وزیر اعلیٰ پنجاب کا بچوں کیلئے اقدام

نو ن لیگ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی حکومتی عرصہ مغل بادشاہوں سے بھی زیادہ بن گیا یعنی تقریباً 30سال سے پنجاب پر حکمران بنے بیٹھے ہیں جس میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کا یہ اٹھ سالہ مسلسل حکومت بھی شامل ہے لیکن ان اٹھ اور تیس سال کی حکومتی کار کردگی دیکھی جائے تو پنجاب میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ، سرکاری اسکولوں کو بہتر کرنے کے بجائے انہوں نے نئے اسکول دانش اسکول کے نام سے شروع کیے جو اب قصہ پارینہ بن گیا ہے اس طرح صحت کے شعبے اور ہسپتالوں کو بہتر بنانے کے بجائے صحت کارڈ متعارف کرایا ، نوجوانوں کو روزگار دینے کیلئے گاڑیوں کی کارخانے شروع کرنے کے بجائے ، شہباز شریف نے پیلی اور بلیک ٹیکسی سکیم شروع کی۔پولیس میں اصلاحات کی بجائے مزید تباہ اور سیاسی بنا دیا گیاجس کی وجہ سے کرائم کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوئے ، پولیس لوگوں کے ساتھ تعاون کے بجائے تشدد اورمار پیٹ میں ملو ث ہوتی ہے۔ملک بھر میں زیادہ تر ملوٹی اشیاء زیادہ تر دودھ پنجاب سے سمگلنگ ہوتا ہے لیکن اس کو روکنا والا کوئی نہیں، دونمبر نہیں بیس نمبر دوائی بنانے کا مرکز پنجاب بنا ہے جس کی وجہ سے لوگ صحت مند ہونے کے بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس کو روکنے کی بجائے حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ قبضہ گروپ ، بھتہ خور ، ٹارکٹ کلر سمیت مذہبی فرقہ پرست پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھتا نہیں۔ صاف پانی کا مسئلہ پورے پنجاب کا نہیں بلکہ لاہور میں بھی صاف پانی دستیاب نہیں ۔ صٖفائی کا سسٹم پنجاب کے بڑے شہروں کے علاوہ درالحکومت لاہور میں نا گفتہ بہ ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والاصوبہ پنجاب میں نوجوانوں کو روزگار دینے کیلئے کوئی بندوبست یا سکیم نہیں۔ پنجاب میں مسلسل حکمرانی کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کا جمہوریت سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ انصاف کی عدم فراہمی اور امیر و غریب کے لئے انصاف میں فرق نے عام ادمی کو مایوس کر دیا ہے۔لاہور،فیصل آباد ، سیالکوٹ ، راولپنڈی اور لاہور کے علاوہ پنجاب حکومت کہی نظر نہیں آتی ۔ ملک کا مستقبل بہتر کرنے ، زراعت اور معاشی تر قی کے منصوبے پنجاب بھر میں کہی بھی نظر نہیں آتے، بے روزگاری اور تنگ دستی کی وجہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہے ، خواتین بچوں کا پیٹ پلانے کیلئے اپنی عزتیں نیلام کر رہی ہے لیکن ان سب کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب میں آرڈر جاری کیا کہ جس دوکان یا کارخانے اور فیکٹری میں بچے کام کریں گے تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی ، پہلے یہ کارروائی صرف والدین کے خلاف تھی لیکن اب یا کارروائی روزگار دینے والے مالک کے خلاف بھی ہوگی، وزیر اعلیٰ پنجاب کچھ ماہ پہلے ایک اینٹوں کے بھٹے پر گئے وہاں کام کرنے والے بچوں کو دیکھا تو ان کوکہا کہ پڑ ھنا چاہتے ہوں انہوں نے کہا ہاں جی جس پر وزیراعلیٰ نے ان کے والدین کو حکم جاری کیا کہ ان کو اسکول بھیجوادوں ، ان سے یہاں کام نہ لوں ، اس طرح ایک اور جگہ گئے جہاں معصوم بچے کام کررہے تھے وہاں بھی اس طرح کے آرڈر جاری کیے کہ بچوں سے کام نہ لوں اور جو مالک ان کو کام پر رکھے گا ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی ۔

اب بادشاہ سلامت کو کون سمجھیں کہ دنیا میں بچے ہی تمام والد ین کو یکساں عزیز ہوتے ہیں ، ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکون دیں ، ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں ،ذرہ تصور کریں ان والدین پر کیا بیتے گی جو اپنے معصوم بچوں کو کھلوانوں کے بجائے ورکشاپ میں پلاس اور ہتھوڑی دیں یا ان کی ماں ان کو اینٹوں کے بھٹی میں کام کرنے پر لگائے کہ چلوں سو روپے دن توکمائے گا۔ شہباز شریف اس دکھ درد اور مشکلات کو دو سو سال میں بھی محسوس نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ایک غریب اور یتیم ماں گزرتی ہے۔ ان کی حکومت نے تو وہ مثال بھی زندہ کر دی کہ جب ایک وزیر کے ساتھ بیٹا جارہاتھا تو راستے میں ایک بچہ رو رہا تھا تو اپنے وزیر باپ سے پوچھا کہ باپا یہ بچہ کیوں رو رہاہے تو انہوں نے کہا کہ روٹی کیلئے ان کے پاس روٹی نہیں ،بھوک کی وجہ سے رو رہاہے جس پربیٹے نے جواب دیا اگرروٹی نہیں ہے توکیک کھایا کریں ، ہمارے وزیر خزانہ نے بھی اسمبلی فلور پر یہ جواب دیا کہ اگر دال مہنگی ہے تو لوگ چکن کھایا کریں چکن سستی ہے ، اب ان کو کون سمجھائے کہ وزیر محترم غریب آدمی ادھ پاؤ دال سے دو وقت کی روٹی کھاتا ہے جب کہ تم ان کو تین سو روپے والے چکن کا مشورہ دے رہے ہو کہ چکن کھایا کروں ، بحر کیف وزیر اعلیٰ اگر بچوں کی مشقت سے اتنے حائف ہیں اور چاہتے ہیں کہ بچے کارخانوں ، فیکٹر یوں ، بھٹے اور دوکانوں پر کام کے بجائے تعلیم حاصل کریں تو اس کے لئے سڑ کے اور میٹرو نہ بنائیں بلکہ تعلیم کو فری کرو، صحت مفت کروں ، جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ تم لوگوں نے امیروں میں تقسیم کیے ہیں وہ غریبوں میں تقسیم کرو اور اس سے بڑھ کر مہنگائی کوکم کرو، روزگار کے مواقعے پیدا کروں ، ایسے ادارے بناؤں جو غریب لوگوں کی مدد کریں ۔ انصاف کی فراہمی یقینی بناؤ ، اپنے لئے ایک قانون اور غریب کیلئے دوسرا قانون کا خاتمہ کروں ، بے کسوں اور یتیموں کیلئے سنٹر بناؤ، تو والدین خود بچوں سے مزدوری کے بجائے تعلیم دینے پر آمادہ ہوں گے ۔ خدا کیلئے اب ایسا ظلم مت کروں کہ والدین یا ماں باپ سے ان کا ایک سہارا ہی چھین لیتے ہوکہ ان کا بچہ کام نہ کریں۔ میں نے ایسے بچے دیکھے ہیں جو اپنے گھربار کے تمام اخراجات کو اٹھتے ہیں ، مزدوری کرتے ہیں اور والدین کیلئے مدد کا سہارا بنتے ہیں ۔ آپ کے 13ہزار روپے سے جو بھی زیادہ تر لوگوں کی تنخواہ نہیں ہے اس سے تو بجلی وگیس اور کرایہ کے بل پورے نہیں ہوتے، اس سے ایک غریب آدمی کیسے گذارا کریں گا۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 201494 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More