عربی بطور لازمی مضمون

عربی بطور لازمی مضمون،کونسابوجھ؟
ایک خبر ہے کہ ‘‘اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ” اسلامی جمہوریہ پاکستان “ میں عربی کو لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کیلئے چاروں صوبوں نے مخالفت کر دی ہے۔ ایک معاصرنیوز چینل کے مطابق ‘‘وفاق نے چاروں صوبوں سے اس بارے میں مشاورت کی تھی ،لیکن چاروں صوبوں نے اس کی مخالفت کر دی ہے۔بلا وجہ کئی موقعوں پر اربوں روپے خرچ کرنے والے ان صوبوں کا موقف ہے کہ عربی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے سے ان پر اضافی بوجھ پڑے گا،اس بارے میں سیکرٹری کیڈ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو صوبوں کے تحفظات سے آگاہ کر دیا، سیکرٹری کیڈ کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں عربی اختیاری مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چاروں صوبے ثقافت یا کسی اور بہانے سے اربوں روپے ضائع کرتے ہیں لیکن عربی کے مضمون کو نصاب میں شامل کرنے کیلئے انہوں نے اضافی بوجھ کا رونا رو دیا ہے’’۔ یا للعجب ولضیعۃ الأدب!

حالانکہ ہماری معلومات کے مطابق کسی صوبائی پارلیمنٹ میں ابھی تک یہ مسئلہ آیا ہی نہیں،نہ سنجیدہ کوئی مشاورت ہوئی ہے،تو مخالفت کیسی کی گئی؟آپ پاکستان کے نظریاتی دشمنوں کی چابکد ستیاں اور چیرہ دستیاں دیکھیں،خود سے کہدیا ،چاروں صوبے مخالف ہیں، پھر یہ کہ تعلیم حالیہ دور میں ایک صوبائی معاملہ ہے،شاید پیش بندی کے طور پرقومی اسمبلی میں لاکراس سلسلے میں بعض کوششوں کو سبوتاژ کیا جارہاہے،حالانکہ یہ کوششیں پاکستان کے آئین ودستور کی روشنی میں کی جارہی ہیں،جس کا ماحصل درج ذیل ہے:
1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں عربی زبان کی تعلیم وترویج کا نہ صرف وعدہ کیا گیا ہے ،بلکہ ہر مسلمان کے لئے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے.... بحوالہ آرٹیکل 230 (1) (الف)۔ آرٹیکل 31(2))الف)۔

2۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق نے عربی کو چھٹی سے بارہویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کا فرمان جاری کیاتھا۔

3۔ پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں، جیسے سینٹ آف پاکستان کی تعلیمی کمیٹی نے بھی عربی زبان کو تعلیمی مراحل میں لازمی قرار دینے کی سفارش کی ہوئی ہے....(22نومبر 1990)۔

4۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 25 فروری 2011ءکو عربی زبان کی لازمی ترویج کے بارے میں سفارشات منظور کیں۔

5۔ فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد نے تو 22 اکتوبر 2012ءسے پرائمری سطح سے لے کر بارہویں جماعت تک عربی کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کا نہ صرف آرڈر جاری کیا، بلکہ چھ ماہ کی مدت کے اندر اندر تمام صوبوں میں اس کی تنفیذ کا حکم بھی صادر فرمایا ہوا ہے۔

6۔ 10 دسمبر 2010ءکو پنجاب حکومت نے حکم جاری کیا کہ پہلی کلاس سے ہی عربی کی تعلیم شروع کی جائے.... (بحوالہ نوٹیفیکیشن: چیف منسٹر سیکرٹریٹ لاہور پنجاب)۔

7۔ حکومت پنجاب محکمہ تعلیم سکولز نے 23 اگست 2011ءکو وضاحتی حکم جاری کیا کہ ‘‘عربی بطور لازمی ’’کی حیثیت برقرار ہے اور رہے گی۔

8۔پھر بھی ستم ظریفی دیکھئے (PEC) کے زیر اہتمام 2006ءسے 2013ءتک گریڈ ہشتم کے 8 مضامین کا جوامتحان ہوتا رہا، اس میں عربی کو بھی لازمی مضمون کی حیثیت حاصل تھی،لیکن نا معلوم وجوہات کی بناء پر اسے خارج کردیاگیا، اس طرح 800 نمبروں کی ایک بہترین سند جاری ہوتی تھی، جس کا موقع ہمارے نونہالوں سے چھیناگیا۔

آج کےگلوبل دور میں بعض بین الاقوامی حیثیت رکھنے والی زبانوں کی اہمیت سے انکار یاپہلو تہی باعثِ تعجب لگتاہے،پاکستان جیسے کثرتِ آبادی والے ملک کے نوجوانوں کو موجودہ دنیا میں فٹ کرنے کے لئے،تعلیم اور عالمی زبانیں ضروری ہیں،انگریزی،فرانسیسی،روسی ،چینی اور عربی اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی بڑی زبانیں ہیں،اگرچہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی ینین سے نکل کر برطانیہ زوال پذیر ہے،جس سے آنے وقت میں انگریزی پر بھی اثرات مرتب ہوں گے،لیکن ان تمام زبانوں میں ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے،لیکن بطورِخاص عربی ان میں سے وہ زبان ہے کہ اس کا تعلق ہماری اردو زبان سے بے انتہا ہے،یہ ہماری مذہبی زبان بھی ہے،فرقہ واریت اور نسلی تعصب کا قدرے علاج بھی اس سے کیا جاسکتا ہے،بحرِ عرب پرواقع ہونے کی وجہ سے اس سے ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہوجاتاہے،ہمارے سب سے زیادہ بیرون ملک کام کرنے والے بھائی عرب ممالک میں ہی ہیں،حج وعمرے پر جانے والے بھی پاکستانی سب سے زیادہ ہوتے ہیں،عرب دنیا ہم سے برادرانہ تعلقات کی خواہاں ہے،تو پھر کیوں عربی کی ترویج میں رکاؤٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، یہ ایک عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

بوجھ کا رونا رویا جاتاہے،یہ بھی بالکل لایعنی بات ہے،کیونکہ جب عربی پہلے سے نظامِ تعلیم کا حصہ ہے،اس کے لئے تمام تر انتظامات ہیں،لیکن اختیاری کی وجہ سے اساتذہ وطلبہ اسے اہمیت نہیں دے پاتے،تو لازمی کرنے سے کونسے بوجھوں کا اضافہ ہوگا،ہم نے اس حوالے سے خاصی پوچھ گچھ کی،معلومات اکھٹی کیں،پتہ چلا،کسی بوجھ میں اضافہ نہیں ہوگا،بتایاگیاکہ یہ سب بد نیتی یا معاملہ نا فہمی کی باتیں ہیں۔

ہمارا ملک اس وقت نظریاتی دو راہے پر کھڑاہے،یہاں لبرلزم،سوشلزم اور سیکولرزم کی باتیں ہورہی ہیں،ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیاجارہاہے،اشخاص وادارے ہوں یاممالک یہ نظریات پر قائم ہوتے ہیں،نظریات پر باقی ہوں،تو انہیں بقا نصیب ہوتاہے،کسی ملک کابنیادی نظریہ اگر متزلزل ہوجائے،تو اس کےبقا کا سوال پیدا ہوتاہے،ہماری گزارش ہے کہ عربی زبان بطور لازمی مضمون کے مسئلے پرصدر،وزیر اعظم،آرمی چیف اور چاروں وزرائے اعلی کے علاوہ مقتدر حلقوں میں بیٹھے ہوئے تمام مسئولین ملک وملت کے عظیم تر مفاد میں ذرہ سی توجہ دیں، اپنی آخرت بھی سنواریں اور نوجوان اورسیز پاکستانیوں پر رحم کریں،ملک کواپنی بنیادوں پر کھڑاکرنے کی کوشش کریں۔

عرب دنیا بے شمار جنگوں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ترقی کی راہوں پر ہے،ہمارے اور ان کے تعلقات میں بھی بحمد اللہ روزبروز اضافہ ہورہاہے، کوریڈور صرف پاکستان نہیں مراکش تک جائے گا،جس سے عرب دنیا میں ہماری آمد ورفت اور زیادہ ہوگی،سعودی عرب کا 2030کا وژن ،امارات کی ترقی اور مصر میں سیسی کے اقتصادی میگا پروجیکٹس سے ہمیں بھی استفادہ کرنا چاہئے،ان سب معاملات کو سمجھنے کے لئے عربی میں مہارت ضروری ہے،ترکی اس حوالے اقدامات کررہا ہے،ملائیشیاانڈونیشیا بھی فکر مند ہوئے ہیں،اس لئے ہمیں اپنے اور ملکی عوام کے مستقبل کے لئے عربی زبان وادب کے کے متعلق سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی،تاکہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے مستفید ہوں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814577 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More