KPKمیں بلا امتیاز احتساب کا نعرہ اور باغی گروپ

وزیراعلی کے پی کے فرماتے ہیں کہ ہم اور ہمارے اتحادی بے رحم احتساب پر متفق ہیں۔ ہم احتساب کے سلسلے میں مشترکہ وژن رکھتے ہیں اور صوبے میں شفافیت اور عوامی فلاح و بہبود پر مبنی موثر طرز حکمرانی کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ ان کے اپنے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور مشیران جن میں ایم این اے داوڑ کنڈی، جنید اکبر، خیال زمان ، کرنل امیر محمد، ساجد نواز، باغی رکن اسمبلی یاسین خلیل، مشیران، وزیراعلی عبدالحق، شکیل خان فرماتے ہیں کہ وزیراعلی پرویز خٹک صوبہ میں احتساب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ا نہوں نے الزام لگایا کہ جس تبدیلی کے نعرے کے ساتھ 2013ء میں کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آئی ا س نعرے کو زیر اعلی اور اسکی کابینہ نے رسوا کرکے رکھ دیاہے۔ وزیراعلی اپنے چار کے ٹولے جن میں عاطف خان، شہرام ترکئی، اسد قیصر شامل ہیں کے ذریعے سے پوری صوبائی حکومت کو چلارہے ہیں۔ صوبہ بھر کے ترقیاتی فنڈز کو انصاف کی حکومت نے ناانصافی کرتے ہوئے نوشہرہ ، دیر، مردان اور صوابی تک محدود کردیاہے۔ وزیراعلی ممبران سے ملاقات کی بجائے انہیں افسر شاہی کے ذریعے تنگ کرتے ہیں من پسند افراد میں فنڈز کی بندر بانٹ کی جارہی ہے باغی اراکین کے مطابق ہم نے عمران خان سے ملاقات میں تمام تر صورتحال بتائی۔ انہوں نے عمران خان کو قائل کیا کہ انٹر اپارٹی الیکشن میں کوئی ٹانگ نہیں اڑائے گا۔ احتساب کا عمل بے داغ افسران کی خدمات حاصل کرکے شروع کیاجائیگا اگر پھر بھی ہماری شنید نہ ہوئی تو ہم اضلاع بھر میں ورکرز کنونشن کاآغاز کرکے انہیں اصل حقائق سے آگاہ کریں گے۔

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف مذکورہ الزامات ان کی کوئی مخالف سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ان کے اپنے ممبران اسمبلیوں او رمشیران کے ہیں جس کی صداقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن صوبہ کی صورتحال اور کرپشن ، بدنظمی میں آئے دن اضافے کی رفتار کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی جماعت کے اپنے لوگ ان کے ایجنڈے پر جو تبدیلی کا تھا عمل پیرا نہیں ہیں۔ پھر دوسرے حلیفوں، افسر شاہی کو کیا پڑی کہ وہ عوام کا درد اپنے سر لیں۔ پی ٹی آئی کی تبدیلی کے نعرے کے اثرات شروع کے چندماہ میں نظر آئے لیکن بعد ازا ں یہ اثرات، بلا امتیاز احتسابی نظام نہ ہونے اور احتسابی اداروں جن میں انٹی کرپشن اور صوبائی احتسابی ادارہ قابل ذکر ہیں ، کی خراب کارکردگی کے باعث زائل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ احتسابی نظام کی ناکامی کے ساتھ ساتھ انتظامی بدنظمی کا شکار بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس کی طرف کوئی توجہ مرکوز نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی نئی صحت پالیسی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے لیکن 3سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ پالیسی شروع نہ کی جاسکی ہے۔ صحت کے نئے نظام کے تحت بورڈ آف گورنر اور بورڈ آف ڈائریکٹر کے ممبران کے چناؤ میں سیاسی مداخلت نے شروع ہونے سے پہلے ہی سوالیہ نشان کھڑ اکردیاہے من پسند ڈاکٹروں کو اور ایسے ممبران کو چنا جارہاہے جسکا متعلقہ شہر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے ہسپتالوں کو مذبحہ خانہ بنادیاہے۔ تین سال گزرنے کے باوجود ہسپتالو ں کو مطلوبہ ڈاکٹرز مہیا نہیں کئے جاسکے ہیں اوپر سے پچھلی تاریخوں میں بغیر میرٹ کے بھرتیاں بھی عروج پر ہیں۔ میلوں اور ٹھیلوں کے نام پر سرکاری خزانے کو چونا لگایا جارہاہے۔ جن چند بڑے شہروں میں پانی، صفائی کیلئے WASA کا نیا نظام متعارف کروانے کا سلسلہ دو سال قبل شروع کیا گیا وہ تاحال تعطل کا شکار ہے۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کے ممبران صوبائی اسمبلیوں نے اپنے من پسند لوگوں کو ممبر بناکر جنکا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نئے نظام کی پیٹھ میں شروع سے چھرا گھونپ کر اسے متنازعہ بنادیاہے۔ پولیس میں بہتری کے دعوے بہت کئے جارہے ہیں اسے سیاست سے کچھ حد تک دور رکھا گیا ہے لیکن پولیس کی کارکردگی اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس میں موجود کالی بھیڑوں کو نکالانہیں جاتا۔ آئی جی پی کے پی کے ، DRC کے نظام کو ہر ضلع کی سطح پر متعارف کرادیا اس نظام کے تحت لوگوں کے خاندانی، اراضی، رقوم، مذہبی مسائل بغیر کسی معاوضہ کے حل ہورہے ہیں۔ صوبہ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں باہمی رضامندی سے فیصلے کرکے لوگوں کو تھانے کچہری سے خلاصی دلائی گئی ہے لیکن تھانہ کی سطح پر SHO حضرات اس نظام کو کباب میں ہڈی سمجھ کر اسے شروع دن سے ناکام کرنے کے در پہ ہیں۔ جن کے بارے میں بار بار شکایات کے باوجود کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو DRC کا متعارف کردہ نظام جسکا کریڈٹ وزیراعلی اور IGPلیتے نہیں تھکتے، آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھودے گا ۔ کرائم کی شرح اور ٹارگٹ کلنگ میں ڈیرہ جیسے حساس شہر میں اضافہ ہورہاہے لیکن کوئی بھی ٹارگٹ کلر تاحال گرفتار نہیں ہوسکا۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے عمران خان کے دعوے صرف دعوے ہی ثابت ہورہے ہیں۔ ابھی تاحال میں پی ٹی آئی کی حلیف جماعت قومی وطن پارٹی کے اکابرین نے ڈیرہ کے ایک گاؤں میں سیای جلسے پر سرکاری خزانے سے لاکھوں اڑادئے۔ 2007ء میں محکمہ تعلیم ڈیرہ میں سکولوں میں فرنیچر کی خریداری میں کروڑوں کا غبن کیاگیا لیکن صوبائی حکومت احتساب میں کتنی مخلص ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کرپشن کے خلاف انکوائری میں مبینہ کرپٹ افسر کو ہی انکوائری تھمادی دئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے اپنے MNA داوڑ خان کنڈی نے کئی صوبائی محکمہ جات میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے خلاف محکمہ انٹی کرپشن ڈیرہ میں 16 درخواستیں دائر کررکھی ہیں۔ انہوں نے راقم کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی غلط پالیسیوں، کرپشن کے خلاف 5قومی اسمبلی اور 9صوبائی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ کئی مشیران اور اہم رہنما ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارا مقصد حکومت کو اپنے ایجنڈے کے مطابق چلانا ہے ۔ حکومت احتساب میں مخلص نہیں ہے جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ 4ماہ سے صوبائی احتساب کمیشن کا DGاور 3ماہ سے محکمہ انٹی کرپشن کے ڈائریکٹر کی تقرری نہیں ہوسکی ہے۔ وزراء کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ خیبر بینک کرپشن کیس کی تفتیش کیلئے کوئی باقاعدہ کمیٹی نہ بنائی گئی ہے ۔ ہائی کورٹ کے جج سے غیر جانبدارانہ انکوائری کروائی جاتی۔ داوڑ خان کنڈی ایم این اے کے بقول عمران خان احتساب اور خاص کر ترقیاتی فنڈز کی صرف چار شہروں میں بندر بانٹ پر خوش نہیں ہیں۔ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اگر ہماری گذارشات پر عمل درآمد نہ ہوا تو باغی گروپ کے اراکین میں آئے روز اضافہ ہوگا اور ورکرز کی آگاہی مہم کا آغاز کیاجائیگا۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.