے خلاف خاصی ناراضگی پائی جاتی ہے۔سرٹیفیکیشن بورڈ نے شاہد کپور اور عالیہ بھٹ کی فلم ’اڑتا پنجاب‘ کو ریلیز کرنیکی اجازت دینے سے پہلے اس کا نام بدلنے اور فلم کے کئی مناظر کاٹنے کی جو ہدا یت دی ہے اسے بالی وڈ کے معروف اداکاروں اور ہدایت کاروں نے مسترد کرتے ہوئے اسے تخلیقی اور اظہار کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ملک میں اظہار کی آزادی کے حوالے سے ایک دیگر واقعہ بھی زیر بحث ہے۔پچھلے دنوں بھارتی جنتا پارٹی کی رہنما اور سخت گیر ہندو نظریات کی حامل وشو ہندو پریشد سے وابستہ سادھوی پراچی نے کہا ’وقت آ گیا ہے ملک کے مسلمانوں کو انڈیا سے باہر نکالا جائے۔‘ ان کے اس بیان پر بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے کہا کہ وہ اس بیان سے متفق نہیں ہیں لیکن غیر بی جے پی جماعتوں اور بعض مسلم رہنماؤں کی جانب سے سادھوی پراچی کے بیان کی سخت مذمت کی گئی اور اسے ہندوئیت کے وسیع تر ایجنڈے کیطور پردیکھا گیا۔ی جے پی کے کئی رہنماؤں اور سخت گیر ہندو جماعتوں کی جانب سے ماضی میں بھی غیر جمہوری نوعیت کے مسلم مخالف بیانات آتے رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل بی جے کے ایک شعلہ بیان رکن پارلیمان سادھو نے مسلمانوں کو برما کے روہنجیا مسلمانوں کی طرح بے ملک کر دینے کی وارننگ دی تھی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانات اظہار کی آزادی کے دائرے میں آتے ہیں۔؟جمہوریت اور اظہار کی آزادی کے علمبرداروں اور مبصرین کا خیال ہے جب تک کوئی گروپ اور فرد کسی کے خلاف براہ راست تشدد کے لیے نہ اکسا رہا ہو یا تشدد کی دھمکی نہ دے رہا ہو تب تک اسے اظہار کی آزادی کے تحت لینا چاہیے اور اس کا جواب تحریروں اور بیانوں سے دیا جانا چاہیے۔پوری دنیا میں ان دنوں حکومتیں اور مختلف گروپ اظہار کی آزادی کو کسی نہ کسی طرح دبانیکی کوشش کر رہے ہیں۔ ترکی، روس، پاکستان، عرب اور چین جیسے ممالک میں اظہار پر قابو رکھنے کیالگ الگ قوانین ہیں۔ کئی ممالک میں نظریاتی مخالفین کو قتل اور ایذا رسانی کیذریعے دبایا جاتا ہے۔انڈیا میں بھی اظہار کی آزادی پر قابو پانے کیلیے قانون بنا ہوا ہے۔ کچھ عرصے سے سخت گیر مذہبی تنظیمیں مخالف اور تنقیدی خیالات کو دبانے اور بحث ومباحثے پر روک کے لیے ’مذہبی جذبات مجروح‘ ہونے کا حربہ استعال کر رہی ہیں۔بھارتی جمہوریت میں اب یہ تنظیمیں اس بات پر مصر ہیں کہ انھیں اس بات کا حق ہے کہ ان کیجذبات کوئی مجروح نہ کرے۔ ملک میں ان کیاس حق کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پر نظر رکھنیاور اس کینفاذ کے لیے بھی ادارے چاہئیں۔اسی لیے کبھی فلم سنسر کی جاتی ہے۔ کبھی فیس بک پر کسی بیان کو ’لائیک‘ کر دینے پر جیل ہو رہی ہے تو کسی کو کسی ویب سائٹ پر جانے سے مشتبہ دہشت گرد تصور کیا جا رہا ہے اور کبھی کسی کے بیان کی بنیاد پر اسے گرفتار کرنے کی مانگ ہوتی ہے۔بھارت سے لیکر روس اور امریکہ تک ہر معاشرہ اس وقت اقتصادی، سیاسی اور سماجی سطح پر شدید دباؤ اور تبدیلیوں کیدور سے گزر رہا ہے۔ اظہار کی آزادی بھی اس تغیر کی زد میں ہے لیکن چونکہ آزادی ایک فطری حق ہے اس لیے اسے طویل عرصے تک قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.